محبوبِ ربّ العالمین، سیّد المرسلین، خاتم النّبیین، فخرِ موجودات، سرورِ کائنات، نورِ مبین، رحمۃ لّلعالمین، اِمام الاوّلین و الآخرین، صاحب قاب قوسین، بشیرونذیر، سراجِ منیر، سیّدِ عرب و عجم، ہادیِ عالم، حضرت محمد ﷺ کا ظہورِ قدسی، آپؐ کی ولادت باسعادت اور دنیا میں تشریف آوری ایک ایسا تاریخ ساز لمحہ اور عظیم انقلاب ہے، جس نے کائنات کو ایک نئی جہت، نیاموڑ اور فلاح و کام رانی کا ایک نیا دستور عطا کیا۔ انسانیت کو جینے کا حوصلہ، زندہ رہنے کا سلیقہ عطا کیا۔
اس نورِ مبینؐ کی آمد سے عالمِ شش جہات کا ذرّہ ذرّہ اور حیاتِ انسانی کا گوشہ گوشہ جگمگانے لگا۔ ظلم، جہالت، ناانصافی، کفروشرک اور بُت پرستی میں مبتلا انسانیت مثالی ضابطۂ حیات، احترامِ انسانیت کے شعور سے باخبر، عدل کی بالادستی کے تصوّر سے آگاہ اور ایمان کے نور سے منوّر ہوئی۔ گویا عالمِ انسانیت کی خزاں رسیدہ زندگی میں پُرکیف بہار آئی۔ ایمان کی دولت نصیب ہونے سے بندگانِ ِخدا کو وہ منزل ملی، جس سے توحید کا نور عام ہوا اور کفروشرک کی تاریکی چَھٹ گئی۔
دعائے خلیلؑ، تمنّائے کلیمؑ، نویدِ مسیحاؑ، حضرت محمدؐ کے ظہورِ قدسی سے عالمِ نو طلوع، انسانیت کی صبحِ سعادت کا آغاز ہوا، تاریخ نے ایک نئے سفر کی ابتدا کی۔ ایسا تاریخ ساز انقلاب رونما ہوا، جس نے توحید و رسالت کا نور عام کر کے انسانی عزّت و وقار اور اعلیٰ انسانی اقدار کو بحال کیا۔ فخرِ موجودات، باعثِ تخلیق کائنات، شافعِ محشر، ساقی کوثر، صاحبِ لوح و قلم، محمدِ مصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰ ﷺ کا ظہور قدسی اور آپؐ کی اس دنیا میں تشریف آوری پوری کائنات پر پروردگارِ عالم کا سب سے عظیم احسان ہے۔ آپؐ کی ذاتِ گرامی کو اللہ تعالیٰ نے جو بلند مقام، جو عظمت و رفعت اور محبوبیت عطا فرمائی، اس میں کوئی آپؐ کا شریک وسہیم نہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسالتِ مآب ﷺنےارشاد فرمایا۔’’اولادِ آدم ؑ کا خلاصہ (منتخب اور مقدّس ہستیاں) پانچ ہیں۔ حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ،حضرت عیسیٰؑ اور مَیں، یعنی حضرت محمد ﷺ۔ اور محمدؐ ان میں سب سے افضل مقام پر فائز ہیں۔‘‘(ابنِ عساکر)۔اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جبرائیل ؑ نے مجھ سے کہا کہ’’مَیں نے مشرق و مغرب میں آپؐ سے افضل اور بُلند مرتبہ کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘(حاکم؍المستدرک)۔
صحابئ رسولؐ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’جبرائیل امینؑ میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا، میرا اور آپؐ کا رب مجھ سے سوال کرتا ہے کہ مَیں نے کس طرح آپؐ کا ذکر بلند کیا؟ مَیں نے عرض کیا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا، تو میرے ساتھ آپؐ کا بھی ذکر کیا جائے گا۔‘‘(جلال الدین سیوطی؍الدر المنثور)۔
مشہور مفسّرِ قرآن علامہ سیّد محمود آلوسی قرآنِ کریم کی آیتِ مبارکہ ’’و رفعنا لک ذکرک‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔’’ اس سے بڑھ کر آپؐ کی عظمت و رفعت، آپؐ کی سیرتِ عظمیٰ اور نامِ نامی کی بُلندی اور کیا ہو گی کہ کلمۂ شہادت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نامِ نامی کے ساتھ اپنے محبوبؐ کا نام ملا دیا۔ آپؐ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ ملائکہ کے ساتھ آپؐ پر درود بھیجنے اور اہلِ ایمان کو آپؐ پر درود بھیجنے کا حکم دیا اور جب بھی آپؐ سے خطاب ہوا، معزز القابات سے خطاب فرمایا گیا، جیسے ’’یآایُّھا المدثر‘‘’’یآ ایُّھا المزّمل‘‘’’یآ ایُّھا النّبی‘‘’’یاایُّھا الرّسُول‘‘ وغیرہ۔ گزشتہ آسمانی صحیفوں میں بھی آپؐ کا ذکرِ خیر فرمایا۔
تمام انبیائے کرامؑ اور ان کی امتوں سے عہد لیا کہ وہ آپؐ پر ایمان لائیں گے۔‘‘ (سیّد محمود آلوسی؍ روح المعانی)۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ارشادِ باری تعالیٰ ’’عسیٰ ان یبّعثک ربّک مقاماً محمودا‘‘ کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہ محمد ﷺ کے لیے پروردگارِ عالم کی طرف سے ایک عظیم مقام ہے، جس میں نہ کوئی نبی مرسل کھڑا ہو گا اور نہ مقرب فرشتہ۔ اس مقام پر فائز فرما کر اللہ تعالیٰ آپؐ کا فضل و شرف ساری مخلوق اور اوّلین و آخرین پر ظاہر فرمائے گا۔‘‘(عبدالرحمٰن ابن الجوزی؍ الوفاء باحوال المصطفیٰؐ)۔
علامہ قاضی سلیمان منصور پوری خصائصِ مصطفیٰؐ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔’’بحر الکاہل کے مغربی کنارے سے دریائے ہوانگ ہوکے مشرقی کنارے تک رہنے والوں میں سے کون ہے، جس نے صبح کے روح افزا جھونکوں کے ساتھ اذان کی آواز نہ سُنی ہو، جس نے رات کی خاموشی میں اشہدُ اَنّ محمداً رسول اللہ، کی سُریلی آواز کو جاں بخش نہ پایا ہو۔ یہی وہ الفاظ ہیں، جو جاگنے والوں اور سونے والوں کو اُن کی ہستی کے بہترین آغاز و انجام کے اعلان سے سامعہ نواز ہیں۔
کیا رفعتِ ذکر کی کوئی مثال اس سے بالاتر پائی جاتی ہے؟ آج کسی بادشاہ کو اپنی مملکت میں، کسی ہادی کو اپنے حلقۂ اثر میں یہ مقام کیوں حاصل نہیں کہ اس کے مُبارک نام کا اعلان روز و شب اس طرح کیا جاتا ہو کہ خواہ کوئی سُننا پسند کرے یا نہ کرے، لیکن یہ اعلان ہے کہ پردہ ہائے گوش کو چیرتا ہوا دل کی گہرائی تک ضرور پہنچ جاتا ہے۔یہ اعلان صرف آپؐ کے نامِ نامی ہی کا نہیں، بلکہ آپؐ کے کام کا بھی ہے اور صرف کام کا ہی نہیں، بلکہ آپؐ کے پیغام کا بھی اعلان ہے۔ بے شک، یہ اعلیٰ خصوصیت صرف اسی برگزیدہ ہستی کے نامِ نامی کو حاصل ہے، جس کی رفعتِ ذکر کا ذمّے دار خود ربّ العالمین بنا ہے اور جس کی بابت یسعیاۂ نبی کی کتاب میں پیش گوئی فرمائی گئی تھی کہ ان کے نام کو برکت دی جائے گی۔‘‘(قاضی محمد سلیمان منصور پوری؍رحمۃ اللعالمینؐ)۔
موصوف مزید لکھتے ہیں۔’’وقتِ واحد میں آپؐ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی طرح صاحبِ حکومت تھے اور حضرت ہارون علیہ السّلام کی طرح صاحبِ امامت بھی، ذاتِ مبارک میں حضرت نوح علیہ السّلام کی سی گرمی، حضرت ابراہیم علیہ السّلام جیسی نرمی، حضرت یوسف علیہ السّلام کا سا درگزر، حضرت داؤد علیہ السّلام کی سی فتوحات، حضرت ایوبؑ اورحضرت یعقوب علیہ السّلام کا سا صبر، حضرت سلیمانؑ کی سی سطوت، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی سی خاک ساری، حضرت یحییٰ علیہ السّلام کا سا زہد، اسمٰعیل علیہ السّلام کی سی سُبک روحی کامل ظہور بخش تھی؎ اے کہ بر تختِ سیادت زازل جاداری....آنچہ خوباں ہمہ دارند توتنہا داری۔
گویا وہ تمام فضائل و کمالات جو پروردگارِ عالم نے متفرق طور پر حضرت آدمؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک تمام انبیائے کرامؑ اور رسولوں کو علیحدہ علیحدہ عطا فرمائے تھے، وہ یک جا اور مکمل طور پر افضل الانبیاء، سیّد المرسلین ﷺ کے دامنِ رحمت میں ودیعت کر دیے گئے۔ معروف محقّق، ادیب اور سیرت نگار ڈاکٹر سیّد ابو الخیر کشفی کے الفاظ میں’’آپؐ کی رسالت نے مشرق و مغرب کو مستقبل کے سفر کے لیے ایک دوسرے سے بہت قریب کر دیا ہے، شاید ابھی انسانیت کو دو چار سخت جھٹکوں کی ضرورت ہے، ایسے جھٹکے جو فراعینِ عہدِ حاضر کو اپنی فرعونیت کے دریا میں غرق کر دیں اور یوں انسان محمدِ عربیؐ کے ساحل تک پہنچ جائے؎ یاں مشرق و مغرب میں تفاوت نہیں کشفی.....دامانِ رسالتؐ کی ہوا سب کے لیے ہے۔ اور آج؎ دیارِ مشرق سے لے کر دیارِ مغرب تک.....یہ مُشتِ خاک تری جستجو میں زندہ ہے۔ (ڈاکٹر سیّد ابو الخیر کشفی؍ ’’مقامِ محمدؐ۔ قرآن کے آئینے میں-‘‘)
تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ آغازِ اسلام سے دورِ حاضر تک صدیاں سفر کرتی رہیں اور مشرق کے انتہائی بعید کنارے سے، مغرب کے انتہائی بعید کنارے تک، شمال کے انتہائی بعید کنارے سے، جنوب کے انتہائی بعید کنارے تک، مساجد کے مینار اُبھرتے گئے اور چودہ صدیوں سے زیادہ عرصے سے یہ مینار اور مساجد کی محرابیں’’اشہدُ ان لاّ الٰہ الاّ اللّٰہ‘‘ کے ساتھ ساتھ’’اشہدُ انّ محمّد رسول اللّٰہ‘‘کی صداؤں سے گونج رہی ہیں۔ یہ آواز گردشِ مہر و ماہ پر غالب آچکی ہے۔ ان ناموں کی گونج کا سلسلہ وقت کو اپنے احاطے اور دائرے میں لیے ہوئے ہے۔ (ایضاً حوالہ سابقہ)۔
امام الانبیاءﷺ کے رفعِ ذکر، آپؐ کی عالم گیر عظمت و محبوبیت کی شکلیں کتنی متنوّع اور گوناگوں ہیں۔ نالۂ نیم شبی اور نغمۂ سحر گاہی میں اسمِ محمدؐ قلب کی دھڑکن اور ہونٹوں کا ترانہ بن جاتا ہے۔ مشرق و مغرب دنیا کے ہر ملک اور خطۂ ارضی کے ہر گوشے اور ہر کونے میں ہر رات بچّوں کو سلاتے وقت ماؤں کے ہونٹوں پر یہ سرمدی نغمہ ابھرتا ہے؎ حسبی ربّی جلّ اللہ..... مافی قلبی غیر اللہ.....لا ا لٰہ الاّ اللہ.....نورِ محمّد صلّی اللہ۔’’اشھدُ اَنّ محمد رسول اللہ‘‘ ایک آواز جو 24گھنٹے پوری دنیا میں گونجتی ہے، انڈونیشیا سے بحر اوقیانوس کے مشرقی کنارے تک ساڑھے نو گھنٹے اذانِ فجر کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی مشرقی انڈونیشیا میں ظہر کی اذان کا وقت ہوجاتا ہے، ڈھاکا میں ظہر کی اذان ہوتی ہے، تو انڈونیشیا میں اذانِ عصر کا وقت ہوجاتا ہے، کرّۂ ارض پرکوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا، جس میں اذان نہ دی جا رہی ہو۔ اذان کی آواز ہر لمحہ گونجتی رہتی ہے، ایمان افروز رپورٹ کے دل چسپ انکشافات ملاحظہ فرمائیں۔ مذکورہ رپورٹ معروف خبر رساں ایجنسی ’’اے پی پی‘‘ کے حوالے سے ملک کے مختلف اخبارات اور رسائل و جرائد میں شائع ہوئی، جس کے مطابق ’’دن اور رات کے ہر لمحے میں ’’اللہ اکبر‘‘ کی آواز مسلسل گونجتی رہتی ہے اور دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں ہر وقت اور ہر لمحہ ہزاروں مؤذّن اللہ بزرگ و برتر کی توحید اور حضرت محمدؐ کی رسالت کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔
دنیا کے نقشے پر اسلامی ملک انڈونیشیا کرّۂ ارض کے مشرق میں واقع ہے۔ انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلم ملک ہے۔22کروڑ آبادی کے اس مسلم ملک میں غیر مسلم آبادی کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ طلوعِ سحر، سلیبیز میں واقع جزائر میں ہوتی ہے۔ صبح ساڑھے پانچ بجے طلوعِ سحر کے ساتھ ہی انڈونیشیا کے انتہائی مشرقی جزائر میں فجر کی اذان شروع ہوجاتی ہے اور ہزاروں مؤذّن اللہ بزرگ و برتر کی توحید اور حضرت محمدؐ کی رسالت کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔
ایک ملکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق مشرقی جزائر سے یہ سلسلہ مغربی جزائر کی طرف بڑھتا ہے اور ڈیڑھ گھنٹے بعد جکارتہ میں مؤذّن کی آواز گونجنے لگتی ہے۔ جکارتا کے بعد یہ سلسلہ سماٹرا میں شروع ہو جاتا ہے اور سماٹرا کے بعد مغربی قصبوں اور دیہات سے پہلے ہی ملائیشیا کی مسجدوں میں اذانیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ ملائیشیا کے بعد برما کی باری آتی ہے۔ جکارتا سے اذانوں کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے، وہ ایک گھنٹے بعد ڈھاکا پہنچتا ہے۔
بنگلادیش میں ابھی اذانوں کا وقت ختم نہیں ہوتا کہ کلکتہ سے سری نگر تک اذانیں گونجنے لگتی ہیں۔ دوسری طرف یہ سلسلہ کلکتہ سے ممبئی کی طرف بڑھتا ہے اور پورے ہندوستان کی فضا توحید و رسالت کے اعلان سے گونج اٹھتی ہے۔ سری نگر اور سیال کوٹ میں فجر کی اذان کا ایک ہی وقت ہے۔ سیال کوٹ سے کوئٹہ، کراچی اور گوادر تک چالیس منٹ کا فرق ہے۔ اس عرصے میں فجر کی اذان پاکستان میں بلند ہوتی رہتی ہے۔ پھر پاکستان میں یہ سلسلہ ختم ہونے سے پہلے افغانستان اور مسقط میں اذانوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ مسقط سے بغداد تک ایک گھنٹے کا فرق ہے۔
اسی عرصے میں اذانیں حجازِّ مقدس، یمن، عرب امارات، کویت اور عراق میں گونجتی رہتی ہیں۔ بغداد سے اسکندریہ تک پھر ایک گھنٹے کا فرق ہے۔ اس دوران شام، مصر، صومالیہ اور سوڈان میں اذانیں بلند ہوتی ہیں۔ اسکندریہ اور استنبول ایک ہی طول و عرض پر واقع ہیں۔ مشرقی ترکی سے مغربی ترکی تک ڈیڑھ گھنٹے کا فرق ہے۔ اس دوران ترکی میں صدائے توحید و رسالت بلند ہوتی ہے۔ اسکندریہ سے طرابلس تک ایک گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ اس عرصے میں شمالی افریقا، لیبیا اور تیونس میں اذانوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ فجر کی اذان، جس کا آغاز انڈونیشیا کے مشرقی جزائر سے ہوا تھا، ساڑھے نو گھنٹے کا سفر طے کر کے بحرِاوقیانوس کے شرقی کنارے پہنچتی ہے۔
فجر کی اذان کے بحراوقیانوس تک پہنچنے سے قبل ہی مشرقی انڈونیشیا میں ظہر کی اذان کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور ڈھاکا میں ظہر کی اذانیں شروع ہونے تک مشرقی انڈونیشیا میں عصر کی اذانیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ یہ سلسلہ ڈیڑھ گھنٹے میں بمشکل جکارتا پہنچتا ہے کہ انڈونیشیا کے مشرقی جزائر میں نمازِ مغرب کا وقت ہوجاتا ہے، جس وقت مشرقی انڈونیشیا میں عشاء کی اذانوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اُس وقت افریقا میں فجر کی اذانیں گونج رہی ہوتی ہیں۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ کرّۂ ارض پر ایک سیکنڈ بھی ایسا نہیں گزرتا، جس وقت ہزاروں، لاکھوں مؤذن بیک وقت اللہ بزرگ و برتر کی توحید اور حضرت محمدﷺ کی رسالت اور آپؐ کی عظمت و رفعت کا اعلان نہ کر رہے ہوں؟ اِن شاء اللہ العزیز یہ سلسلہ تاقیامت اسی طرح جاری رہے گا۔شاعرِ مشرق علاّمہ محمد اقبال کیا خوب کہتے ہیں؎
ہو نہ یہ پھول، تو بُلبُل کا ترنّم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو، تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمۂ افلاک کا اِستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراکش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ ’’ورفعنا لک ذِکرک‘‘ دیکھے
(اقبال/بانگِ درا/کلیاتِ اقبال)
سیّدِ عرب و عجم، حضرت محمد ﷺ کی عظمت و رفعت اور محبوبیت کے حوالے سے جب ہم آپؐ کے نامِ نامی ’’محمد‘‘ کی لفظی و معنوی حقیقت کو دیکھتے ہیں، تو اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ ’’محمد‘‘ کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ وہ ذاتِ ستودہ صفات، جس کی بہ تکرار، مسلسل اور بار بار ہر جہت اور ہر زاویے سے تعریف و توصیف بیان کی گئی ہو، جس کی تعریف کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو۔
تعریف کے بعد تعریف اور توصیف کے بعد توصیف ہوتی رہے، چناں چہ خود خالقِ کائنات سے لے کر مخلوق تک، انبیائے کرامؑ سے جنّ و مَلک تک، حیوانات سے جمادات تک، غرض ہر ذی رُوح اور غیر ذی رُوح سب نے آپؐ کی تعریف بیان کی اور آج بھی دنیا کے ہر کونے میں، فرشِ زمیں کے ہر گوشے میں اہلِ ایمان کی زبانیں لیل و نہار کی مختلف گھڑیوں میں، نہ جانے کتنی بار آپؐ کی تعریف و توصیف کے لیے رطب اللّسان نظر آتی ہیں۔ آپؐ کے شمائل و محاسن اور محامد کا ذکرِ جمیل تا ابد جاری رہے گا۔
جس طرح فخرِ دو عالم، حضرت محمد ﷺ کی عظمت و رفعت کائنات کی ایک روشن ترین حقیقت اور دائمی عمل ہے، اسی طرح آپؐ کی تعظیم و توقیر، ادب و احترام اور آپؐ سے غایت درجہ عقیدت و محبت اور وارفتگی کا جذبہ بھی اہلِ دل کی متاع حیات اور اہلِ ایمان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ سے عقیدت و محبت کے اظہار میں اسلامی تاریخ کے ہر دور میں اہلِ ایمان نے بے مثال تاریخ رقم کی۔ تاہم عہدِ نبویؐ میں صحابۂ کرامؓ نے آپؐ کی ذاتِ گرامی سے جس وارفتگی، عقیدت و محبت اور جاں نثاری و فداکاری کے مظاہر پیش کیے، پوری انسانی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔6 ہجری میں ’’صلحِ حدیبیہ‘‘ کے موقعے پر مکّے کے نام وَر اور جہاں دیدہ سردار عروہ بن مسعود ثقفی، جو اس وقت تک دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے، وہ اہلِ مکّہ کی جانب سے سفیر اور ان کے نمائندے بن کر بارگاہِ نبویؐ میں حدیبیہ کے مقام پر حاضر ہوئے، وہاں انہوں نے سرکارِ دوجہاں، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے صحابۂ کرامؓ کی عقیدت و محبّت، حد درجہ تعظیم و توقیر اور وارفتگی و جاں نثاری کا جو منظر دیکھا، بعدازاں، اہلِ مکّہ کے سامنے اس کی منظر کشی کرتے ہوئے بیان کیا۔ ’’اے میری قوم! مَیں کئی بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہوا ہوں، مگر بخدا، میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا، جس کی تعظیم و تکریم اس کے رفقاء اور درباری اس حد تک کرتے ہوں۔
جس حد تک محمدؐ کے صحابہؓ ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں۔ ان کے ساتھی محمدؐ کا لعابِ دہن نیچے نہیں گرنے دیتے، بلکہ وہ کسی نہ کسی کی ہتھیلی پر گرتا ہے اور وہ حصولِ برکت کے لیے اسے اپنے چہرے اور جِلد پر مل لیتا ہے اور جب وہ انہیں کسی بات کا حکم دیتے ہیں، تو وہ اس کی تعمیل میں جلدی کرتے ہیں اور جب محمدؐ وضو کرتے ہیں، تو وضو کے مستعمل پانی کو حاصل کرنے کے لیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ باہم لڑ پڑیں گے، اور جب آپؐ گفتگو کرتے ہیں، تو سب کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں اور حد درجہ تعظیم کے باعث وہ آپؐ کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔‘‘ (بخاری/الجامع صحیح)۔حقیقت یہ ہے کہ محسنِ انسانیت، نبی ٔ رحمت، ہادی ٔ اعظم ﷺ پوری انسانیت کے نجات دہندہ اور محسنِ اعظم ہیں۔ اس امر کا تقاضا ہے کہ پوری انسانیت بلاتفریق مذہب و ملّت آپؐ کی تعظیم و توقیر کرے۔ آپؐ کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھے۔
آپؐ کی عظمت و محبوبیت کا کُھلے دل سے اعتراف کرے۔ جب کہ اُمّتِ مسلمہ کے دین و ایمان کی بنیاد ہی سرکارِ دو عالم ﷺکی محبت اور آپؐ کی غلامی اختیار کرنے میں مضمر ہے۔ سرکارِ دو جہاںؐ سے عقیدت و محبت کا اظہار اور آپؐ کی اطاعت و اتباع، ایمان کا لازمی اور بنیادی تقاضا ہے۔ اہلِ ایمان کے دل سرورِ کائناتؐ کی محبّت کے چراغ سے روشن رہتے اور آپؐ کے گلستانِ عقیدت و محبّت کی خوشبو سے مہکتے، لہلہاتے ہیں۔
اُن کے دلوں کی دھڑکن اور ہر سانس کی آمد رسولِ اکرمؐ کی عقیدت و محبت، آپؐ کی عظمت و رفعت کے اظہار اور آپؐ کے ذکر سے مشروط ہے۔ رسول اللہؐ کی ذاتِ گرامی ہمارے دلوں کا کعبہ، ہماری رُوحوں کا قبلہ ہے۔’’کعبۃ اللہ‘‘عبادت و بندگی کا قبلہ ہے، تو آپؐ کی ذاتِ گرامی عقیدت و محبت کا قبلہ اور آپؐ کی ذاتِ گرامی ’’قبلہ نُما‘‘ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ہماری اطاعت و محبت اور غلامی کا رشتہ جتنا مضبوط ہو گا، ہمارا قبلہ اتنا ہی محفوظ ہوگا کہ یہی فلاح و کام یابی کا راستہ، نجات کی ضمانت ہے۔وہ اقبال کیا خوب کہتے ہیں؎
درِ دلِ مسلم مقام مصطفیٰؐ است
آبروئے ما زنامِ مصطفیٰؐ است
خاکِ یثرب از دو عالم خوشتر است
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبرؐ است
نسخۂ کونین را دیباجہ اُوست
جملہ عالم بندگان و خواجہ اُوست
(اقبال/ کلیاتِ اقبال فارسی)
ترجمہ:۔ رسولِ اکرم ؐکا مقام مسلمانوں کے دل میں ہے اور ہماری عزّت و آبرو نامِ مصطفیٰ سے ہے۔ خاکِ مدینہ دونوں جہانوں سے بہتر ہے..... مبارک ہے وہ شہر، جہاں ہمارے دلبرؐ ہیں..... کتابِ ہر دو عالم کا دیباچہ رسولِ اکرمؐ ہیں..... تمام دنیا کے لوگ غلام اور وہؐ سب کے آقا ہیں۔