لبنان کی خانہ جنگی کے دوران شیعہ’’امل ملیشیا‘‘ کے حلیف، ولید جنبلاط کا نام بار بار پڑھا، سُنا کہ وہ لبنان کی پروگریسیو سوشلسٹ پارٹی کا رہنما اور دروز فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ اِسی طرح لبنان کی ممتاز علمی و فکری، ادبی و ثقافتی اور ہماری ممدوح شخصیت، امیرالبیان، شکیب ارسلان کی پیدائش، نشوونما اور تربیت و پرداخت دروز گھرانے ہی میں ہوئی تھی۔
وہ بعد میں دروز فرقے سے علیٰحدگی اختیار کر کے سُنّی عقیدے سے وابستہ ہو گئے تھے۔ حالیہ دنوں میں شام میں خانہ جنگی کی جو صُورتِ حال پیدا ہوئی، اُس میں دروز فرقے کا بار بار نام آ رہا ہے۔ اسرائیل نے دروزوں کی حمایت میں شام کے صدارتی محل، وزارتِ دفاع اور دیگر اہم عمارتوں پر فضائی حملے کیے، تو دروز فرقے کی اصل حقیقت پر تحقیقی نظر ڈالنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
دروز ایک مذہبی فرقہ ہے۔ بنیادی طور پر یہ اسماعیلی فرقے کی ایک شاخ ہے، لیکن اس نے اپنی ایک ایسی اعتقادی شناخت قائم کر لی ہے کہ اب نہ اسماعیلی فرقے سے اس کا تعلق رہا، نہ علوی، جعفری اور نہ ہی بوہری فرقے سے۔
یہ اپنے آپ کو اللہ کی وحدانیت کا قائل ظاہر کرتے ہیں اور قرآنِ مجید کو اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب مانتے ہیں، لیکن غور کیا جائے، تو دروزوں کے عقائد غناسطیت یعنی عرفان، ہندو ویدانت سے ماخوذ برہمن، آتما اور پراکرتی جیسے تصوّرات، نو افلاطونیت، زرتشتیت، فیثاغورس، مانویت اور دیگر یونانی فلسفوں کا آمیزہ ہیں۔اُنہوں نے قرآنِ پاک کی جو تفسیر کی ہے، اُسے اُن کے تین طبقات میں سے صرف ایک خاص طبقے، عقلاء (Wise Class) ہی کو پڑھنے کی اجازت ہے۔
باقی دروزیوں کو وہ تفسیر پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شریعت یا قرآن کے احکام اور معانی کی ایک ظاہری صُورت ہے اور دوسری باطنی یا پوشیدہ۔ اُن کا رجحان باطنی اور پوشیدہ کی طرف ہے۔ اِس تفسیر میں نہ عربی زبان کے قواعد کی پیروی کی گئی ہے اور نہ ہی تفسیر کے اصولوں کو اختیار کیا گیا ہے۔
دروزی فرقہ ترتیب کے لحاظ سے چھٹے فاطمی خلیفہ، ابو علی المنصور الحاکم بامراللہ( 985-1021) سے ایک خاص نسبت رکھتا ہے، جسے اسماعیلیوں اور بوہریوں کے نزدیک سولھویں امام کا درجہ حاصل ہے۔ الحاکم نے دماغی مسائل کا شکار ہونے سے پہلے بہت سے تعمیری اور تمدّنی کام کیے اور بہت سی اعلیٰ پائے کی عمارتیں بنوائیں، جن میں سے متعدّد ابھی تک موجود ہیں اور بوہری ہر سال بڑی عقیدت سے اُن عمارتوں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ الحاکم کو کہیں نبی اور کہیں معبود مانا گیا۔اس نے ترکِ دنیا کر کے سنیاس اختیار کر لیا تھا۔
وہ قاہرہ سے باہر ایک پہاڑ، جبل المقطم پر چلّے یا مناظرِ فطرت کے مشاہدے کے لیے گیا اور پھر غائب ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد اُس کا مُردہ گھوڑا اور اس کے خون آلود کپڑے جبلِ مقطم کے دامن میں ملے، لیکن اُس کی لاش کا کچھ پتا نہ چلا کہ کہاں گئی۔اس کے لاپتا ہونے کے بارے میں کئی سازشی نظریے ہیں۔
اس کی ایک عیسائی سوتیلی بہن، سِت الملک نے فاطمی خلافت کی سیاست میں بہت اہم کردارادا کیا تھا۔ وہ الحاکم سے پندرہ سال بڑی تھی۔ ایک کزن سے محبّت کے باعث اُس نے کوشش کی تھی کہ الحاکم بامراللہ کی بجائے اُس کا وہ کزن خلیفہ بنے۔ سِتّ الملک اور اس کی ماں العزیزیہ، دونوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور دونوں آخر دَم تک عیسائی مذہب پر قائم رہیں۔
الحاکم دماغی خلل یا سخت تعصّب کا شکار تھا، جس کی وجہ سے بعض ناپسندیدہ احکام جاری کرتا تھا۔اس نے مصر میں بہت سے عیسائی چرچ منہدم کروا دیئے تھے، جس پر عیسائیوں میں، خاص طور پر Church of Holy Sepulcher کی تباہی پر شدید غم و غصّہ پایا جاتا تھا۔ لازمی طور سِتّ الملک اور اُس کی ماں کے دل میں بھی شدید جذبات ہوں گے۔نیز، الحاکم بہت شکّی مزاج شخص تھا۔ وہ کسی پر اعتماد نہیں کرتا تھا۔
اسے اپنے درباری مشیروں اور فوج کے افسران پر شک تھا کہ وہ اس کی سوتیلی بہن سے ساز باز رکھتے ہیں۔ ستّ الملک، الحاکم کی گم شدگی یا موت کے بعد اس کے بیٹے علی الظّاہر کی نگران اور سرپرست بن گئی تھی۔ تاریخ میں جہاں حقائق ہوتے ہیں، وہاں سازشی نظریات کو بھی جگہ مل جاتی ہے، اِسی لیے الحاکم کے لاپتا ہونے کے معاملے میں اُس کی اِس بہن پر شک کیا جاتا رہا ہے۔
ستّ الملک سے متعلق شکوک کی لہریں اُٹھ ہی رہی تھیں کہ دو سال بعد وہ پیچش کی بیماری سے فوت ہو گئی اور اُس کے کردار پر پردہ پڑ گیا۔ الحاکم کیسے مرا؟ اُسے کس نے مارا؟ سِتّ الملک کا اُس کی گم شدگی یا موت میں ہاتھ تھا یا نہیں؟ دروز کمیونٹی نے، جس نے بادشاہ کو نعوذُ باللہ، خُدائی درجہ دے دیا تھا، سِتّ الملک کے ملوّت ہونے کی کبھی بات نہیں کی۔ اُنہوں نے اُس کی موت کے معاملے کو کبھی سنجیدہ سوال نہیں بنایا۔ اُلٹا اُسے کہیں’’اِمامِ غائب‘‘ قرار دیا گیا اور کہیں نگاہوں سے پوشیدہ، مگر حاضر مانا گیا۔
خلیفہ لاپتا ہوا اور اُس کی نسبت و عقیدت کی بنیاد پر ایک نئے عقیدے’’دروز‘‘ نے جنم لیا۔ دروز اُس کے دوبارہ ظہور کے منتظر ہیں، جیسے کئی اور مذہبی گروہ مختلف شخصیات سے متعلق اِس طرح کے عقائد رکھتے ہیں۔ اِس فرقے کی اعتقادی تشکیل985 ء اور 1041عیسوی کے درمیان رُونما ہونے والی ایک پُراسرار شخصیت، حمزہ علی محمد الزّوزنی نے کی۔اُسی نے اپنے عقائد کے مطابق قرآن کی تفسیر لکھی۔ ایک اہم شخصیت محمّد بن اسماعیل الدرزی کی تھی، جس کی نسبت سے یہ دروز کہلاتے ہیں۔
اُس نے الحاکم کی زندگی میں بادشاہ کی عبادت کی دعوت شروع کی۔یہ ایران کے شہر طیروز سے تعلق رکھتا تھا۔ لفظ ’’درزی‘‘ ہی کی وجہ سے یہ فرقہ’’دروز‘‘ کہلانے لگا تھا، لیکن اِن کا ایک مؤثر طبقہ اِس امر سے انکار کرتا ہے کہ لفظ ’’دروز‘‘ کی نسبت لفظ’’درزی‘‘ سے ہے۔ دروز فرقے کا مقدس مذہبی نشان پانچ رنگوں پر مشتمل ہے، جس کی نسبت اُن کی پانچ مذہبی شخصیات سے ہے۔
سبز رنگ کی حامل پہلی معصوم شخصیت اُن کے نزدیک حمزہ علی بن احمد الزّوزانی کی ہے۔ ابی ابراہیم محمّد بن حامد تمیمی کی معصومیت کی علامت سُرخ رنگ سے کی گئی۔زرد رنگ ابو عبداللہ محمد بن وہب القرشی کی معصومیت کی علامت ہے۔ نیلے رنگ سے ابوخیر سلامہ بن عبدالوہاب سامری کی معصومیت کا اظہار ہوا، جب کہ سفید رنگ علامت ہے، بوالحسن علی بن احمد بن سموتی (ضیف) کی معصومیت کی۔
حمزہ بن علی بن احمد الزّوزانی، جسے’’ہادی‘‘کا لقب دیا گیا، خراسان میں پیدا ہوا۔ یہ اسماعیلی فرقے کا داعی اور متکلّم تھا۔ الحاکم کی خلافت میں مصر گیا اور خلیفہ کا قرب حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ خلیفہ الحاکم پر اس کے خیالات کا گہرا اثر تھا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ الحاکم کے دماغی مسائل میں بھی اِس شخص کا ہاتھ تھا۔یہی دروزی فرقے کے تصوّرات کا متکلّم اور داعی بنا۔ گویا، یہی شخص دروز فرقے کا اصل بانی تھا۔
الحاکم کی خدائی کا تصوّر اسی کے شیطانی ذہن کی تخلیق تھا۔ اسی نے ایک سو گیارہ رسائل پر مبنی’’رسائل الحِکمَۃ‘‘ تصنیف کیے، لیکن اُنہیں صرف’’عقلاء‘‘ ہی پڑھ سکتے ہیں، یہ جہلاء کے پڑھنے کی چیز نہیں۔ دروزوں کی پانچ اہم ترین شخصیات میں اس شخص کو سرِ فہرست رکھا گیا۔ الحاکم کے پُراسرار قتل یا گم شدگی سے سب سے زیادہ فائدہ اِسی شخص نے اُٹھایا تھا۔
مجھے یہ حوالہ کہیں نہیں ملا کہ خلیفہ کی بہن، سِتّ الملک سے حمزہ بن علی الزّوزانی کا کوئی رابطہ، تعلق تھا یا نہیں۔ الحاکم کی موت یا گم شدگی کے دو ہی سال بعد ستّ الملک بھی مر گئی تھی، اِس لیے سارا میدان اِس شخص کے لیے صاف ہو گیا تھا۔ یہ باطنیہ کا بڑا پرچارک تھا۔ الحاکم کو’’اِلٰہ‘‘ یعنی معبود(نعوذباللہ) کا درجہ اسی نے دیا تھا۔
مغربی روشن خیالی نے جس فلسفۂ عقلیت(rationalism) کو پندرھویں، سولھویں صدی میں جنم دیا، یہ فلسفہ دروز عقیدے اور فکر کی شروع ہی سے بنیاد رہا ہے۔ اِسی لیے اُن کے ہاں اصل اہمیت’’عقلاء‘‘کو حاصل ہے۔ باقی سب کو وہ ’’جہلاء‘‘ (ignorant)تصوّر کرتے ہیں۔ یونانی نو افلاطونیت، ارسطوازم اور فیثا غورس وغیرہ کے فلسفیانہ نظریات کے علاوہ فارابی، اخوان الصفا، ابنِ سینا اور ہندو ویدانی افکار کی جھلک اُن کی عقل اور عقیدے میں نظرآتی ہے۔ ان کے ہاں تناسخ یا آواگون کا عقیدہ ہندوؤں سے ماخوذ ہے۔
اللہ تعالیٰ بے شمار صفات اور لامحدود اختیارات اور قوّتوں کا مالک ہے، لیکن دروزوں کے نزدیک وہ’’عقلِ اوّل‘‘ہونے ہی کی وجہ سے لائقِ توجّہ ہے۔ دروزوں سے متعلق علمائے اُمّت میں اِس امر پر اتفاق ہے کہ وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں، اِس لیے اُن سے کافروں ہی کی طرح معاملت کرنی چاہیے۔ اِمام ابن تیمیہؒ نے’’مجموعہ الفتاویٰ‘‘ جِلد 35میں دو ٹوک طور پر اُنہیں زندیق اور کافر لکھا ہے۔ خواہشات کی غلام قوموں میں وہ بدترین درجے پر ہیں۔اُن کے کافر ہونے پر مسلمانوں میں اتفاق ہے۔ اُن کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے،نہ اُن کی عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے اور نہ ہی اُن کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کرنے کی اجازت ہے۔
اپنی کتاب ’’الصّارم المسلول علی شاتِم الرّسول‘‘ میں اِمام صاحبؒ نے لکھا ہے۔ ’’یہ قوم، جو اپنے آپ کو دروز کہتی ہے، کفر اور گم راہی میں سب سے بڑھ کر اور سخت ہے۔ یہ سب مِلّتوں سے خارج ہیں۔ وہ نہ تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، نہ یہودی اور عیسائی کہلانا پسند کرتے ہیں۔ وہ الحاکم بامراللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اسے اِلٰہ(معبود) مانتے ہیں۔ کلام اللہ کی تحریف کرتے ہیں اور قرآنِ مجید کی ایسی تاویل کرتے ہیں، جس کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
وہ اللہ کی ذات کا اقرار کرتے ہیں، نہ اُس کی نازل کردہ کتابوں، آخرت کے دن، انبیاءؑ، رسولوںؑ اور فرشتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ اِمام ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ’’منہاج السنّۃ‘‘میں لکھتے ہیں۔’’دروز ایک باطنی فرقہ ہے، جو اسلام ظاہر کرتا ہے اور اپنے کفر کو چُھپاتا ہے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں۔‘‘ اِمام صاحب نے اپنی دیگر کتب میں بھی اِس فرقے سے متعلق ایسی ہی آراء کا اظہار کیا ہے۔ جدید دَور کے سُنّی اہلِ فکر میں دروزوں کے کفر پر تو سب کا اتفاق ہے، تاہم یہ جو مغرب میں مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے اور افہام و تفہیم کی بات کی جاتی ہے، دروزوں کو سمجھنے، سمجھانے کے لیے بھی ایسے ہی مکالمے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ دروز فرقہ مصر کے فاطمی خلیفہ، الحاکم بامراللہ سے نسبت و عقیدت کی بنیاد پر وجود میں آیا، لیکن مصر میں اِس خلیفہ کی بہت سی یادگاریں موجود ہیں، لیکن وہاں دروزوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یہ سب سے زیادہ مشرقِ وسطیٰ میں رہتے ہیں۔دروز نسلاً عرب ہیں اور عربی زبان سے اُن کی گہری وابستگی ہے۔ دروزوں کی آبادی دس لاکھ سے پچیس لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے، جس میں سے سات لاکھ کے قریب شام میں آباد ہے۔
شام کے جنوب میں حَواران اور السویداء کے علاقوں میں ان کی اکثریت ہے۔ حَواران کے قرب و جوار میں زرخیز زرعی زمینیں ان کے قبضے میں ہیں، جب کہ السویدا ان کا مرکز ہے۔ شام کے علاوہ یہ فلسطین، لبنان، اردن اور اسرائیل میں آباد ہیں۔ اسرائیل میں یہ لوگ ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہیں۔ زیادہ تر دروز اسرائیلی فوج میں شامل ہیں۔ عمومی طور پر یہ جس مُلک میں رہتے ہیں، اُس کے وفادار ہوتے ہیں، لیکن حالیہ عرصے میں شام کی سرکاری فوج کے ساتھ جھڑپوں میں اُنہوں نے اسرائیل کو اپنی مدد کے لیے بلایا۔
اردن میں دروز بیس ہزار اور لبنان میں تین لاکھ کے قریب ہیں۔ کوہستانِ دروز میں دروز فرقے کے علاوہ بدّو قبائل کی بھی بڑی تعداد آباد ہے، جن سے دروزوں کی کش مکش جاری رہتی ہے۔ جہاں ہاتھ پڑ تا ہے، یہ ان بدوؤں پر مظالم ڈھاتے ہیں اور انہیں زندہ جلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔مشرقِ وسطیٰ کے بعد بیس ہزار کی تعداد میں امریکا، دس ہزار کے قریب کینیڈا، پانچ ہزار وینزویلا میں، تین ہزار آسٹریلیا میں، تین ہزار کے قریب کولمبیا اور ایک ہزار دروز برطانیہ میں ہیں۔شام اور لبنان میں ان کی اکثریت کاشت کاری سے وابستہ ہے امریکا اور یورپی ممالک میں زیادہ تر صنعت و تجارت سے وابستہ ہیں یا اعلیٰ ملازمتوں پر متعیّن ہیں۔
دروز، یورپ اور شمالی امریکا میں آباد ہوئے، جب کہ اُن کے عقائد پر ہندوانہ اثرات بھی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ اپنی عربی شناخت کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں نہیں آئے۔ ان کے ’’بڑوں‘‘ کی لمبی مونچھیں، داڑھیاں اور سر پر سفید اونچی کھڑی ٹوپیاں خاص نشانی ہیں۔ٹوپیوں کے سِوا بغیر تِرشی ہوئی لمبی داڑھیاں اور مونچھیں برّصغیر کے سِکھوں سے گہری مماثلت رکھتی ہیں۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)