• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ستمبردو ہزار ایک کی دہشت گردی کے بعد والے دنوں کی بات ہے جب شکاگو میں رہنے والے ایک جلاوطن افغان نوجوان اپنے اصل وطن افغانستان پر ہونے والے امریکی حملے سے سخت پریشان تھا اور کئی دن تک مزارشریف افغانستان میں رہنے والے اپنے عزیز و اقارب کی خیر خبر معلوم نہیں کر پا سکا تھا لیکن افغانستان کی خبریں میڈیا پر سن کر اس خاموشی سے ہر وقت خلا میں گھورنے والے افغان نوجوان نے مجھ سے کہا تھا ’’پاکستان کی طاقتور خفیہ ایجنسی نے افغانستان کو تباہ کر دیا‘‘۔
سرمدی قبیلے سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان غیر پشتون اور مزارشریف شہر کا تھا اور اس کا قبیلہ اس لئے سرمدی کہلاتا تھا کہ یہ لوگ صوفی سرمد کے معتقد تھے۔ یہ اس نوجوان نے مجھے بتایا تھا۔ جلاوطن افغان نوجوان کا یہ جملہ اس افغان مہاجر لڑکی شربت گلاں(جو کہ اب نانی دادی ہو چکی لیکن ٹرکوں سے لیکر مغرب اور امریکہ کے افغان ریستورانوں کی دیواروں پر لگی تصویر میں کھو رہی ہوتی ہے) کی آنکھوں کی طرح آج تک میرا پیچھاکر رہا ہے۔ یہ بات اس وقت بھی مجھے یاد آئی جب پینتیس برس تک آگ اور خون کے جہنم سے گزرنے کے باوجود افغانستان ایک بار پھر لیکن پہلی بار پر امن انتخابات کے ذریعے اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے والا ہے، وہ انتخابات جن میں ووٹر کا پچاس فی صد خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کر کے شدت پسندی کو کارٹونسٹ صابر نذر کی لکیروں کی زبان میں نیلی دوات والی وسطی انگلی دکھادی ہے۔ اس شدت پسندی کو جس نے نہ فقط پی ایچ ڈی خواتین کو کابل کی سڑکوں پر بھیک منگوائی تھی بلکہ پورے افغانستان کو شٹل کاک برقعہ پہنا دیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کـچھ دنوں قبل تک افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اور سرمدی کے پڑوس کے علاقوں سے ہزارہ جات میں طالبان کے ہاتھوں قتل عام کے شکار دو ہزار سے زائد ہزارہ لوگوں کی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی تھیں۔ پہلے ہزاروں کو ہزارہ جات میں مبینہ طور پر انفرادی غذائی قلت پیدا کر کے مارا گیا اور پھر انہیں قتل کر کے ان کی اجتماعی قبریں کھودی گئیں جو بعد میں سب سے پہلی بار ہیومن رائٹس واچ نے دریافت کی تھیں۔ طالبان نے افغانستان میں ہزارہ و تاجک سمیت دیگر کئی غیر پختون نسلی گروپوں کی سب سے زیادہ نسل کشی کی۔پھر افغانستان میں بم برس رہے تھے اور تورا بورا کے کیمپوں اور کمین گاہوں سے عرب و بھانت بھانت ملکوں کے جنگجو کنٹینروں میں لاد لاد کر فرار کرائے جا رہے تھے۔لق ودق افغان صحرا میں کنٹینروں میں سانسیں گھٹ کر مر جانے والوں کی بھی کئی کہانیاں منظر عام پر آئیں اور کئی ہولناک کہانیوں کو زبردست پاکستانی نژاد برطانوی ناول نگار ندیم اسلم نے اپنے ناول ’’دی بلائنڈ مینز گارڈن‘‘ اندھے آدمی کا باغ میں بھی سموئی ہیں۔ ندیم اسلم ایک آفاقی ناول نگار ہے۔ ویسے تو سابق بلوچ گوریلا لیڈر اور آج کے تجزیہ نگار احمد رشید سے لے کر میرے دوست خاور مہدی تک سب افغانستان کے معاملات پر ماہر بنے ہوئے ہیں لیکن پاکستان سمیت دنیا وہ کاٹ رہی ہے جو وہ افغانستان میں بوکرآئی تھی۔آج سے نہیں صدیوں سے افغانستان میں یہی ہوتا آیا ہے۔اسی لئے افغانستان کو سلطنتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔ ناقابل تسخیر خطہ۔ سدا سے ایک آزاد ملک افغانیہ جسے انگریز نے اٹھارہ سو ترانوے میں ڈیورنڈ لائن میں بانٹ تو دیا لیکن اس کے دونوں پار بسنے والے کئی لوگ اسے آج بھی کالی لکیر کہتے ہیں۔ اسی لئے برصغیر میں تحریک آزادی کے ایک قد آور رہنما خان عبدالغفار (باچا خان)نے اسی آزاد سرزمین میں دفن ہونا پسند کیا ۔ غلام بھی آزادی کی موت اور مدفن چاہتا ہے وہ یوں پھر بھی ایک آزادمنش درویش اور آزادی کے عظیم سپاہی تھے۔چارلس نیپیئر جیسا انگریز جنرل جب افغانستان کو فتح کرنے کا برطانوی خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکا اور ہزیمت آفریں برطانوی شکست کی جھینپ اس نے سندھ جیسا پر امن ملک فتح کرکے مٹائی۔ اب یہ ایک کھلا راز ہے کہ انگریزوں نے سندھ پر اٹھارہ سو تنیتالیس میں قبضہ افغانستان میں شکست کی خجالت مٹانے کے لئے کیا تھا۔ سندھ کے اس قضیئے کے لرزہ خیز حقائق مورخ و مصنفہ وینڈی ڈونیگر نے اپنی کتاب ہندوز دی الٹرنیٹو ہسٹری آف ہندوز میں بڑے خوب پیرائیے میں بیان کئے ہیں جس کتاب کو بھارت میں ہندو طالبان کے دبائو پر اب کتاب کے پبلشر پینگوئین انڈیا نے بھارت کے کتاب گھروں سے ہٹا دیا ہے اور یہی کارلوٹا گال کی کتاب کے حوالے سے پاکستان میں ہوا ہے۔
افغانستان میں بوئی ہوئی پالیسی کے سبب آج جو کچھ پاکستان میں کاٹا جا رہا ہے اس کے اصل میں ڈانڈے تو اسی فرزند سرزمین سندھ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور سے جاکر ملتے ہیں۔ جب افغانستان میں اس وقت کے کوجک ٹائپ صدر سردار دائود کی حکومت کی طرف سے پشتونستان کی تحریک کی مدد کے رد میں دائودحکومت کے مخالف مذہبی شدت پسندسیاست کرنے والے طالبعلم رہنما اور مذہبی رہنمائوں کو پاکستان میں پناہ و امداد دی گئی تھی۔ گلبدین حکمت یار، عبدالرسول سیاف اور اس طرح کےکرداربھٹو کے دور کی بوئی ہوئی پالیسی کے طفیل پرورش ہوئے ضیاء الحق اور اس کے بعد آنےوالی حکومتوں میں افغانستان میں تناور درخت بن گئی جسے افغانوں اور پاکستانیوں کے بیگناہ خون سے سینچا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ باقی خارجہ پالیسی اسلام آباد کے دفتر خارجہ میں بنتی ہو لیکن افغانستان کے بارے میں پالیسی راولپنڈی میں ہی بنتی ہے۔ وہی جنرل نصیر اللہ بابر تھے جو بھٹو کے دور میں سردار دائود کے مخالف شدت پسندوں کو پناہ دینے اور ان کی پرورش کے نگہبان تھے اور بے نظیر کے دور حکومت میں طالبان کی بھی دایہ تھے کہ انہیں وہ اپنے بچے کہتے تھے۔ صرف جنرل نصیر اللہ بابر اور بے نظیر تو فقط بطور افراد تو اس خلاف انسانیت جرم میں شریک نہ تھے کہ یہ تو ایک طاقتور ادارے کی پیشکش تھے۔ وہ افغاناستان اور پاکستان جو انیس سو بہتر تہتر میں تھا وہ پتھر کے دور میں کب کا جا چکا۔ کمیونسٹ تھے یا اسلامی شدت پسند گروہ یا روسیوں سمیت غیر ملکی مداخلت کار افغانستان کو تاراج کرنے میں کسی نے بھی کسر نہ چھوڑی۔ اگر پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی بغاوت خراب تھی تو انقلاب ثور کے نام پر افغانستان میں فوجی بغاوتیں بھی ناجائز تھیں۔ ایک ایسا فراڈ کہ جس کے سحر سے حبیب جالب جیسے سادہ لوح نظریاتی شاعر بھی مسحور ہوگئے اور انہوں نے کہا
کابل وچ کامیاں نے حکومت بنا وی لئی
ہن اتھے کرے گا نہ کوئی ہیرا پھیریاں
لیکن یہ پینتیس سال کی خونی تاریخ میں کابل سمیت افغانستان میں پہلی بار پُرامن انتخابات ہوئے ہیں۔ اگرچہ پاکستان نے ان انتخابات میں حصہ نہیں لیا لیکن وہ افغانستان میں بے مقصد جنگ ہار چکا ہے کہ بیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دینے کے باوجود افغانستان میں آج بچہ بچہ اس کے خلاف ہے۔ افغانستان نہ صرف سلطنتوں کا قبرستان ہے بلکہ اسٹریٹجک گہرائی کا بھی افغان عوام نے جس کا اظہار حالیہ انتخابات میں کیا ہے کہ وہ اپنے مقدر کے مالک آپ ہیں نہ کہ اسلام آباد کہ وفاقی وزارت داخلہ یا لال نیلی پیلی اودی عمارات کہ جنہوں نے ہمیشہ افغانستان کو چوتھا چھوٹا صوبہ سمجھا اور اسے ایک بریگیڈيئر کے ذریعے ہی چلائی۔ عرض یہ کہ دنیا کے نقشے پر ایسی ریاست کم ہی ہوگی کہ جہاں نو ماہ کے بچے کو قتل کے مقدمہ کا ملزم بنایا جائے اور اسے عدالت میں پیش کیا جائے ایسے میں ایسی قوم کا دشمن نہ روس ہوسکتا ہے نہ امریکہ نہ ایران افغانستان و اسرائیل نہ بھارت بلکہ وہی فراز والی بات کہ:
ہم اپنے ہاتھوں ہوئے تباہ ورنہ
دنیا کو ہماری کیا پڑی تھی
تازہ ترین