• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

لطائف بند کرنے کی دھمکی

’’عید الاضحٰی اسپیشل‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد عثمانی نےفلسفۂ قربانی، تصّورِعیدالاضحٰی سے متعلق بہترین تحریر پیش کی۔ انتہائی معلوماتی، پُراثر مضمون تھا، جب کہ منور راجپوت نے تہواروں سے متعلق کچھ لوگوں کے خیالات پر مبنی تحریر قلم بند کی۔ ڈاکٹر شہنیلا کاشف نے ایک جگہ لکھا کہ ’’بحالیٔ صحت کے لیے گوشت کا استعمال بہت سُود ثابت ہوتا ہے‘‘ ذرا اس جملے کی وضاحت کردیں گی۔ ’’فادرز ڈے اسپیشل‘‘ میں رؤف ظفر نے معروف گلوکار، نغمہ نگار، میوزک کمپوزر، شیرازاُپل وِد فیملی خصوصی ملاقات کروائی، قسم سے لُطف آگیا۔ 

ڈاکٹر عزیزہ انجم نے قربانی کے مقاصد بہت خُوب صُورتی وعُمدگی سے بیان کیے۔ رستم علی خان کی ایک تجویز بہت پسند آئی کہ سرکاری سطح پر قربانی کے جانوروں کے نرخ مقررہونے چاہئیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ہمیشہ کی طرح چھائے ہوئے تھے۔ اللہ کرے، ہمارے حُکم ران بھی اُن کے مضامین پڑھنا شروع کردیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں فرحی نعیم نے فادرز ڈے کے حوالے سے اچھا مضمون تحریر کیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ نے نفس کی قربانی کا درس دیا، تو عالیہ زاہد بھٹی کا افسانہ بھی حقیقت سے قریب تر تھا۔ اب آئیے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر، آپ نے خادم ملک کے لطائف بند کرنے کی دھمکی دی ہے، توخدارا! ایسا ہرگز نہ کیجیے گا۔ بزم کی ساری رونق ہی ختم ہوجائےگی۔ لوڈشیڈنگ نے ویسے ہی ہماری زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3، کراچی)

ج: ارے بھئی، لفظ ’’سُود مند ‘‘ سہواً ’’سود‘‘ شائع ہوگیا تھا۔ پروف کی غلطی ہے، لیکن ہمارا نہیں خیال کہ علاوہ آپ کے، ایک بھی قاری کو جملہ سمجھ نہیں آیا ہوگا۔ لطائف بند کرنے کی دھمکی سے خُود خادم ملک اتنے خائف نہیں ہوئے ہوں گے، جتنے آپ ہوگئے۔ اُن سے آپ کا Obsession تو ہماری عقل سے ماورا، سمجھ ہی سے بالاتر ہے۔

ایک علمی و ادبی خزانہ

’’سنڈے میگزین‘‘ اپنی مسلسل اشاعت کے ساتھ ہنوز ایک منفرد اور جاذبِ نظر رسالہ ہے۔ وہ کیا ہے کہ زندگی کی اتواروں میں ہوا کے خوش گوار جھونکوں کے مثل۔ ہر اتوار لاکھوں قارئین اِس سے مستفید ہوتے ہیں اور ہر طبقۂ فکر ہی کےافراد اس سےڈھیروں ڈھیر معلومات کے ساتھ، خوب تفریح کا سامان بھی پاتے ہیں۔ 

ہر ہر صفحہ، خواہ وہ دینی معلومات پر مبنی ہو یا دنیاوی، سرچشمۂ ہدایت تا آپ کا صفحہ، قارئین کے لیے گویا ایک علمی و ادبی خزانہ ہے۔ پھر تصاویر کا معیار، حسین لے آئوٹس، خُوب صُورت شوٹس، سُرخیاں، اشعار سب کے سب سیدھے دل میں اُترتے سے معلوم ہوتے ہیں۔ (شری مان مُرلی چند ولد گوپی چند گھوکلیہ، مہر پاڑا، شکارپور، سندھ)

ج: اندازِ تحریر سے لے کر نام و پتا تک بدلا بدلا سا ہے، اللہ خیر کرے، سب ٹھیک ہے ناں!!

قدیم روایت کا احیاء، کارنامے سے کم نہیں

یہ دورِ جدید ہے، دنیا ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے سے آگے بڑھتی جارہی ہے، یہاں تک کہ بات مصنوعی ذہانت تک جا پہنچی ہے۔ دنیا بَھر میں روایتی انداز سے خط لکھنے کی روایت تقریباً دَم ہی توڑ چُکی ہے۔ ایسے میں سنڈے میگزین جیسے علمی و ادبی جریدے کی بدولت اس قدیم روایت کا احیاء کسی کارنامے سے کم نہیں۔ ابتداً دو چار خطوط کی اشاعت کے بعد اب اِس آدھی ملاقات کے ذریعے ’’سنڈے میگزین‘‘ سے جُڑے رہنا مجھے بہت بھلا محسوس ہوتا ہے۔ خیر، اب کچھ بات ہوجائے، حالیہ جریدے کی، تو جولائی کے حبس زدہ موسم میں سنڈے میگزین کی آمد گویا تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ 

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا جنوب ایشیائی خطّے کی ترقی سے محرومی کا رونا رو رہے تھے۔ پون صدی سےزیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود جنوبی ایشیا کے اہم ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان علاقائی تنازعات ہی ختم نہیں ہورہے، تو اِن حالات میں ترقی کا خواب کیوں کر شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے’’ہجرتِ نبویؐ ، تقویمِ اسلام کی بنیاد، سن ہجری کا نقطۂ آغاز‘‘ کے موضوع پر بہت خُوب صُورت، جامع مضمون قلم بند کیا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں محمود شام نےجامعہ کراچی میں ہونےوالے سیمینار بعنوان ’’تاریخی و ادبی مطالعات میں نئے رجحانات‘‘ پر بہترین قلم کشائی کی۔ 

ساتھ ہی سرکاری و نجی جامعات کا کنسورشیم بنا کر ایک میڈیا ہائوس قائم کرنے کا گراں قدر مشورہ بھی دیا۔ خیام الپاک نے پاکستان اور چین کے مشترکہ قمری مشن پرمختصرمضمون تحریرکیا۔ ’’شعراء کرام‘‘ سلسلے میں فارسی کے مشہور شاعر فردوسی کے حالاتِ زندگی احسن انداز سے قلم بندکیےگئے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں بلوچستان کی مشہور شخصیت قاضی عبدالحمید کی گہری باتیں اچھی لگیں۔ ’’اسٹائل‘‘ پر آپ کی تحریر اس بار صنفِ مخالف کے گرد گھوم رہی تھی۔ 

’’جہانِ دیگر‘‘ میں ضیاء الحق نےسڈنی کا سفربڑے دل چسپ، رواں پیرائے میں یبان کیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کی دونوں تحریریں بھی مفید اور معلوماتی تھیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حافظ بلال بشیر نے صبر و تحمّل پر اصلاحی مضمون لکھا، تو ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ زاہد بھٹّی نے صلۂ رحمی سے متعلق خُوب صُورت افسانہ تحریرکیا۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم کا افسانہ بھی خُوب تھا۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ اور…’’آپ کا صفحہ‘‘حسبِ روایت قارئین کے دل چسپ خطوط اور آپ کے اعلیٰ جوابات سے مرصّع تھا۔ (عائشہ ناصر، دہلی کالونی، کراچی)

ج: جی بس، شُکر ہے، اللہ پاک کا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔

امیر خسرو کا مکمل گیت

’’عیدالاضحٰی ایڈیشن‘‘ میں لگ بھگ تمام ہی مضامین عیدِ قرباں کی مناسبت سے شائع کیے گئے۔الحمدللہ، سب ہی اچھے تھے، بےحد شوق و جستجو سے پڑھے گئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ کے تحت منور مرزا کے لاجواب تجزیات شایع کرکے تو گویا مُلک و قوم پر ایک احسانِ عظیم کیا جا رہا ہے کہ معلومات میں گراں قدراضافے کے ساتھ خُوب اصلاح ورہنمائی بھی ہورہی ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ کے افسانے ’’قربانی‘‘ اور عالیہ زاہد بھٹی کے ’’اوور ٹائم‘‘ کا جواب نہ تھا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ ہر پیغام ہی اپنی جگہ خوب تھا۔ اور ہاں، آپ نے ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سلیم انور کی فرمائش پرامیر خسرو کا مکمل گیت شائع کرکے تو کمال ہی کردیا۔ ہمیں بھی یہ گیت عرصے بعد پڑھنے کو ملا، بے حدشکریہ آپ کا۔ 

اگلے جریدے کے آغاز ہی میں منور مرزا ’’حالات و واقعات‘‘ کے ساتھ موجود تھے۔ فرانس کےالیکشن پرایک مستند مضمون پڑھنے کومِلا۔ ’’سنڈےاسپیشل‘‘ میں رؤف ظفرنے سولر انرجی پرطویل، لیکن انتہائی معلوماتی مضمون تحریرکیا۔ ’’خانوادے‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس موجود تھے۔ ایک تاریخی اور معلومات سے بھرپور مضمون نظر نواز ہوا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ممتاز حسین انصاری، اظہر عزمی اور سید بختیار الدین نےاپنےاپنےوالدِ گرامی پر مضامین لکھے، پڑھ کربے حد خوشی ہوئی کہ اب بچّے، مائوں کے ساتھ اپنے باپوں کو بھی بہترین انداز سے خراجِ تحسین وعقیدت پیش کرنے لگے ہیں۔ اور اِس میں بڑا ہاتھ آپ لوگوں کی موٹیویشن کا ہے ۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج : ویسے ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہماری ایک چھوٹی سی کوشش کواتنی پذیرائی ملے گی۔ نیٹ سےایک گیت سرچ کرکے شایع کردینا بھی بھلا کوئی کام ہے کہ جس پر کئی لوگوں نے ذاتی طور پر شکریہ ادا کیا، تو کتنوں نے بذریعہ خطوط۔

سدا نہ ماپے، حُسن، جوانی، سدا نہ صحبتِ یاراں

یوں تو سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی، لیکن اس بارجوہمیں ’’مسندِ خاص‘‘ پر بٹھایا گیا، تو یقین وبے یقینی کےعالم میں کبھی خُود کو، کبھی کرسی کو دیکھتےرہے۔ پکّی پکّی مِل جانےکے خیال سے جو اُسے مضبوطی سے تھامنا چاہا، تو کہیں سے آواز سی آئی ؎ سَدا نہ باغیں بُلبُل بولے ، سَدا نہ باغ بہاراں…سدا نہ ماپے، حُسن، جوانی، سدا نہ صحبتِ یاراں۔ فوراً یاد آگیا کہ یہ کرسی تو سو فی صد میرٹ ہی پر ملتی ہے اور پھر اِسی کرسی پہ بیٹھے بیٹھے سنڈے میگزین کا ایک شان دار، تعمیری سلسلہ ’’اِن اینڈ آؤٹ‘‘ یاد آگیا کہ کیسے کیسے اُبھرتے (عروج)، ڈوبتے سورج (زوال) کی کہانیاں ہم نے ملاحظہ نہیں کیں۔ 

ہائے! خیالات کی پرواز نے کہاں سے کہاں پہنچادیا کہ کرسی پر بیٹھنے کااصل مقصد ہی بھول گیا۔ خیر، برق رفتاری سے میگزین کے اوراق جو الٹے، تو کئی تعمیری سانچے، خوابوں کوحقیقتوں کارنگ دیتےنظرآئے۔معروف افسانہ نگار ظفرمعراج کی اُجلی ترین ’’گفتگو‘‘ میں یہ سطر کہ’’ اپنے نوجوانوں کو اپنی کہانیاں سُنائیں۔ اپنی شناخت کروائیں۔دوسروں کی کہانیاں سُن سُن کرتووہ خودسے بےگانے ہوجائیں گے۔‘‘ 

لاجواب اور وقت کی اہم ضرورت لگی۔ برسات کے موسم میں، ٹپ ٹپ گرتی بوندوں کی پازیب کے ساتھ نرجس ملک کی شعروں کی جھانجھر سے کھنکتی تحریر، نیلے پیلے پیراہن کے ساتھ ملی، تو جیسے ڈالیاں رقص کرنے لگیں۔ خوشبوئوں سے دروبام مہک اُٹھے۔ موسم، ماحول سب گنگنانے لگے۔ یاد گارِ غالب لائبریری کی ناگفتہ بہ حالت اپنی زبان سے کہہ رہی تھی کہ ؎ کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے… یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی۔ 

گندم کی کٹائی کا منظرلبوں پہ دُعا لایا کہ ؎ مٹی کا تِری رنگ، زَروسیم کی طرح…دریا رَواں ہیں، کوثر و تسنیم کی طرح…جنّت نشاں، مست نظاروں کی خیر ہو…اے مادرِ وطن! ترے پیاروں کی خیر ہو!! مادرِوطن کےذکرکےساتھ ہی لہو رنگ غزہ کی مائوں کےصبر و استقامت کو سلام پیش کیا کہ جو اپنے بچّوں کی لاشیں کاندھوں، سینوں سے لگائے دنیا کو للکار رہی ہیں اور ہم ہیں کہ جرمِ زباں بندی میں ملوث، 157اسلامی ممالک خُود سے بھی نظریں ملانے کے لائق نہیں۔ ہاں، اِن معصوموں نےاپنے لہو سے جنّت میں ضرور چراغاں کر دیا ہے کہ بلاشبہ ؎ خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج: آپ کی تحریر ہمیشہ ہی اچھی ہوتی ہے بشرطیکہ غیرضروری طور پر طویل نہ ہو، مگر مسئلہ ہی یہ ہے کہ آپ لکھتے لکھتے بھول ہی جاتی ہیں کہ یہ خط ہے، داستانِ امیرحمزہ نہیں۔ لیکن چوں کہ ہمیں تو یاد رکھنا ہی پڑتا ہے، تو پھر صُورت کچھ یوں بنتی ہے کہ80 فی صد خط ایڈیٹنگ کی نذر ہوجاتا ہے۔

ماڈلنگ کی دنیا کے چاہت فتح علی خان

دیکھیے، آپ نے ہمیں ماڈلنگ سے حشر تک نااہل کردیا ہے۔ براہِ مہربانی اپنے فیصلے پر نظرِثانی کریں، آج کل ویسے بھی پورا مُلک سخت پریشان ہے، بجلی کے بل، گیس کے بل، آسمان کوچھوتی منہگائی، یوں لگتا ہے، عوام کا کام صرف ٹیکس کی ادائی ہی رہ گیا ہے۔ اور پھر ایسے میں ہمیں ماڈلنگ کا موقع بھی نہ دیا جائےتواس سےزیادہ افسوس ناک بات کیا ہوگی۔

اس مُلک کے ہرشعبے میں پرچی چلتی ہے، اگر ایک پرچی آپ بھی چلا لیں، تو کیا حرج ہے۔ یقین مانیں، ہم ماڈلنگ کی دنیا کے چاہت فتح علی خان ہیں۔ اور ہاں، یہ سچ ہے کہ ہمارے خطوط میں اونگیاں بونگیاں ہی ہوتی ہیں، لیکن اس قدرشدید منہگائی کے دَورمیں اگرمرزا غالب بھی خط لکھتے، تو اُن کے قلم سے پھول نہیں جھڑ سکتے تھے۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: آپ سے کہا تو تھا کہ اپنا پورٹ فولیو بھیج دیں۔ شوٹ کے طورپرنہ سہی، ؎’’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘کے عنوان ہی سے لگا دیں گے۔

          فی امان للہ

اس ہفتے کی چٹھی

اُمید ہے، مزاج بخیر ہوں گے، گرچہ رُوح جھلساتی گرمی مزاج پوچھ ہی رہی ہے۔ چلیں خیر، عید کا شمارہ سامنے ہے، میز پر چُنے گئے لوازمات مصنوعی سے لگے۔ مندرجات پر نظر دوڑائی، عیدالاضحٰی کے فلسفۂ قربانی پر غور کیا تو ادراک ہوا کہ ایک طرف باپ کے جذبۂ ایمانی کا امتحان مقصود تھا، تو دوسری جانب بیٹے کی سعادت و مودت کا اظہار بھی تھا۔ خواب کے مندرجات پر باپ، بیٹا بات چیت کررہے ہیں اور بیٹا کمال سعادت مندی اورعجزو انکساری کا نمونہ، قرآن کی زبان میں کہہ رہا ہے۔ ’’جو حُکم دیا گیا، کرگزریئے۔ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔ 

ماں کی تربیت بول رہی تھی، بےشک، یہ پورے خاندان کی آزمائش تھی اور ہر فرد ہی سُرخ رُو ہوا۔ تب ہی اِس لازوال واقعے کو قیامت تک کے انسانوں کے لیے مثال بنا دیا گیا۔ اللہ کو کامل ایمان چاہیے۔ جنّت اپنے اعمال کی بدولت نہیں بلکہ اُس کے فضل اور لُطف و کرم کی بناء پر ملے گی۔ شائستہ اظہر صدیقی خاص شمارے کی خاص الخاص چٹھی کی حق دار ٹھہریں۔ ورڈزورتھ کی امرنظم ’’ڈیفوڈلز‘‘ کا حوالہ خُوب دیا۔ للی کے پھولوں کا کھیت، یادوں کا استعارہ بن گیا کہ آج تو فرصت کے لمحات خواب و خیال بن کر رہ گئے ہیں۔ ہر ذی نفس کو ہر چیز کی جلدی ہے۔ 

ہائے، ہم بھی بس فاسٹ فارورڈ زندگی ہی جی رہے ہیں۔ ہرچیز فاسٹ، حتیٰ کہ کھانا بھی فاسٹ ہوگیا ہے۔ پہلے پھر بٹن دبانے کا تکلّف تھا، اب تو وہ بھی نہ رہا۔ انگلیوں سے چُھو کر نت نئی دنیائوں کی سیر ہو رہی ہے۔ یقیناً سوچ کی لہروں سے خواہشات کی تکمیل کا سفر اب زیادہ دُورنہیں۔ ارضِ فلسطین کی حالتِ زار پردل بہت بےچین تھا۔ ہر وقت، اُٹھتے بیٹھتے یہی خیال بےسکون رکھتا تھا کہ یااللہ! پاک مظلوموں کے لیےمدد کیوں نہیں اُتررہی، اِن پر زمین و آسمان کیوں تنگ کردیئے گئے ہیں۔ 

ہرشے مخالف، ایسا بھی کیوں؟ اللہ جی!دُعائیں رد کیوں ہو رہی ہیں؟ پھر کچھ ایمان والوں کی مجلس میں بیٹھے تو حرف و معنی کے نئے نئے دَر وا ہوتے چلے گئے۔ ایک طرف اُن کا صبر و شُکر،استقلال، جذبۂ شہادت، دوسری جانب کفر کا گٹھ جوڑ، سازشیں، حدوں کو پار کرتا ظلم، ڈھٹائی۔ واقعتاً کافر کی تمام کوششیں دنیا ہی کے لیے ہیں کہ نہ خدا کے سامنے جواب دہی کا خوف، نہ اپنی بداعمالیوں کا ڈر۔ جو آزمائے گئے، وہ سُرخ رُو ہوگئے۔ اب اصل آزمائش تو ان کی ہوگی، جو تماش بین ہیں۔ 

حدیثِ مبارکہﷺ ہے کہ ’’دین سراسر خیرخواہی ہے۔‘‘ دین ہی تو دنیاداری بھی سکھاتا ہے کہ کس طرح معاملات کرنے ہیں، معاشرت نبھانی ہے۔ وگرنہ زوال تو ہر شے کو ہے۔ مرنا تو ہے ہی، چاہے گھر کا بستر ہو، محل ہو یا میدانِ جنگ۔ عید کے فوراً بعد کا شمارہ عید شمارے سے بھی زیادہ دل چسپ و پُربہار لگا۔ حسین سرِورق، حالات و واقعات کا مدلل تجزیہ، لازم و ملزوم، گفتگو، رپورٹ بہت کچھ تھا پڑھنے کو اور سب بہت اچھا۔ کنول بہزاد جتنی اچھی افسانہ نگار ہیں، اُتنی ہی اچھی سفرنامہ نگار بھی ثابت ہوئیں بلکہ افسانہ نگاری کی صلاحیت نے توسفر کے احوال کو بھی چار چاند لگا دیئے۔ ہم نے بھی رُوح کی سیلانی طبیعت سے مہمیز کا کام لیا ہے۔ شوقِ سفر کو پَر لگ چُکےہیں۔ اب ایک اور خواہش دُعا کی صورت جمع ہو گئی ہے کہ ’’اے خدا! ہمیں بھی اٹک خورد کی سیر کروا دیجیے۔‘‘ (عشرت جہاں، لاہور)

ج: گرچہ آپ نے اِس بار مندرجات پر تبصرے کی نسبت، عمومی خیالات و تاثرات کے اظہار پر زیادہ توجّہ مرکوز رکھی، لیکن پھربھی دیگر خطوط کے مقابلے میں آپ ہی کا خط سب سے بہتر معلوم ہوا۔

گوشہ برقی خطوط

* میری تحریریں اکثر ’’جسارت‘‘ کے سنڈے میگزین میں شائع ہوتی رہتی ہیں، لیکن میری خواہش ہے کہ ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ میں بھی میری تحریریں شایع ہوں، کیوں کہ ’’جنگ‘‘ ہمیشہ سے میرے والد صاحب کا پسندیدہ اخبار تھا۔ بچپن سے اِسی کو پڑھتے ہوئے یہاں تک پہنچی۔ اوراب مَیں چاہتی ہوں کہ والد صاحب سے متعلق میری تحریر یہیں شایع ہو۔ (روزینہ خورشید)

ج: آپ کی اپنے والد صاحب سے متعلق لکھی تحریر نظر سے گزری۔ بلاشبہ آپ نےاپنے جذبات و احساسات عُمدگی سے قلم بند کیے۔ ان شاء اللہ جلدیہ تحریر شاملِ اشاعت ہوگی، بلکہ ممکن ہے، آپ کی ای میل سے پہلے ہی شایع ہو جائے۔

* جریدے میں محمود میاں نجمی یہودیوں کی اسلام دشمنی بیان کر رہے تھے، جب کہ محمد کاشف نے حماس کی پسپائی کے اسباب بیان کیے۔ فلسطین کی آزادی کی دُعا مانگتے’’آپ کا صفحہ‘‘ پر جا پہنچا۔ اس بار،’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ لاجواب تھی۔ (وقار الحسن)

* رات سے گرج چمک کےساتھ بارش، طوفان، سیلاب کی وارننگ چل رہی ہے۔ گھر کی بجلی بھی غائب ہے (ویسے یہاں سال میں شاید ایک دو بار ہی لائٹ جاتی ہے، اگر موسم شدید خراب ہوتو…) سوچا، آپ کو ای میل ہی کر لوں۔ دو شماروں پر بات کروں گی۔ ایک تو ’’مدرزڈے ایڈیشن‘‘ تھا۔ ماؤں سے متعلق اتنے ڈھیرسارے مضامین پڑھ کے دل بہت افسردہ ہوگیا۔ 

اگلے ایڈیشن کے’’سرورق‘‘،’’اسٹائل‘‘ کے سفید پہناووں کے ساتھ رنگ برنگی اوڑھنیاں غضب ڈھا رہی تھیں۔ ماڈل بھی مَن موہنی سی تھی۔ انجینئر محمّد پرویز کے امریکا کےسفرنامے کی پہلی قسط پڑھی،جس میں انھوں نےنہ جانے کیوں ’’کشمیر نامہ‘‘ بھی شامل کردیا۔ افسانے ”آپشن‘‘ کا انجام سمجھ نہیں آیا، کیا افسانہ نگاراختتام کو مزاح کا رنگ دیناچاہ رہی تھیں۔ اور ہاں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اکثرایک ہی گھسا پٹا سوال ’’آپ کے میگزین میں کچھ لکھنا چاہتا/چاہتی ہوں،طریقہ بتادیں‘‘ پڑھ کے اب سخت غصہ آنے لگا ہے۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

ج : آپ جیسی متحمّل کو غصہ آنے لگا ہے، تو سوچیں، ہمارا کیا حال ہوتا ہوگا۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید