• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

26اگست کو بلوچستان کے مختلف اضلاع میں دس سے زائد مقامات پر بے گناہ افراد کو بسوں اور ٹرکوں سے اتار کرشناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔قتل ہونے والے زیادہ تر افرادکا تعلق پنجاب سے تھا۔ان واقعات کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر کوئٹہ ہوٹلوں کے خلاف ایک منظم مہم شروع کر دی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ بلوچ طالب علموں کو پنجاب کے کالجز اور یونیورسٹیوں سے نکال دیا جائے۔اس طرح کی مہم جوئی کرنے والے دراصل علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔واضح رہے کہ صدیوں سے بلوچ قوم کی روایت رہی ہے کہ انہوں نے نہتے افراد کوکبھی قتل نہیں کیا بلکہ بلوچی ادب ایسی لوک کہانیوں سے بھرا پڑا ہے جن میں نہتے دشمنوں کو بھی پناہ دی گئی ہے۔26اگست کے ان واقعات پر وزیر داخلہ نے ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ آور تو ایک ایس ایچ او کی مار ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت وقت نے بلوچستان میں ایک فوجی آپریشن کا عندیہ بھی دے دیا۔سونے پر سہاگہ یہ کہ ان واقعات کی آڑ میں حکومت وقت نے بلوچستان کے تین ہزار شہریوں جن میں زیادہ تر یونیورسٹیوںکے اساتذہ ، طالب علم راہنما اور صحافی شامل ہیں، کو فورتھ شیڈول میں ڈال دیا۔

بلوچستان میں ساحل اور وسائل کے ساتھ ساتھ معاشی حقوق کی تاریخ کافی پرانی ہے ،لیکن موجودہ شورش اس وقت شروع ہوئی جب ایک ملٹری آپریشن میں پرویز مشرف نے اپنی اناکی تسکین کیلئے نواب اکبر بگٹی کو ڈیرہ بگٹی کے پہاڑوں میں شہید کر دیا، جس کے بعد کچھ نوجوانوں نے مزاحمتی جدوجہد کا علم بلند کیا ،جس سے گمشدہ افراد کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جوکہ دو دہائیوں سے زائد کے عرصے پر محیط ہے۔حکمرانوں نے کبھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔اس پر بلوچستان سے گمشدہ افراد کے اہل خانہ کی خواتین نے پہلے سینکڑوں کی تعداد میں ڈی چوک اسلام آبادپر احتجاج کیا اور پھر پچھلے سال جب وہ اسلام آباد میں داخل ہو رہی تھیں تو ان کو زد وکوب کیا گیا۔حکمران طبقے کی بے حسی کا اندازہ اس امرسے لگایا جاسکتا ہے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت نے شہریوں کو لاپتہ کرنے کے اقدام کو فوجداری جرم قرار دینے کا مسودہ سینٹ سے منظور کروالیا تواچانک یہ انکشاف ہوا کہ یہ بل لاپتہ ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی نے 8نومبر 2021ء کو کریمنل لاءامینڈمینٹ بل 2021ء پاس کرتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ اور کوڈ آف کریمنل پروسیجرز میں ایک نئی شق متعارف کروائی جس کے مطابق وہ لوگ گمشدہ افراد کے ضمن میں آئیں گے جنہیں کوئی اہل کار یا گروپ بغیرکسی قانونی حیثیت کے اغواکرے تاکہ انکی قانون کے مطابق بازیابی نہ کرائی جا سکے ۔ اس بل کے نا منظور ہونے سے نہ صرف انسانی حقوق کے علم برداروں کی تحریک کو شدید دھچکا پہنچابلکہ گمشدہ افراد کی آہ و بقا کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ سیاسی قیادت کی دسترس سے باہر ہے۔اس سے پہلے بھی جب ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے توا نہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے مشورے سے جلا وطن بلوچ راہنمائوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا لیکن جب یہ مسئلہ حل ہونے کے قریب آیا توکچھ قوتوں نے اس عمل کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔دوسری طرف نہ تو کبھی بلوچستان میں انڈسٹریل زون بنائےاور نہ ہی فشریز کی تجارت کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ بلوچستا ن کے شہریوں کی زندگیوں کا زیادہ تر دارو مدار ایران سے آنے والے تیل اور دوسری اشیاء پر ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تجارت کو ٹیکس لگا کر کوئی قانونی شکل دے دی جاتی مگر 77سال گزرنے کے باوجود نہ اس تجارت کو قانونی شکل دی گئی اور نہ ہی بلوچستا ن کے بے روز گار افراد کیلئے کوئی منظم پروگرام بنایا گیا۔دوسری طرف بلوچ طلباء جوپاکستان کے دوسرے شہروں کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، وہ مسلسل خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے نوجوان جو کہ سیاسی عمل سے پہلے ہی بیزار تھے ، وہ 2024 کے الیکشن کے نتائج کی وجہ سے سیاسی عمل سے مایوس ہوکر پہاڑوں کا رخ کر رہے ہیں۔

ان الیکشنز نے نہ صرف تمام قوم پرست جماعتوں کو دیوار سے لگا دیا بلکہ سیاسی عمل میں ایک نئی روایت کا اضافہ کرتے ہوئے سیاسی لیڈران کو ٹھیکیداروں اور مافیاسے ہروایا گیا ۔ حالیہ الیکشن میں ایک ہی خاندان کے تین ایسے افراد جن میں باپ، بیٹا اور داماد شامل ہیں،کو جتوادیا گیا، جن کو مقامی لوگ جانتے بھی نہیں ہیں۔

آج اکیسویں صدی میں پاکستان کو ایک مضبوط اور واحد قوم بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اس خطے میں آباد مختلف قوموں کو ایک وفاقیت کے فطری اجزا ئےترکیبی میں سمودیا جائے ۔ یعنی کہ پنجابی ،سرائیکی، سندھی ، پختون اوربلوچوں کی رضا مندی سے ہی انکے سیاسی مسائل اس طرح حل کیے جائیں تاکہ چوبیس کروڑ عوام اپنے آپ کو پاکستانی شہری کہلوانے پر ناز کریں۔ یاد رہے کہ آج تک بلوچستان سے اٹھنے والی تمام شورشوں کا حل صرف اور صرف بات چیت سے ہی طے پایا ہے حتیٰ کہ حالیہ ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گوادر میں دھرنے کا حل بھی باہمی بات چیت سے ہی نکالا گیا۔اسی طرح ہمارے حکمرانوں کوچاہیے کہ وہ بین الاقوامی طور پر بھی ان پالیسیوں کا جائزہ لیں جو علیحدگی پسند تحریکوں سے روا رکھی گئیں اور کس طرح برطانیہ کی حکومت نے آئی آر اے(IRA)سے مذاکرات کیے اور کس طرح سپین نے علیحدگی پسند باسک گروپ (ETA)کے ساتھ ایک لمبی جنگ کے بعد کن بنیادوں پر صلح کی۔

تازہ ترین