• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

شعرو شاعری میں لگے ہیں

تازہ سنڈے میگزین میں محمّد کاشف نے اپنی ’’رپورٹ‘‘ میں ’’پاک، افغان سیاست‘‘ پر ایک چھوٹا سا مضمون تحریر کیا، جو کہ بہت حد تک پاکستان اور افغانستان کا سارا منظرنامہ عیاں کرگیا۔ اِسی مضمون سے پتا چلا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 1950 ء اور 1960 ء میں دو جنگیں بھی لڑی جا چُکی ہیں۔ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کا مضمون بھی بہت پسند آیا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں کھتری عصمت علی پٹیل نے اپنے نانا کی کہانی سُنائی، تو سید عارف نوناری نے اپنے والد کی۔ 

لیکن سب سے زیادہ پسند محمّد یونس کی تحریر آئی، جو انہوں نے ’’رفیقۂ حیات‘‘ سے متعلق لکھی۔ اُس کا تو کوئی مول ہی نہ تھا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں تو بس سب شعروشاعری ہی میں لگے ہوئے ہیں۔ نثر کی اچھی کتابیں سامنے ہی نہیں آرہیں۔ ایک موم بتی (افسانے، افسانچے) نامی کتاب کچھ اچھی لگی۔ بہرحال، اختر سعیدی نے اچھا تبصرہ کیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج : جی جی …فارغ قومیں عموماً تُک بندیوں اور جُگاڑوں ہی میں لگی رہتی ہیں۔

صفحات کیوں شامل نہیں تھے؟

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے وزیرِ خزانہ اور حکومت کے دیگر کرتا دھرتائوں کو خُوب لتاڑا۔ اورپوچھاکہ ’’اقتصادی ویژن کیا ہے، معاشی ترقی کے کون سے رستے اپنائے گئے ہیں؟‘‘ بہت عمدہ منور صاحب! لگے رہیں، کبھی تواِنہیں شرم آئے گی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں طالب ہاشمی نے بجا فرمایا کہ خوش مزاجی سے پیش آنے پر لوگ جلدی بات سمجھ جاتے ہیں، سختی سے لوگ دُور بھاگتے ہیں۔‘‘ ’’رپورٹ‘‘ میں سید ثقلین علی نقوی نے گندم کی کٹائی پر خُوب صُورت تحریر پیش کی۔ 

وحید زہیر نے ’’کابلی پلائو‘‘ سمیت متعدّد شاہ کار ڈراموں کے خالق، افسانہ نگار، ظفرمعراج سے معلوماتی گفتگو کی۔ کنول بہزاد نے اٹک خورد ریلوے اسٹیشن کی بہترین سیر کروائی، مختلف تصاویر بھی دکھائیں۔ رابعہ فاطمہ مسلمان حُکم رانوں کی نباتات سے محبّت کا احوال لائیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ڈاکٹر سیدہ قراۃ العین رضوی کی تحریر بے مثال تھی ۔ اور اب ’’آپ کا صفحہ ‘‘ کی بات، ہمارا خط شامل کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ مگر ناقابلِ فراموش، ہیلتھ اینڈ فٹنس کے صفحات شامل نہیں تھے۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: ہمارے پاس کل16صفحات ہیں۔ ہر ہفتے، ہرسلسلےکی اشاعت کسی طور ممکن نہیں۔ سو، جو مل رہا ہے، ہماری طرح آپ بھی اُسی پر صابر و شاکر رہیں۔

بہزاد لکھنوی پر مضمون

’’سنڈے میگزین‘‘ بہت اچھا جا رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا اِس وقت شدید بحران کا شکار ہے، اِس کے باوجود آپ نے جریدے کا معیار خُوب برقرار رکھا ہوا ہے، جو خوش آئند بات ہے۔ آپ کے جریدے کےبہت سے سلسلے مجھے بےحد پسند ہیں، بالخصوص اِک رشتہ، اِک کہانی، ڈائجسٹ، نئی کتابوں پر تبصرہ وغیرہ۔ آپ سے گزارش ہے کہ ایک صفحہ شوبز شخصیات کے لیے بھی مختص کردیں۔ اُن کے انٹرویوز یا اُن پر مضامین وغیرہ شائع کیا کریں۔ 

مجھے خوشی ہے کہ میری بھی دو تحریریں سنڈے میگزین میں شائع ہو چُکی ہیں۔ نیز، مَیں نے کراچی سے شائع ہونے والے فلمی اخبارات میں 122مضامین لکھ رکھے ہیں، شوبز شخصیات، نعت خوانوں اور نعتیہ شعراء وغیرہ پر۔ اب ایک مضمون بہزاد لکھنوی کی نعتیہ شاعری پر بھیج رہا ہوں۔ قابلِ اشاعت ہو تو لازمی شائع کردیں۔ (فیصل کانپوری، کراچی)

ج: آپ کا مضمون شاملِ اشاعت کر لیا گیا ہے، حالاں کہ ہمیں اُس پر خاصی محنت کرنی پڑی۔ لہذا اب آئندہ آپ جو بھی مضمون لکھیں، اپنی ترمیم شدہ تحریر کے تناظر میں اپنی خامیوں، کوتاہیوں کو سامنے رکھ کر ہی لکھیں۔

فکر انگیز مضامین، شاہ کار تحریریں

اس بار بھی سنڈے میگزین خُوب صُورت سرِورق، فکرانگیز مضامین، شاہ کار تحریروں سے مزین تھا۔ سلطان محمد فاتح کی تحریر ’’صبروشُکر‘‘ حسن عباسی کی کاوش ’’مولانا رومؒ ‘‘ پروفیسر حکیم سید عمران فیاض کا مضمون ’’آم کی مشہور اقسام‘‘ کافی معلوماتی تحریریں ثابت ہوئیں۔ علاوہ ازیں، ناقابلِ فراموش کے تینوں واقعات لاجواب تھے۔

دُعا ہے کہ خدا تعالیٰ اِن لکھاریوں کے زورِقلم میں اضافہ فرمائے۔ آمین۔ آپ اور آپ کی ٹیم ہر ہفتے قارئین کو ایک مثالی، شان دار میگزین مہیا کر دیتی ہے، جس پر ادارہ قابلِ تعریف ہے۔ بندہ ’’دنیا کے قدیم ترین شہروں‘‘ سے متعلق ایک معلوماتی تحریر ارسال کررہا ہے۔ اُمید ہے، ضرور پسند آئے گی۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

ج: پسند آئی، مطلب معیار پر پُوری اُتری، تو ان شاء اللہ شایع بھی ہو جائے گی۔

ادب و ثقافت کا حسین امتزاج ومجموعہ

عرصۂ دراز سے بوجہِ علالت گھرہی پر وہیل چیئر اور بستر نے مہمان بنا رکھا ہے۔ مگر ’’سنڈے میگزین‘‘ باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ کبھی یہ موقرجریدہ کافی ضخیم، بھاری بھرکم بھی ہوتا تھا۔ تب جنگ اخبار کے ادارتی صفحے کے کالمز پڑھنے کے لائق ہوتے تھے، حتیٰ کہ اشتہارات کا بھی ایک معیار تھا اوراب توبس… چُپ ہی بھلی۔ سنڈے میگزین میں خط لکھنے کی شدید خواہش کے باوجود، اکثربس سوچتا ہی رہ جاتا ہوں۔ لیکن آج بہت مجبور ہوکے مبارک باد کا خط لکھنے بیٹھ ہی گیاہوں کہ بہرحال، اتنے کم صفحات کے باوجود آپ کی کاوشوں اور مستقل لکھنے والوں کی معاون ٹیم کی بدولت جریدہ ہنوز خاصا کام یاب ہے، خاص طور پر، فیشن کےصفحات پر آپ کا جو انتہائی دل چسپ اور دل کش رائٹ اَپ ہوتا ہے، اُس کی توکیا ہی بات ہے۔ 

ایک نہایت متاثرکُن، موٹیویشن سے بھرپور تحریر، جوتشنگانِ ادب کےلیےبھی فرحت کا سامان بنتی ہے۔ اِس سے قبل مَیں نے کبھی فیشن کے صفحات پر ادب و ثقافت کا ایسا حسین امتزاج ومجموعہ کہیں نہیں دیکھا۔ اس بار ’’عالمی افق‘‘ کے صفحے پر منور مرزا نے انتخابات کے حوالے سے بہترین تجزیہ پیش کیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پر سلطان محمد فاتح نے صبر و شُکر کی اہمیت سے متعلق لکھا۔ مولانا جلال الدین رومی کی فارسی شاعری پرحسن عباسی بھی اچھی تحریر لائے۔ 

رؤف ظفر عوامی و معاشرتی مسائل اجاگر کرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں فرّخ شہزاد ملک نے بلوچستان کے نوجوان باکسر، شیرباز مَری سےمتعارف کروایا۔’’متفرق‘‘کےتحت اطالوی صحافی، اوریانا فلاسی سے ملوایا گیا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ ماہر تبصرہ نگارمنور راجپوت کی اعلی نگارش سے مرصّع تھا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو قارئین کے لیے ہمیشہ ہی باعثِ دل چسپی ٹھہرتا ہے، کیوں کہ اِسے آپ خاص طور پر سخت محنت اور پوری ذمّے داری سے مرتب کرتی ہیں۔ (صدیق فن کار، عسکری اسٹریٹ، راول پنڈی کینٹ)

ج: اللہ تعالیٰ آپ کو کامل صحت و تن درستی عطا فرمائے۔ آپ کی بہت سی باتیں سو فی صد درست ہیں۔ بلاشبہ، آج ہم مُلکی وعالمی سطح پر کئی اعتبار سے زوال کا شکار ہیں، خصوصاً پرنٹ میڈیا کا تو دنیا بھر ہی میں بَھٹّا بیٹھ گیا ہے۔ بڑے بڑےاخبارات و جرائد بند کردیئے گئے ہیں۔

وہ اقبال نے کہا تھا ناں کہ ؎ کوئی دَم کامہماں ہوں اےاہلِ محفل…چراغِ سحَر ہوں، بُجھا چاہتا ہوں۔ تو بس کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ جب تک جان میں جان ہے،کام پوری محنت و محبت اور دیانت داری سے ہونا چاہیے۔ تب ہی آپ کو کم از کم سنڈے میگزین کا معیار کمپرومائزڈ محسوس نہیں ہوتا۔

انتظار پر مجبور

شمارہ سامنے ہے، ایک انتہائی معیاری جریدہ، جو سب کو اپنے انتظار پر مجبور کرتا ہے۔ اس بار بھی لگ بھگ تمام ہی تحریریں اعلیٰ معیار کی حامل محسوس ہوئیں، خصوصاً پاکستان کی جامعات سے متعلق محمود شام کا مضمون بہت ہی معلوماتی، لاجواب تحریر تھی۔ بلوچستان کے قاضی عبدالحمید کی بات چیت بھی بہت اچھی لگی۔ اچھی بات ہے کہ بلوچستان کے اکثر افراد اپنے صوبے کی پس ماندگی پر کُھل کر بات کرتے ہیں۔ 

میرے خیال میں تو اب وقت آگیا ہے کہ اِس صوبےکے مسائل ترجیحاً حل کیے جائیں۔ الحمدللہ، ہمارا ملک اب اچھی ڈگر پر چل نکلا ہے۔ اس ضمن میں جنگ کے کالم نگاروں سہیل وڑائچ اور حامد میر کی گزارشات پر بھی ضرور غورہونا چاہیے کہ پی ٹی آئی کے سوشل ونگ نے اِن کے ساتھ بدترین سلوک کیا، اِس کے باوجود ان کی حق گوئی اور حب الوطنی مثالی ہے۔ (ڈاکٹر محمّد سکندر، ڈینٹل سرجن، بہادرآباد ، کراچی)

ج: ڈاکٹر صاحب! بہت اچھی بات ہے، آپ روزنامہ جنگ اور سنڈے میگزین کا عمیق نظری سے مطالعہ کرتے ہیں۔ آپ اگر ہمارے ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ صفحے کے لیے دانتوں کے امراض اورمسائل وغیرہ پر کچھ معلوماتی مضامین بھی لکھنا چاہیں تو ہم آپ کا بہت خوش دلی سے خیر مقدم کریں گے۔

طلسماتی، پُروقار شخصیت

محترمہ!کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے … کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے۔ کیا عجب بات ہے کہ آپ جیسی طلسماتی، پُروقار شخصیت نے اپنی تحریروں کے سبب قارئینِ کرام کے ایک بڑے حلقےکوسحرزدہ کر رکھا ہے۔ مُلکی حالات نے تو جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ایک یہ’’سنڈے میگزین‘‘ ہی ہے، جو اِس دُکھ بَھری زندگی میں خوشیوں، مسکراہٹوں کے چند لمحات لے آتا ہے۔ مگر پھر ڈر جاتا ہوں کہ کہیں حکومت ہمارے اِس مسکرانے پر بھی ٹیکس نہ لگا دے۔ (سیّد شاہ عالم زمرد اکبر آبادی)

ج : لگتا ہے، منہگائی نے آپ کے ہوش و حواس ہی مختل کردیئے ہیں۔ جو دو چار جملے لکھ بھیجتے ہیں، اُن کا بھی سر پیر ڈھونڈنا محال ہوتا ہے۔ اوریہ بلا وجہ کی خوشامد… کوئی حد ہوتی ہے، اللہ نہ کرے، ہماری اِس ’’طلسماتی، پُروقار شخصیت‘‘ سے بھلاآپ کا کہاں آمنا سامنا ہوگیا؟؟

ہر شعبے میں قحط الرجال

الیکٹرانک میڈیا پر اَن گنت اشتہارات، اور پرنٹ میڈیا اشتہارات سے محروم ہے۔ افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ وہ بھی کیا دَور تھا کہ جب پاکستان ٹیلی ویژن نے ایک ڈبا نما عمارت سے نشریات شروع کی تھیں۔ غالباً 1967 ءکا دَور تھا۔ مَیں اُن دِنوں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا اور ہم مغل پورہ میں  رہتے تھے۔

طارق عزیز صاحب رات نو بجے ٹی وی پر خبریں پڑھتے تھے اور اُن کی آواز کی گمبھیرتا کی کیا ہی بات تھی۔ اب تو سارا دن اور رات سوائے خبروں اور اشتہارات کے کچھ دیکھنے ہی کو نہیں ملتا۔ اور اُن دنوں کیسے کیسے باصلاحیت پروڈیوسرز اور اداکار ہوتے تھے۔ اب تو ہر شعبے میں قحط الرجال ہے۔ (تجمّل حسین مرزا، مسلم کالونی، ڈاک خانہ باغ بان پورہ، لاہور)

ج : جی ، واقعی ہر شعبے میں ’’قحط الرجال‘‘ ہے۔ ہزارہا مرتبہ دہرایا گیا ہے کہ یہ صفحہ صرف جریدے کے مندرجات پر تبصرے کے لیے مختص ہے۔ اِس کے باوجود ہر رام کہانی، دُکھ بھری داستان یہیں لکھ بھیجی جائے، تو اِس کےسوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ کوئی قحط الرجال سا قحط الرجال ہے۔ ابھی تو آپ کا آدھا خط ایڈٹ کردیا ہے، وگرنہ آپ کوتودوسرے اخبارات سے وابستہ صحافیوں سے متعلق تمام تر تفصیلات بھی ہم ہی سے درکار ہیں۔

               فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

14 جولائی کے جنگ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شہادتِ حسینؓ کا بیانِ بےمثال اور دینِ اسلام کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کرنے کا درس، واللہ دل میں اُترگیا۔ بقول خواجہ غریب نواز ؎ شاہ است حسینؓ، بادشاہ است حسینؓ…دین است حسینؓ، دین پناہ است حسینؓ…سردادن ونداد، دست در دستِ یزید… واللہ کہ بنا لا الہٰ است حسین ؓ۔ اور ؎ غرور ٹوٹ گیا، کوئی مرتبہ نہ ملا…ستم کے بعد بھی کچھ حاصلِ جفا نہ ملا…سرِحسینؓ مِلا ہے یزید کو لیکن…شکست یہ ہے کہ پھر بھی جُھکا ہوا نہ ملا۔ پس، جب تم جان لو کہ تم حق پر ہو، تو پھر نہ جان کی پروا کرو، نہ مال کی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں سادگی وقناعت کوکام یابی کی کنجی قراردیا گیا۔ 

واقعی قناعت بڑی دولت ہے اور ہماری خواہشات جتنی کم اور سادہ ہوں گی، زندگیاں اُتنی ہی آسان اور سہل ہوجائیں گی۔ ’’رپورٹ‘‘ میں فلسطین سے متعلق کچھ انتہائی تلخ حقائق سے پردہ اُٹھایا گیا۔ ساتھ پا افغان کشیدگی کی مفصّل وجوہ بھی بیان کی گئیں۔ بلاشبہ محمّد کاشف کی دونوں تحریریں لائقِ مطالعہ اور معلومات سے بھرپور تھیں۔ ’’رپورٹ‘‘ ہی میں ڈاکٹر ناظرمحمود نے آزادیٔ اظہار اور احفاظ الرحمٰن ایوارڈ کا دل پذیراحوال بیان فرمایا۔ 

بقول شاعر عظیم آبادی ؎ ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، مِلنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں حسن عباسی نے فارسی کے عظیم شاعر اور ’’شاہنامہ فردوسی‘‘ کا تذکرہ دل نشین اندازمیں کیا۔ اِس نئے سلسلے کے مطالعے میں لُطف آرہا ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں دونوں ڈاکٹر صاحبان کی یرقان اور گُردوں سے متعلق ٹپس مفید لگیں، شکریہ۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی شہدائے کربلا کے قافلہ سالار، نواسہ رسولﷺ جگر گوشہ بتول ؓ، نوجوانانِ جنّت کے سردار، سیدنا حسین ؓ ابنِ علی ؓ کا ذکرِ خیر بہت ہی پیار اور عقیدت و محبّت سے فرما رہے تھے۔ 

سچ یہ ہے کہ امامِ عالی مقامؓ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری نوعِ انسانی کے لیے صبر و استقامت اور ظلم وجبر کے خلاف ڈٹ جانے کاایک عظیم استعارہ ہیں۔ بقول جوش ملیح آبادی ؎ کیا صرف مسلمانوں کے پیارے ہیں حسینؓ… چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسینؓ… انسان کو بےدار تو ہولینے دو… ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ۔ 

اور بقول علامہ اقبال ؎ غریب وسادہ و رنگین ہے داستانِ حرم… نہایت اس کی حسینؓ ، ابتدا ہے اسماعیلؑ۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس صاحب نے بھی امامِ عالی مقامؓ اور اہلِ بیت سے محبت کا حق ادا کردیا۔ جب کہ ’’متفرق‘‘ ہی میں ’’دینِ اسلام کا انسانیت اوراعلیٰ اخلاقی اقدارکا پیام‘‘کی صُورت بھی ایک عُمدہ تحریر پڑھنے کو ملی۔’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی تمام ہی کہانیاں اُجلی تھیں۔ لکھاریوں کومبارک باد۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کرن عباس کرن کا افسانہ بھلا لگا۔ ؎ دھواں ہے، آنسو ہیں، التجا ہے… غزہ میں ہرسمت کربلا ہے۔ 

ڈاکٹر عزیزہ انجم کی نظم ،کرب و بلا کی یاد تازہ کرتے ہوئے خون کے آنسو رُلا گئی، تو ساتھ ہی مسلم دنیا کی بےحسی کا نوحہ بھی سُناتی رہی۔ اختر سعیدی کتابوں پر تبصرے کی شکل میں اردو ادب کی اچھی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ اور رہی بات ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، تو وہ تو ہے ہی اپنا۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں، ضلع بہاول نگر)

گوشہ برقی خطوط

* ’’سنڈے میگزین‘‘ میں نجمی صاحب نے حماس کی جنگی مہارت کےخُوب قصیدے پڑھے، مگر اطلاعاً عرض ہے کہ یہ تصویر کا صرف ایک رُخ ہے، کیوں کہ حماس کی یہ جنگی مہارت، بہادری عام فلسطینیوں کے کسی کام کی نہیں۔ لاکھوں، کروڑوں ڈالرز خرچ کر کے حماس کی سلامتی کے لیے تو سیکڑوں میل لمبی جدید سرنگیں تعمیر کی گئیں، مگرایک عام فلسطینی آج بھی اسرائیلی فوج ہی کے رحم و کرم پر ہے۔ 

اُس کی حفاظت کے لیے کون سی پناہ گاہ تعمیر کی گئی؟آج غزہ میں قحط کی صورتِ حال ہے، مریضوں کے پاس دوا دارو نہیں، تو جب حماس غزہ میں اسلحہ اکٹھا کرسکتی ہے، توغذا اور دوا کیوں نہیں؟ اور منور مرزا نے اپنے مضمون میں بالکل درست بات کہی کہ ایرانی صدر کا دورۂ پاکستان ایک معمول کا دورہ تھا، جسے بلاوجہ ضرورت سے زیادہ ہائپ دی گئی۔ (محمّد کاشف)

ج: آپ کا نقطۂ نظر اپنی جگہ، لیکن مخالف نقطۂ نظر رکھنے والوں کے پاس بھی بےشمار دلائل موجود ہیں۔ اوراس ضمن میں ہماری ذمّے داری صرف اتنی ہے کہ ہم ہر ایک کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ہر دوطرفہ موقف کو مناسب جگہ دیں۔

* میری عُمر ساٹھ برس ہے، کبھی کبھی کچھ لکھ لیتا ہوں۔ کبھی سنجیدہ، کبھی ہلکے پھلکے انداز میں، کبھی محض دلی کیفیات۔ سوات، اسکردو، قندھار کے سفر ناموں کی صُورت سوشل میڈیا اور اردو ادب کی ویب سائٹس پر لکھا، اپنے آبائی قصبے، بھائی پھیرو کی تاریخ، وجۂ تسمیہ پہ لکھ چُکا۔ 

معاشرتی مسائل پر بھی ایک مضمون شائع ہوا۔ دوسال قبل اہلیہ کی وفات ہوگئی، تو اب اپنے کچھ دلی جذبات و تاثرات سنڈے میگزین کے صفحات کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔ گر قبول افتد، زہےعزّوشرف۔ (محمّد یونس، لاہور)

ج: آپ کی تحریر شایع ہو چُکی ہے، یقیناً آپ نے ملاحظہ بھی کر لی ہوگی۔

* کسی رائٹر کی تمام تحاریر نئی، پرانی اگر روزنامہ جنگ میں تلاش کرنی ہوں، تو کیا طریقہ اختیار کیا جائے، پلیز رہنمائی فرمادیں۔ (ناہید خان)

ج : آپ کو ہمارے انٹرنیٹ ایڈیشن کے آرکائیو سے پچھلے دو سال تک کا ریکارڈ مل سکتا ہے اور اِس کے لیے آپ کو رائٹرکا نام لکھ کر سرچ کرنا ہوگا۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید