نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے، جو آج تک صرف 11 شہداء کو نصیب ہو ا ہے ۔ آج ہم ذکر کر رہے ہیں ،ہم جنگِ ستمبر کے واحد نشانِ حیدر پانے والے شہید ، میجر راجا عزیز بھٹّی کا۔ راجا عزیز بھٹّی6اگست 1923ء کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے، جہاں اُن کے والد بسلسلۂ ملازمت مقیم تھے۔ انہوں نے کوئنز کالج سے میٹرک کیا، تو اس دوران جاپان نے ہانگ کانگ پر قبضہ کر لیا اور یوں اُن کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔
انہیں برطانوی حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ جانے کی پیش کش کی گئی، لیکن وہ جاپانی بحریہ میں بطور واچ اینڈ وارڈ ملازم ہو گئے اور پھر اپنی غیر معمولی ذہانت کی بدولت ہیڈ واچ مین کے عُہدے تک پہنچے اور کمیشن کا کورس بھی مکمل کیا۔ جاپان کی شکست کے بعد ان کا خاندان قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے اور سارا اثاثہ لُٹانے کے بعد دسمبر 1945ء میں لادیاں، گجرات واپس آگیا۔
راجا عزیز بھٹی بارُعب اور پُراثر شخصیت کے مالک تھے ، لیکن اُن کی نیم وا آنکھیں تو گویا سحر آگیں تھیں۔ اُنہیں علم و ادب سے لگاؤ وَرثے میں ملا تھا اور عُمر گزرنے کے ساتھ یہ ذوق بڑھتا رہا۔ وہ اردو اور پنجابی کے علاوہ انگریزی، چینی، جاپانی اور جرمن زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے اور فوج میں جرمن زبان کے سرکاری ترجمان کی حیثیت سے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد راول پنڈی منتقل ہو گئےاور 1948ء میں پاک فوج میں کمیشن کے لیے درخواست دی، جسے قبول کر لیا گیا۔
وہ 1948ء میں پی ایم اے کاکول سے وابستہ ہوئے اور اس کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ کے موقعے پر پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم، لیاقت علی خان نے انہیں ان کی فوجی تربیت اور تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر اعزازی تلوار سے نوازا۔
جنوری 1956ء میں راجا عزیز بھٹّی اعلیٰ فوجی تربیت کے لیے کینیڈا گئے اور پھر کوہاٹ اور جہلم میں خدمات انجام دیں۔ 1962ء سے 1964ء تک انفینٹری اسکول، کوئٹہ میں انسٹرکٹر کے طور پر فرائض انجام دیے جب کہ 12ستمبر 1965ء کو برکی کے محاذ پر کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔
معرکۂ برکی :
6 ستمبر کی صبح میجر راجا عزیز بھٹّی معمول کے مطابق بیدار ہوئے۔ نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد قرآنِ پاک کی تلاوت کی اور پھر اہلِ خانہ کو خدا حافظ کہہ کر میدانِ جنگ کی جانب روانہ ہو گئے۔ وہ برکی کے تاریخی بالا خانے پر پہنچے ۔ دُوربین آنکھوں سے لگائی، تو انہیں ہڈیارہ کی طرف دشمن کی فوج پیش قدمی کرتی ہوئی دکھائی دی۔ میجر عزیز بھٹّی نے صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد فائر کا حُکم دیا۔ فائر کا حُکم سُنتے ہی پاکستانی سپاہیوں نے ایسے گولے برسائے کہ دشمن کی پوری کمپنی میں سے صرف چند فوجی ہی زندہ بچ سکے۔
گرچہ انہیں اس بات کا ادراک ہو چُکا تھا کہ دشمن کو ان کی لوکیشن معلوم ہو چُکی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ڈٹے رہے، کیوں کہ سارے سیکٹر میں صرف یہی وہ مقام تھا کہ جہاں سے دُور دُور تک دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لیا جا سکتا تھا۔ دشمن کمک ملنے پر پیش قدمی کی کوشش کرتا رہا، لیکن پاکستانی جاں بازوں نے اس کی ہر کوشش ناکام بنا دی۔ 7ستمبر کو بھی میجر عزیز بھٹّی دُوربین انکھوں سے لگائے دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لیتے رہے۔
ساتھیوں نے آرام کا مشورہ دیا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ 8ستمبر کو دشمن نے بھرپور حملہ کیا، جسے ناکام بنا دیا گیا۔ اس موقعے پر میجر عزیز بھٹّی کے کمانڈنگ آفیسر، کرنل قریشی نےاُن سے کہا کہ ’’ آپ مسلسل تین روز سے اس محاذ پر موجود ہیں۔ اپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ چند روز کے لیے پیچھے آ جائیں۔ مَیں دوسرا افسر بھیج رہا ہوں۔‘‘ مگر جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’ سر! یہ بہت حسّاس محاذ ہے۔ مَیں اس جگہ سے دشمن کی نقل و حرکت سے پوری طرح باخبر ہو چُکا ہوں، جب کہ نئے افسر کو سمجھنے میں وقت لگے گا۔ میری خواہش ہے کہ مُجھے واپس نہ بلایا جائے اور ویسے بھی اس نازک صورتِ حال میں مُجھے آرام کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘
میجرعزیز بھٹّی بڑی جواں مَردی سے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے اور دشمن کو پاؤں جمانے کا موقع نہ دیا۔ 9ستمبر کو دشمن کے دو طیّاروں نے بالا خانے پر بم پھینکے مگر اُن کا نشانہ خطا ہو گیا۔ میجر بھٹّی کو اسی مقام پر خدمات انجام دیتے 120گھنٹے گزر چُکے تھے۔ کمانڈنگ آفیسر نے ایک مرتبہ پھر انہیں کانفرنس کے بہانے واپس بلانے کی کوشش کی، تاکہ وہ آرام کر سکیں، لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ’’مُجھے محاذ ہی پر آرام ملتا ہے۔
مَیں پچھلے مورچوں پر جانے کی بجائے وطنِ عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنا زیادہ پسند کروں گا۔‘‘ مسلسل جاگتے رہنے کی وجہ سے اُن کی آنکھیں سُوج چُکی تھیں اور پلک جھپکنے پر نیند آنے لگتی تھی۔ اگلی صبح انہوں نے پانی منگوا کر وضو کیا، نماز پڑھی، شیو بنائی اور کئی دنوں بعد بالوں میں کنگھی کرکے صوبے دار، غلام محمد کے ساتھ ناشتے میں مصروف ہو گئے۔ ایک صُوبے دار اعلیٰ درجے کا دست شناس تھا۔ عزیز بھٹّی نے اُس سے کہا کہ ’’میرے ہاتھ تو دیکھیے۔
مَیں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میری قسمت میں شہادت ہے بھی یا نہیں۔‘‘ صوبے دار نے جواب دیا کہ ’’ جناب! آپ کی قسمت میں شہادت تو ہے، لیکن یہ نہیں بتا سکتا کہ عُمر کے کسی حصّے میں نصیب ہو گی۔‘‘ اس پر انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا کہ ’’اگر آپ صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے، تو مَیں اپ کو بتا دوں کہ میری شہادت کا وقت بہت قریب ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے ایک جوان کو نئی وردی لانے کا حکم دیا۔
وہ کسی اور کی وردی لے آیا، تو کہا کہ ’’یہ میری نہیں ہے۔‘‘ جوان نے جواب دیا کہ ’’ آپ کی وردی مل نہیں رہی۔ ایک اور افسر نے اپنی وردی آپ کے لیے بھیجی ہے۔‘‘ یہ سن کر انہوں نے کہا کہ ’’ اُن کی مہربانی… رہنے دو… یہی ٹھیک ہے۔‘‘ پھر مسکرا کر کہا، ’’وردی اور کفن اپنا ہی سجتا ہے۔‘‘اُنہیں شاید اپنی شہادت کا یقین ہو چُکا تھا۔
بلندی پر کھڑے ہو کر دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے لگے، تو اس نے گولا باری شروع کر دی۔ اسی اثنا ایک گولا اُن کی جانب آتا دکھائی دیا، تو صوبے دار نے کہا کہ’’ سر! فائر آ رہا ہے۔ نیچے آ جائیے۔‘‘ اس پر میجر عزیز بھٹّی نے جواب دیا کہ ’’ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ یہاں خطرہ ہے لیکن موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر میرے مقدّر میں شہادت لکھی ہے، تو میری اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔‘‘ تھوڑی ہی دیر بعد دشمن کے چند ٹینکس نہر کی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔
میجر عزیز بھٹّی نے فائر کا حُکم دیا۔ پہلا نشانہ خطا گیا، مگر دوسری بار گولے نشانے پر لگے اور دشمن کے دو ٹینکس تباہ ہو گئے۔ اس دوران دشمن کی جانب سے برسائے گئے گولے عزیز بھٹّی کےپاس سے ہوتے ہوئے دُور جا گرے۔ ساتھیوں نے واپس آکر پوزیشن لینے کا مشورہ دیا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ وصل کی گھڑی قریب آن پہنچی تھی۔
میجر بھٹّی دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے کھڑے ہی ہوئے تھے کہ ایک گولا سینہ چیرتا ہوا دائیں پھیپھڑے سے پار ہو گیا اور وہ منہ کے بل زمین پر گر گئے۔ اُن کے ساتھی جب قریب پہنچے، تو وہ جامِ شہادت نوش کر چُکے تھے۔ بعدازاں، میجر عزیز بھٹّی کا جسدِ خاکی اُن کے گائوں، لادیاں لایا گیا، جہاں اُنہیں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا اور پھر نشانِ حیدر عطا کیا گیا۔