اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے 12ستمبر کو ہونیوالے اجلاس میں مارک اپ ریٹ دو فیصد کم کرکے 17.5فیصد مقرر کرنے کا فیصلہ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد مسلسل تیسری مرتبہ مارک اپ ریٹ میں کمی کی گئی ہے۔ تاہم اب بھی پاکستان کا مارک اپ ریٹ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے سے صنعتی و کاروباری حلقوں کی وہ توقعات پوری نہیں ہوئیں جو معاشی جمود کے خاتمے کیلئے ضروری تھیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق اسٹیٹ بینک شرح سود میں فوری طور پر نمایاں کمی کی بجائے بتدریج کمی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ شرح سود میں دو فیصد سے زیادہ کمی سے قرضوں کی مانگ میں اضافے سے درآمدات بڑھنے کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو بڑھنے کا امکان ہے۔ تاہم دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ شرح سود میں نمایاں کمی نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت انڈسٹری کو سرمائے کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیںپیداواری لاگت میںاضافےکی وجہ سے ایکسپورٹ انڈسٹری عالمی سطح پر دیگر ممالک سے مسابقت میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اس سے جہاں ملک میں معاشی سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں وہیں صنعتی حلقوں میں بھی شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ ان حالات میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر افراطِ زر اور مہنگائی میں کمی کی وجہ سے مالیاتی نظم و نسق میں بہتری آئی ہے تو اس سرمائے کو کمرشل بینکوں کا منافع بڑھانے کی بجائے انڈسٹری کی بحالی کے لئے گردش میں لایا جائے۔ اس سے جہاں روزگار کی فراہمی میں بہتری آئے گی وہیں لوگوں کی قوت خرید بڑھنے سے حکومت کی معاشی کامیابی کا تاثر بھی پختہ ہو گا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل جون میں ہونیوالے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک نے ایک فیصد کمی کیساتھ شرح سود کو 20.5سے 19.5کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس موقع پرا سٹیٹ بینک کی طرف سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جون 2024میں مہنگائی کی شرح میں کمی آئی ہے جبکہ بیرونی ادائیگیوں میں بہتری اورا سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی بھی نوید سنائی گئی تھی۔ اس اعلامیے میں اسٹیٹ بینک کی طرف سے خود یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ مہنگائی کے دباؤ کو قابو میں رکھنے اور معاشی سرگرمیوں کو تقویت دینے کیلئے پالیسی ریٹ میں مزید کمی کی گنجائش موجود ہے۔ان حالات میں ضروری تھا کہ معاشی جمود کو ختم کرنے کیلئےاس مرتبہ شرح سود میں نمایاں کمی کی جاتی۔ اس حوالے سے آئیڈیل صورتحال تو یہ ہے کہ شرح سود کو کم کرکے سنگل ڈیجٹ پر لایا جاتا لیکن اگر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا تب بھی شرح سود میں کم از کم چار سے پانچ فیصد کی کمی ضروری تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مئی 2023ء میں افراط زر تاریخ کی بلند ترین شرح 38فیصد پر تھی جو کہ حکومتی دعوئوں کے مطابق اب اگست میں کم ہوکر 9.6فیصد تک نیچے آ گئی ہے اور ستمبر میں یہ شرح مزید کم ہو کر آٹھ فیصد پر آنے کا امکان ہے۔ ایسے میں ضروری تھا کہ شرح سود کو بھی کم کرکے سنگل ڈیجٹ پر لایا جاتا تاکہ معیشت پر چھایا جمود ختم ہو سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آخری مرتبہ اکتوبر 2021ء میں افراط زر سنگل ڈیجٹ میں تھی۔ اس وقت افراط زر کی شرح 9.2 فیصد تھی جبکہ اس کے مقابلے میں شرح سود محض 7.25فیصد تھی۔ اسلئے اب اگر افراط زر دوبارہ سنگل ڈیجٹ میں واپس آ گئی ہے تو شرح سود میں بھی واضح کمی ہونی چاہیے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت افراط زر کو نکال کر حقیقی شرح سود 9 یا 10 فیصد بنتی ہے جبکہ پاکستان میں حقیقی شرح سود تاریخی طور پر 3سے 5 فیصد کے درمیان رہی ہے۔ اسلئے اب بھی اگر موجودہ 17.5فیصد شرح سود سے 9.6 فیصد افراط زر نکال لی جائے تو حقیقی شرح سود 8 سے 9فیصد کے درمیان بنتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بھی شرح سود میں خاطر خواہ کمی نہ ہونے کو معیشت کیلئے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے شرح سود میں کم از کم 3 فیصد تک کمی کو لازمی قرار دیتے ہوئے اپنے ایک حالیہ ٹویٹ میں نشاندہی کی ہے کہ شرح سود میں خاطر خواہ کمی نہ ہونے سے درآمدات مسلسل کم ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے ایف بی آر بھی رواں مالی سال کے پہلے دو مہینوں میں محصولات جمع کرنے کا اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکا ہے۔ دوسری طرف اس عرصے میں متعدد صنعتی ادارے سرمائے کی قلت کے باعث بند ہو چکے ہیں جبکہ کمرشل بینکوں نے پالیسی ریٹ میں خاطر خواہ کمی نہ ہونے کی وجہ سے اربوں روپے کا منافع کمایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح مانیٹری پالیسی کمیٹی کے آخری دو اجلاسوں میں کئے گئے فیصلوں سے معاشی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے اب بھی اس کی توقع کم ہے۔ شرح سود میں خاطر خواہ کمی نہ ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ اس سے سرمایہ کاری، کاروبار اور ملازمتوں میں کمی آئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شرح سود کو زیادہ رکھ کر ہم مقامی قرضوں اور ان پر ادا کئے جانیوالے سود کے حجم میں اضافہ کر کے خود اپنے شہریوں پر مالی بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر 12ستمبر کو ہونیوالی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں شرح سود میں نمایاں کمی کر دی جاتی تو اس سے صنعتی و کاروباری حلقوں میں پائی جانیوالی مایوسی اور معاشی سرگرمیوں پر طاری جمود ختم کیا جا سکتا تھا۔