(عکّاسی: زاہد رحمان)
کراچی کا شاید ہی کوئی شہری ہو، جو’’ نیپا چورنگی‘‘ کے نام سے واقف نہ ہو۔ یہ شہرِ قائد کا ایک مصروف ترین مقام ہے، مگر بہت کم افراد ایسے ہوں گے، جو اِس نام سے متعلق معلومات بھی رکھتے ہیں۔ دراصل، یونی ورسٹی روڈ کی اِس چورنگی پر قائم فلائی اوور کے نیچے سے یونی ورسٹی کی طرف جائیں، تو دائیں ہاتھ پر بالکل فلائی اوور سے متصل ایک عمارت شروع ہوجاتی ہے، جس کا نام’’ National Institue of Public Administration ‘‘ ہے، جس کا مخفّف بنتا ہے’’NIPA‘‘ اور اِسی ادارے کی نسبت سے چورنگی کا نام’’ نیپا چورنگی‘‘ پڑا۔
یہ قصّہ اِس لیے چھیڑا گیا کہ گزشتہ دنوں ہماری ایک سرکاری افسر سے ملاقات ہوئی، تو اُنھوں نے دورانِ گفتگو کہا۔’’ کبھی نیپا کا بھی چکر لگائیں، نئے ڈی جی نے تو ادارے کا حلیہ ہی بدل دیا ہے اور اب واقعی لگتا ہے کہ یہ مُلک کا ایک اہم ترین تربیتی مرکز ہے۔‘‘ اِس طرح کی باتیں کچھ اور افراد سے بھی سُننے کو ملیں، تو وہاں جانے کا اشتیاق پیدا ہوا۔
اِدھر اُدھر سے معلوم کیا، تو پتا چلا کہ اِن دنوں ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن، نیپا کے ڈائریکٹر جنرل ہیں، سو، اُن سے رابطہ کرکے ادارے کے دورے کی درخواست کی۔ اُنہوں نے نہ صرف یہ کہ خوش آمدید کہا، بلکہ ایک ایک شعبہ خود جاکر دِکھایا اور ادارے سے متعلق تفصیلی معلومات بھی فراہم کیں۔
1961ء میں گریڈ 18 اور 19کے افسران کی تربیت کے لیے یہ ادارہ، یعنی ’’نیپا‘‘ قائم کیا گیا، جہاں مِڈ کیرئیر مینجمنٹ کورس(ایم سی ایم سی) گریڈ18 کے افسران کے لیے ہے، جب کہ سینئر مینجمنٹ کورس( ایس ایم سی) گریڈ19 کے افسران کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اِس ضمن میں ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے بتایا کہ’’یہاں نہ صرف یہ کہ افسران کو ٹرینڈ کیا جاتا ہے، بلکہ انہیں دورِ جدید کے علوم سے بھی روشناس کروایا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر آج کل ڈیجیٹلائزیشن، کمپیوٹر ٹیکنالوجی، آرٹی فیشل انٹیلی جینس اور بلاک چین کا زمانہ ہے، تو افسران کو اِن سے متعلق بھرپور آگاہی دی جاتی ہے۔ پھر دنیا کو جو مسائل درپیش ہیں، جیسے ماحولیاتی تبدیلی وغیرہ، تو اُن سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ نیز، مُلکی اندرونی ایشوز میں پالیسی لیول کے امور زیرِ بحث آتے ہیں۔
ایسے تمام امور جن کی تحقیق و جستجو ممکن ہو، جیسے آبی وسائل کیسے بہتر کیے جائیں، معدنیات سے استفادہ کیسے ممکن ہے، مُلکی معیشت بہتری کی سمت کس طور گام زن ہوسکتی ہے، وغیرہ جیسی باتیں بھی یہاں سِکھائی، پڑھائی جاتی ہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ انسان خود کو کیسے بہترکرسکتا ہے؟
یہ سوال پورے کورس میں سامنے رہتا ہے۔ گویا کہ تربیت کے مختلف اجزا ہیں، جنہیں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ یہاں مختلف بینکس، حکومت کے ذیلی اداروں، اسٹیٹ لائف، سوئی سدرن گیس کمپنی، ہائر ایجوکیشن کمیشن، یونی ورسٹیز کے وائس چانسلرز اور ڈینز وغیرہ کے لیے بھی تربیتی کورسز ہوتے ہیں۔
پھر ایسے ادارے جو خود کو بہتر سے بہتر بنانا چاہتے ہیں، اُن کے لیے بھی مستقل بنیادوں پر تربیتی پروگرامز ہوتے ہیں۔ جہاں تک فیس کا تعلق ہے، تو وفاقی، صوبائی حکومتیں اپنے اپنے افسران کا خرچہ برداشت کرتی ہیں۔ اِسی طرح کارپوریشنز اور ادارے اپنے افسران کے اخراجات کا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔‘‘
عمارت میں داخل ہونے سے قبل دیکھا کہ بیرونی دیوار کے ساتھ ایک سرے سے دوسرے سرے تک گرین بیلٹ میں سیکڑوں پودے لگے ہیں، جن پر یہ کارِ خیر انجام دینے والوں کے نام بھی درج تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ نئے ڈی جی کا آئیڈیا ہے، جس کے تحت تربیت کے لیے آنے والے ہر افسر کو اپنے نام کا ایک پودا لگانا ہوتا ہے اور اُسے دورانِ تربیت اُس پودے کی دیکھ بھال بھی کرنی ہوتی ہے۔
نیز، ادارے کے اندر بھی کئی باغیچے بنائے گئے ہیں اور ڈاکٹر سیف الرحمٰن اپنی ملازمت کے آٹھ، ماہ نو کے اِس عرصے میں یہاں تقریباً ساڑھے تین ہزار پودے لگوا چُکے ہیں، جن میں ساڑھے چھے سو کھجور کے درخت بھی شامل ہیں۔ عمارت کے اندر داخل ہوئے تو ستّر فِٹ بلند، پوری شان سے لہراتے قومی پرچم نے سرفخر سے بلند کردیا۔ یہ پرچم آنے والے ہر افسر کو یہ پیغام دیتا بھی نظر آیا کہ یہ کبھی سرنگوں نہ ہونے پائے۔
بانیٔ پاکستان کے پُروقار یادگاری مجسمے اور اُن کے اقوال سے آراستہ خصوصی گوشے کے ساتھ ایک گھڑیال بھی مرکزی عمارت کے داخلی دروازے کے باہر آویزاں تھا، جس کا مقصد وقت کی اہمیت اجاگر کرنا ہے۔ تربیت گاہوں پر مشتمل عمارت میں داخل ہوں، تو سب سے پہلے ایک شان دار استقبالیہ دِکھائی دیتا ہے، جہاں سے ایک خُوب صُورت راہ داری کے ذریعے مزید آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ یہاں کی تمام راہ داریاں نام وَر مصوّروں کے دِل کش فن پاروں سے سجائی گئی ہیں، جن میں صادقین کا نام سرِ فہرست ہے۔
اِس راہ داری کے اطراف مختلف انتظامی دفاتر ہیں اور یہ ایک گولائی لیے نشست گاہ جا پہنچتی ہے، جسے بہت سلیقے سے ترتیب دیا گیا ہے۔ دیواریں صادقین کی یاد دلاتی ہیں، تو باقی امور میں بھی اعلیٰ ذوقی نمایاں ہے۔ یہاں اِس طرح کی کئی نشست گاہیں یا ریسٹنگ ایریاز ہیں، جن میں خواتین افسران کے لیے مختص ’’املتاس‘‘ بھی شامل ہے، جسے خواتین کے مزاج کے عین مطابق آراستہ کیا گیا ہے۔
بہرحال، گول نشست گاہ کے پہلو میں وہ اسٹیٹ آف دی آرٹ آڈیٹوریم ہے، جسے داد دئیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ ہمیں کراچی کے مختلف اداروں کے آڈیٹوریم یا کانفرنس ہالز دیکھنے کا موقع ملا ہے، مگر نیپا کی اِس سماعت گاہ کی تو کچھ الگ ہی بات ہے۔ اعلیٰ معیار کی سہولتیں تو دست یاب ہیں ہی، مگر بناوٹ میں ہنرمندی بھی کمال ہے۔ غالباً نیپا کا یہ قابلِ فخر آڈیٹوریم، جدید نشست گاہیں اور کسی فائیو اسٹار ہوٹل سے بھی بڑھ کر جاذبِ نظر راہ داریاں نئے ڈی جی ہی کے تخلیقی ذوق کے تحائف ہیں۔
آڈیٹوریم سے دوسری طرف نکلے، تو ایک کینٹین نظر آئی، جہاں اعلیٰ افسران کی ضروریات اور مزاج کے مطابق ماحول فراہم کیا گیا تھا، جیسے نشستوں کی ترتیب، صفائی ستھرائی اور برتن وغیرہ۔ کھانے کے معیار سے متعلق بتایا گیا کہ اس کی نگرانی کا ایک سخت نظام قائم ہے، جب کہ ہم نے کئی چھوٹے چھوٹے، مگر ایک دوسرے سے منفرد ڈیزائن کے حامل قہوہ خانے بھی دیکھے، جہاں زیرِ تربیت افسران خود بھی چائے یا کافی بناسکتے ہیں اور اِس مقصد کے لیے وہاں تمام سہولتیں مہیّا تھیں۔
ایک خاص بات جس کا ذکر ضروری ہے، وہ یہ کہ عام طور پر سیڑھیوں کے نیچے کی جگہوں یا کونوں، کھدروں کو فالتو سمجھ کر کاٹھ کباڑ کے لیے وقف کردیا جاتا ہے، مگر یہاں ایسا نہیں ہے۔ خصوصاً ایک مقام پر چھوٹی، مگر خُوب صُورت آب شار دیکھ کر خاصی حیرانی ہوئی، جسے ایسے ہی ایک’’فالتو‘‘ مقام پر بنایا گیا ہے۔ اِسی طرح دیگر مقامات کو بھی بڑی مہارت سے استعمال میں لایا گیا ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی کہ ایک چھت کے نیچے اِتنے دفاتر ہونے کے باوجود تنگی کا احساس نہیں ہوتا اور اس کی وجہ وہ کشادہ کھڑکیاں ہیں، جو حالیہ دنوں میں خاص طور پر بنوائی گئی ہیں۔
یہ ادارہ مُلک کا ایک اَن مول اثاثہ ہے اور یہاں تربیت کے لیے آنے والے بھی مُلک و قوم کے لیے نہایت اہمیت کے حامل افراد ہیں، تو حفاظتی امور پر بھی بہت توجّہ دی گئی ہے، اِس مقصد کے لیے کیمروں کے ذریعے نگرانی کا ایک مؤثر اور جدید نظام قائم ہے۔ جدید دنیا سے روابط کے لیے جہاں افسران کو جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کروایا جاتا ہے، وہیں اُن کے لیے دو کلاؤڈ رومز بھی ہیں، جہاں سے وہ دنیا بھر کے اعلیٰ اداروں سے رابطوں کے ذریعے اپنا تحقیقی کام آگے بڑھا سکتے ہیں۔
نیز، یہاں کا آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ بھی تمام ضروری سہولتوں سے آراستہ ہے۔ اِسی طرح مختلف کورسز کے شرکاء کے لیے ایسے کلاس رومز بنائے گئے ہیں، جہاں ایک طرف تدریسی امور میں جدیدیت نمایاں ہے تاکہ شرکاء اِس ضمن میں تمام جدید ٹُولز بروئے کار لاسکیں، تو دوسری طرف، اِن کلاس رومز میں ایسا ماحول فراہم کیا گیا، جس میں افسران کسی دقّت کا سامنا نہ کریں۔ ہم نے ایسے ہی ایک کلاس روم میں نئے ڈی جی کی بنوائی گئی ایک ایسی پینٹنگ بھی دیکھی، جس میں پاکستان کے تمام اہم مقامات اور ثقافتیں اجاگر کی گئی ہیں۔
بالائی منزل پر بھی مختلف دفاتر، کلاس رومز اور نشست گاہوں کے ساتھ، ایک اہم گوشہ کتب خانے کا ہے۔ یہاں شروع ہی سے کتب خانہ رہا ہے، لیکن اب اِسے جگہ کے لحاظ سے کافی وسعت دی جا رہی ہے اور کتابوں کی تعداد بھی بڑھانے کا منصوبہ ہے۔ اِس ضمن میں ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے بتایا کہ’’نیپا کی قدیم لائبریری کو، جس میں بہت سے نایاب نسخے اور کتابیں موجود ہیں، بہتر بنارہے ہیں، یہاں ڈیجیٹل بُکس کا بھی بڑا ذخیرہ دست یاب ہوگا اور کتب سے استفادے کی تمام سہولتیں بھی میسّر ہوں گی۔
دنیا کی تمام بڑی لائبریریز سے اِسے لِنک کررہے ہیں۔ ہم نے مرکزی لائبریری کے ساتھ باغیچوں میں بھی چھوٹی چھوٹی لائبریریز بنائی ہیں تاکہ جو جہاں بیٹھے، وہاں کتابیں موجود ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ترقّی کے لیے باعلم افراد کی ضرورت ہے۔‘‘ اِس موقعے پر اِس بات کا بھی ذکر ہوا کہ ماضی کے بہت سے افسران نے علم و ادب کے میدان میں خاصا نام کمایا، مگر اب یہ روایت کم ہوتی جاری ہے۔ اِس سلسلے میں ڈی جی، نیپا کا کہنا تھا کہ’’ہم سمجھتے ہیں کہ کتاب وہ واحد ذریعہ ہے، جو کسی کو نور سے بَھر سکتا ہے۔
کتاب ہی آگے کے سفر سے متعلق بصیرت دے سکتی ہے۔ ہم افسران کو دورانِ تربیت کتابیں دیتے ہیں، جن پر وہ تبصرے لکھتے ہیں اور یہ تربیت کا ایک ضروری حصّہ ہے۔‘‘نیپا کی وسیع و عریض عمارت میں ایک میڈیکل سینٹر بھی ہے، جہاں ابتدائی طبّی امداد کی سہولتیں موجود ہیں، اِسی طرح ایک بڑی مسجد بھی ہے۔ یہاں کے اسپورٹس کمپلیکس کو نئی شکل دی جا رہی ہے، جب کہ افسران بیڈمینٹن اور ٹینس کورٹ سے بھی بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
ملازمین کی رہائشی کالونی بھی ہے، جن کے باسی، بالخصوص خواتین بھی اسپورٹس کمپلیکس سے مستفید ہوتی ہیں۔ اِسی طرح زیرِ تربیت افسران کے لیے ہاسٹلز بھی بنائے گئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں یہاں اے ٹی ایم مشین بھی نصب کی گئی ہے۔ ’’ گرین نیپا‘‘ کے تحت پورے ادارے کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا بھی آغاز کردیا گیا ہے۔
ڈاکٹر سیف الرحمٰن کا کہنا ہے کہ’’ہم ماحولیاتی مسائل پر خصوصی توجّہ دے رہے ہیں۔ افسران کو بتاتے ہیں کہ اگر گھر میں پانچ افراد ہیں، تو چَھٹا فرد ماحول ہے۔ جب یہاں کوئی افسر تربیت کے لیے آتا ہے، تو وہ اپنے نام کا یہاں ایک درخت لگاتا ہے اورچار ماہ اس کی آب یاری کرتا ہے۔ ہم نے یہاں ہزاروں پودے لگائے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ آکسیجن ٹینک بنے۔ افسران کو یاد دِلایا جاتا ہے کہ فطرت سے دوستی کرنی ہے، لڑائی نہیں تاکہ یہ جہاں بھی جائیں، ماحول کی بہتری کے لیے کام کرسکیں۔‘‘
خالی جگہوں پر باغیچے بن رہے ہیں، فوّارے لگائے جا رہے ہیں اور یوں یہ ادارہ، اب تربیتی امور کا فریضہ سرانجام دینے کے ساتھ، ظاہری خُوب صورتی سے بھی مالا مال ہوتا جا رہا ہے، جو کہ اِسے ہونا بھی چاہیے۔ یہاں ہر کام میں ایک خاص ترتیب، سلیقہ، ہنرمندی، وقار اور تخلیقی ذوق نمایاں ہے۔ اور قوم بھی یہی چاہتی ہے کہ یہاں سے تربیت پاکر عملی میدان میں جانے والے سپوت، مُلک کو ایسی راہ پر گام زن کرنے میں مددگار ثابت ہوں، جس سے پاکستان باوقارممالک کی صف میں شامل ہوسکے۔
دور جدید کے سول سرونٹ کو روایتی نوکر شاہی کی بجائے ’’ماڈرن سول سرونٹ‘‘ بنانا چاہتے ہیں: ڈاکٹر سید سیف الرحمٰن، ڈی جی نیپا
’’ نیپا‘‘ کے وِزٹ کے دوران ہماری ڈی جی نیپا، ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن سے بھی تفصیلی بات چیت ہوئی، جس میں اُنہوں نے افسران کی تربیت سے متعلق مختلف امور پر اظہارِ خیال کیا۔
س: سب سے پہلے تو اپنے بارے میں کچھ بتائیے؟
ج: مَیں پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کا آفیسر ہوں۔ کراچی سے تعلق ہے۔ تعلیمی لحاظ سے ڈاکٹر ہوں۔ پھر سِول سروس جوائن کی۔ آغا خان یونی ورسٹی سے ماسٹرز اِن پبلک ہیلتھ کیا۔ کسی بھی سِول سرونٹ کے لیے پالیسی سازی سب سے اہم شعبہ ہوتا ہے، تو مَیں عالمی بینک کی ایک اسکالر شپ پر کولمبیا یونی ورسٹی، امریکا گیا اور وہاں سے اکنامک پالیسی مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کی۔ کئی انتظامی عُہدوں پر خدمات انجام سے چُکا ہوں۔
پاکستان میں پولیو کیسز ایک اہم مسئلہ ہے، جس کا مُلک کی عزّت و وقار سے بھی تعلق ہے۔ جب مَیں ڈپٹی کمشنر تھا، تو بلوچستان میں پولیو پر بہت کام کیا۔ مَیں نے اِسی موضوع پر پی ایچ ڈی بھی کی اور میرا موضوع ہی یہ تھا کہ اِس طرح کے معاملات میں ضلعی انتظامیہ کا کیا کردار ہوتا ہے۔
اگست 2024ء سے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن (نیپا) سے بطور ڈائریکٹر جنرل وابستہ ہوں۔ یہ ادارہ پاکستان کا ایک برانڈ ہے، جو 1961ء میں قائم ہوا۔ یہاں افسران کو تربیت دی جاتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ افسران کی ترقّی اِسی ادارے کی تربیت سے مشروط ہے۔
س: یہاں کن افسران کو تربیت دی جاتی ہے؟
ج: ایک تو سینٹرل سینئر سروسز، سی ایس ایس افسران ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ صوبائی سطح کے سِول افسران، جیسے ایکس پی سی ایس یا پروینشل مینجمنٹ سروس یہاں آتے ہیں۔ پھر دیگر اداروں اسٹیٹ لائف، ای او بی آئی وغیرہ سے بھی افسران آتے ہیں۔ اِس میں کیڈر اور ایکس کیڈر کے بھی افسران ہوتے ہیں۔
یہاں دو بڑے کورسز ہوتے ہیں۔ ایک کو کہتے ہیں’’مِڈ کیریئر مینجمنٹ کورس‘‘جو گریڈ 18 کے افسران کے لیے ہے اور اس کا دورانیہ 2ماہ ہوتا ہے۔ دوسرا، سینئر مینجمنٹ کورس ہے، جو اُن افسران کے لیے ہے، جو 19سے20ویں گریڈ میں آتے ہیں اور اس کا دورانیہ چار ماہ پر محیط ہے۔
س: کیا نصاب میں جدید حالات کے مطابق تبدیلیاں بھی کی جاتی ہیں؟
ج: دیکھیں، نصاب ہر لمحہ بدلتا ہے۔ یعنی ہمارا نصاب، ڈائنامک ہے۔ ہم دورِ جدید کے سِول سرونٹ کو روایتی نوکر شاہی کی بجائے’’ماڈرن سِول سرونٹ‘‘ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ایسا عالمی معیار کا افسر ہو، جو عالمی اداروں میں پاکستان کی نمائندگی کر سکے۔ ہیومن رائٹس، پاکستانی کلچر، اکنامکس، سیاسی و سماجی ایشوز، جیو پولیٹیکل، پاکستان کی خارجہ پالیسی اور لیڈرشپ رُولز سمیت بہت سے موضوعات پر بات ہوتی ہے۔
لیکچر ڈسکشنز بھی ہوتی ہیں اور عملی مشقیں بھی۔ انہیں ایک خاص ماحول میں رکھ کر کسی مسئلے کا حل تلاش کرنے کی تربیت دی جاتی ہے اور یہ آؤٹ آف باکس حل تجویز کرتے ہیں۔ اِسی طرح انفرادی ریسرچ پیپرز بھی لکھنے ہوتے ہیں۔
ہم کیس اسٹڈیز بھی کرواتے ہیں، جس میں دیئے گئے موضوع پر ریسرچ کی جاتی ہے۔ ہم ٹریننگ پروگرام شروع کرنے سے قبل اکیڈمک کاؤنسل میٹنگ کرتے ہیں۔ نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی کے تمام ڈی جیز بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ نصاب میں کسی تبدیلی کی ضرورت تو نہیں؟
مثال کے طور پر آج کل لیڈر شپ کی بات ہوتی ہے، جس میں افسران کو سِکھایا جاتا ہے کہ لیڈر کیسا ہوتا ہے، اُسے کیسے بات کرنی چاہیے، لوگوں کے ساتھ کیسا رویّہ ہو، تو آج کل ڈیجیٹل لیڈرز ہیں، یعنی آنے والا وقت ٹیکنالوجی کا ہے، تو ہم اِسی طرح کے معاملات پیشِ نظر رکھتے ہیں۔
ہمارا اب جو نیا پروگرام شروع ہوا ہے، اُس میں ہم نے ٹیکنالوجی لیڈرز کو بھی متعارف کروایا ہے کہ جو اعلیٰ سرکاری افسر ہے، اُسے جدید ٹیکنالوجی بھی آتی ہو تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنا کردار ادا کرسکے۔ کھیلوں کی دنیا، جو ڈپلومیسی کا ایک ذریعہ ہے، ادب اور فنونِ لطیفہ سے بھی آگاہی دی جاتی ہے تاکہ سِول سرونٹ کی شخصیت، ایک جامع شخصیت ہو۔
س: ٹرینرز کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟
ج: چوں کہ نیپا، کراچی ایک برانڈ ہے، تو کوئی بھی ٹرینر ہو، یہاں آنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ہم وزیٹنگ فیکلٹی کا انتخاب بہت احتیاط سے کرتے ہیں۔ نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بَھر سے بہترین دماغ اور پریکٹیشنرز کو یہاں مدعو کیا جاتا ہے۔ سفارت کاری میں سابقہ بڑے ناموں سے مدد حاصل کرتے ہیں اور اگر حالیہ معاملات پر بات کرنی ہو، تو اہم ممالک کے پاکستانی سفراء کو مدعو کیا جاتا ہے۔
اِسی طرح پاکستان میں موجود غیر مُلکی سفراء بھی یہاں تشریف لاتے ہیں۔ یونی ورسٹیز کے پروفیسرز سے علمی، جب کہ موجودہ یا ریٹائرڈ افسران سے عملی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ جیسے بجٹ کیسے بنایا جاتا ہے؟ اِس موضوع پر کسی پروفیسر کے لیکچر کے ساتھ، اُن افسران کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں، جو بجٹ سازی میں شامل رہے یا اب رہتے ہیں۔
س: آپ کسی خاص شعبے میں کوئی تبدیلی لائے ہوں؟
ج: مَیں سمجھتا ہوں کہ آج کے سِول سرونٹ کو ماڈرن سِول سرونٹ ہونا چاہیے۔ نوکر شاہی انداز کا خاتمہ ضروری ہے۔ اب سِول سرونٹ کو ٹائپنگ بھی آنی چاہیے، بات چیت کا ڈھنگ بھی ہو، جب اُسے کوئی اہم سیٹ ملتی ہے، تو اُسے پرفارم کرنے کے تمام گُر آنے چاہئیں۔ کورسز کو مزید بہتر اور دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے۔ ٹیکنالوجی کی بیسک سے کام شروع کیا۔
افسران کو معلوم ہونا چاہیے کہ مُلک کے مختلف علاقوں کی ثقافت اور روایات کیا ہیں، کیوں کہ اس کے بغیر اُن علاقوں میں بہتر طور پر کام ممکن نہیں۔پھر ایک اہم بات معاشی امور سے آگاہی ہے اور وہ بھی اُن افراد کے ذریعے، جو آج کے دَور کے معاشی معاملات میں عملاً شریک ہیں، ہم نے اِس کا بھی اہتمام کیا ہے۔ ریجن کے بارے میں بھی معلومات ضروری ہیں۔
بنگلا دیش نے ٹیکسٹائل میں کیسے ترقّی کی، ملائشیا اور جنوبی کوریا کے ماڈلز ہمارے سامنے ہیں۔سعودی عرب کا ویژن 2030ء کیا ہے، یہ سب بتایا جاتا ہے۔ پھر گروپ ڈسکشنز ہوتی ہیں، کیوں کہ جو افسران یہاں آتے ہیں، اُن کے پاس علم اور تجربے کا خزانہ ہوتا ہے، تو اِس طرح سیکھنے، سکھانے کا علم جاری رہتا ہے۔
رفاہی اداروں جیسے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، انڈس اسپتال، ایس آئی یو ٹی، عالم گیر ٹرسٹ، سیلانی، ایدھی، چھیپا وغیرہ کی بھی اسٹڈی کی جاتی ہے کہ وہ کیسے عام افراد کے تعاون سے کام کرتے ہیں۔ شعراء، ادیبوں اور دیگر اہلِ علم سے انہیں ملواتے ہیں تاکہ افسران کی شخصیت میں شائستگی پیدا ہو اور وہ ہمارے ہیریٹیج سے وابستہ رہیں۔
س: افسران کے رویّوں سے متعلق عمومی طور پر اچھی رائے نہیں پائی جاتی، کیا انہیں عام افراد سے بہتر رویّے کی بھی تربیت دی جاتی ہے؟
ج: ہمارا عزم اور مشن ہے کہ اِس طرح کے منفی رجحانات افسران سے نکال پھینکنے ہیں۔ ہم افسران کو پاکستان اور اس کے عوام کا خادم سمجھتے ہیں۔ کسی افسر کے بہتر طور سے پرفارم نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس کے عام افراد سے روابط نہ ہوں۔
س: مقابلے کے امتحان میں کام یاب ہونے والوں کا معیار کم کیوں ہو رہا ہے؟
ج: دیکھیں، جب سے مقابلے کے امتحانات شروع ہوئے ہیں، پاسنگ ریٹ ایک ہی طرح کا چلا آرہا ہے۔ ماضی میں بھی یہی پاسنگ پرسنٹیج ہوتا تھا۔ ہم نے جب امتحان پاس کیا تھا، اُس وقت شاید ایک آدھ پوائنٹ زیادہ تھا۔ اصل میں دنیا کے تقاضے بدل گئے ہیں، جسے ہمیں سمجھنا چاہیے۔ سِول سرونٹس کو جدید تقاضوں کے مطابق ایسا بنانے کی ضرورت ہے، جب وہ گراؤنڈ میں اُتریں، تو اچھی پرفارمینس دِکھا سکیں۔
بعض اوقات افسر پڑھا لکھا تو ہوتا ہے، مگر جدید تقاضوں کے مطابق کچھ اسکلز میں کمی ہوتی ہے، تو اسے معیار میں کمی سمجھ لیا جاتا ہے۔ پھر ماحول بھی اہم ہے، جو شاید زیادہ آگے بڑھنے میں مدد نہیں دیتا۔ ہمارے ادارے میں افسران کو تمام کام اپنے ہاتھوں سے کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، ٹائپنگ، فوٹو کاپی، کافی بنانا وغیرہ سب کام خود کرتے ہیں۔
ہمیں دوسروں پر انحصار کے رویّے سے، جس کی وجہ سے افسران تنقید کا بھی نشانہ بنے، نجات حاصل کرنا ہوگی۔ سِول سروس کے افسران پوری دنیا میں قابلیت کے لحاظ سے بہترین افسر ہوتے ہیں۔ بس جدید تقاضوں کو کچھ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، مگر اب ہم ٹیکنالوجی بیسڈ کورسز پر خصوصی توجّہ دے رہے ہیں۔
س: کرپشن میں بھی بیورو کریسی کا زیادہ نام آتا ہے؟
ج: معاشرتی تنزّلی کے اثرات تمام طبقات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سِول سرونٹ کسی بھی مُلک کا آہنی ڈھانچا ہوتے ہیں، لہٰذا اُنہیں ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ نیپا، کراچی میں ایک سیریز آف ٹریننگ ہوتی ہے، جس میں افسران کو اُن امور سے متعلق بتایا جاتا ہے، جو اُنہیں دورانِ ملازمت در پیش ہوتے ہیں تاکہ وہ غلطیوں سے بچ سکیں۔
جیسے اگر اُنہوں نے کوئی چیز خریدنی ہے، تو کیا طریقۂ کار اختیار کرنا ہوگا۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ افسران اِس طرح کے معاملات میں غلطیاں کر جاتے ہیں، جس کی وجہ طریقۂ کار سے عدم واقفیت ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ اخلاقیات سے متعلق بھی لیکچرز دیئے جاتے ہیں۔
س: سیاسی مداخلت کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ج: سِول سرونٹ کو یہاں یہی سِکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے پولیٹیکل ماسٹرز کو وہی بتائے، جو ریاست کے مفاد میں ہو۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب بھی سیاسی لیڈر شپ کو درست بات بتائی، اُنہوں نے اُسے مانا۔ ہمیں ایسا سِول سرونٹ بنانا ہے، جو دلائل کو بہت شائستگی، پختگی اور احسن طریقے سے بیان کرسکے۔ اور یہ اُسی وقت ممکن ہے کہ جب اُسے زیرِ گفتگو معاملے کی باریکیوں کا علم ہو۔ ایسا افسر دباؤ بھی برداشت کرسکے گا، جیسے سمندر میں تیرتے جہاز کا کپتان اپنے جہاز کو دباؤ سے باہر نکال لاتا ہے۔
س: اِن دنوں خواتین افسران کا بہت چرچا ہے، اِن کی صلاحیتوں سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
ج: خواتین بہت اچھی منتظم ہوتی ہیں۔ اگر وہ اَن پڑھ ہوں، تب بھی پورا گھر سنبھال لیتی ہیں اور جب وہ انتظامی عُہدوں پر آتی ہیں، تو بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ سِول سروس میں 40فی صد سے زاید خواتین ہیں اور میرا تجربہ ہے کہ ان کی قائدانہ صلاحیتیں مثالی ہیں۔
ان میں سنجیدگی اور احساسِ ذمّے داری بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے اِس کردار سے مستقبل کا پاکستان مزید بہتر اور توانا ہوگا۔ یہاں خواتین افسران بھی تربیت کے لیے آتی ہیں اور اِس ضمن میں ہم کوئی تفریق نہیں رکھتے۔
س: تربیتی نظام کو مزید کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے؟
ج: دیکھیں، مَیں بار بار ایک لفظ استعمال کررہا ہوں،’’ماڈرن سول سرونٹ۔‘‘ دراصل، دنیا کو ایسے افراد کی تلاش ہے، جو دورِ جدید کے معاملات سے باخبر ہوں۔ وہ عوام سے کٹ کر نہ رہیں۔ اِس مقصد کے لیے جہاں ہم تربیتی نصاب میں جدیدیت لائے ہیں، وہیں افسران کو عام افراد سے بھی ملواتے ہیں تاکہ اُنہیں ان کی عوامی مشکلات کا اندازہ ہوسکے۔
نوجوان افسران کو یہ ذہن نشین کروایا جائے کہ اُنہیں عوام کی خدمت کرنی ہے۔ یہ افسران دنیا کے مشکل ترین پراسس سے گزرتے ہیں اور پھر بھی اگر یہ پرفارم نہ کریں، تو مَیں اسے بدقسمتی ہی سمجھوں گا۔ اس کا مطلب ہوگا کہ دیگ میں کسی مسالے کی کمی رہ گئی۔