بڑے بھائی صاحب مجھے اچھے سے اچھے تعلیمی ادارے میں پڑھانے کےخواہش مند رہتے تھے،لہٰذا اُن ہی کے فیصلے کے مطابق میں نے کیڈٹ کالج حسن ابدال میں داخلےکے لیے امتحان کی تیاری شروع کردی۔ امتحان کے دن بھائی صاحب علی الصباح مجھے لےکر لاہور امتحانی سینٹر پہنچ گئے۔ اُن کی دل چسپی اورجوش و خروش غیرمعمولی تھا۔ تحریری امتحان کے تین پیپر تھے۔ مَیں جوں ہی پیپر دے کر باہر آتا، بھائی صاحب فوراً لپک کر میرے پاس آتے اور مجھ سے ایک ایک سوال کا تفصیلی جواب پوچھتے۔
مَیں جواب بتاتا تو ایک دفعہ مطمئن ہوجاتے، مگراُن کی مکمل تسلی نہ ہوتی، تو کچھ دیر بعد پھر پوچھنے لگتے کہ ’’تم نے اِس کی بجائے یہ جواب تو نہیں لکھ دیا؟‘‘ امتحانی سینٹرمیں بچّوں کے ساتھ اُن کے بڑے بھی آئے ہوئے تھے۔ وہیں لاہور کا ایک زندہ دل شخص (جنہیں دوسرے لوگ بٹ صاحب کہہ کر پکار رہے تھے) یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا، اُس سے رہا نہ گیا، تو وہ بھائی صاحب سے کہنےلگا۔ ’’پاہ جی! جے بچّے تے اعتبار نئیں، تےخُود جا کے پرچہ دے آئو۔ کالج آلیاں نال گل کرلینے آں۔‘‘ (بھائی صاحب!اگر آپ کو بچّے پراعتبار نہیں تو خُود جاکر امتحان میں بیٹھ جائیں۔
کالج والوں سے بات کرلیتے ہیں)۔ بہرکیف، مجھے کیڈٹ کالج، حسن ابدال میں داخلہ مل گیا، توسب لوگ بےحد خوش ہوئے۔ بھائی جان مجھے کالج چھوڑنے گئے، نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چُکا ہے، مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُس روز بارش ہو رہی تھی۔ ہم بس سے بارش میں بھیگتے ہوئے حسن ابدال اڈے پر اُترے اور وہاں سے ٹیکسی لے کر کالج پہنچ گئے۔ کیڈٹ کالج میں ہاسٹلز کو وِنگ کہا جاتا ہے اور مجھے ’’لیاقت ونگ‘‘ الاٹ ہوا تھا۔ بھائی جان مجھے لیاقت ونگ پہنچا کرواپس چلے گئے۔
دوسرے روز انگریز پرنسپل مسٹرجے ڈی ایچ چیپ مین نے نئے آنے والے طلباء سےخطاب کیا۔ پہلی بارانگریز پرنسپل کی تقریر بالکل پلّےنہ پڑی۔ ساتھ بیٹھے ہوئے کلاس فیلو سے، جو بار بار سربھی ہلا رہا تھا اور تالیاں بھی بجا رہا تھا، پوچھا تو اُس نے شرارتاً کہا پرنسپل صاحب نےکہا ہےکہ اردو میڈیم اسکولز سے آنے والے طلباء کو کالج سے فارغ کردیا جائے گا۔ مَیں بہت پریشان ہوا، بعد میں معلوم ہوا، اُسے خُود بھی کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔ پھرہائوس ماسٹر نے پرنسپل صاحب کے خطاب کی تفصیل بتائی، تواطمینان ہوا۔ کالج کے شب وروز عسکری ادارے کی طرح تھے۔
علی الصباح کِٹ پہن کر پی ٹی کرتے، پھر یونی فارم پہن کر ڈرل اوراس کے بعد ناشتا اور پھر کلاسزشروع ہوجاتیں۔ کالج میں چھے رہائشی ہاسٹلز ہیں، جن کےنام مختلف مشاہیر کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ مجھے لیاقت ونگ کی dormitory نمبر1 میں رہائش ملی۔ لیاقت ونگ ہی ہمارا ہاسٹل تھا اور وہی ہمارا گھر۔ جب مَیں نے اس درس گاہ میں قدم رکھا تو مَیں ایک سرکاری اسکول سے پڑھا ہوا، دیہی پس منظر رکھنے والا بچّہ تھا، جو دوسرے روز انگریز پرنسپل کی تقریرکا ایک فقرہ بھی نہ سمجھ سکا۔ مگر اُسی درس گاہ کے قابل اور مِشنری جذبوں سے سرشار اساتذہ نے اِس بّچے کی مخفی صلاحیتوں کو بھی نہ صرف بےدار کیا بلکہ نکھار دیا۔
یہیں اُردو کے استاد حسنین صاحب نے غالبؔ و اقبالؒ کے اشعار سمجھائے، زبان و بیان کے اسرار و رموز سکھائے۔ عبدالروّف صاحب جیسے انگریزی دان کی وجد آفرین تقریریں سُننے اور خطیب صاحب کے پُرجوش خطبات سے مستفیض ہونے کا موقع ملا۔ منظور الحق صدّیقی صاحب جیسے عظیم مورّخ سے زندگی کے اعلیٰ اصول اور قیامِ پاکستان کی حکمت واہمیت سمجھی اور یہیں چوہدری سردار صاحب سے ریاضی سیکھی اور انعام الحق صاحب سے تاریخ کا شعور ملا۔
لیاقت ونگ میں چھوٹی موٹی شرارتوں پہ سزا کے طور پر فرنٹ رول بھی کیے، بید بھی کھائے اور ’’یومِ والدین‘‘ کی پُروقار تقریب میں انعامات بھی حاصل کیے۔ دسویں جماعت میں اُردو کے بہترین مقرر ہونے، بہترین مضمون لکھنے اور کالج میگزین کے لیے بہترین آرٹیکل لکھنے کے تینوں انعامات حاصل کیے۔ اِسی کالج سے بہترین مضمون لکھنے پر انعام میں حاصل کی گئی چارسو صفحات کی انتہائی معیاری کتاب اِس وقت بھی میری میز پر موجود ہے۔ اِس بےمثال درس گاہ میں گزارے پانچ سالوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔
ڈسپلن، اسپورٹس مین اسپرٹ، محنت کی عظمت و فضیلت، آسمانوں کو چُھوتا جذبۂ جنون اور یہاں سے سیکھے ہوئے ہر سبق نے زندگی کی کٹھن شاہ راہوں پر خُوب رہنمائی کی، ہر مشکل موڑپرانگلی پکڑےرکھی۔اس درس گاہ کے فارغ التحصیل (ابدالین) ہر شعبۂ زندگی کے فلک پر ستارے بن کر چمکے اور ممتاز مقام حاصل کیا۔ بالکل اُسی طرح جیسے گورنمنٹ کالج، لاہور کے سابق طلبہ (راوینز) نے زندگی کے ہر میدان میں نام پیدا کیا ہے۔ کالج جانے اور وہاں سے آنے کے لیے ہم اکثر ٹرین کاسفر کیا کرتے تھے۔
ایک بارحسن ابدال ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹس کی کھڑکی کی سامنے جب اسٹیشن ماسٹر نے ہمارے کلاس فیلو، محبّت علی سے (جو بعد میں فوج سے بطور کرنل ریٹائر ہوئے) پوچھا۔ ’’کس کلاس کا ٹکٹ چاہیے؟‘‘ تو دیہی پس منظر کے سادہ لوح بچّےنےفوراً کہا۔ ’’جی، 9th سی کا۔‘‘ (وہ نویں جماعت کے سی سیکشن میں تھا) پیچھے سے آواز آئی۔ ’’سرجی! اے اور بی سیکشن والے بھی کھڑے ہیں، پہلے اُنہیں ٹکٹ دیں۔ یہ وہ دَور تھا، جب کالج میں ٹیلی ویژن نیا نیا آیا تھا، ہر ونگ کو ہفتے میں ایک روز ٹی وی دیکھنے کی عیّاشی یا سہولت حاصل تھی۔
اکثر رات کو ایسا ہوتا کہ ایک ونگ کے طلباء ہال میں بیٹھے ٹی وی پر ’’الف نون‘‘ ڈراما دیکھتے، تو دوسرے ونگز والے اُسی ہال کی کھڑکیوں سے لٹک کر اندر بیٹھے ہوئے ناظرین کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے رہتے۔ ہاسٹلز کے غسل خانے تعمیر کرتے وقت سب سے زیادہ توجّہ اُن کی پختگی اور پائیداری پر دی گئی تھی اور اِس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا تھا کہ غسل و طہارت گاہیں جدیدیت کی آلائشوں سے مکمل طور پرپاک رہیں۔ اسی لیے ٹوائلٹس کی زنجیر، شاہی محلّات کے باہر لٹکی ہوئی ’’زنجیرِعدل‘‘کی طرح اکثراٹک جاتی اور اُسے نیچے لانے کے لیے اُسی طرح اجتماعی زور لگانا پڑتا، جس طرح آج بھی بڑی عدالتوں کی زنجیرِ عدل کھینچنے کے لیے عوام، میڈیا اور وکلاء کو مشترکہ طور پر لگانا پڑتا ہے۔
لیاقت ونگ ہی میں ایک بار کسی شرارت پر ہم تین لڑکوں کی ہاؤس ماسٹر صاحب کے پاس طلبی ہوگئی، کیوں کہ اُن کے’’مخبر‘‘ نے خبر کردی تھی کہ ’’تین ملزمان نے آپ کے (ہاؤس ماسٹر) لان سے پھول توڑے ہیں اور اوپر سے اِن گستاخوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’بابے کوکون سا پتاچلنا ہے؟‘‘ اور ہاؤس ماسٹر صاحب کو بابا قرار دینا اِن ملزمان کا ناقابلِ معافی جرم ہے۔‘‘ ہم تینوں ملزمان جوں ہی اُن کے آفس میں داخل ہوئے، تو بید بردار ہاؤس ماسٹر صاحب جارحانہ انداز میں اُٹھ کر ہماری جانب لپکے۔
وہ اُس وقت غیض و غضب کا مجسّمہ بنے ہوئے تھے اورغصّے سے اپنے بَید ہی کی طرح کانپ رہے تھے۔ اِسی حالت میں انہوں نے ہمیں مرغا بننے کا حُکم دیا اور گرجتے ہوئےکہا۔ ’’ہاؤس ماسٹر کو بُڈّھا سمجھتے ہو…اب اِس بُڈّھے کی مار دیکھو!‘‘ یعنی اُنھیں غصّہ پھول توڑنے پر کم اور بڑھاپے کےطعنے پر زیادہ تھا۔ چناں چہ یہ الزام غلط ثابت کرنے کے لیے انہوں نے ہم پر’’آپریشن ضربِ غَضب‘‘ کا آغازکردیا۔ وہ کسی نوآموز باؤلر کی طرح پیچھے سےاسٹارٹ لیتے ہوئے آتے اور پوری قوّت سے ہدف پرضربِ شدید لگاتے۔ جو ’’اہد ف‘‘ کو ضربِ خفیف ہی محسوس ہوتی۔ کیوں کہ بہرحال، اُن کی عُمر، اُن کے جوش و جنون کا ساتھ دینے سے قاصر تھی۔
ہرتازیانے کے بعد وہ للکارتے کہ ’’اب دیکھو، بڈّھے کی طاقت!!‘‘گرچہ وہ اپنے ٹارگٹ کو’’سومنات کا مندر‘‘سمجھ کرپورےسترہ حملوں کا ہدف مکمّل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، مگر دوچارحملوں بعد ہی اُنہیں محسوس ہوا کہ آپریشن کےمطلوبہ اور مثبت نتائج برآمد نہیں ہو رہے کہ ملزمان کے جسموں کے پُرزے اُڑرہے ہیں، نہ اُن کی چیخیں بلند ہورہی ہیں، تو اُنہوں نے حکمتِ عملی تبدیل کی اور بازو کا زور اور منہ کا شور بڑھا دیا۔
اُن کے پانچویں تازیانے پر ہلکی سی ’’ہائے‘‘ نکلی ضرور، مگر ملزمان کی نہیں، قبلہ ہاؤس ماسٹر صاحب کی اورپھر چھٹے حملےمیں وہ ہانپتے ہوئے آئے تو ہدف پر نشانہ لگاتے ہوئےخُود پرقابو ہی نہ رکھ سکے اور چاروں شانےچِت ہوگئے۔ ہم نےاپنےکان چھوڑ، اُن کی ٹانگیں اور بازو پکڑلیے۔ سہارا دے کر اُٹھایا تو اُن کی آنکھوں میں پہلے ندامت اور پھر رحم عود کرآیا اوراِسی حالت میں منہ سے نکلا۔ ’’گیٹ آئوٹ‘‘۔ ہم بھی بس اِن ہی الفاظ کے منتظر تھے، لہٰذا حُکم بجا لانے میں رتّی بھر تاخیر نہ کی۔
کالج میں قیام کے کچھ عرصے بعد جب محسوس کیا کہ انگریزی زبان ابھی تک پورا تعاون نہیں کر رہی اور کسی اَن فرینڈلی اپوزیشن کی طرح مسلسل رکاوٹ بن رہی ہے، تو انگلستان سے آئے ہوئے انگریزی کے ٹیچر مسٹر گرین سے مدد کی درخواست کی۔ گورے کی زبان، گورے استاد کے سامنے تو گھر کی باندی کی طرح ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔ اُنہوں نے چند ہفتوں ہی میں لب و لہجہ درست کروا کے نہ صرف بولنا سکھا دیا، بلکہ انگریزی تقریر کے لیے اسٹیج پر بھی چڑھادیا۔
انگریزی کے پہلے ہی مباحثے میں میری دوسری پوزیشن آئی۔ اور پھر…کچھ عرصے بعد جب مَیں یہاں سے فارغ ہو کر گورنمنٹ کالج لاہور پہنچا، تو اُس کی نمائندگی کرتے ہوئے مُلک بَھر میں انگریزی کے معروف انٹرکالجیٹ مباحثوں میں حصّہ لیا، اور نہ صرف درجنوں ٹرافیاں، میڈلز جیتے بلکہ گورنمنٹ کالج، لاہور کا سب سے بڑا اعزاز ’’رول آف آنر‘‘ بھی حاصل کیا۔ کیڈٹ کالج میں قواعد و ضوابط اور حدود و قیود کا خصوصی خیال رکھنا پڑتا تھا۔ ایک بار گُھڑ سواری کرتے ہوئے تین سواروں نے باگیں کُھلی چھوڑدیں، تو گھوڑے رائیڈنگ اسکول سے باہر نکل گئے۔
آزادی کسے پیاری نہیں ہوتی، آزادی ملی تو مست ہو کرسرپٹ دوڑ پڑے اور جب رُکے تو کالج کی حدُود نظروں سے اوجھل ہوچُکی تھی۔ تینوں سواروں کی شکایت ہوئی اور بلا اجازت کالج کی حدُود عبور کرنے پر دس روز کے لیے کالج کی حدود میں داخلہ بند کردیا گیا۔ ملزمان میں میرے علاوہ دوسرے دو سوارفاروق خان اور جمیل خٹک تھے۔ گیارہویں دن دو تو کالج واپس آگئے، مگر فاروق خان نے پیچھے مُڑ کر نہ دیکھا۔ اُس نے پشاورسے پہلے انجینئرنگ کی، پھر ڈاکٹریٹ کیا اور پھر معروف دینی اسکالر کے طور پرمُلکی افق پہ نمودار ہوئے۔
عمران خان کے ابتدائی ساتھیوں اور مشیروں میں بھی شامل رہے، مگر وہاں سے مایوس ہوکر فاٹا کے گم راہ نوجوانوں کو اسلام کےصحیح مفہوم سےآگاہی کےلیےفوج کےساتھ مِل کر سوات میں ایک ادارہ قائم کیا۔ میری اُن سے آخری ملاقات 2008ء میں ہوئی، جب میں کوہاٹ میں ڈی آئی جی تھا۔ ہم پشاور میں ایک شادی کی تقریب میں ملے، تو گھنٹوں بیٹھ کر ماضی کی یادیں کریدتے، مستقبل کے منصوبے ایک دوسرے سے شیئر کرتے رہے۔ وہ اُن سے آخری ملاقات تھی، پھرایک روز ٹی وی پر بریکنگ نیوزچلی کہ’’دہشت گردوں نے معروف اسکالرڈاکٹر محمد فاروق خان کو شہید کردیا‘‘۔
جہالت و درندگی کی آندھی نےعلم ودانش کا ایک اور روشن چراغ گُل کردیا۔ اِس درس گاہ کےبہت سےفارغ التحصیل طلباءنےآرمڈ فورسز میں شامل ہو کرجرأت و بہادری کی داستانیں رقم کیں اور کئی بلند بخت شہادت کے مرتبے پربھی فائز ہوئے۔ کالج کے ڈائننگ ہالز اِنہی شہیدوں کے ناموں سے موسوم کیے گئے ہیں۔ 1971ء میں جب وطنِ عزیز بدمست و بدکردار قیادت کے سبب دولخت ہوا اور ہزاروں فوجی (جن میں سے زیادہ تر سرنڈر نہیں کرنا چاہتے تھے) جنگی قیدی بن گئے، تو اُن میں نادر پرویز نام کا ایک ’’ابدالین‘‘ بھی تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، کالج اساتذہ اُس کی بےمثال جرأت کا ذکر کرتے ہوئے پورے یقین سے کہتے تھے کہ ’’بھارت کی جیلیں اور قلعوں کی اونچی دیواریں میجرنادر پرویز کو نہیں روک سکتیں۔
دیکھ لینا، وہ دشمن کی تمام رکاوٹیں توڑتا ہوا پاکستان واپس پہنچےگا یا جان دے دے گا۔‘‘ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ نادر پرویز کی جرأت وہمت ہر رکاوٹ، ہر دیوار سے بلند تر، اوراُس کا عزم ہرقلعے سے مضبوط ترنکلا اور وہ تمام رکاوٹیں توڑتا ہوا جیل سے نکل گیا۔ جیلر اور گارڈ اُسے پکڑنے کے لیے جب تک اُس کے پیچھے بھاگے، وہ اپنی پاک سرزمین پر پہنچ کراُس کی مٹی چُوم رہا تھا۔
مجھے اپنے کالج سے نکلے ہوئے چار دہائیاں بیت چُکی تھیں، تب مَیں مُلک کے انتہائی ممتاز اور محترم ادارے ’’نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس‘‘ کا سربراہ (انسپکٹر جنرل) تھا کہ قدرت نے ناچیز کو یہ اعزاز بخشا کہ اپنی عظیم مادرِ علمی میں بطور’’مہمانِ خصوصی‘‘ مدعوکیا گیا۔ کالج کے پرنسپل، میجرجنرل نجیب طارق نے مجھے ریسیو کیا اور قطارمیں کھڑے تمام اساتذہ سے تعارف کروایا۔
مجھ سے مقابلے جیتنے والے کیڈٹس کوشیلڈز، انعامات دلوائے۔ نیز، مَیں نے ہال میں موجود طلباء سے خطاب بھی کیا۔ اپنی تقریرمیں پرنسپل صاحب نے ناچیز سے متعلق کلماتِ خیر میں کہا۔ ’’اِس کالج میں فوج کے جرنیل تو بڑی دفعہ آئے ہیں، مگر اِس بار ہم نے مہمانِ خصوصی کے طور پر پولیس کے ایک جرنیل کو مدعو کیا ہے، جس کی integrity اور کیریکٹر نے اُسے نیک نامی اور اُس کے محکمے کو عزّت بخشی ہے۔‘‘ تب ناچیز کا سر خدائے بزرگ و برتر کے حضور جُھک گیا کہ اُس کی بےپناہ رحمتوں اور فضل و کرم کا شُکر ادا ہی نہیں کیا جاسکتا۔
پرنسپل صاحب کالج کا راؤنڈ لگواتے ہوئے اُس غیرمعمولی شخصیت کی قبر پر بھی لے گئے، جو اِس عظیم درس گاہ کا بانی تھےاورمعمار بھی۔ جنرل صاحب بتانے لگے کہ’’یکم فروری 1997ء کو کیچ پول صاحب اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے، تو اُنہیں اُن کی وصیّت کے مطابق اس درس گاہ (کیڈٹ کالج، حسن ابدال) کے احاطے ہی میں دفن کیا گیا کہ اِس کی بنیادوں میں اُن کا خونِ جگر شامل ہے۔ اِس کی تعمیر و ترقّی کے لیے وہ لندن میں اپنی جائداد بیچ کرپیسا لگاتے رہے اور تن خواہ سے پس انداز کی ہوئی رقم بھی کالج کی بہتری پر خرچ کرتے رہے۔‘‘ اور مَیں سرجُھکائے یہی سوچتا رہا کہ کہاں ہیں، اب ایسے اساتذہ؟ کہاں چلے گئے ایسے معمار؟؟ کہ ؎ اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں۔ (جاری ہے)