آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے پر حکومت سینیٹ میں بھی مشکلات کا شکار ہے۔
سینیٹ میں آئینی ترمیم کے لیے 64 ارکان کی حمایت درکار ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کے 5 ووٹ حکومت کو پڑنے کی صورت میں حکومت کو 64 اراکین کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔
اگر جے یو آئی ف ووٹ کے لیے حمایت کا اعلان کر بھی دے تو حکومت کو سینیٹ میں ایک رکن کی کمی کا سامنا ہے۔
جے یو آئی نے تاحال اپنے ووٹ آئینی ترامیم کے حق میں ڈالنے کا فیصلہ نہیں کیا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی آئینی ترمیم کے لیے ووٹ نہیں ڈال سکیں گے، چیئرمین کی ایوان میں موجودگی کی صورت میں کوئی اور چیئرمین کی کرسی پر نہیں بیٹھ سکتا۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے اجلاس چیئر کرنے کے باعث حکومت کے پاس سینیٹ میں 63 ووٹ رہ جائیں گے۔
سینیٹ میں 1 ووٹ کی کمی کو کیسے پورا کیا جائے؟ اس حوالے سے حکومت شش و پنج کا شکار ہے۔
حکومت اجلاس کی صدرات کسی اپوزیشن رکن سے کرانے کا رسک بھی نہیں لے سکتی۔
اپوزیشن پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل، بی این پی اور مجلسِ وحدت مسلمین کے ارکان پر مشتمل ہے۔
اس وقت سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی 24 اور مسلم لیگ ن کے 19 ارکان موجود ہیں۔
حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم اور اے این پی کے 3، 3 اراکین بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔
نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ق کا 1، 1 ووٹ بھی آئینی ترمیم کے حق میں ہو گا جبکہ سینیٹ میں موجود 4 آزاد ارکان بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔