شہلا خضر
2 ستمبر 2004ء میں فرانس میں ہیڈ اسکارف پر پابندی کا قانون منظور کیا گیا، تو اس کے ردِ عمل میں دُنیا بَھر کے مسلمانوں نے شدید غم و غصّے کا اظہار کیا۔ بعد ازاں، اُس وقت کے لندن کے میئر، لانگ اسٹون نے جولائی2004ء میں اُمّتِ مسلمہ کے سرکردہ علما اور رہنمائوں کو طلب کر کے ’’اسمبلی فار دی پروٹیکشن آف حجاب‘‘ کے زیراہتمام ایک اجلاس منعقد کیا۔
اس کانفرنس میں یہ عہد کیا گیا کہ دُنیا بھر میں کسی بھی مقام پر کسی مسلمان خاتون کے ساتھ حجاب کے معاملے پر ہونے والی نا انصافی کے خلاف اس کی بھرپور حمایت کی جائے گی اور پھر اسی کانفرنس ہی میں 4ستمبر 2004ء کو ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ منانے کا فیصلہ کیا گیا۔
حجاب ہر مسلمان عورت کی پہچان اور شان ہے، جب کہ نام نہاد لبرلز اور مذہب بے زار طبقہ اسے عورت کا زندان قرار دیتا ہے، جو ایک بالکل لغو اور بے بنیاد بات ہے۔ اگر ایک عورت اپنی مرضی سے بے پردہ رہ سکتی ہے، تو اسے حجاب کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔
حجاب عورت کی ترقّی میں قطعاً رکاوٹ نہیں بلکہ یہ دراصل ہماری ثقافت، تہذیب اور ترقّی ہی کا دوسرا نام ہے۔ حجاب ایک پورا نظامِ اخلاق اور مکمل نظامِ عِفّت و عصمت ہے، جو مَردوں کو بھی اُتنا ہی محفوظ رکھتا ہے، جتنا خواتین کو۔ قرآنِ کریم میں اس حُکم کی مخاطب صرف خواتین ہی نہیں، مَرد بھی ہیں، بلکہ حجاب کے احکامات کا آغاز مَردوں ہی سے کیا گیا ہے۔
قوموں کی زندگی میں عورت کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور ان کو دُنیا میں سر بلندی اور سرفرازی کے مقام تک پہنچانے کا سہرا ایک مضبوط اور اعلیٰ اخلاق کی حامل عورت ہی کے سَر ہوتا ہے۔ حجاب میں عورت کی عزّت اور تقدّس پوشیدہ ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ایک سفر کے دوران اُن خواتین کو، جو قافلے میں اُونٹ پر سوار تھیں، ’’قواریر‘‘ (آبگینے) قرار دیا اور نبیٔ محترم ﷺکے عطا کردہ اس اعزاز پر خواتین جتنا بھی ناز کریں، کم ہے۔ جب ساربان نے اونٹوں کو تیز دوڑایا، تو حضور اکرمﷺ نے اُسے پکار کر کہا کہ ’’آہستہ چلو، تم دیکھتے نہیں، اِس پر آبگینے سوار ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ آبگینہ اپنی نزاکت، خُوب صورتی، پاکیزگی اور مضبوطی میں اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔
طالبان کی قید میں رہنے والی برطانوی صحافی، ایون ریڈلے حجاب کے ضمن میں اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’مَیں کئی برس سے تحریکِ نسواں کی حامی تھی اور اب مسلمان خواتین کے حقوق کی علم بردار ہوں۔
عورت کو چہرے اور جسم کی نمائش کے لیے پیش کرنا معیارِ آزادی ہے یا عورتوں کو اُن کے کردار، علم اور ذہانت کی بنیاد پر پرکھنا ٹھیک ہے؟‘‘ سچ تو یہ ہے کہ حجاب، اسلام کا عطا کردہ معیارِ عزّت وعظمت ہے۔ پردہ ہر مسلمان عورت کا حق ہے، کوئی زور زبردستی کا سودا، کوئی مسلّط کردہ قید، جبر، پابندی نہیں۔
موجودہ دَور میں عالمی استعماری قوّتوں نے اُمّتِ مسلمہ پر تہذیبی یلغار کرتے ہوئے اسلامی شعائر کو ہدفِ تنقید بنایا ہوا ہے، جب کہ فرانس، ہالینڈ اور ڈنمارک میں حجاب پر پابندی عاید کر دی گئی ہے، تو4 ستمبر کے دن دراصل ہر مسلمان عورت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ حجاب ہمارا حقِ انتخاب، فخرو غرور اور عزت ووقار ہے۔ یہ کسی پابندی یا جبر کی علامت نہیں بلکہ حُکمِ خداوندی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہے۔