چَھٹی جماعت میں، مَیں نے وزیرآباد میں داخلہ لیا۔ بھائی نثاراحمد پہلے ہی وہاں کے پبلک ہائی اسکول میں پڑھ رہےتھے۔ گاؤں سےاور لڑکے بھی وزیرآباد پڑھنے جاتے تھے۔ ہم نے منصور والی سے وزیرآباد تک ریلوے پاسز بنوا لیے تھے۔والدہ صاحبہ علی الصباح ہم دونوں چھوٹے بھائیوں کو نہلا دُھلا کر ناشتا کرواتیں اور ہم بھاری بستے اُٹھا کر ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑتے۔ ایک کلومیٹر تک چلتے تو ٹرین کے ڈاؤن سگنل نظرآجاتے، جس سے پتا چل جاتا کہ گاڑی پہنچنے والی ہے۔ سگنل دیکھتے ہی ہم دوڑ پڑتے اور اکثر چلتی ٹرین میں سوار ہوتے۔ ڈبّے کے اندر جتنی دیر میں سانس بحال ہوتی، اُتنی دیر میں وزیرآباد کا ریلوے اسٹیشن آجاتا۔
وزیرآباد اسٹیشن پر اُترکردوکلومیٹر کے فاصلے پر ایم سی ہائی اسکول پہنچتے اور سہ پہر کو اِسی طرح بذریعہ ٹرین واپس آتے۔ وزیرآباد کے گورنمنٹ ایم سی ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر ڈار صاحب بڑے سخت گیرمنتظم تھے۔ ریاضی کے استاد برکت علی صاحب، انگریزی کے مختار چیمہ صاحب، عربی کےحافظ غیور صاحب اور اُردو کے راشد صاحب بڑےقابل اساتذہ تھے، جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
وزیرآباد تک سڑک بننے کے بعد ہمارا ریلوے اسٹیشن اور ریل گاڑی کےساتھ بچپن کا رومانس کم زور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوگیا اورہم نے ریلوے لائن کے متوازی چلنے والی سڑک سے تعلق جوڑ لیا۔ پھراُس سڑک پر بسز، ویگنز چلنا شروع ہوگئیں، مگر ہم گاؤں سے وزیرآباد تک تانگے ہی پر جاتے تھے۔ یوں تو گاؤں میں کئی لوگوں کے تانگے تھے، مگر ہمارے گاؤں کے بھائی اقبال بٹ کے تانگے اور تانگے کے آگے جُتی ہوئی گھوڑی کا، جس کانام اُس نے’’رانی‘‘ رکھا ہوا تھا، کوئی مقابلہ نہ تھا۔
پاکستان پولیس سروس کے ’’رول ماڈل‘‘ آفیسر، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، خُود اُن کی زبانی
کئی بار ایسا ہوا کہ وزیرآباد سےریل گاڑی کے ذریعے لاہور یا اسلام آباد جانا ہوتا، تو اقبال بٹ کی رانی، برابر والی لائن پردوڑنے والی ٹرین سے ریس لگانا شروع کردیتی اور ہمیشہ ٹرین کو پیچھے چھوڑ کر ہماری ساری ’’لیٹ‘‘ نکال دیتی۔ یہاں تک کہ ہم وزیرآباد سے نئی ٹرین پکڑنے میں کام یاب ہوجاتے۔اُس وقت گاؤں میں بجلی نہیں تھی مگر زندگی بڑی خوش گوار تھی، لوگوں کی صحتیں اچھی تھیں، مسائل کم اور سُکون زیادہ تھا۔ ہم ہاتھ سے چلنے والے نلکے کے پانی سے نہاتے تھے۔ گرمیوں کی چُھٹیوں میں ناشتا کر کے چارپائیاں گاؤں کے پاس ٹاہلی (شیشم) کے بہت بڑے درخت کے نیچے لےجاتے اور دوپہر وہیں گزارتے۔
ٹاہلی کے پاس سے کھال (چھوٹا نالہ) گزرتا تھا، ہم تازہ تربوز اور خربوزے توڑ کر کھال میں ڈالتے اور پھر ایک گھنٹے بعد نکال کرکھاتے اورخُوب لُطف اٹھاتے۔ اُس وقت گاؤں کے پاس سے گزرنے والا راج باہ (وہ چھوٹی نہر، جو کسی اور نہر یا منبع سے کھیتوں کی سیرابی کےلیے نکالی جاتی ہے) ہمارا سوئمنگ پُول اور بہتےکھال کا پانی ہمارا ریفریجریٹر تھا۔ نہ کبھی بجلی کی یاد آئی تھی اور نہ ہی کبھی فریج، اے سی کو مِس کیا تھا۔ گاؤں کے مغربی کونے پرماچھیوں کا گھر تھا، وہاں سے دانے بُھنوا کر(بھٹّی کےبُھنے ہوئے چنے) منگوالیتے اور دوپہر کو اُن بُھنے ہوئے چَنوں ہی سے عیاشی کی جاتی۔
سہ پہر کو وہیں کبڈی کھیلتے یا لمبی چھلانگوں (لانگ جمپس) کا مقابلہ ہوتا۔ رات کو ملازم پہلے چارپائیاں چھت پر چڑھاتے، پھر مُرغیوں اور ان کے چُوزوں کو چھت پر لے جا کر ٹوکروں کے نیچے محفوظ کرتے اور آخر میں اشیائے خورونوش اور برتن چڑھائے جاتے اور وہیں رات کا کھانا کھایا جاتا۔ چوں کہ گاؤں کے تمام لوگ چھتوں پرسوتے تھے، اِس لیے سرِشام چھتوں پر ایک علیحدہ گاؤں آباد ہوجاتا۔
خواتین قریبی چھتوں پر ہم سائیوں سے گپ شپ بھی کرتی رہتیں۔ اور کبھی کبھار اِن ہم سائیوں میں لڑائی بھی ہوجاتی، تو پھر پورا گاؤں تماشا دیکھتا۔ البتہ اگر الزام و دشنام طرازی ’’پارلیمانی حدود‘‘ سے باہرہونےلگتی، توپھربزرگ مداخلت کرتے اور فریقین کوزبانیں سنبھالنے پرآمادہ کر لیتے۔
ایک بار ماموں جان امریکا کے دورے پر گئے تو واپسی پر ابّاجان کے لیے ایک اعلیٰ درجے کا ٹرانزسٹر لےآئے، جس پرابّاجان خبریں سُنتے اور مَیں رات کو چھَت پرموسیقی اور ڈرامے وغیرہ سُنا کرتا۔ 1965ء کی جنگ میں ہم رات کو چھت پراپنے شاہینوں کےہاتھوں بھارتی جہازوں کی درگت بنتے دیکھتے اور صبح والد صاحب گاؤں کے دارے(چوپال) میں برنے کے درخت کے نیچے ٹرانزسٹر لے کرچلے جاتے، جہاں آدھا گاؤں اُن کےارد گرد بیٹھ کرجنگ کی تازہ ترین صورتِ حال جانتا۔
مَیں بارہ تیرہ سال کا ہوا تو چارپائی چھت پرخُود چڑھانے لگا کہ چارپائی چڑھانے، اُتارنے کا فن مَیں نے خُوب سیکھ لیا تھا اور کبھی جو رات کو اچانک بارش برس پڑتی تو فوری طور پر چارپائی سر پر اور بستر اور ٹرانزسٹر بغل میں لے کر اُترتا۔ اس آپریشن کے دوران امریکی ٹرانزسٹر چھت سے درجنوں بار گرا، مگر پھر بھی اُس کی آواز بند نہ ہوئی۔
مَیں گاؤں کے ہر کھیل میں حصّہ لیتا تھا، ورزش کے لیے مالش بھی کرواتا، کبڈی بھی کھیلتا، چارہ کترنے والا ٹوکہ بھی چلاتا اور کبھی کبھی بھینسوں کا دودھ بھی دوہتا تھا۔ والد صاحب نےجب گاؤں میں ہائی اسکول بنانے کا پروگرام بنایا تو پورے گاؤں کو اکٹھا کیا۔ خُود بھی ڈونیشن میں اچھی خاصی رقم دی اور دوسروں کو بھی حسبِ توفیق حصّہ ڈالنےکا کہا۔ قسائی برادری کے بڑے چاچا محمّد حسین نے (جوکثیرالعیال تھا) کہا۔’’چوہدری جی! پیسے تے کوئی نئیں، پر بالاں دی کمی نئیں ہون دیاں گے (پیسے تو نہیں ہیں، مگر اسکول میں بچّوں کی کمی نہیں ہونےدیں گے)۔
قریبی گاؤں کوٹ جعفرکے پاس شیرازی بادشاہ کی درگاہ تھی، جس پر سالانہ میلہ لگتا تھا۔ ہمیں بھی والدہ صاحبہ میلے پر جانے کے لیے کچھ پیسے دیا کرتیں، مگر وہاں سےکچھ کھانے پینے کی نہیں، صرف تربوز خریدنے کی اجازت تھی۔ میلے کے تیسرے روز کبڈی کا میچ ہوتا، جو مَیں بڑے شوق سے دیکھنے جاتا تھا۔ عید منانے کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ ملازم پینگ (جھولا) تیار کرکے برگد کے درخت کے ساتھ باندھتے، جن پر صبح لڑکے اور رات کو لڑکیاں جھولا جُھولتیں۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم چھوٹے بھائی ، بہنیں اور اُن کی سہیلیاں دریائے چناب پر واقع خانکی ہیڈورکس (ہمارے گاؤں سے چارکلومیٹر پر ہے اور اب وہاں بیراج تعمیر کر دیا گیا ہے) پر پکنک منانے بھی جایا کرتے تھے۔ گھر سے کھانے بناکر لے جاتے اور وہاں دریا کنارےبیٹھ کرکھاتے۔ کشتی کی سیر کرتے اور دریا کے اوپر چلنے والی چیئرلفٹ پر بیٹھ کر خُوب لُطف اندوز ہوتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، دریا کے اندر بنایا گیا شیشے کی دیواروں والا کمرا بہت خُوب صُورت تھا، وہاں اس وقت کے گورنر نواب امیر محمد خان بھی آتے رہتے تھے۔
بھائی نثار احمد مجھ سے صرف دو سال، جب کہ بڑے بھائی جان (جسٹس افتخار احمد چیمہ جو اس وقت پریکٹس کرتے تھے اوربعد میں ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے) پندرہ سال بڑے تھے۔ لہٰذا انہوں نےSuo motu کے تحت دونوں چھوٹے بھائیوں کے استاد، اتالیق اور مینٹور کا رول اپنالیا۔ ٹاہلی کا درخت ہماری ٹریننگ اکیڈمی تھا، بھائی جان وہیں ہم دونوں کوپڑھاتے بھی تھے اور تقریر کرنا بھی سکھاتے تھے۔ وہ منہگی سے منہگی کاپیاں لاتے اور ہمیں مختلف موضوعات پرمضامین اور تقریریں لکھ کر دیتےاور ٹاہلی تھلے اُس کی پریکٹس بھی کرواتے۔
ہم دونوں چھوٹے بھائیوں میں تعلیم کا شوق پیدا کرنے میں بلاشبہ بڑے بھائی جان کا سب سے اہم کردار ہے، انہوں نے بچپن ہی میں ہم دونوں کے مستقبل کا فیصلہ ہماری کاپیوں پر لکھ دیا تھا کہ بھائی نثاراحمد ڈاکٹر بنیں گے اور میں سینٹرل سپیرئیر سروسز میں شامل ہوں گا۔ہمارے والدین نے بیٹیوں کو بھی ایم اے تک تعلیم دلوائی اور بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھی بھیجا۔ بڑا بیٹا بیرسٹر بن کر واپس آیا، پہلے وکالت کی اور پھر سیشن جج بن گیا۔
بیٹا جج بنا تو والدہ نے پروردگار سے دُعا مانگی۔ یا ربّ العالمین، میرے بیٹے کو حرام کی کمائی سے بچا کر رکھنا، اِس کے اور اِس کی اولاد کے منہ میں حرام کا ایک لُقمہ بھی نہ جانے دینا، لیکن اگر شیطان نے اِسے گُم راہ کرکے رشوت خوری پر لگا دیا، تو پھر اُسے دنیا ہی سے اُٹھالینا۔‘‘ ہمارے گھر حلال وحرام کی تمیز ہر روز سکھائی جاتی تھی، والدہ کی زبان سے یہ فقرہ سُنا، تو بس، بیٹوں کی تربیّت مکمل ہوگئی۔
یہاں مَیں ایک واقعہ سُنانا چاہوں گا، جو ویسے تو ناخوش گوار ہے، مگر قارئین کا یہ حق ہے کہ اُن کے ساتھ زندگی کے وہ ناخوش گوار واقعات بھی شیئر کئے جائیں، جن سے کوئی سبق حاصل ہوسکتا ہے۔ مَیں اُس وقت چَھٹی جماعت میں تھا، جب ہمارے اسکول میں ایک معروف قصبے خانکی ہیڈکے (آج کل خانکی بیراج ہے) ہائی اسکول سے تقریری مقابلے کا دعوت نامہ آیا۔ مجھے اور بھائی نثار احمد کو وزیرآباد کے ہائی اسکول کی نمائندگی کے لیےمنتخب کیا گیا۔ بھائی جان نے ہمیں تقریریں لکھ کر دیں اور کہا کہ اچھی طرح یاد کرلو، مَیں رات کو آکر سُنوں گا۔
اُسی روز وزیرآباد میں محترمہ فاطمہ جناح کا جلسہ ہورہا تھا، جس میں حبیب حالب نے بھی آنا تھا۔ مَیں اپنا مقابلہ بھول کرسیاسی مقابلے کے مقررّین کو سُننے چلاگیا۔ حبیب جالبؔ نے ایوب خان کے خلاف نظمیں سُنا کر جلسے کو خوب گرمایا۔ بھائی جان کے منشی نے دوبار مجھے اپنےتقریری مقابلے کی یاد دہانی کروائی، مگر میں نے اُسے یہ کہہ کر چُپ کروا دیا کہ ’’اِس وقت مُلک وقوم کے لیے اِس جلسے کی اہمیت کہیں زیادہ ہے، یہ تقریریں سُننا زیادہ ضروری ہے، اپنی تقریر رات کو یاد کرلوں گا۔‘‘ شام کو گھر پہنچا تو تھکاوٹ کے باعث کھانا کھاتے ہی سوگیا اور تقریر یاد نہ کی۔
دوسرے روز صبح بھائی جان نے پوچھا کہ ’’تقریریاد کرلی ہے؟‘‘ مَیں نے ہاں میں جواب دیا تو وہ مطمئن ہوگئے۔ بہرحال، ہم خانکی کے اسکول پہنچ گئے اور پیچھے پیچھے بھائی جان بھی پہنچ گئے۔ میرا نام پکارا گیا تو مَیں اسٹیج پر چلا گیا۔ لیکن مائیک کےسامنے صرف ’’جنابِ صدر!‘‘ہی کہہ پایا اور ذہن میں اندھیرا سا چھا گیا۔ سوچنے کی کوشش کی تو دماغ میں حبیب جالبؔ کا جلسہ آدھمکا اور زبان سے’’مَیں نہیں مانتا، مَیں نہیں مانتا‘‘ نکل گیا۔ جواب میں حاضرین کا بھرپور قہقہہ گونج اُٹھا۔ اُس کے بعد میری جانب سے مکمل خاموشی چھاگئی۔
ایک ڈیڑھ منٹ انتظار کے بعد اسٹیج سیکریٹری نے مجھے نیچے اُتار دیا اور مَیں شرم ساری سے واپس اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔ نثار بھائی اسٹیج پرگئے، تو وہ بھی تقریر بھول گئے اور واپس آکرخاموشی سے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد بھائی جان کے مُنشی نذرملک نےاشارے سے ہم دونوں کو پنڈال سے باہر بلایا اور بھائی صاحب ہمیں ساتھ لے کر اپنے گاؤں کی جانب (جو وہاں سے تین میل کے فاصلے پر ہے) چل پڑے۔ مَیں نے بھائی جان کی طرف کن اَنکھیوں سے دیکھا تو وہاں ہم دردی سےزیادہ غُصّہ نظرآیا۔
مَیں بھائی صاحب کے ممکنہ ردِّعمل سے متعلق سوچنے لگا۔مثلاًیہ کہ وہ ہم دونوں بھائیوں کومزید محنت پرلیکچردیں گے، آئندہ انعام جیتنےکےلیے موٹی ویٹ کریں گےیا وہ سوچ رہے ہیں کہ گاؤں تک سفر پُرسکون گزرنا چاہیے، گھر پہنچ کریا دوسرے روز آرام سے اس حوالے سے بات کریں گے۔ مَیں نے بھائی نثار کی طرف دیکھا تو اُن کے چہرے پر بھی گھبراہٹ نظر آئی، مگر دونوں کا یہ حُسنِ ظن تھا کہ بھائی جان Violence سے پاک کسی پُرامن آپشن ہی کا انتخاب کریں گے۔ البتہ اُن کے ماضی کے ریکارڈ سے یہ خدشہ بھی موجود تھا کہ وہ تشدّد کا راستہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ بہرحال، یہ یقین تھا کہ جو بھی ہوگا، گاؤںپہنچ کر ہی ہوگا۔
ہم دونوں بھائی تیز تیز چل رہے تھے اور دل ہی دل میں انسدادِ تشدّد کی دُعائیں بھی مانگ رہے تھے۔ بھائی جان اور اُن کامنشی بھی ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، مگر مکمل خاموشی کے ساتھ۔ اور پھر… اچانک کسی نے میرا کالر اس طرح پکڑا کہ مَیں پورا گھوم گیا۔ ابھی مَیں سچویشن سمجھنے کی کوشش ہی کررہا تھا کہ ایک زوردار تھپّڑ میرے دائیں گال پر پڑا۔ مَیں چکرا گیا،حواس بحال ہوئے تو دوسرا تھپّڑ پڑا۔ اس کے ساتھ ہی اُسی نوعیت کا ایک تھپّڑ نثاربھائی کو رسید ہوا۔
اب صورتِ حال یہ تھی کہ ایک تھپّڑ مجھے اور ایک نثار بھائی کو اور پھرایک مجھےاورایک بھائی کو رسید ہوتا۔ اس پوری صورتِ حال میں مُنشی نے پہلے پہل تو صرف ایک تماش بین کا کردار ادا کیا، مگر جب مارکی رفتار اور مقدار میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا اور ہماری چیخیں تکبیرِ مسلسل بن کر آس پاس کے ڈیروں کورعشۂ سیماب دینےلگیں۔
قریب کے کسان جائے وقوعہ کی جانب دوڑ پڑے تو مُنشی بھی متحّرک ہوا اور پھر اُس نےاور قرب و جوار کے کسانوں نے مل کر بھائی جان کو اُن کے اس مُتشدّدانہ عمل سے روکا۔ ہم روتے دھوتے گھر پہنچے اور جاتے ہی والدہ صاحبہ کی محبت بھری آغوش میں پناہ لی۔ اُس کے بعد نہ کبھی وہ مار بھولی اورنہ تقریر اور اُسی روز کے بعد مَیں نےتہیّہ کرلیا کہ اب زندگی بھر کبھی لکھی تقریر نہیں کروں گا۔
بہرحال، ہمارے ’’کھُنّے سینکنے‘‘ کی کارروائی کی تشہیرپورے گاؤں میں ہوچکی تھی۔ اس لیے دو، ایک روز تو ہم نے درد اورشرمندگی کے مارے گھر سے باہر نکلنا اور لوگوں سے ملنا مناسب نہ سمجھا۔ بعدازاں، دوستوں کو پورے اعتماد سے بتاتے رہے کہ ’’بھائی صاحب کو والدہ صاحبہ سے اِتنی جھڑکیاں پڑیں کہ وہ ہم دونوں سے معافیاں مانگنے پراُتر آئے۔‘‘ یوں بھی پڑھائی میں اچھا ہونے کے باعث میری اسکول میں خاصی عزت تھی۔ آٹھویں جماعت یعنی ورنیکلر فائنل کے امتحان میں، مَیں ضلع بھرمیں اوّل آیا۔ اسکول میں ایک بڑی تقریب منعقد ہوئی، جس میں مجھےاتنی بڑی ٹرافی دی گئی کہ جسے اُٹھانا بھی میرے لیے مشکل تھا۔ (جاری ہے)