ذوالفقار احمد چیمہ، پاکستان پولیس سروس کے انتہائی زیرک، مستعد، نیک نام، روشن ضمیر، اصول پسند، محبِ وطن، دانش وَر، بحیثیتِ مجموعی ایک ’’رول ماڈل‘‘ آفیسر ہیں، جنہیں اپنے پورے عرصۂ ملازمت میں جرائم پر قابو پانے، امن وامان برقرار رکھنے کےحوالے سے ایک لیجینڈری پولیس آفیسر کی شہرت حاصل رہی۔ 1983ء میں سی ایس ایس کے بعد محکمۂ پولیس جوائن کیا اور آئی جی کے عہدے تک پہنچے۔
نیز، دیگر کئی اہم سرکاری اداروں میں بھی کلیدی عُہدوں پر تعینات رہے، جن میں وزیرِاعظم کے اسٹاف آفیسر مقرر ہونے کے ساتھ لاہورپولیس کی سربراہی کا فریضہ انجام دیا۔ پانچ ڈویژنژ کے ڈی آئی جی رہے۔ پی آئی اے کے سیکیوریٹی ہیڈ کی ذمے داریاں نبھائیں، تو پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل، موٹر وےپولیس کے انسپکٹر جنرل،نیشنل پولیس اکیڈمی کے کمانڈنٹ اوراسکل ڈویلپمنٹ کے قومی ادارے (نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن) کے سربراہ کے طور پر بھی بہترین خدمات انجام دیں۔
پنجاب کے کئی ایسے شہروں میں، جنہیں پولیس کے لیے’’نو گو ایریا‘‘ تصوّر کیا جاتا تھا، امنِ عامّہ کے قیام سے بہت نام کمایا، جب کہ حکومت نے سات مختلف مواقع پر کچھ بہت اہم، خصوصی ٹاسکس دیئے، تو اللہ کے فضل و کرم سے ہر میدان ہی میں کام یاب وکام ران، سُرخ رُو رہے۔
نیز، اپنی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں عام لوگوں سے تو بے پناہ خلوص ومحبت، عزت وتکریم کااعزاز وصولتے ہی ہیں، دیگر کئی انعامات و اسناد کے ساتھ 2016ء میں صدرِ مملکت کی طرف سے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کے بھی حق دار ٹھہرائے گئے۔
ایک سخت گیر، روشن ضمیر ایڈمنسٹریٹر کی شہرت رکھنے والے، سابق انسپکٹر جنرل پولیس، ذوالفقاراحمد چیمہ نےاپنی قائدانہ صلاحیتوں کے بَل بُوتے پر نہ صرف کئی ڈوبتے قومی اداروں کو اُن کے پائوں پر کھڑا کیا بلکہ اِس ضمن میں اُن کی دیانت داری و غیر جانب داری کو ہمیشہ بطور ضرب المثل ہی پیش کیا گیا۔
چار بہترین کتب کے مصنّف ہونےکےساتھ ایک مقبولِ عام کالم نگار ہیں، تو حبِ وطن سے سرشار ایک ایسے صاحبِ علم و دانش بھی کہ جو اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے نسلِ نو کو مسلسل محنت و ریاضت، اُمید و جستجو، ہمّت وحوصلے ہی کا درس دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، اِن دنوں کئی اداروں میں باقاعدہ لیکچرز دینے کے ساتھ بحیثیت چیئرمین، علّامہ اقبال کاؤنسل، کالجز اور یونی ورسٹیز کے طلباء وطالبات کو فکرِ اقبال سے روشناس کروانے کا بِیڑہ بھی اُٹھا رکھا ہے۔
قارئین کی معلومات و دل چسپی، خصوصاً عوام الناس کی موٹیویشن کے لیے ہم آج سے، اِسی قابلِ تقلید سول سرونٹ، اَن گنت لوگوں کے آئیڈیل، مینٹور، سابق انسپکٹر جنرل پولیس، ذوالفقار احمد چیمہ کی غیرمطبوعہ خُود نوشت کے چند باب قسط وار شایع کرنے کا اہتمام کر رہے ہیں۔
اُمید ہے، قارئین اِن سے نہ صرف فیض یاب ہوں گے، بلکہ یہ بھی ضرور سیکھیں گے کہ والدین کی عُمدہ تعلیم و تربیت، اپنی صلاحیت و قابلیت، جرأت و ہمّت اور اعلیٰ اخلاق و کردار کی بنیاد پر کیسے ایک کے بعد ایک کام یابی کا حصول ممکن ہوتا ہے اورحقیقی معنوں میں ایک بامقصد و بااصول زندگی کیسے گزاری جاسکتی ہے۔ تو لیجیے، ملاحظہ کیجیے، اِس سلسلے کی پہلی قسط۔ ہمیں اپنی آراء سے آگاہ کرنا ہرگز مت بھولیے گا۔ (ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘)
میرا تعلق وزیرآباد کے قریب واقع ایک چھوٹے مگرخُوب صُورت ترین گائوں، کٹھوڑ سے ہے۔ میرا سارا بچپن وہیں گزرا۔ قریب ترین پرائمری اسکول بھی ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بڑے گائوں منصور والی میں تھا، جہاں ہم ہر روز پیدل جایا کرتے تھے۔ گائوں سے کہیں بھی جانے کے لیےکوئی پختہ سڑک نہیں تھی۔ قریب ترین شہر، وزیرآباد جانے کے لیے بھی دو کلو میٹر پیدل چل کر ریلوے اسٹیشن منصور والی پہنچتے اور وہاں سے بذریعہ ریل گاڑی وزیرآباد جایا کرتے۔
ہم پانچ بہن بھائی تھے اور مَیں سب سے چھوٹا تھا۔ سب سے چھوٹا ہونے کے ناتے میرا سارا بچپن والدہ صاحبہ کی بے پناہ محبت، بہن بھائیوں کی شفقت اور والد صاحب اور بڑے بھائی جان کی تربیّت اور نگرانی میں گزرا۔ گھر میں بڑی رونق اور چہل پہل رہا کرتی تھی۔ والدہ صاحبہ کی ملنے والی خواتین اور بہنوں کی سہیلیوں سے صحن سارا دن بَھرا رہتا۔
ہمارا گھر ایک قابلِ رشک گھرانہ سمجھا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا بےپناہ فضل وکرم تھا، ہر قسم کی آسائشیں میّسر تھیں۔ کام کرنے کے لیے کئی ملازم اور خادمائیں تھیں۔ کمرے، غلّے سے بَھرے رہتے تھے۔ اُس وقت اجناس کی قیمتیں کم تھیں، اِس لیے امارت نہیں تھی، مگر عزّت، توقیر اور لوگوں کے دِلوں میں احترام بہت تھا۔
پاکستان پولیس سروس کے ’’رول ماڈل‘‘ آفیسر، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، خُود اُن کی زبانی
ہمارے والد صاحب (چوہدری محمد اسلم خان) لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد گاؤں آگئے اور اپنی زمینوں پر کاشت کاری شروع کردی۔ دادا جان چوہدری سردار خان علاقے کے بڑے زمیں دار تھے، جن کا بڑا رعب و دبدبہ تھا۔ اُن کے بعد گائوں کے بڑے زمیں دار والد صاحب تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ گائوں کی چھوٹی سی سلطنت کے سربراہ تھے۔ وہ غرباء کے ساتھ بہت پیار، ہم دردی اورعزّت و احترام سے پیش آتے۔ 1962ء میں انہوں نے میسی ٹریکٹر خریدا، تو پورے علاقے میں دھوم مچ گئی۔ انہی دنوں جب پہلا ٹیوب ویل لگایا گیا، تو آس پاس کے دیہات سے لوگ دیکھنے آتےتھے کہ ٹِنڈوں کے بغیر پانی کیسے نکلتا ہے۔
والد صاحب کو باغ لگانے کا شوق تھا، اپنے ضلعے میں کنّو کا باغ سب سے پہلے انہوں نے ہی لگایا تھا۔ والد صاحب نے بی اے میں فلسفہ بڑے شوق سے پڑھا تھا۔ اکثر قرآنِ مجید پڑھتے ہوئے کائنات، اور خالقِ کائنات اور انسان کے تعلّق سے متعلق گتھیاں سلجھانےکی لگن میں گم ہو جاتے۔ قدرے فربہی مائل، مگر مضبوط جسم کے مالک تھے۔ بہت بااصول، بلند کردار اور ہرحال میں انصاف کے علم بردار و پاس دار۔ ہمارا گائوں چھوٹا سا تھا، مگر والد صاحب اپنے کردار کے اعتبار سے بہت بڑے اور دوسرے دیہات کے چوہدریوں سے بالکل مختلف تھے۔
دوسرے چوہدری اپنے مزار عین اورغرباء کو کم تر، حقیر سمجھتے تھے۔ وہاں کسی بے زمین محنت کش (کمی)کوچوہدری صاحبان کےساتھ چارپائی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی، مگروالد صاحب اپنے مزارعین و ملازمین کو اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھاتے، اُن کی عزت کرتے اور انہیں اُن کے پورے ناموں سے پکارتے تھے۔ اِسی لیے دوسرے دیہات کے چوہدری شکوہ کرتے کہ کٹھوڑ والے چوہدری نے کمیّوں کا دماغ خراب کردیا ہے۔
پھر دوسرے چوہدری اپنے گائوں دیہات میں اسکول نہیں بننے دیتے تھے کہ غریب مزارعین کے بچّے تعلیم حاصل کرگئے تو ہماری چاکری کون کرے گا، مگراُس چھوٹے سےگاؤں کے ’’بڑے چوہدری جی‘‘ نے بھرپور کوشش کرکے اپنے گاؤں میں پہلے لڑکوں کا اور پھر لڑکیوں کا اسکول تعمیر کروایا اور پھر مزید کوشش کرکے اُنہیں اپ گریڈ کروادیا۔ والد صاحب کی خوراک اور لباس بہت سادہ تھا، مگر وہ منتظم بہت سخت گیر تھے اوراُن کی سختی اور ڈسپلن ہی کی وجہ سے ہمارا گاؤں جرائم اور منشیات سے یک سرپاک تھا۔
والدین، دُوردُور سےاپنی بچیوں کو بخوشی ہمارے گاؤں کے اسکول میں پڑھانے کےلیے بھیجتے تھے۔ احترامِ آدمیت اور جذبۂ ہم دردی ہم نے والد صاحب سے وَرثے میں پایا۔ پھرکردارکی تشکیل اور شخصیت کی تعمیرمیں ہماری والدہ صاحبہ کے اکلوتے بھائی یعنی ماموں جان جسٹس محمد افضل چیمہ کا بھی اہم کردار ہے۔ ماموں جان مُلک کے اعلیٰ ترین عُہدوں پرتعینات رہے مگر وہ ہر قسم کےcomplexes سے پاک و بالاتر تھے۔ مَیں نے اپنی زندگی میں والد صاحب اور ماموں جان کو کبھی کوئی غلط بیانی یا کسی کی برائی کرتے نہیں دیکھا۔ وہ دونوں malice for none کا مرقّع تھے۔ ہم بہن بھائیوں نے دونوں سے بہت کچھ سیکھا۔ یوں کہیے، اُنہوں نے ہمارے سفرِ زندگی کی سمت متعیّن کرنے میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔
میری والدہ صاحبہ (گاؤں بھر کی بی بی جی) انتہائی عبادت گزار، بہت نیک، پارسا خاتون تھیں۔ غریب غرباء کا بےحد خیال رکھتیں۔ اُن کے دُکھ درد میں کام آتیں۔ بچّوں کے بیاہ شادی پر دل کھول کر مدد کرتیں۔ وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں، اخبارات اور دینی، اسلامی رسائل باقاعدگی سے پڑھتی تھیں۔ نیز، وہ گھر کے تمام ترمعاملات میں بااختیار اور خُودمختار تھیں۔ درحقیقت ابا جان اورامی جان دونوں ہی اپنے عمل و کردار سے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیّت کرتے تھے۔
والدہ صاحبہ کا معمول تھا کہ صبح تہجّد اور فجر کی نماز کے بعد، جب ملازم دودھ بلونے سے فارغ ہو جاتا تو چاٹی سے مکھن نکالتیں اور لَسّی بناتیں، کیوں کہ طلوعِ آفتاب سے پہلے ہی گائوں کی درجنوں عورتیں اپنے اپنے برتن لیے، ہمارے گھر کے صحن میں لَسّی لینے آ پہنچتی تھیں اور امّی جان اُن کے برتن لسّی سے بھردیتی تھیں، جب کہ کچھ حق داروں کو لَسّی کے ساتھ مکھّن بھی دیا جاتا۔
قرآنِ مجید کی تلاوت کے بعد وہ خالص مکھن سے پراٹھے بناتیں اور اُن کے بچّے اُن کے اردگرد پیڑھیوں پر بیٹھ کرساگ، انڈے یا خالص دہی کے ساتھ ناشتا کرتے۔ ایک طویل عُمر گزار لینے کے بعد بھی، مَیں پورے یقین و اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اُن جیسے خستہ اور لذیذ پراٹھے کوئی اور نہیں بنا سکتا تھا۔ کم ازکم مجھے پوری دنیا میں کہیں نصیب نہ ہوئے۔
ہمیں زندگی میں کیا بننا ہے، اِس ضمن میں Choices تبدیل ہوتی رہیں۔ ذہن میں مختلف مواقع پر محتلف نقشے بنتے رہے اور بچپن کے ابتدائی سالوں میں کئی آئیڈیلز بنتے اور ٹوٹتے رہے۔ ٹوٹتے اس لیے رہے کہ اُن میں سے کچھ پولیس کے ہاتھوں پکڑے گئے، کچھ جیل چلے گئے، کچھ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مَیں سات برس کاہوں گا،جب مَیں نے قریبی گاؤں میں منعقد ہونے والے میلے میں اپنے گاؤں کے نذیر پہلوان کے فن سے متاثر ہوکر فیصلہ کیا کہ مَیں بھی پہلوان بنوں گا اوراگلے ہی دن اُن کے پاس کُشتی سیکھنے پہنچ بھی گیا۔ اُن کے سارے شاگرد انہیں ’’استاد جی‘‘ کہتے تھے۔
استاد جی نے پہلوان بننے کی بنیادی شرط یہ بتائی کہ پہلوان کو لنگوٹے کا پکّا ہونا چاہیے۔ اس کے بعد کچھ مزید ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ مالش کے لیے ہر روز صبح خالص سرسوں کے تیل کی بوتل لے کر آیا کرو۔’’اور ویکھو، بوتل پینو دے لک ورگی ہووے‘‘( اور دیکھو، بوتل پینو کی کمر سے مشابہ ہو)۔ اُس وقت تو مَیں کچھ نہ سمجھا، بعد میں معلوم ہوا کہ قسائیوں کی لڑکی پروین عُرف پینو، جو اپنے پروگریسیو خیالات اور لبرل عادات کے باعث نوجوانوں میں نہایت مقبول ہے، استاد نذیر پہلوان کی بھی منظورِ نظر ہے۔
ابھی مجھے پہلوانی کی ٹریننگ شروع کیے ہفتہ بھرہی ہوا تھا کہ گاؤں کے ہر چوک پر بریکنگ نیوز چل گئی کہ’’جیرا پُلوان پینو قَصین نوں کَڈ کے لے گیا اے‘‘ (نذیر پہلوان قسائیوں کی لڑکی پروین کو اغوا کرکے لے گیا ہے)۔ چار روز بعد دونوں کی برآمدگی ہوئی اور پھر کچھ انویسٹی گیٹیو اسٹوریز کےذریعے انکشاف ہوا کہ اُنہوں نے ڈرکے مارے، گرفتاری سے قبل کاعرصہ کماد کی فصل میں گزارا۔
سخت سردی کے موسم میں، کسی لحاف، رضائی کے بغیر استاد جی کا اِس طرح کماد کی فصل میں چُھپے رہنے کا احوال سُنا، تو دل میں اُن کےلیےکچھ ہم دردی کے جذبات بےدار ہوئے۔ اور پھر اِن ہی ہم دردانہ جذبات کا اظہار ابّا جان کے حضور بھی کردیا، مگر خلافِ توقع میری ہم دردانہ اپیل پراُن کی انگلی کے بجائے ہاتھ اُٹھ گیا اور ساتھ ہی میرے گال پرایک زنّاٹے دار تھپّڑ رسید ہوا، جس کے بعد مَیں اپنا توازن بھی برقرار نہ رکھ سکا۔
لڑکھڑا کراُٹھا تو مجھے رضائی کی بجائے پڑھائی پر توجّہ دینے کی ہدایت کی گئی۔ مَیں نے فوری طور پر یوٹرن لیا اور دوسرے تھپّڑ سے قبل ہی بھاگ کھڑا ہوا۔ مفرور جوڑے کی برآمدگی کے بعد ’’انٹیروگیشن‘‘ کے لیے گاؤں کے سارے قصاب پوری قصابانہ شان کے ساتھ اُن تمام آلات سے مسلّح ہوکر نکلے، جو وہ بڑے سانڈ کو ذبح کرنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔
دوسری طرف نذیر پہلوان کا ایک ماموں، جو تھوڑا بہت پڑھا لکھا ہونے کے علاوہ اپنی ’’اَینکرانہ خصوصیات‘‘ کےباعث خاندان کا لیڈر نما بزرگ تھا، آگے بڑھا اور ایک ’’گرینڈ ڈائیلاگ‘‘ کے انعقاد کی تجویز پیش کی، مگر اُس کی مذاکرات کی پکار، قصابوں کی للکار کے آگے صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ ’’انجمنِ قسائیان‘‘ تو بس مرنے مارنے پر تُلی ہوئی تھی۔
سو، انہوں نے کچھ بھی کہنے سننے کا موقع دیئے بغیر پہلوان کو نیچے لِٹا کر اُس کی قربانی کا آغاز کردیا۔ اور پھر انتہائی بے رحمانہ بلکہ قسائیانہ دھنائی کے بعد استاد جی کوئی لگ بھگ دو ماہ اسپتال ہی میں رہے۔ بعدازاں، وہاں سے سیدھے جیل تشریف لے گئے۔ اوریوں میرا پہلا آئیڈیل بہت جلد پاش پاش ہوگیا۔
رات کا کھانا ہم تمام بہن بھائی گھر کے چھوٹے کمرے میں اکٹھے مل کر کھاتے۔ ہم تینوں بھائی ابا جی کے ساتھ چارپائی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے اور امّی جی کھانا دیتی جاتیں۔ کھانے کے بعد اباجی، بچّوں کوکوئی نہ کوئی کہانی سُناتے، جس میں ہمیشہ ہیرو کی ایمان داری، سچائی، بہادری یا قناعت کو گلوری فائی کیا جاتا۔ اور عموماً کہانی سُننے کے بعد ہم پانچوں بہن بھائی اپنے اندر وہی اوصاف پیدا کرنے کی جستجو اور خواہش کرتے۔ والد صاحب ہمیشہ اور ہرحال میں سچ بولتے، کبھی کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے۔ گھر کا کوئی فرد کسی شخص کے کسی کم زور پہلو کا ذکر کرنے لگتا، تو روک دیتے اورکہتے’’ دوسروں کی خامیوں کا نہیں خوبیوں کا ذکر کرناچاہیے۔‘‘
وہ گویا قناعت و حوصلے کا کوہ ہمالیہ تھے۔ ہرحال میں اللہ تعالیٰ کا شُکر بجا لاتے تھے۔ کبھی ساری فصل بھی تباہ ہوجائے، تو غم نہیں کرتے تھے بلکہ گھر والوں کو حوصلہ دیتے اور اللہ کی دوسری نعمتیں یاد کرواتے۔ کبھی فصل بہت اچھی ہو جائے یا کنو کاباغ اچھا بِک جائے توبہت اکسائٹڈ بھی نہیں ہوتے تھے۔ ایک بار باغ کا ایک خریدار آیا، اُس نے جو پیش کش کی، والد صاحب نے مان لی، لوگوں کے خیال میں گاہک نے باغ کی بہت کم قیمت لگائی تھی۔
تھوڑی ہی دیربعد ایک اور گاہک آیا، جس نے تین گنا زیادہ رقم آفر کی، ایک بیٹے نے ڈرتے ڈرتے فیصلے پر نظرثانی کی بات کی، تو ابّا جی نے تقدیروں کے خالق کی آیات اور نبی کریمﷺ کے فرمودات سُنا کر سمجھایا کہ ’’جو عہد کرو، اُسے پورا کرو، دل میں کبھی پیسے کی محبت پیدا نہ ہونے دو۔‘‘ دراصل والد صاحب بہت غیر محسوس طریقے سے ہم بہن بھائیوں کی تربیت اور کردار سازی کرتے تھے۔
وہ ہماری رگ وپے میں سچائی، انصاف، رزقِ حلال، ایمان داری اور اصول پسندی سے محبّت اورجھوٹ، حرام خوری، بے اصولی، بدکاری و بد کرداری سے نفرت کے جذبات اتارتے رہتے تھے۔
وہ پوری کوشش کرتے کہ میرے بچّے پاکیزہ کردار اور قناعت پسند ہوں۔ اُن کے دِلوں میں دولت کی رغبت، کشش پیدا نہ ہو۔ ہمارےوالدین ہمیں یہ بھی بتاتے رہتے تھے کہ اگر مال و دولت کی بہت اہمیت ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنےافضل ترین نبی ﷺ کو دنیا کا امیر ترین شخص بنادیتے۔
بیٹے عُمر اور تعلیم کے ابتدائی زینے طے کر کے کالجز میں پہنچ گئے۔ لاہور کے کلاس فیلوز اور دوستوں کا بلند معیارِ زندگی دیکھ کر اُن کے دل میں شوق پیدا ہونے لگا کہ ہمارا بھی بڑا بنگلہ ہو،ہمارے پاس بھی کار ہو۔ ایک شام کھانے کے بعد کچھ ایسی باتیں ہوئیں تو کھانے کے بعد والد صاحب تینوں بیٹوں کو باہر لے آئے۔
ہمارے گائوں کے ایک کونے میں برگد کا ایک بہت بڑا درخت تھا اور اُس کے ساتھ ہی گاؤں کے ایک غریب مزدور غلام رسول کا کچا گھر۔ غلام رسول اپنی بیوی، بچّوں کے ساتھ مزدوری کرتا تھااوراُن دنوں بہت معمولی دہاڑی ملتی تھی، جس سے وہ بمشکل اپنے کنبے کے لیے ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی کا بندوبست کرپاتا۔
والد صاحب برگد کے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر بیٹوں سے مخاطب ہوئے۔ ’’یہ جوسامنے کچّا گھر ہے، جانتے ہو، کس کا ہے؟‘‘ ہم نےکہا۔ ’’جی، غلام رسول کا ہے۔‘‘ پھر کہا۔ ’’اِس کی کوئی زمین نہیں، وہ اوراِس کے بچے سالن سے نہیں، پیاز سے روٹی کھاتے ہیں۔ اِن کے گھر میں رضائیاں نہیں، اس کے بچوں کے پاس سردی سے بچنے کے لیے جرسیاں، سوئیٹرز بھی نہیں، اب ادھر آکر ذرا خاموشی سے سنو!‘‘ہم خاموش ہوگئے۔ اُدھر غلام رسول کے گھر سے قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ بات کرتا تو اُس کی بیوی، بچّے کھلکھلا کر ہنستے۔
اُس کی بیوی کوئی بات کرتی توغلام رسول اور بچّے ہنس ہنس کے دہرے ہوجاتے۔ اب والد صاحب ہم تینوں بھائیوں سے مخاطب ہوئے۔ ’’دیکھو! یہ لوگ کتنے خوش ہیں۔ اِنہیں آپ جیسی کوئی نعمت حاصل نہیں، مگر اللہ نے انہیں کس قدر خوشیاں نصیب کی ہیں۔کیوں کہ خوشی دولت سے نہیں، اطمینانِ قلب سے ملتی ہے اور اطمینانِ قلب، قناعت سے حاصل ہوتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں اطمینانِ قلب عطا کرے، قناعت کی دولت سےمالامال رکھے۔‘‘ اُس شام کے عملی مشاہدے سےقناعت کاسبق مکمل ہوگیا۔ بیٹے گھر پہنچے تو ان کے دِلوں میں قناعت کی فضیلت گویا نقش ہوچُکی تھی۔
والد صاحب کی اصول پسندی ضرب المثل تھی۔ ایک بار جب وہ یونین کاؤنسل کے چیئرمین تھے، تو تمام چیئرمین نے ڈسٹرکٹ کائونسل کے ممبران کا انتخاب کرنا تھا۔ ضلع گوجرانوالہ میں دو متحارب فریق تھے۔ چوہدری انور بھنڈر گروپ اور صلاح الدّین چٹھہ گروپ۔ انور بھنڈر صاحب ہمارے گاؤں آگئے اور انہوں نے ووٹ مانگا تو والد صاحب نے ’’ہاں‘‘ کردی۔ دوسرے فریق نے اپنے پینل میں میرے بڑے بھائی جان کوشامل کیا ہوا تھا، جس سے بھنڈر صاحب اور والد صاحب دونوں بےخبر تھے۔
اب ایک فریق کی طرف سےاُن کا بیٹا امیدوار تھا اور دوسرے فریق کو انہوں نے ’’ہاں‘‘ کی ہوئی تھی۔ ہمارے عزیزوں، رشتےداروں نے والد صاحب کے پاس آکر ووٹ کے لیے منّتیں کیں، بیٹے کے سیاسی کیرئیر کے واسطے دیئے، مگر بااصول باپ نے اپنی بات نبھانے کے لیے اپنے بیٹے کے خلاف ووٹ دے دیا۔ بھائی جان چند روز ناراض رہے، مگر بعد میں وہ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ مجھے فخر ہے کہ مَیں ایک بہت عظیم اور بااصول باپ کا بیٹا ہوں۔ مگر والد صاحب خُود اپنے اعلیٰ کردار اور اصول پسندی کا کبھی ذکرتک نہیں کرتےتھے، کوئی تعریف بھی کرنے لگتا، تو فوراً روک دیتے۔ (جاری ہے)