رواں ہفتے کا اپنا اخباری کالم تحریر کرنے کیلئے میں عالمی سطح پر منائے جانے والے اہم ایام کی فہرست کا جائزہ لے رہا تھا تو اچانک ہی میری نظر ایک بہت دلچسپ دن پر پڑی جو امریکہ میں ہر سال 26ستمبر کو نیشنل گڈ نیبر ڈے کے نام سے منایا جاتا ہے، تاریخی طور پر امریکہ نے ستر کی دہائی میں یہ محسوس کیا تھا کہ عوام میں اچھے پڑوسی بننے کا شعور اجاگر کرنے کیلئے ایک قومی دن متعارف کرانا ضروری ہے، ستمبر 1978ء میں امریکی صدر جمی کارٹر نے اسے قومی سطح پر منانے کیلئے آئینی دستاویز پر دستخط کئے، اپریل2004ء میں امریکی سینیٹ نے ایک قرارداد کے ذریعے 26ستمبر کو نیشنل گڈ نیبر ڈے قرار دیدیا، اس دن امریکہ بھر میں قومی تعطیل ہوتی ہے تاکہ امریکی عوام یہ دن اپنے پڑوسیوںکے ساتھ بھرپور اندازمیں مناسکیں۔ ایک اچھا پڑوسی بننے کا درس دینے والے اس دن کے بارے میں پڑھتے ہی میں میرے ذہن میں پانچ سال قبل کی یادیں تازہ ہوگئیں جب میں نے اپنے ہفتہ وار کالم میں گُڈ نیبر ڈے کے موقع پر پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات پر اظہارِ خیال کیا تھا۔ میری نظر میں ایک اچھے انسان کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کتنا بہتربرتائوکرتا ہے، ہندو دھرم کی تعلیمات کے مطابق پڑوسی چاہے دوست ہو یا دشمن،ہمیں اچھے یا برے کی تفریق کئے بغیر سب کیلئے عاجزی اور انسانیت کا رویہ اپنانا چاہیے،اسلام میں تو ہمسایوں کے اتنے زیادہ حقوق بیان کیے گئے ہیں جسکی مثال ملنا مشکل ہے، اسی طرح کرسچینٹی، یہودیت، بدھ ازم اور دیگر مذاہب بھی اپنے ماننے والوں کو پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتائو رکھنے کا درس دیتے ہیں۔آج اگرہمیں دنیا کے نقشے پر ایسے ممالک نظر آتے ہیں جو بہت ترقی یافتہ، جدید اورپُرامن ہیں تو عمومی طور پر انکی ترقی و خوشحالی کا راز اندرونی استحکام، قانون کی حکمرانی اور عوام کو بہترین سہولیات کی فراہمی کو سمجھا جاتا ہے لیکن انکی کامیابی کی ایک بڑی وجہ جو بظاہر عام انسان کو نظر نہیں آتی، وہ ان ممالک کے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی خوشگوار تعلقات ہیں،انیسویں صدی میں امریکہ اور میکسیکو کے مابین خونی جنگیں لڑی گئیں، آج میکسیکو کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار امریکہ ہے تو امریکہ کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر میکسیکو کو سمجھا جاتا ہے، امریکہ کی اپنے دوسرے پڑوسی ملک کینیڈاکے ساتھ دنیا کی طویل ترین بارڈر ہے لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریبی اتحادی ممالک ہیں، امریکہ نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کئے تو وہ سپرپاور کے درجے پر فائز ہوگیا جبکہ دوسری سپرپاور سوویت یونین نے اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے خلاف جارحیت کی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئی۔ اگر ہم یورپ کی طرف دیکھیں تو ایک زمانے میں یورپی ممالک ایک دوسرے کے خلاف جنگوں میں مصروف رہتے تھے، انہوں نے اپنے آپس کے لڑائی جھگڑے ختم کیے اور اچھے پڑوسی ہونے کا عزم کرتے ہوئے یورپی یونین کی چھتری تلے متحد ہو گئے تو آج وہی یورپ عالمی امن کیلئے رول ماڈل بن گیا ہے، برطانیہ نے اپنے آپ کو یورپی یونین سے الگ کیا تو وہ اس کیلئے خسارے کا سودا ثابت ہوا۔افریقہ کا نام سنتے ہی ذہن میں پسماندگی کا تصورآتا ہے، آج افریقی ممالک جو کسی زمانے میں بہت غربت اور بدحالی کا شکار تھے،وہ تیزی سے ترقی کی منزلیں عبور کرتے جا رہے ہیں اور اسکابھی سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ ان افریقی ممالک نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اختلافات کو دور کیا اور ایک اچھے پڑوسی بننے پر اتفاق کیا۔ دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت چائنہ کے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں ماسوائے پاکستان لیکن تمام تر اختلافات کے باوجود چائنہ کے اپنے پڑوسیوں بشمول تائیوان کے ساتھ قریبی تجارتی تعلقات قائم ہیں۔ جغرافیائی طور پر پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک ہیں جن میں سے واحد پڑوسی چائنہ ہے جس کے ساتھ پاکستان کے دو ستانہ تعلقات ہیں، ایران وہ ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا،دونوں پڑوسی ممالک کے باسی صدیوں سے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، تجارتی اور سماجی بندھن میں منسلک ہیں لیکن بدقسمتی سے کچھ ناگزیر وجوہات کی بناپر امریکہ اور کینیڈا جیسے مثالی تعلقات پروان نہیں چڑھ سکے ہیں، افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات روزِاول سے نشیب و نشیب و فراز کا شکار ہیں جبکہ بھارت کے ساتھ ہمارا سرحدی تنازع سات دہائیوں بیت جانے کے باوجود حل طلب ہے۔ آج ہماری سرحدوں کے اندر ہمارے پڑوسی ممالک کی سرزمین پر موجود غیر ریاستی عناصرمسلسل کارروائیاں کر رہے ہیں جبکہ ہماری اپنے پڑوسیوں سے غلط فہمیاں اتنی زیادہ بڑھ چکی ہیں کہ ہمیں ان کو سمجھانا دشوار سے دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ میں ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہوں کہ ہسٹری سیکھنے کیلئے ہوتی ہے لیکن ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے، گُڈ نیبر ڈے کی مناسبت سے میرے کالم کو شائع ہوئے پانچ سال بیت گئے لیکن مجھے آج بھی پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں کسی قسم کی بہتری دیکھنے میں نظر نہیں آرہی بلکہ افغانستان میں طالبان کی واپسی نے خطے کی صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج گُڈ نیبر ڈے کے موقع پر میرا یہی پیغام ہے کہ ہم انفرادی سطح پر اپنے پڑوسیوں سے اچھا برتائوکریں جبکہ سفارتی سطح پرہمیں اپنے پیارے وطن پاکستان کو ایک اچھا پڑوسی کے طور پر روشناس کرانے کیلئے لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے تنازعات کو ڈائیلاگ کے ذریعے خوش اسلوبی سے حل کرکے تمام ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان کو ایشین ٹائیگر بننے سے دنیا کی کوئی قوت روک نہیں سکتی۔ گُڈ نیبر ڈے کے موقع پر عظیم امریکی رہنما ابراہام لنکن کی یہ نصیحت عالمی امن کیلئے مشعل راہ ہے کہ دشمنی کو ختم کرنے کا سب سے بہترین طریقہ دشمن کو دوست بنانا ہے۔