جنگ ستمبر میں دشمن کے مقابلے میں چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے دشمن کے جنگی حملوں کا اس پامردی اور جاں نثاری سے مقابلہ کیا کہ اس کے سارے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے۔ اس جنگ میں جنگی سازو سامان کی کم تعداد کے باوجود پاکستانی افواج اور قوم نے اپنے جوش، ولولے اور جذبہ شہادت سے ثابت کیا کہ وہ اپنی مقدس سرزمین کے چپے چپے کا دفاع کرنے کی ہر ممکن صلاحیت رکھتی ہیں اور انشاءاللہ آئندہ بھی ہمیشہ رکھیں گی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ کوئی بھی قوم اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتی، کیوں کہ کسی قوم کا دفاع جتنا زیادہ مضبوط ہو گا، اس کی سرحدیں اتنی ہی محفوظ ہوں گی اور سرحدوں کے اندر موجود لوگ اتنے ہی دلیر ہوں گے۔ 6ستمبر 1965ء کو شروع ہونے والی سترہ روزہ جنگ کی بات کریں تو یہ جنگ پاکستانی قوم کیلئے ایک وقار اور استقلال کی علامت بن چکی ہے جو ہمیں ہر سال ستمبر میں یاد دلاتی ہے کہ کس طرح پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے سے دس گنا بڑے دشمن کا مذموم ارادہ نیست و نابود کیا تھا۔ 1965ء کی جنگ میں پاک فوج نے ملک کی سرحدوں کا دفاع جس باوقار انداز میں کیا اس سے دنیا کو باور کرا دیا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور زندہ قومیں اپنے دفاع سے کبھی بھی غافل نہیں ہوتیں۔
1965ء کی پاک، بھارت جنگ میں چھمب کے محاذ پہ قلعہ بوڑھے جال پوسٹ پر آٹھ بلوچ رجمنٹ کو دلیری سے لڑتے ہوئے کافی نقصان اُٹھانا پڑا۔ 1971ء کی جنگ شروع ہوئی، تو دونوں ممالک کی افواج میں اس پوسٹ کو بڑی اہمیت حاصل ہوچُکی تھی۔ اِس جنگ میں چھمب کے حوالے سے سابق لیفٹیننٹ جنرل اسرار احمد گھمن کی تحریرکردہ کتاب میں درج بھارتی لیفٹیننٹ جنرل ایس کے پلائی اور میجر جنرل جسویر سنگھ سندھو کے بیانات کے مطابق، قلعہ بوڑھے جال پر پاک فوج نے تین اور چار دسمبر کو دو مرتبہ حملہ کیا۔
جنرل پلائی کے مطابق، اس حملے میں ٹینک بھی استعمال کیے گئے، جب کہ جنرل سندھو کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ بٹالین نے کیا تھا، جو کہ مضحکہ خیز بات ہے۔ بھارت کے ان سینئر فوجی افسران کو اپنا رینک مدِنظر رکھتے ہوئے سچ بولنا چاہیے تھا اور اس سے بھی زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ان کے جونیئرز پر، جو ساری حقیقت سے بخوبی واقف تھے، اپنے سینئر افسران کی اس غلط بیانی کا کیا اثر ہوا ہوگا۔
معرکۂ قلعہ بوڑھے جال کے حقائق جاننے کے لیے ہم نے لاہور میں موجود میجر (ر) تنویر حسین شاہ سے رابطہ کیا، تو ابتدا میں انہوں نے پس و پیش سےکام لیا، لیکن جب ہم نے اِس واقعے کی پاک فوج کے جوانوں کے لیے اہمیت اور سابق بھارتی فوجی افسران کی اِس سے متعلق غلط بیانی سے آگاہ کیا، تو وہ حقائق بیان کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ یاد رہے کہ میجر (ر) تنویر حسین شاہ کو ستارۂ جرأت کا اعزاز بھی مل چکا ہے۔ ذیل میں اُن سے ہونے والی گفتگو کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔
میجر (ر) تنویر نے اپنی یادداشت پہ زور دیتے ہوئے بتایا کہ ’’دسمبر 1971ء کی پاک، بھارت جنگ کے دوران قلعہ بوڑھے جال کے سامنے بائیں طرف واقع ہنج نامی گاؤں اور دواڑا نالہ تک، چارلی کمپنی 14پنجاب کی کمان میرے پاس تھی۔ مُجھے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کا حُکم ملا تھا، البتہ مُجھے خدشہ تھا کہ کسی بھی وقت بوڑھے جال پرحملے کا حُکم بھی مل سکتا ہے، لہٰذا مَیں نے لڑائی سے آٹھ، دس روز پہلے ہی حملے کی پلاننگ شروع کردی تھی۔ اصل مشکل یہ تھی کہ اونچائی پر واقع ہدف تک کیسے پہنچا جائے۔
نیز، ارد گرد بارودی سرنگیں بھی بچھی ہوئی تھیں اور تقریباً دو سوگز تک چُھپنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ 4دسمبر کو تقریباً دن کے سوا گیارہ بجے سی او 14پنجاب نے بذریعہ ٹیلی فون مُجھےحملےکاحُکم دیا ۔ سی او، امان اللہ خان نیازی نے، جو ایک منجھے ہوئے سالار تھے، اس حملے کے لیے چُنے گئے 29 جوانوں کو اُن کے پلاٹون کمانڈرز کے ذریعے حُکم دیا کہ وہ اسمبلی ایریا (میلوں گائوں) کے مغرب میں جمع ہوجائیں۔ وہیں پر میری گزارش پرسی او نے ہمیں اضافی ہینڈ گرنیڈز ایچ سی چھتیس فراہم کیے۔ کُل 29 جوانوں پر مشتمل یہ حملہ آور فورس نائب صوبےدار، منصف، حوالدار، رشید اور حوالدار، غنی سمیت تین سیکشنز میں تقسیم تھی، جس میں، مَیں بھی شامل تھا، جب کہ باقی کمپنی دفاعی پوزیشن پرموجود رہی۔
بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر اسموگ اور شیلنگ شروع کی گئی۔ گیارہ فیلڈ رجمنٹ نے بہترین اسموگ اسکرین بنائی۔ فائرسپورٹ پلان بالکل سادہ تھا۔ ہم اسموگ اسکرین کی آڑ میں شیلنگ سے ڈیڑھ سو گز تک کے فاصلے پر پہنچے، تو مَیں نے بہادر توپ خانے کے ایف او او، کیپٹن ہمایوں کو لفٹ کا آرڈر دیا۔ اُسی وقت سامنے کی طرف سے دشمن کے بنکرز سے بےتُکی فائرنگ شروع ہوگئی۔ہماری پلاننگ کامقصد دشمن کو سامنے سے چکمہ دےکر قلعے کی عقبی جانب سے اچانک حملہ کرنا تھا۔‘‘
’’منصوبہ بندی کے تحت پیش قدمی مختلف سمتوں سے کی گئی۔(میجر صاحب نے سلسلۂ کلام جاری رکھا) ہمیں دشمن کے علاقے میں سرکنڈوں کے درمیان موجود ایک چھوٹے سے کھالے سے قلعے کی عقبی طرف پہنچنا تھا اور قلعے کے سامنے سے دائیں طرف والی دیوار کے لوپ ہول سےمشین گنز اور ٹرنچز کا سامنا کرتے ہوئے ہرحال میں قلعے کے پچھلے دروازے سے اندر داخل ہونا تھا۔ ہم جیسے ہی دوڑتے ہوئے دھوئیں سے باہر نکلے، تو قلعے کے سامنے دائیں طرف والی دیوار کے بالمقابل تین سے چار ٹرنچز میں لائٹ مشین گنز لیے دشمن کے سپاہی ہمارےسامنے تھے۔
ہم میں سےکچھ جوان زمین پر لیٹ گئے اور کچھ مختلف سمتوں سے دشمن کے مورچوں اور دیواروں پر حملہ آور ہوئے۔ اِسی دوران بنکرز سے بھی فائرنگ شروع ہوگئی۔ سب سے پہلے سپاہی نجیب اٹھا، تو ایک برسٹ اُس کے چہرے پہ لگا، لیکن وہ رُکا نہیں۔ نجیب نے گرتے پڑتے دو گرنیڈز دشمن کے مورچے میں پھینکے، تو دو بھارتی فوجیوں کے دھڑ اُچھل کر باہر آگئے۔ ہم میں سے کچھ جوان پچھلےدروازے اور کچھ قلعےکی دیوار کی طرف لپکے۔ اتنے میں میری داہنی طرف بھاگتے ہوئے لانس نائیک نصیر کے پیٹ میں دو گولیاں لگ چُکی تھیں۔ وہ پیچھے کی طرف پلٹا، تو مَیں بھی اُس کے ساتھ ہی واپس مُڑا۔
تب مَیں نے دیکھا کہ ایک مورچےمیں مارٹر اورایک ایل ایم جی موجود ہے اور دشمن کے دو سپاہی نیچے کی طرف جُھکے ہوئے ہیں۔ ہم دونوں نے اُن پر فائر کھولا اور ایک کو اُسی وقت جہنم واصل کر دیا، جب کہ دوسرا دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے میری گولی کا ہدف بنا اور دیوار کے دوسری طرف جا گرا۔ ‘‘
’’دراصل اس لڑائی میں ہر سپاہی کو ملنے والے اضافی گرنیڈز بہت کارآمد ثابت ہوئے۔(میجر صاحب نے بات آگےبڑھائی) دشمن کو سنبھلنے کاموقع دیے بغیر ہی ہماری فوج قلعے نما پوسٹ کےاندر داخل ہوگئی، جب کہ لانس نائیک نصیر کہیں باہر ہی رہ گیا، لیکن ہم نے اُس کا انتظار نہیں کیا، کیوں کہ اب ایک لمحہ بھی ضائع کرنےکی گنجائش نہ تھی۔ اندر گھستے ہی تینوں سیکشنز نےبھارتی بنکرز پر حملہ کیا۔ اُن بنکرز کی مضبوطی ایسی تھی کہ گرنیڈ پھٹنے پراُن سے محض لوہے کی چھوٹی سی ہتھوڑی ٹکرانے سی آوازبرآمد ہوتی تھی۔
میرے سامنے ایک گڑھا آیا، جس میں دشمن کے دو سپاہی وائر لیس سیٹ سمیت موجود تھے۔ میرے ساتھ موجود حولدار رشید نے ایک ہی برسٹ میں اُن کا کام تمام کر دیا۔ نائب صوبے دار، منصف اور حولدار، غنی نے دشمن کےچار سے پانچ مورچےتباہ کر ڈالے۔
اِسی دوران دیوار کی دوسری طرف سے سپاہی باغ حسین نےسراونچا کرکےاشارہ کیا کہ دشمن اِس مورچے میں بھی موجود ہے۔ اس مورچے کا منہ اندر کی طرف ایک غار کی مانند کھلتا تھا۔ ہم اُس کی طرف بھاگے۔ حولدار، شاہ نواز میرے بائیں طرف تھا۔
اچانک بولا، ’’صاحب پیچھے…‘‘ اُس کی آواز سُنتے ہی مَیں فوراً پیچھے کی جانب مُڑا۔ تاہم، میری نظر شاہ نواز پرتھی۔ مَیں نے اُس کےسینے پرتین گولیوں کے نشانات دیکھے۔ شاہ نواز چکرایا اور پھر گرگیا۔ سپاہی، انور بیگ نے تقریباً آٹھ گز کے فاصلے سےغار میں راکٹ داغا، تو مورچے سے تین لاشیں برآمد ہوئیں۔ اُن میں سے ایک فائیو آسام الفا کمپنی کا کیپٹن گری رام سنگھ تھا اور جب ہم نےگڑھے میں مرنے والے دیگر دشمنوں کے کاغذات دیکھے، تو معلوم ہوا کہ اُن میں ایک کیپٹن دل گیرسنگھ جموں وال اکیاسی فیلڈ رجمنٹ کا دید بان تھا۔
سپاہی، باغ حسین میرے حُکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیوار کے باہر لُوپ ہول میں جھانکتا ہوا جارہا تھا کہ دائیں طرف والے لُوپ ہول کے سامنے پہنچتے ہی دو فٹ کے فاصلے سے ایل ایم جی کا ایک برسٹ اُس کے پیٹ پر لگا۔ باغ حسین نے اُٹھنے کی کوشش کی، تو دشمن نے ایک ہینڈ گرنیڈ اُس کے قریب پھینک دیا۔
ہینڈ گرنیڈ پھٹا، لیکن باغ حسین پھراُٹھ کھڑا ہوا۔ تب بھارتی فوجیوں نے اُس کی ٹانگوں پر برسٹ مارا، تو اُس نے دیوار کے سہارے خُود کو اوپر اٹھاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ ’’دشمن یہاں بھی موجود ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر باغ حسین گر گیا۔ لڑائی کے ساتھ ساتھ سرینڈر ہونے کا عمل بھی جاری تھا کہ اتنے میں 14پنجاب کے ایڈجوٹنٹ، کیپٹن سلیم اچانک قلعے میں داخل ہوتے نظر آئے۔
مَیں نے اُن سے بگڑ کر کہا کہ لڑائی ابھی جاری ہے اورآپ یہاں پہنچ گئےہیں، لیکن وہ حسبِ معمول مسکرا دیے۔ کیپٹن سلیم ابھی پہنچے ہی تھے کہ دائیں بنکر سے آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ دیکھا، تو دشمن کےچارسپاہی ہاتھ اوپر اُٹھائے کچھ کہہ رہے تھے۔ اُسی وقت سپاہی، یٰسین، جو میرا بیٹ مین تھا، بھاگتا ہوا آیا اور بتایا کہ باہر سرکنڈوں میں دوسو گز دُور دشمن کے سپاہی نظر آئے ہیں۔ مَیں، حولدار رشید اور سپاہی یٰسین اچانک اُن کے سر پرجاپہنچے، تو انہوں نے ہمیں دیکھتے ہی سرینڈر کردیا۔‘‘
’’بوڑھے جال حملےکےضمن میں حقائق سامنے نہ آنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ (میجر صاحب بولنے پہ آئے تواندازہ ہوا کہ لمحے لمحے کی رُوداد ازبر ہے) 29حملہ آور سپاہیوں کا کمانڈر ہونے کے ناتے مجھ سے کبھی کسی نے کچھ پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی اور افواہوں کو حقیقت مان لیا۔ اس حملےمیں دشمن کی 26لاشیں گریں، جن میں دو کیپٹن، دل گیرسنگھ جموں وال اور جی آرسنگھ فائیو آسام اور ایک سیکنڈ لیفٹیننٹ بھی شامل تھا، جس کی شناخت نہ ہو سکی، جب کہ21 دوسرے مختلف رینک فائیو آسام میں قیدی بنا لیے گئے۔ دو قیدی اکیاسی فیلڈ رجمنٹ ملا کر کُل تقریباً 23 قیدی بنائے گئے۔
ان میں وہ 7قیدی بھی شامل تھے،جن کو بوڑھے جال کے باہر سے پکڑ کر لایا گیا۔ اُن سے پچپن سے ساٹھ قیمتی ہتھیار ضبط کیے گئے، جب کہ سپاہی نجیب، لانس نائیک نصیر، شاہ نوازاور باغ حسین سمیت ہمارے کُل چار فوجی شہید اور ایک رائفل ناکارہ ہوئی۔ اُس کے اگلے دن صبح آٹھ بجے میرے زیرِ کمان چارلی کمپنی جھنڈا پر حملہ آور ہوئی، جہاں کیپٹن سید حسن ظہیر اور اُن کے کمپنی آفیسر، احمد خورشید خان شہید ہوئے۔ اُن کے دید بان کیپٹن ہمایوں نے دشمن کا بڑی دلیری سے مقابلہ کیا۔
بعد ازاں، کیپٹن حسن ظہیرکوستارۂ جرأت، کمپنی آفیسر سیکنڈ لیفٹیننٹ امجد خورشید خان کو تمغۂ جرأت اور کیپٹن ہمایوں دید بان توپ خانہ کو بھی تمغۂ جرأت ملا۔ اس دوران دشمن نے فضائی حملہ کیا، تو اس کے دو ہوائی جہازوں میں سے ایک، جس کا پائلٹ مسیحی تھا، بوڑھے جال کے پاس گرا۔ دوسرے جہاز کا فلائنگ آفیسر ایک سکھ تھا، جو پٹھان کوٹ کے ایئربیس پر گرا۔ یہ دونوں جہاز صرف چارلی کمپنی اور ایک ٹینک چھبیس کیولری نے مل کرگرائے تھے۔ مَیں یہاں چھبیس کیولری کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ جس نے پوری چھمب کی لڑائی میں میرے سامنے چار فائٹر طیّارے مار گرائے اور وہ بھی پرانے شرمین ٹینکس کی مدد سے۔‘‘
جھنڈا کی لڑائی میں تنویر حسین زخمی ہوئے، جب کہ بوڑھےجال اورجھنڈا کے محاذ پر دشمن کاغیرمعمولی دلیری سے مقابلہ کرنے پر اُن سمیت سات فوجیوں کو تمغۂ جرأت اور ستارۂ جرأت سےنوازاگیا۔ اس محاذِجنگ کا ہر منظر آج 53سال گزرنے کے بعد بھی میجر (ر) تنویر حسین کی آنکھوں میں محفوظ ہے۔
سیّد سخاوت علی جوہرؔ
مَیں تری ہمّت و جُرأت کواک ارماں سمجھوں
چھے ستمبر کے شہیدو تمہیں طوفاں سمجھوں
بحروبَر اور فضاؤں کے محافظ تم ہو
چپّے چپّے کا تمہیں کیوں نہ نگہباں سمجھوں
تُو ہر اِک موٹر پہ کرتا ہے وطن کی خدمت
تُو مجاہد ہے تجھے اشرف الانساں سمجھوں
ذرّے ذرّے سے نمایاں ہے وفا کی تصویر
اس کو اے قائد ِاعظم ترا احساںسمجھوں
چھے ستمبر کی شجاعت کا اثر باقی ہے
اپنے دل کا مَیں تجھے آج بھی مہماں سمجھوں