فرحی نعیم، کراچی
ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک عورت کی نیک سیرتی اور خُوبی سے متعلق استفسار کیا، تو آپؓ کا جواب، عصرِ حاضر کی ایک اچّھی اور کام یاب عورت کے معیارات سے بالکل مختلف تھا۔
یعنی اگر آج ہم کسی سے ایک اچّھی اور کام یاب عورت کی تعریف پوچھیں، تو اُس کا جواب یقیناً یہی ہو گا کہ ایک عورت کو قابل، ذہین، خُوب صُورت، مضبوط، پُراعتماد اور معاشی طور پر مستحکم ہونا چاہیے، لیکن ایک کام یاب عورت کے جو اوصاف نبی اکرم حضرت محمدﷺ کی نورِ نظرؓ نے بیان کیے، وہ یہ تھے کہ ’’جس کو نہ کسی غیر محرم نے دیکھا ہو اور وہ خود بھی غیر محرم سے مامون رہی ہو۔‘‘ موجودہ دَور میں ایک عورت جب کسی بھی سبب گھر سے باہر نکلتی ہے، تو اس کا واسطہ لا محالہ غیر مَردوں سے پڑتا ہے۔
سو، ایسے میں اس موقعے پر خواتین اپنی حدود و قیود کا تعیّن کرتے ہوئے انہیں اپنے رویّے سے اچّھی طرح اپنی اہمیت کا احساس دلا سکتی ہیں اور حجاب و پردہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو حدِّ فاصل کے پیمانے وضع کرتی ہے۔ حجاب ایک مسلمان عورت کا وہ طُرّۂ امتیاز ہے، جو یہ منادی کرتا ہے کہ اُس کے ساتھ عزت و تکریم کا رویّہ اپنایا جائے۔ حجاب سے نہ صرف ایک مسلمان خاتون کی متانت، سنجیدگی اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ یہ اُس کے حد درجہ احترام کا بھی مؤجب بنتا ہے۔
اقوام کی تاریخ میں خواتین کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ اگر ہم دُنیائے اسلام سے تعلق رکھنے والی اُن آہنی کردار کی حامل خواتین کا شمار کریں کہ جنہوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم اور اخلاق و کردار کی بہ دولت سر بلندی و سرفرازی کے جھنڈے گاڑے اور اپنی حیا پر آنچ تک نہ آنے دی، تو وہ اَن گنت ہیں۔
ایک عورت ہی ایک مثالی معاشرے اور قوم کی بنیاد رکھتی ہے۔ اگر ایک بچّے کو اُس کی پہلی درس گاہ، ماں کی گود ہی سے شرم و حیا کا سبق نہیں پڑھایا جائے گا، تو وہ مستقبل میں اپنے نظریات و افکار کو کیسے پاکیزہ رکھ پائے گا۔ عورت کا وصف حیا ہے اور یہ اُس کی ذات سے لے کر زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔
نیز، ایک باحیا ماں کی اولاد کبھی بھی کم زور کردار کی حامل اور اخلاق باختہ نہیں ہو سکتی، کیوں کہ اُسے ماں کی کوکھ ہی سے عدل و انصاف، مساوات اور اخوّت کا سبق ملتا رہتا ہے۔ اور کوئی اس غلط فہمی میں بھی ہرگز نہ رہے کہ باحجاب خواتین عضوِ معطّل ہوتی ہیں، یہ تو ہمارے معاشرے کی وہ پاکیزہ قوّت ہیں کہ جن کی گود سے ایسی نسل اُبھر کر سامنے آتی ہے، جو آگے جا کر قوم کا فخر و غرور بنتی ہے۔
بے شک،’’حیا‘‘ اسلام کا امتیازی وصف ہے۔ اس ضمن میں فرمانِ نبویؐ ہے کہ ’’جس میں حیا نہیں، پھر وہ جو چاہے کرے۔‘‘ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آج ہماری قوم کی تنزّلی کا بڑاسبب بے حیائی ہی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا معاشرہ اَن گنت برائیوں ،معاشرتی بیماریوں کا شکار ہے۔ رشوت خوری، سُود خوری، اقربا پروری، بد دیانتی اور بد عنوانی سے لے کر دیگر سماجی بُرائیوں تک سب بے حیائی اور بے شرمی ہی کا شاخسانہ ہیں۔
حتیٰ کہ بے لگام ہوتے اس معاشرے کی شان دار روایات دُھندلی ہونے کے بعد اب معدومیت کے قریب پہنچ چُکی ہیں، لیکن… ہم نے ان دَم توڑتی اقدار و روایات، افکارو نظریات اور عقائد و تصوّرات کو نہ صرف بچانا ہے بلکہ ان کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ بہ ظاہر یہ ایک کٹھن کام ہے، مگر قوموں کو اپنی روایات برقرار رکھنے کے لیے سخت فیصلے کرنے ہی پڑتے ہیں اور اب سخت فیصلوں اور اقدامات کا وقت آن پہنچا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ پردے، حجاب اور ساتر لباس کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید پہلے کبھی بھی نہ تھی۔ پھر عموماً ہم کسی حد تک غیر اخلاقی سرگرمیوں کو بھی مذاق و شوق کا نام دے کر درگزر کر جاتے ہیں، لیکن یاد رہے، جُرم کی راہ میں پہلا قدم معصومیت ہی میں اُٹھتا ہے۔ بعد ازاں، ناہم وار زمین پر ڈگمگا کر چلتے چلتے قدم جم ہی جاتے ہیں، تو برائی کو آغاز ہی میں روکنا ناگزیر ہے۔
نیز، تمام تر معاملاتِ زندگی میں شرم و حیا کا پلّو ہاتھ ہی میں رہنا چاہیے، خصوصاً جس معاشرے میں عورت محفوظ ہو گی، تو وہ خود بھی مامون رہے گا اور اُس کی اقدار بھی (جن کا ہر وقت رونا رویا جاتا ہے) مضبوط و مستحکم رہیں گی اور آئندہ نسلیں بھی محفوظ رہیں گی، لیکن جس معاشرے میں عورت کی عزّت و ناموس ہی کو ہر آن دھڑکا لگا رہے، وہ معاشرے اپنی بنیادوں پر جمے نہیں رہ سکتے۔ قصہ مختصر، یہ حجابی ملکائیں، شہزادیاں اِس مُلک کی آن، بان، شان اور اس کے شان دار مستقبل کی ضامن ہیں۔ سو، اس پاکیزہ قوّت کی قدر کریں اور انہیں مکمل عزت و احترام دیں۔