• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے دو بڑے سچ سن لیں پھر کوئی اور بات کرتے ہیں معروف اداکارہ نیہا شرما نے کہا ہے کہ ’’بھارتی فلم اندسٹری میں کوئی کسی کا دوست نہیں‘‘ دوسرا سچ سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم درانی نے بولا ہے موصوف فرماتے ہیں کہ ’’پیمانہ صبر لبریز ہوگیا ہے، وزیراعظم ہماری وزارتوں کا فیصلہ کریں‘‘ پہلے سچ میں مفاد نظر نہیں آتا بلکہ نیہا شرما نے ایک حقیقت بیان کی ہے دوسرے سچ میں مفاد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ جے یو آئی کے وزراء گن گن کر ’’ دہاڑیاں ‘‘ گزار رہے ہیں وزیراعظم کو ان ’’دہاڑیوں ‘‘ کا خیال کرنا چاہئے اور جے یو آئی کے وزراء کو جو وزارتیں دی ہیں ان کے محکموں کا تعین کردینا چاہئے۔ جے یوآئی کے لوگ اپنا بڑا خیال رکھتے ہیں سونے پے سہاگہ کہ خیال رکھنے کے علاوہ خیال رکھواتے بھی ہیں اس کا اندازہ مجھے برسوں پہلے ہو گیا تھا جب ملک کے ایک نامور صحافی نے مولانا فضل الرحمن کا انٹرویو کیا تھا موصوف میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جس طرح آپ نے عابدہ حسین کا انٹرو لکھا تھا اسی طرز کا انٹرو مولانا کیلئے لکھ دیں۔ میں نے ان کا یہ کام فی سبیل اللہ کردیا اس انٹرو پر مولانا کو پتہ نہیں کتنی خوشی ہو، یہ خدا بہتر جانتا ہے۔ بہرکیف میری بھی وزیراعظم سے درخواست ہے کہ وہ مولانا کی پارٹی کو جلد از جلد محکمے الاٹ کریں تاکہ ’’ میٹرڈاؤن‘‘ ہو ۔لگے ہاتھوں دوسری مذہبی جماعت کی بات بھی کرلی جائے جماعت اسلامی کے شفاف الیکشن کے نتیجے میں سراج الحق نئے امیر بن گئے ہیں اور سیدمنور حسن رخصت ہوگئے ان کے دور میں روزانہ جماعت کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑتے تھے بلکہ شمسی صاحب کو تو پورے پورے خط لکھنا پڑتے تھے ویسے جماعت اسلامی میں چند خوبیاں ایسی ہیں جو دوسری جماعتوں میں نہیں ہیں مثلاً جماعت اسلامی موروثی سیاست کی قائل نہیں ہے وہاں امارت خاندانی اجارہ داری نہیں ہے، وہاں خفیہ رائے شماری کے تحت انتخاب ہوتا ہے، جماعت اسلامی برادریوں کی سیاست نہیں کرتی، جماعت اسلامی صوبائی تعصب کے تحت بھی کام نہیں کرتی، پاکستان کی یہ واحد سیاسی جماعت ہے جس میں صرف پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ رہ گئے سراج الحق توان کے بارے میں برادر عزیز سلیم صافی نے بڑا خوبصورت تبصرہ کیا ہے صافی صاحب کے نزدیک سراج الحق، مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست کے قائل ہیں یعنی لین دین کی سیاست، سراج الحق پر یہ جامع تبصرہ ہی کافی ہے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
اس وقت حکومت کو دو پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے، ایک پرویز مشرف اور دوسرے طالبان۔ پرویز مشرف کا مسئلہ تو حل کے قریب ہے، وہ بیرون ملک چلے جائیں گے، ان کے جانے کے معاملات کافی حد تک طے ہوچکے ہیں، رہ گئی بات سزاؤں کی تو سزا انہیں نہیں ہوگی، ان کا پروٹوکول اسی طرح قائم رہے گا، ان کا آنا جانا شاہی انداز میں ہوتا ہے، یہ انداز برقرار رہے گا اب صرف اس بات کا انتظار ہے کہ بلی نہیں بلے کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ ظاہر ہے پاکستان میں بڑے سیانے لوگ موجود ہیں وہ کوئی نہ کوئی مناسب طریقہ دریافت کرلیں گے۔ آپ کو ریمنڈ ڈیوس والا معاملہ تویاد ہوگا جب پاکستان اتنے پیچیدہ مسئلے سے نکل آیا تھا تو ، پرویز مشرف کا معاملہ تو بالکل گھر کا معاملہ ہے، فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ طالبان والا معاملہ سنجیدہ ہے یہ معاملہ ایسے ہی ہے جیسے پاکستان کا ویسٹ انڈیز کے ساتھ میچ ہوا ہے۔ قوم کوبڑی توقعات تھیں مگر قومی ٹیم نے جیت کے سارے خواب چکنا چور کردیئے ، جس قوم نے خوشی کے گیت گانے تھے شام کواس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے بھارت سے ہارنے پر لکھا تھا کہ پروفیسر حفیظ کو چاہئے کہ وہ سرگودھا میں اپنی مٹھائی کی دکان پر نئے فارمولے آزمائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ہلدی رام کوشکست دے دیں۔سازش ہمیشہ منافق کرتا ہے، منافق بزدل ہوتا ہے اور ایک نہ ایک دن اس کی منافقت اسے کٹہرے میں لے آتی ہے یہی کچھ حفیظ کے ساتھ ہوا۔ اس نے ٹیم میں سازشیں کیں، اس نے گروپ بندی کی، اس نے لاہور کے ویلڈنگ کرنے والے لڑکوں کوساتھ ملایا اور مصباح الحق کے خلاف سازشوں کے جال تیار کئے، آج حفیظ خود بے بسی کے ساتھ قوم سے معافی مانگ رہا ہے۔ قوم نے بڑی آس اور امید کے ساتھ یہ میچ دیکھا جس میں کالی آندھی نے پاکستانی ٹیم کو ریت کی دیوار ثابت کیا، پاکستانی کھلاڑی خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گرتے رہے۔ گیل سے بچ جانے کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں نے اسے بچوں کا کھیل سمجھا۔ سولہ اوورز تک خود کو شاہین سمجھنے والے آخری تین چار اووروں میں چڑے ثابت ہوئے۔ سیمی اور براوو بلا گھماتے رہے، گیند رقص کرتی رہی اور ’’ چڑے‘‘ بے بسی سے ہر گیند کودیکھتے رہے کہ وہ کب اس ’’پھاہی‘‘ سے نکلیں گے۔ ویسٹ انڈیز نے کوئی بہت بڑا ٹارگٹ نہیں دیا تھا مگر پاکستانی بلے بازوں کو بدری نے گراؤنڈ بدر کردیا رہی سہی کسر نارائن نے پوری کردی، نارائن نے بلے باز نکمے بنادیئے۔ ثقلین مشتاق کی کوچنگ کا ویسٹ انڈیز کو یہ فائدہ ہوا کہ خود کو بڑے بلے باز سمجھنے والے چار پاکستانی بیٹسمین اسٹمپ آؤٹ ہوئے، ڈھاکہ کے میدان میں ذلت آمیز شکست کی تمام تر ذمہ داری حفیظ پر عائد ہوتی ہے جسے نہ کپتانی کا پتہ ہے نہ اسے کھلاڑیوں کو کھلانا آتا ہے حفیظ ایک نکما سالار ہے جس فوج کا سپاہ سالار ہی نالائق ہو وہ کیا خاک لڑے گی۔ دنیائے کرکٹ میں اس وقت سیمی اور دھونی کا کوئی مقابلہ نہیں، دونوں کمال کے کپتان ہیں اسی لئے تو ایک کمزور ٹیم کے ساتھ بھی سیمی نے کمال کر دیا ہے، کالی آندھی کے کمال نے پاکستانی ٹیم کو ذلت کا سفر کرایا ہے۔اسرار ایوب کا شعر برمحل ہے کہ
تیرگی سے بھی اجالوں کی توقع اسرار
ہم سا خوش فہم نہیں کوئی کہیں بھی شاید
تازہ ترین