• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی کے کسی بھی شعبے میں حقیقی ترقی کیلئے اس شعبے کے ماہرین کی خدمات دستیاب ہونا پہلی شرط ہے۔ آج کی دنیا میں ایسے پروفیشنلز (Professionals)اس لیے بھی ضروری ہیں کہ اب علم و تحقیق کا میدان اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ کسی ایک شخص کیلئے ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ ہر علم کا کما حقہ احاطہ کر سکے ۔ یہ محاورہ تو بہت پرانا ہے کہ ’’جس کا کام اسی کو ساجے اور کرے تو ٹھینگا باجے‘‘ لیکن اس محاورے کی افادیت آج کے دور میں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ آج سے کچھ صدیاں قبل چونکہ یہ تصّور کیا جاتا تھا کہ ایک کامیاب جرنیل ہی کامیاب لیڈر ہوتا ہے چنانچہ فاتح جرنیل ہی اپنے ملک پر حکومت کیا کرتے تھے۔ گویا حکومت یا اقتدار تک پہنچنے کا راستہ جنگ و جدل ہی ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار کی پر امن منتقلی کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اقتدار کیلئے جنگ و جدل کا میدان ہر وقت گرم رہتا تھا۔ جسکی وجہ سے سارے وسائل معاشرے کی ترقی کی بجائے خون خرابے میں ضائع ہو جاتے تھے۔ تاہم انقلاب ِ فرانس اور برطانیہ کے صنعتی انقلاب کے بعد جب جمہوری دور کا آغاز ہوا تو اقتدار کے سنگھاسن تک اُن افراد کی رسائی ممکن ہونے لگی جو سیاسی علوم کے ماہر تھے۔ جنہیں ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں لایا اور اقتدار سے ہٹایا جا سکتا تھا۔ انسانی تاریخ میں معاشرتی اور معاشی انقلاب کے حوالے سے یہ نظام بذاتِ خود ایک بہت بڑا انقلاب ثابت ہوا جس نے نہ صرف معاشرے کو تیز رفتار ترقی دی کیونکہ اب تمام وسائل انسانی فلاح و بہبود کیلئے استعمال ہونے لگے بلکہ اقتدار کی پر امن منتقلی کیوجہ سے انسانی معاشروں میں وہ امن اور استحکام آنے لگا جسکی موجودگی میں انسانی حقوق کی پامالی رک گئی اور مہذب معاشروں کا ارتقاء ہونے لگا، حکومتی امور یا راج نیتی بلاشبہ معاشرے کا سب سے اہم اور حسّاس شعبہ ہے جسکی کارکردگی پر پورے معاشرے کی فلاح و بہبود کا دارومدار ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے غیر پروفیشنل، اتفاقیہ یا شوقیہ افراد کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ جو بغیر مطلوبہ صلاحیت اور اہلیت کے اس میں محض اس لیے کود پڑتے ہیںکہ اس میں انکی ذاتی نمودونمائش یا مالی مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ایسے افراد اپنے معاشرے یا ملک کیلئے اکثر انتہائی مضر ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ انکے اندر قوم کو رہنمائی فراہم کرنےکی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ایسے افراد بعض اوقات قوموں کی مکمل تباہی کا باعث بن جاتے ہیں۔ اگرہم پاکستان کی تاریخ کا غیر جانبداری سے مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج ہم زوال اور پستی کی جس حدتک پہنچ چکے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی اتفاقیہ اور شوقیہ سیاستدان ہیں جو اپنے خاندانی اثر و رسوخ ، کسی اندرونی یا بیرونی طاقت کی مدد یا محض کسی دوسرے شعبے میں اپنی شہرت کی وجہ سے سیاست میں آجاتے ہیں لیکن ان کے اندر وہ خداداد صلاحیتیں موجود نہیں ہوتیں جو اس حسّاس اور ٹیکنیکل شعبے کی ضرورت ہوتی ہیں۔ پاکستان کا قیام محمد علی جناح جیسی سیاسی بصیرت اور سیاسی تجربہ رکھنے والی شخصیت کے ذریعے ہوا جنہوں نے جنگی ہتھیاروں کے بغیر محض اپنے سیاسی دائو پیچ اور مہارت سے پرامن طریقے سے دنیا کے نقشے پر دنیا کی سب سے بڑی مسلمانوں کی ریاست کا ظہور ممکن بنایا ۔ لیکن ان کے بعد یہ ملک اُن طالع آزمائوں، ابن الوقت نام نہاد سیاستدانوں، مفاد پرست بیورو کریٹس اور متعصّب ججوں کے ہتھّے چڑھ گیا۔ جن کے اندر نہ تو سیاسی بصیرت تھی اور نہ ہی تاریخ کا ادراک ۔ یہ اقتدار کے حصول کے شوقیہ فنکار ملک کو ترقی یافتہ اور متحد بنانے کی بجائے اس کی تقسیم در تقسیم اور تنرلی کا باعث بن گئے۔ قائداعظم کے بعد جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید وہ واحد سیاستدان تھے۔ جو اپنے لڑکپن سے ہی سیاسی میدان میں آنے کیلئے خود کو تیار کر رہے تھے اور ان میں وہ خداداد سیاسی بصیرت بھی موجود تھی۔ اس کا مظاہرہ اُن کے قائد اعظم کے نام لکھے اس خط سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے ایک طالب علم کی حیثیت سے محض سولہ سال کی عمر میں لکھا تھا۔ جس میں انہوں نے قائداعظم کی سیاسی بصیرت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں بھی آپ کی طرح ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کی خاطر اگر مجھے اپنی جان بھی قربان کرنا پڑی تو اس سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔ اور پھر یہی ہوا کہ یہ بھٹو شہید ہی تھے جنہوں نے پاکستان کو اس کا متفقہ آئین دیا ، اس کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، دشمن سے اپنا پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ اور نوے ہزار جنگی قیدی واپس لیے، ملک میں طلباء اور مزدوروں کو یونین سازی کا حق دیا اور ایک ایسے پاکستان کی بنیاد رکھ دی۔ جس سے پاکستان انکی کامیاب سفارت کاری کیوجہ سے مسلم دنیا کا مسلّمہ لیڈر بن گیا۔ جس کا ثبوت 1974میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا لاہور میں منعقد ہونے والا اجلاس ہے۔ انکی بین الاقوامی سیاسی امور پر متعدد کُتب بھی انکی سیاسی بصیرت کی غماز ہیں۔ اُن کے بعد انکی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے طویل سیاسی جد وجہد کے دوران شہید کر دی گئیں۔ وہ ابھی تک پاکستان کی وہ آخری سیاسی مدبّر تھیں جن کے کریڈٹ پر سیاسی امور کے حوالے سے لکھی جانے والی متعدد کتب ہیں۔ اس دوران غیر سیاسی طاقتوں نے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے جن افراد کو سیاسی میدان میں اتاراوہ خداداد صلاحیتوں سے زیادہ، شوقیہ اور فرمائشی فنکاروں کے زمرے میں آتے ہیں۔ جن میں انکی حالیہ فخریہ پیشکش عمران پروجیکٹ کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ جس کے بعد پاکستان نے ایک دن بھی سکون کا نہیں دیکھا اور نیچے گرتے گرتے خانہ جنگی کی دہلیز پر پہنچ گیا ہے۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ مصنوعی لیڈر تیار کرنے کی بجائے حقیقی جمہوری عمل کو چلنے دیا جائے کہ یہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر حقیقی اور فطری سیاسی بصیرت کے حامل سیاستدان سامنے آسکتے ہیں جو ملک کی ڈوبتی کشتی کو پار لگا سکتے ہیں۔

تازہ ترین