’’ڈیجیٹل دور میں طلبا اور طالبات غلط معلومات اور جعلی خبروں کے خطرات کو سمجھیں۔‘‘ یہ الفاظ پاکستان کے آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر کے ہیں جو انہوں نے طلباء کے وفد سے کہے۔ بے شک نوجوان ہی قوم کے مستقبل کا ہراول دستہ ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ آئی ایس پی آر کے تحت چاروں صوبوں کے اسکول کالج اور یونیورسٹیوں کے طلباء کیلئے انٹرن شپ اور آگاہی کے پروگرام منعقد کئے جارہے ہیں۔ اس سے نوجوانوں کے کچے ذہنوں میں پنپنے والے خدشات دور ہونے کی توقع ہے۔ ضروری ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور آئی ایس پی آر کے تحت ہونیوالے پروگراموں اور ملاقاتوں میں دینی مدارس کے طلباکو بھی نمائندگی دی جائے۔ دراصل بات یہ ہے کہ آج ہم جس عہد میں جی رہے ہیں یہ 1924ء میں خلافت اسلامیہ کے ملبے پر تعمیر ہوا ہے۔ مغرب کے عسکری استعماری غلبے کیساتھ ساتھ دنیا پر مغرب کا فکری غلبہ بھی ہوتا گیا۔ اس غلبے کا تعلق مغرب کے جدید فلسفے سے ہے جس نے دنیا کی تیس تہذیبوں کی مابعد الطبعیات، ایمانیات، اعتقادات اور دیگر مسلّمات کو قبول کرنے سے یکسر انکار کیا۔ یہ بھی کہا کہ مابعد الطبعیاتی سوالات احمقانہ سوالات ہیں، انکا جواب معلوم نہیں کیا جاسکتا لہٰذا انسان نے خالق سے اپنا رشتہ توڑ کر ماضی کو تاریک زمانہ قرار دیا۔ انسان کو خالق مانا۔ اس دورکو جدید فلسفے کی زبان میں روشن خیالی، آزاد خیالی، انسان پرستی کازمانہ کہا جاتا ہے۔ انسان جب علم میں خود کفیل ہو گیا تو اس نے ایک نیا مذہب تخلیق کیا جو جدید فلسفے سے نکلا، جسے ہم انسان پرستی اور آزادی کا فلسفہ کہتے ہیں لہٰذا عہد جدید کا انسان اسکے ارادے، اسکے ادارے، اس کا علم، اس کی سائنس اور اس کی ٹیکنالوجی انسان کی آزادی میں مسلسل اور مستقل اضافے میں مصروف ہے۔ اس آزادی کا ایک ہی مقصد ہے، وہ ہے زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرنا لہٰذا عہد حاضر میں علم کی تعریف بھی بدل گئی ہے، جو جدید فلسفے کا اثر ہے۔ ادراک ِعہد حاضر کیلئے اور عہد حاضر کے تمام مقاصد کو جاننے کیلئے ہمیں جدید مغربی فلسفے سے کچھ نہ کچھ آگہی ضروری ہے۔ مسلمانوں نے ماضی میں یونانی فلسفے کا ناقدانہ جائزہ لیا تھا بالکل اسی طرح ہمیں جدید فلسفے کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جدید فلسفے نے ہمیں برے طریقے سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کیا کریں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا؟ جدید فلسفہ پڑھنے اور سمجھنے سے یہ مسئلہ کسی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ ہمیں جدید فلسفے کا کماحقہ ادراک ہی نہیں ہے، ان کے بھیانک مقاصد سے آگاہی نہیں ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ اقبال اور مولانا یوسف بنوری جدید فلسفے کی تباہ کاریوں سے بخوبی واقف تھے۔1857ء کی جنگ آزادی اور اس میں مسلمانوں کی عارضی شکست ان کے سامنے تھی۔ فرنگی استعمار اور ہندو ثقافت کے یکے بعد دیگرے ہندوستان پر پنجے گاڑنے کی کوششوں سے وہ باخبر تھے۔ اسلام اور مسلمانوں کی سرزمین ہند سے بے دخلی کا جو خواب دشمن دیکھ رہا تھا، وہ انکے علم میں تھا۔ یہی حال اقبال کی شاعری کا ہے۔ قاسم نانوتوی کی کتابوں اور تحریروں میں جدید فلسفہ کے پیدا کردہ سوالات، شبہات اور اشکالات کا زبردست ردّ موجود ہے۔ اس میں علم کلام کے تمام خدوخال موجود ہیں۔ مولانا تھانوی کی کتاب ”الانتباہات المفیدہ“ جدیدیت، جدید فلسفے کا نہایت عالمانہ وفاضلانہ ردّ ہے۔ محمد حسن عسکری اور پروفیسر کرار حسن نے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ”An answer to modernism “ کے نام سے کیا ہے۔ جدید ذہن میں پیدا ہونیوالے تمام شبہات کا ازالہ یہ مختصر کتاب کر دیتی ہے۔ جدید انسان اسی جدید فلسفہ مغرب کی تخلیق ہے جو مابعد الطبعیاتی سوالات پر یقین نہیں رکھتا۔ ارسطو کی اتباع میں اس دنیا کو ابدی سمجھتا ہے لہٰذا اس ابدی دنیا کو جنت بتانے میں مصروف عمل ہے۔ جدید ترقی اس جنت کے حصول کے وسائل مہیا کر رہی ہے۔ مذکوہ بالا حضرات اس بات کے قائل تھے کہ مسلمان خصوصاً دیندار طبقہ اور علماء جدید فلسفے سے واقف ہوں۔ پہلے جدید فلسفے کو خود سمجھیں پھر عوام اور طلبا کو سمجھائیں اور پھر اسکے سامنے سد ِسکندری بن جائیں۔ یہ کام ہماری تاریخ کے آغاز میں امام غزالی اور امام ابن تیمیہ کے ہاتھوں نہایت احسن طریقے سے مکمل ہو چکا ہے۔ امام غزالی یونانی زبان نہیں جانتے تھے لیکن انہوں نے اس زبان کے بغیر ہی یونان کے فلسفے کو علمی شکست دی۔ ابن تیمیہ یونانی زبان جانتے تھے انہوں نے یونانی منطق و فلسفے کو دوسرے طریقے سے شکست دی۔ وہ علماء جو انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبان نہیں جانتے وہ امام غزالی کے طریقے کی پیروی کریں۔ جو علماء ان زبانوں سے واقف ہیں وہ ابن تیمیہ کے طریقے کی پیروی کریں۔ زبان سے عدم واقفیت جدید مغربی فلسفے کے فہم میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ جدید فلسفے کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے، اس کے مطابق ہر انسان کو مذہب سے مکمل آزادی ہے۔ اعلیٰ اخلاقی اور معاشرتی اقدار سے بالکل آزادی، ہر انسان آزاد ہے کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے۔ گویا جدید فلسفے میں مادیت ہی مادیت اور مادر پدر آزادیاں ہی آزادیاں ہیں۔ اس میں وحی الٰہی، تعلیمات نبوی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا کوئی تصور نہیں۔ لبرل ازم، سیکولر ازم، سوشلزم اور دیگر بیسیوں قسم کے ازم مادہ پرستی، خواہش پرستی، ہم جنس پرستی، نفس پرستی اور انسان پرستی کی پیداوار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے اس فلسفے کو مکمل سمجھا جائے۔ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور دھیرے دھیرے اس سے جان چھڑائی جائے۔