السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
مرد ہونا جرم ٹھہرا
میرے ارسال کردہ تاریخی افسانے ’’انتقام‘‘ سے کیا خُوب انتقام لیا جا رہا ہے کہ فروری سے ارسال کردہ افسانےکی وسط جولائی تک اشاعت کی نوبت ہی نہیں آسکی۔ بچّے گھر کی رونق اور قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، خواتین کےلیے تو سنڈے میگزین میں صفحہ مختص کردیا گیا ہے، مگر نہ جانے کس مصلحت کی بنا پربچّوں کے لیے جریدے میں کوئی جگہ نہیں۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سلسلہ یک سانیت کا شکار ہو چُکا ہے۔
اس میں کچھ انفرادیت پیدا کرنے کے لیے عیدین ، مدرزڈے اورفادرزڈے کےعلاوہ نئے سال، بہارا ور ساون کے موضوعات پربھی پیغامات ارسال کرنے، نیزموضوعات کی مناسبت سے لکھاریوں کو مختصر خیال آرائی کی دعوت دی جائے۔ ’’ناقابلِ اشاعت فہرست‘‘ میں اگر تحریر کے ساتھ لکھاری کا نام محض حروف کی شکل میں شائع ہوجائے تو ممکن ہے لکھنے والے کو عدم اشاعت پر کم ندامت محسوس ہو۔
مَیں نے عیدالفطر کے موقعے پر ایک پیغام، نظم کی صُورت ارسال کیا تھا، لیکن شاید اُسےردی کی ٹوکری کاہاضمہ درست کرنے کے لیے استعمال کرلیا گیا یا پھر میرا مرد ہونا جرم ٹھہرا کہ اِس سے قبل ایک ایک خاتون نے بھی نظم کی صُورت پیغام بھیجا تھا، تو وہ تو شایع ہوگیا تھا۔ بہرکیف، خط کے ساتھ دوعدد نظمیں بھی ارسال کررہا ہوں، دیکھ لیجیے گا۔ (چوہدری قمر جہاں، نزد بانس مارکیٹ، تحصیل علی پور، ضلع مظفّرگڑھ)
ج: ’’انتقام‘‘ سے انتقام…؟؟ کیوں بھئی، آپ نے ہماری کوئی جائداد ہتھیا رکھی ہے۔ آپ کا افسانہ قابلِ اشاعت ہے، لیکن باری نہیں آئی اورابھی لمبا انتظارفرمائیے کہ ہمارے پاس تو قطار میں فروری2023 ء کی تحریریں بھی موجود ہیں۔ بچّوں کےلیےچوں کہ ایک پورا بڑا صفحہ (براڈ شیٹ)مختص ہے،اِس لیے’’سنڈے میگزین‘‘ میں اُن کے لیے کوئی الگ صفحہ نہیں، البتہ ’’پیارا گھر‘‘ کی بیش تر تحریریں اُن ہی سے متعلقہ ہوتی ہیں۔
نئے سال پر تو پیغامات شایع کیے ہی جاتے ہیں، مگر ہمارے یہاں ساون، بہار کی آمد پر مبارک بادیں دینے کا کہاں رواج ہے کہ پیغامات لکھ بھیجنے کا سندیسہ دیا جائے۔ اور رہی بات مرد و خاتون کی تخصیص کی، تو اِس سے زیادہ بچگانہ بات کوئی نہیں ہوسکتی۔ خاتون کی نظم اوزان پر پوری اُتری ہوگی، تو شایع کردی گئی ہوگی، جب کہ آپ کی شاعری یقیناً بے وزن ہوگی۔ ہاں البتہ ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں ناموں کے مخفّف شایع کرنے کا آئیڈیا اچھا ہے۔
نعمتِ غیرمترقبہ سے کم نہیں!!
آپ کے زیرِ نگرانی ’’سنڈے میگزین‘‘ ترقی کی منازل طےکررہا ہے۔ کئی معززومحترم لکھاری معاشرے کے سلگتے مسائل پر مسلسل لکھ لکھ کرحب الوطنی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کا ذکر تو جب بھی آتا ہے، دل خُون کے آنسو روتا ہے۔ گرچہ ہم تو یہیں پیدا ہوئے، یہیں پلےبڑھے، مگراِس خیال سےکہ اِس مملکتِ خداداد کے لیے ہمارے اکابرین نے کیا کیا قربانیاں نہیں دیں، دل غم سے بَھرجاتا ہے۔ اور پھر آج 75 برس بعد، اِس مُلک کا جو حشر کردیا گیا ہے کہ صاحبانِ اقتدار کی لُوٹ کھسوٹ نے ہمیں دنیا کی نظروں میں ایک بھکاری مُلک ہی بنادیاہے، دیکھ کرجی بہت کڑھتا ہے۔
فرانس میں قبل ازوقت انتخابات ہوئے، مگر ہمیں تو انتخابات کا ذکر سُن کر ہی نہ جانے کیوں متلی سی ہونے لگتی ہے، بخدا اِس پی ٹی آئی نے تو جمہوریت اور انتخابات سے بھی نفرت کروا دی ہے۔ اِن کا چار سالہ دورِ حکومت انتہائی عبرت ناک تھا۔ ایک نالائق اور بدتمیز قیادت نے پورے مُلک کا ستیاناس کرکےرکھ دیا، اِس کے باوجود پتا نہیں کیوں عقل کے اندھے لوگ اُن کے نام کی مالا جپتے ہیں۔ خیر، سولر انرجی جیسے اہم ترین موضوع پر رئوف ظفر قلم طراز تھے۔ یہ آئی پی پیز کا معاملہ بھی عجب معمّا ہے۔
ڈاکٹر قمر عباس ’’ایک تھا راجا‘‘کے ساتھ آئے، شان دار تحریر تھی۔ ’’اسٹائل‘‘ کا رائٹ اَپ ہمیشہ کی طرح بہترین تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں قاضی جمشید نے تربوز کےبےشمار فوائد بتائے، بہت شکریہ۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ آج کے اِس نفسانفسی کے دَور میں کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ محفل میں پرنس افضل شاہین، ناز جعفری، رونق افروز برقی، بابر سلیم خان، بے کار ملک وغیرہ موجود تھے اور ہاں، درپن جاندہ کو آپ نے جو خُوب کرارا جواب دیا اورآئینہ دکھایا، قسم سے دل خوش ہوگیا۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، کوٹ ادّو، ضلع مظفّرگڑھ)
ج: جی… ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلے سے متعلق خود ہماری رائے بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اِسی لیے بعض قارئین کے معترض ہونے کے باوجود بھی ہم سلسلے کو مستقلاً جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ سب سے زیادہ نگارشات بھی اِسی سلسلے کے لیے وصول پاتی ہیں۔
لطائف قراردے دیا
اُمید ہے، مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات موجود تھے۔ سلسلہ ’’شعراء کرام‘‘ میں حکیم ابوالقاسم طوسی المعروف بہ فردوسی اور مولانا محمّد جلال الدین رومی سے متعلق معلومات افزا مضامین پڑھنے کو ملے۔ دونوں سے متعلق اتنا کچھ جان کر بہت ہی اچھا لگا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں شہدائے کربلا سے متعلق تحریراور تصاویر دیکھ کر دل بَھر آیا، آنکھیں نم ہوگئیں۔
برطانیہ، فرانس، ایران کے انتخابات میں عوام نے نئی قیادتوں کو موقع دیا ہے۔ اب حُکم رانوں کو بھی چاہیےکہ عوام کو مایوس نہ کریں۔ نوجوان ٹیلنٹڈ باکسر شیرباز مَری سے ملاقات خُوب رہی۔ ہم بھی اپیل کریں گے کہ حکومت ایسےٹیلنٹڈ نوجوانوں کو وسائل مہیا کرے۔ آم کے طبّی فوائد پڑھے۔ آم تو ہمیں پہلے ہی بہت پسند تھے، اب فوائد پڑھ کر اور زیادہ اچھے لگنے لگے ہیں۔ پہلے شمارے میں آپ نے بےکار ملک کے خطوط کو لطائف قرار دیا، پھر دوسرے شمارے میں انہوں نے کچھ سیدھی، سچی، کھری باتیں کیں تو آپ نے انہیں بھی مذاق میں اُڑا دیا۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: جس شخص نے اپنا نام ہی ’’بے کار ملک‘‘ رکھ چھوڑا ہو، اب ہم اُن کی باتوں کو کتنا اور کہاں تک سیریس لیں۔
جمہوریت ، برداشت کا دوسرا نام
شمارہ موصول ہوا، سرِورق پلٹ کر آگے بڑھ گئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘میں منور مرزا برطانیہ میں قبل از وقت انتخابات کی تفصیل بتا رہے تھے۔ برطانیہ کو موجودہ جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہےاوردنیا کےاکثرممالک میں یہی برطانوی جمہوریت رائج ہے، جب کہ ہمارے لیڈرز بھی اُس کے گن گاتے نہیں تھکتے، مگر لمحۂ فکریہ یہ ہےکہ ہمارے وہ لیڈر، جو برطانیہ میں پڑھے اور سال ہا سال وہاں رہنے کے بعد پاکستان آکر سیاست کی، وہ اُن کی ساری جمہوریت وہیں چھوڑ آئے اور یہاں آکر آمریت کی وہ مثال قائم کی کہ اب بے چاری جمہوریت تو ایک کونے میں پڑی سسک رہی ہے۔
الیکشن جیتنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، ساری عُمر اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش رکھنا، مخالفین کو دبانے کے لیے اُن پر جھوٹے، سچّے مقدمات قائم کرنا اور اگر اپنی ہی نالائقیوں کی بنیاد پر اقتدارچِھن جائے، تودہائیاں دینا، کیا یہی جمہوریت ہے۔ مقتدر اداروں پر حملے، مُلک کی سالمیت تک داؤ پر لگانے سے گریز نہ کرنا، ہماقتدار میں ہیں، تو مُلک ہے، نہیں تو سب بھاڑ میں جائے، کیا یہ ہے وہ برطانوی جمہوریت، جس کے یہ اُٹھتے بیٹھتے حوالے دیتے، گن گاتے ہیں۔ بیلٹ پیپر کی سیاہی خشک نہیں ہوتی کہ دھاندلی کا شور، ہٹائو، نکالو کے نعرےشروع ہوجاتے ہیں۔ خدارا! کوئی انہیں سمجھائے کہ جمہوریت دراصل برداشت کا دوسرا نام ہے۔
جسے عوام نے چُن لیا، اُسے مدت پوری کرنے کا حق حاصل ہے اور اُسے ہٹانے کے بھی جمہوری طریقے موجود ہیں۔ فیصلے سڑکوں پر نہیں، پارلیمان میں ہونے چاہئیں۔ یورپ، امریکا کو چھوڑیں وہاں تودو تین سوسال سے جمہوریت ہے، بھارت ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا ہے، اُن ہی سے کچھ سیکھ لیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں سلطان محمّد فاتح، ایفائے عہد کی اہمیت قرآن و حدیث سے ثابت کر رہے تھے اور بہت ہی خُوب صورتی وعُمدگی سے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں محمّد علی حسنین نے علامہ اقبالؒ کےفلسفۂ خودی کی اہمیت و افادیت بھی بہترین انداز سے اجاگر کی۔
’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں فرخ شہزاد ملک بلوچستان کے چھے اضلاع میں خواتین ڈپٹی کمشنرز کی تعیناتی کی تفصیل لائے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں انور مسعود کی رباعی پڑھ کے ہی آگے بڑھ گئے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں انجینئر پرویز آرائیں ’’امریکا یاترا‘‘ کی آخری قسط لائے، تو ’’پیارا گھر‘‘ میں حکیم حارث نسیم قربانی کے گوشت کےبے تحاشا استعمال کے نقصانات سے آگاہ کر رہے تھے۔
منیبہ مختار کی چکن سہانجنا کے ڈش زبردست تھی۔ اور اب بات، اپنے باغ بہار صفحے کی ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز محمد جاوید اقبال کے نام رہا، بہت مبارکاں۔ باقی لکھاری بھی اچھی کاوشیں لائے۔ اگلے ایڈیشن کے سرورق پر امام حسینؓ کے روضۂ مبارک کی زیارت کرتے آگے بڑھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر حافظ حقانی اور حافظ مطلوب نے سیدنا امام حسینؓ کی قربانی کو بڑی چاہت و محبت سے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ بے شک ؎ قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے… اسلام زندہ ہوتاہے، ہر کربلاکےبعد۔
سلطان محمد فاتح قناعت پسندی کی اہمیت قرآن و حدیث سے واضح کر رہے تھے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود احفاظ الرحمٰن ایوارڈ کی تقریب کی رُواداد لائے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹرغلام علی مندرہ والا نے ہیپاٹائٹس سے متعلق اہم معلومات دیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے نواسۂ رسولؐ، امامِ عالی مقامؓ کے پیدائش سے شہادت تک کے تفصیلی حالات قلم بند کیے۔
سیّد ثقلین علی نقوی، اشرف عباس کی55سالہ خدمات کا ذکر کر رہے تھے۔ پوچھنا یہ تھا کہ تصویر میں بھیگتی مَسوں سے تو یہ میٹرک کے طالبِ علم لگتےہیں، مگر تحریر میں پختگی عالمانہ فکر کی ہے، جیسے مشّاق لکھاری ہوں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ پراخترسعیدی کا تبصرہ حسبِ روایت عُمدہ تھا اورباغ و بہار صفحے پر ہماری چٹھی کا پھول کِھلا نظر آیا، تو دل خوش ہوگیا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)
ج: آپ کا دل خوش ہوگیا، لیکن آپ کے یہ شیطان کی آنت جیسے دراز خطوط ایڈٹ کرتے کرتے ہمارے ہاتھ شل ہوجاتے ہیں۔ ثقلین کی عُمر کچھ زیادہ نہیں، لیکن اب میٹرک کے طالب علم بھی نہیں ہیں۔ ہاں ’’عُمر چور افراد‘‘ کی کیٹیگری میں ضرورشامل کیے جاسکتے ہیں۔ اورخیر سے آپ کا سیاسی تجزیہ تو ہماری ہر حکومت ہی پربآسانی منطبق ہوسکتا ہے، اللہ نظرِ بد سے بچائے، ایسے کلاسیکل جمہوریت پسند ہیں ہم۔
فی امان اللہ
جولائی کے پہلے ہفتےکا شمارہ اہم موضوعات لیے دعوتِ مطالعہ دے رہا تھا۔ سب سے پہلے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا تجزیہ پڑھا۔ ’’جنوبی ایشیا ترقی سے محروم کیوں۔۔۔؟‘‘ بہت ہی اہمیت کے حامل موضوع پرانتہائی جامع اور پُرمغز تحریر پڑھنےکوملی۔ بلاشبہ جب تک ہمارے حُکم ران موجودہ روایتی، گھسی پٹے اور فرسودہ طرز حُکم رانی سے ہٹ کر out of box اقدامات نہیں کریں گے، ترقی وخوش حالی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونا ممکن نہیں اور اِن اقدامات میں سرِفہرست انڈسٹریز کا قیام، طبقۂ اشرافیہ کے لیے ہرقسم کی مفت مراعات کا خاتمہ اور فنی تعلیمی نصاب کا نفاذ وغیرہ شامل ہیں۔
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ہجرتِ نبوی ﷺ سے متعلق رُوح پرور تحریر رقم کی گئی۔ تاریخِ اسلام میں ہجرتِ نبویؐ واقعتاً ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں محمود شام ’’طلبہ پر مشتمل تھنک ٹینکس‘‘ کے عنوان سے قلم طراز تھے۔ شام جی یقیناً بہت بڑے لکھاری ہیں، لیکن اُن سےازحد معذرت کے ساتھ، میرے خیال میں، موجودہ دَور میں اِن سیمینارز، مذاکروں اور کاغذی تحقیقی مقالہ جات کی حیثیت سوائے ’’نشستند و گفتند و برخاستند‘‘ کے کچھ نہیں۔ جب تک کہ اِن کو ریسرچ کی بھٹّی میں نہیں ڈالا جاتا۔ ہمارے لیے اب واحد راستہ علومِ جدید کے ضمن میں ایک ٹھوس، مثبت اور آزادانہ سوچ اوررویہ اختیار کرنا ہی رہ گیا ہے۔
بقول اقبال ؎ حکمت و فلسفہ کارے است کہ پایانش نیست…سیلی عشق و محبت بہ دبستانش نیست۔ مطلب ’’سائنس اور فلسفہ وہ مضامین ہیں، جن کی کوئی انتہا نہیں۔‘‘ ’’رپورٹ‘‘ میں خیام الپاک ظفر نےقمری سفر کی رُواداد بیان فرمائی۔ بھئی، چاند پرجانےکا مشن تو ایسے ہی ہے کہ ؎ ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا… اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا۔ زمین پر بھوک، ننگ، غربت و افلاس رقصاں ہے۔ اور ہم چلے چاند کے سفر پر، واہ جی واہ، وہ اقبال نے کیا خُوب کہا ہے ؎ جس نے سورج کی شعائوں کو گرفتار کیا…زندگی کی شبِ تاریک، سحر کر نہ سکا۔
’’شعراء کرام‘‘ میں فارسی زبان کے عظیم شعراء سے متعلق تو گویا معلومات کا خزانہ لٹایا جا رہا ہے۔ وحید زہیر نے قاضی عبدالحمید شہزاد سے بھی خُوب ’’انٹرویو‘‘ لیا اور آپ کی دونوں ماڈلز بھی ماشااللہ حسین تھیں (نظربد دُور)۔ اُس پر ایڈیٹر صاحبہ کی چمکتی دمکتی تحریر’’سونے پہ سہاگے‘‘ کے مثل معلوم ہوئی۔
آسٹریلیا کا سفرنامہ دل نشین تھا، لیکن وطنِ عزیز میں قدم رکھتے ہی ہمارے مزاج کیوں بگڑجاتے ہیں؟؟ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر ایم عارف سکندری نے معدے سے متعلق اچھی معلومات دیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حافظ بلال بشیر صبروتحمل، برداشت و بردباری کا درس دے رہے تھے، تو ڈاکٹر شاہد نےآڑو کی افادیت بیان فرمائی،جب کہ قراۃ العین نے گوشت کے پکوان کی بجائےسبزیوں کے پکوان سے دعوت کرڈالی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ زاہد اور ڈاکٹر عزیزہ انجم کی تحاریر نہ صرف متاثر کُن بلکہ سبق آموز بھی تھیں۔
اور اب آتے ہیں ’’آپ کے صفحہ‘‘ پر، جس میں لگ بھگ تمام خطوط نگاروں نے اچھے خطوط لکھے، جب کہ عشرت جہاں کو ’’ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز بہت مبارک، عورت واقعی نسلوں کی پاسبان ہے۔ مسئلہ فلسطین سے متعلق ہم خاصے بے حس ہو چُکے ہیں، وگرنہ سچ تو یہ ہے کہ ؎ مبتلائے درد کوئی عضو ہو، روتی ہے آنکھ… کس قدر ہم درد، سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ۔ اور اے کاش کہ ؎ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے… نیل کے ساحل سے لےکرتابہ خاکِ کاشغر۔ (جاوید اقبال بلدیہ کالونی، چشتیاں، بہاول نگر)
ج: بہت خوب، آپ نے خط میں علامہ صاحب کے کئی اشعار برمحل اور سو فی صد درست نقل کیے۔ شمارے کے مندرجات پر تبصرہ تو اپنی جگہ عمدگی سے کیا ہی گیا، اشعار کے چناؤ، استعمال اور خصوصاً مکمل درستی کے ساتھ استعمال پر ہماری طرف سے شاباشی قبول فرمائیں۔
* بہت عرصے کی procrastination کو پسِ پشت ڈال کر بالآخر محفل میں شریک ہوں۔ اس بارمحض دو، تین سوالات کے ساتھ حاضر ہوئی ہوں۔ پہلا تو یہ کہ زیرِ نظر شمارے میں تمام چٹھیاں لکھنے والوں کا شہر ہی نہیں، محلہ بھی درج ہے، جب کہ ای میل والوں کا صرف نام (کیایہ کُھلا تضاد نہیں؟)ای میل والے اپنا ٹھکانہ ظاہر کرنے سے کتراتے ہیں یا آپ جگہ بچانے کےلیے کنجوسی سے کام لے جاتی ہیں؟ دوسرا یہ کہ آپ سے ہر دوسرے شمارے میں کوئی نہ کوئی تحریر بھیجنےکےمتعلق استفسارکرتا نظر آتا ہے۔
آپ کیوں ایک ہی بار ’’دعوتِ عام‘‘ کے ساتھ تمام ہدایات بھی شامل کر کے اپنی جان نہیں چُھڑالیتیں؟جیسا کہ تحریر مائکروسافٹ ورڈ میں کمپوز کرکے بھیجی جا سکتی ہے یا اِن پیج والی خواری لازمی ہے؟ ای میل رومن میں لکھی جا سکتی ہےیا اردو میں لکھنا شرط ہے؟ کسی اور سلسلے کے لیے تحریر اِسی ای میل ایڈریس پر بھیجیں یا اُس کے لیے الگ پتاہے،وغیرہ وغیرہ (مجھ جیسے باقاعدہ قارئین توجانتے ہیں کہ ورڈ میں لکھا جا سکتا ہے لیکن، اِن پیج بہتر ہے اور یہ کہ تمام تحریریں اِسی ای میل ایڈریس پر ارسال کی جاتی ہیں)۔
تیسرا یہ کہ نرجس مختار کو تو آپ مسند والی چٹھی نہ لکھ پانے پر تسلی دیتی نظر آئیں، جب کہ مجھے اِس بار کی ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ باقی چٹھیوں کی طرح بالکل عام سی لگی (نام لے کر دل آزاری نہیں کروں گی)۔ گوکہ فی الحال میرے اُن جیسے کوئی پلان نہیں، لیکن مسند پر براجمان ہونے کی خواہش رکھنے والوں کی سہولت کےلیے اگر آپ انتخاب کا پیمانہ یا criteria بتا دیں تو شاید بہت سوں کا بھلاہو اوروہ مجھےبھی دُعائیں دیں۔ (پیمانہ نہیں بتا سکتیں، تو پھر کمی پوری کرنے کے لیے آپ خُود ہی مجھے دُعائیں دے دیں، وہ بھی چلے گا)۔ (مشرقی لڑکی، الرحمان گارڈن، لاہور)
ج: ہمیشہ خوش رہو لڑکی۔(دُعا تو ہوگئی) ’’دعوتِ عام‘‘ ایک بار نہیں، متعدد مرتبہ دی جا چُکی ہے۔ (اب اگر تم چاہتی ہو کہ باقاعدہ طعام و قیام کا بھی انتظام کیا جائے، تویہ ممکن نہیں)ای میل والے، سُستی کے مارے، بعض اوقات تو صرف آئی ڈی لکھ کے میل کر دیتے ہیں، اب ہم ان کے شہر، علاقے معلوم کروانے کے لیے کیا ان کی آئی ڈیز ہیک کروائیں۔(تم اپنا جو نام وپتا لکھتی ہو، کیا بعینہ وہی شایع نہیں ہوتا، تو باقیوں نےکون سا ہمارا قرض چُکانا ہے کہ ہم اُن کے لیےکنجوس ٹھہرے) ویسے تم پلان ضرور بناؤ کہ تم میں ’’مسند والی چٹھی‘‘ کی سو فی صد اہلیت ہے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk