کیڈٹ کالج کے بعد اگلی منزل کا انتخاب بھی برسوں پہلے ہوچُکا تھا۔ مجھ سے پہلے دونوں بھائی گورنمنٹ کالج، لاہور سے پڑھےتھے، لہٰذا مجھے بھی گریجویشن وہیں سےکرنی تھی۔ سو، مزید تعلیم کے لیے اِسی عظیم الشّان درس گاہ کی دہلیز پر زانوئے تلمّذ تہہ کیا۔ حصولِ علم کا اجازت نامہ مل گیا، تو کالج کے مغربی گیٹ سے پچاس قدم کے فاصلے پر واقع اُس کے نیو ہاسٹل میں رہائش اختیار کی۔ گورنمنٹ کالج اپنی علمی و ادبی سرگرمیوں اورعظیم روایات کے باعث ایشیا کا معتبر ترین تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا تھا۔
علّامہ اقبال جیسی عظیم ہستیوں کو اِس کالج سےنسبت رہی کہ وہ یہاں پڑھتےبھی رہےاور پڑھاتے بھی۔اُن کے بعد فیض احمد فیض، پطرس بخاری، صوفی تبسّم جیسےشاعر، ادیب اور ڈاکٹر عبدالسّلام جیسے نام وَرسائنس دان بھی اِسی کالج کے طالب علم تھے۔ کالج کی مختلف سوسائٹیز اور کلبز سے متعارف ہونے کے بعد مَیں کالج کی مجلسِ اقبال اور سوندھی ٹرانس لیشن سوسائٹی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگا۔ اِس کے علاوہ تقریری مقابلوں اور مباحثوں میں بھی بڑھ چڑھ کرحصّہ لیتا۔ گورنمنٹ کالج کی نمائندگی کے لیے مَیں کبھی مَری اور مظفر آباد، توکبھی ملتان اور ڈیرہ غازی خان جاتا رہا۔
نذیر سعید ( وفاقی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر ریٹائر ہوئے) جلیل عباس (سیکرٹری خارجہ بن کےریٹائر ہوئے) خان بیگ (آئی جی پنجاب رہے) ظفر عباس لک(آئی جی ریٹائر ہوئے) جاوید محمود (پنجاب کےچیف سیکرٹری رہے) میرے کلاس فیلو تھے اورہم سب نیو ہاسٹل میں قیام پذیرتھے۔ آصف کھوسہ (بعد میں چیف جسٹس بھی رہے) ناصر کھوسہ (میرے ساتھ ڈی سی لاہور تھے اور بعد میں چیف سیکرٹری پنجاب بھی رہے) طاہر امین (بہائوالدین ذکریا یونی ورسٹی کے وائس چانسلر رہے) ظفرمحمود(فیڈرل سیکرٹری رہے) سمیع سعید (فیڈرل سیکرٹری رہے) اور یوسف رضا گیلانی (مُلک کے وزیراعظم بنے) بھی ہمارے ساتھ نیو ہاسٹل ہی میں تھے۔
مجھے جی۔ سی کے زمانۂ طالب علمی کے تین تقریری معرکے آج تک یاد ہیں۔ پہلا ڈیرہ غازی خان کے ڈگری کالج کا انگریزی مباحثہ تھا، جس میں شرکت کے لیے مَیں، نذیر سعید، جاوید اشرف (جوانگریزی اسکولوں کا پڑھا ہوا تھا۔ والد صاحب فوج میں افسر تھے۔ رہن سہن میں بڑاکلچرڈ، اور sofisticated تھا، بعد میں قائداعظم یونی ورسٹی کا وائس چانسلر بھی بنا) اور ایک دو اور لوگ لاہور ریلوے اسٹیشن سے ملتان کے لیےٹرین پر سوار ہوئے۔ کوئی نشست خالی نہیں تھی، لہٰذا ہم سب کھڑے ہوگئے۔ کچھ ساہیوال تک پہنچ کر اور کچھ اُس سے پہلے ہی تھک کر فرش پر بیٹھ گئے۔
اب انسان کو تھکاوٹ بھی ہوتی ہے اور نیند بھی آتی ہے، چناں چہ تھوڑی دیر بعد میری نظر پڑی تو جاوید اشرف پتلون، کوٹ پہنے سواریوں کے قدموں میں لیٹا ہوا نظر آیا۔ مَیں نے نذیر سعید سے کہا کہ کیمرا ہوتا تو تصویر بنالیتے اور کالج کے کسی ہال پر لگا دیتے کہ کالج کا رول آف آنر لینے کے لیے بڑے معزّز اور سینئر طلباء کو کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس طرح کےمزید کئی ذلّت آمیز سفر بھی کرنے پڑے، مگرجاوید اشرف ’’رول آف آنر‘‘ نہ لے سکا۔
تعلیم الاسلام کالج، ربوہ کی ڈیبیٹ کا معیار بہت بلند ہوتا تھا اور مُلک بھر سے طلباء اِس میں حصہ لینے جاتے تھے۔ جی۔ سی سے دو ٹیمز کا انتخاب کیا گیا۔ ایک ٹیم میں نذیر سعید اور مَیں اور دوسری میں جاوید اشرف اور وسیم کوثر تھے۔ سب کا خیال تھا کہ ربوہ سے مذہبی تعلق کےناتے وسیم کوثر ہی اوّل انعام کاحق دارقرارپائے گا۔ مَیں ایک روز پہلے لاہور سے گائوں چلا گیا، وہاں سے بذریعہ ٹرین سانگلہ ہِل اور وہاں سے بس کے ذریعے ربوہ پہنچا۔
مباحثہ رات کوتھا، جب کہ مَیں دوپہر ہی کو پہنچ گیا تھا۔ تقریر کے لیے پوائنٹس مَیں نے گائوں میں باغ کے ساتھ بہنے والی ندی کے کنارے سیر کرتے کرتے تیارکرلیے تھے۔ ربوہ کالج کے آس پاس چلتے پھرتے تقریر مزید اچھی طرح تیار ہوگئی۔ بعض اوقات مُوڈ اور ماحول دیکھ کر بھی طبیعت رواں ہوجاتی ہے۔ اُس شام ہال کی تزئین وآرائش اور سامعین کے جوش و خروش سےموڈ پربڑا خوش گوار اثر پڑا اور تقریر کے ہرپوائنٹ پرخُوب داد ملی۔
جب کالج کے پرنسپل صاحب نے نتائج کا اعلان کیا تو وسیم کوثر تیسرے نمبر پر آیا، دوسری پوزیشن پنجاب میڈیکل کالج، فیصل آباد کے طالب علم نے حاصل کی اور پہلی پوزیشن اور گولڈ میڈل کا حق دار مجھے قراردیا گیا۔ کئی روز تک کالج میں اِس کا خُوب چرچا رہا۔ ایک بارجب میں راول پنڈی بھائی جان کے پاس آیا ہوا تھا۔ وہ اُس وقت راول پنڈی میں ایڈیشنل سیشن جج تھے۔ مَیں نےصبح اخبار میں پڑھا کہ آج شام پانچ بجے گورنمنٹ کالج اصغرمال میں انگریزی مباحثہ ہے۔
گاؤں سے ہمارے ہائی اسکول کےمدرّس ماسٹراعجاز صاحب آئےہوئے تھے، مَیں اُنہیں لے کراصغر مال کالج پہنچ گیا، کالج کے گرائونڈ کے ایک کونے میں بیٹھ کر تقریر لکھی اوروہیں گھوم پِھرکر تیار کرلی۔ وقتِ مقررہ پرہال پہنچا تو معلوم ہوا کہ جی۔ سی کی نمائندگی کے لیے مشہور مقرراور اسکالر سراج منیر بھی پہنچے ہوئے ہیں، لیکن اُس روز سراج منیر کے دلائل میں وزن تھا اور نہ ہی ڈیلیوری پُراثر تھی۔
اتفاق سے مَیں نے تقریر جم کر کی اورحاضرین سے خُوب داد سمیٹی اور پھررزلٹ کے بعد اوّل انعام کا حق دار ہونے کے ناتے سب سے خُوب صورت کپ لےکررات گئے گھر پہنچا۔ لاہور واپس پہنچ کرسراج صاحب نے(اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے) اپنی ناکامی کا یہ جواز پیش کیا کہ ’’ذوالفقار چیمہ اس لیے جیت گیا کہ اُس کے بھائی پنڈی میں جج لگے ہوئے ہیں۔‘‘جب کہ حقیقت یہ ہےکہ بھائی صاحب کے فرشتوں کوبھی خبرنہیں تھی کہ مَیں کسی کالج کے مباحثے میں حصہ لینے گیا ہوا ہوں۔
جی۔ سی کے نیو ہاسٹل میں میس کا کھانا بہت اچھا ہوتا تھا، پلائو اور چکن پیسز کا تو سارا ہفتہ انتظاررہتا تھا۔ فروٹ شاپ معیاری نہیں تھی مگرکینٹین کا معیاراعلیٰ اور اس کے کیک پیسز بہت لذیذ ہوتے تھے۔ نیوہاسٹل میں ہر علاقے اور ہر قماش کے طلباء رہائش پزیر تھے، پڑھاکو، سنجیدہ، دانش وَر، لیڈر ٹائپ، چوہدری ٹائپ، سوشل، مہمان نوازاوربدمعاش بھی۔ وہیں میری عابد سعید (فیڈرل سیکرٹری اور کے۔ پی کے چیف سیکرٹری رہے)اور راؤ سعادت علی سے دوستی ہوئی۔
وہیں سرگودھا گروپ کے دوستوں جاوید چیمہ، مہر ظفر عباس، جمیل چیمہ، ارشد میلا، سرفرازٹوانہ اور چوہدری طارق مہوٹا سے ملاقات ہوئی، جو بڑی مضبوط دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ چک۔36 سے تعلق رکھنے والے جاوید چیمہ (کمشنر انکم ٹیکس کےطورپر ریٹائر ہوئے) انتہائی مخلص، دوسروں کے لیے قربانیاں دینے والے اور بڑے مہمان نواز تھے۔ اپنی انہی خوبیوں کی وجہ سے وہ اُس وقت بھی بہت مقبول تھےاورآج بھی ہیں۔ مہرظفر عباس پولیس میں چلے گئے۔
جمیل چیمہ اوپی ایف میں ڈائریکٹر جنرل کےعہدے سے ریٹائر ہوئے، آج کل اسلام آباد میں رہائش پزیر ہیں اورعلامہ اقبال کائونسل میں بڑے متحرّک ہیں۔ وہیں جاوید سلیم جیسے زندہ دل اور بذلہ سنج شخص سے تعارف ہوااورسب سے بہت گہری دوستی ہوگئی۔ گورنمنٹ کالج کا ماحول بڑا علمی و ادبی تھا۔ کالج سے اعلیٰ معیار کا رسالہ ’’راوی‘‘ نکلتا تھا۔ اس کے علاوہ ماہانہ گزٹ بھی شائع ہوتا تھا۔ نیو ہاسٹل سے ’’پطرس‘‘ کے نام سے ایک علیحدہ رسالہ بھی نکلتا تھا، جو طلباء ہی کی تخلیقات سے مزین ہوتا تھا۔
نیو ہاسٹل ہی میں ہمارا ایک کلاس فیلو’’خواجہ‘‘ اپنے گورے رنگ اور کالی مونچھوں کے ساتھ بڑی متاثرکُن شخصیت کا مالک تھا۔ اگرچہ اُس کی ادبی اور تخلیقی صلاحیتیں مشکوک تھیں مگرجب اُس کا ایک افسانہ ’’راوی‘‘ اور ایک ’’پطرس‘‘ میں چَھپا(جسے بہترین افسانہ قرار دیا گیا) تو کالج اور ہاسٹل میں تہلکہ مچ گیا، اس کی عزّت وتکریم میں بے حد اضافہ ہوا، اور وہ ایک دَم ’’اوئے خواجے‘‘ سے ’’خواجہ صاحب‘‘ ہوگیا۔ یہ بھی پتاچلاکہ ’’خواجہ صاحب‘‘ انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان دیں گے۔ اُن کے ہم جماعت اور ہاسٹل فیلو سب اُن سے متاثر بلکہ مرعوب سے رہنے لگے۔
کچھ ہی عرصے بعد گرمیوں کی چُھٹیاں ہوئیں تو مَیں گائوں چلاگیا۔ گھر میں دوسرے روز مَیں نے بیگ کھولاتواُس میں سے دوسرے سامان کےعلاوہ ’’راوی‘‘اور’’پطرس‘‘ بھی برآمد ہوئے،جو فوراً باجی جبین نےاُچک لیے۔ ہمارے گھرمیں خواتین کے رسالے ’’حُور‘‘ اور ’’زیب النساء‘‘ باقاعدگی سے آتے تھے، اور باجی جبین توخُود بھی لکھتی تھیں (اب تو وہ ماشااللہ کئی مقبول ناولز کی مصنّفہ ہیں) مَیں نے اُن کے سامنےکالج کے اعلیٰ معیارکےرسائل سے متعلق تھوڑی سی ڈینگ ماری اور یہ بھی بتادیا کہ ہمارے کلاس فیلو خواجہ صاحب کے افسانے بہترین افسانے قرار دئیے گئے ہیں، تو باجی نے کہا۔ ’’لاؤ مجھےدو۔ مَیں بھی پڑھوں، اتنے اعلیٰ پائے کے افسانے۔‘‘
خیر، اگلے روز علی الصباح انہوں نےمجھے سوئے سے اٹھایا اور چُھوٹتے ہی بولیں۔ ’’تمہارے کالج کے’’معیاری‘‘ رسائل میں چوری شدہ افسانے بھی چَھپ جاتے ہیں؟‘‘ مَیں نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’کیا مطلب ہے آپ کا۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔‘‘ انہوںنے راوی اور پطرس کے ساتھ حُور اور زیب النساء کی دو کاپیاں بھی اُٹھا رکھی تھیں۔ میری طرف چاروں رسالےبڑھاتے ہوئے بولیں۔
’’تمہارے خواجہ صاحب نے ایک افسانہ ’’حُور‘‘ سے اور ایک ’’زیب النساء‘‘ سے چوری کرکے شائع کروایا ہے اور یوں موصوف گورنمنٹ کالج کےبہترین افسانہ نگار بنے ہیں۔‘‘ مَیں چھلانگ مار کر اُٹھ بیٹھا۔ افسانوں کا بار بار موازنہ کیا توحیران رہ گیاکہ خواجہ نےایک آدھ پیراگراف نہیں، پورے کے پورے افسانے چوری کرکے کالج کے رسائل میں شائع کروادیئے تھے۔
بہرحال، چُھٹیاں ختم ہوئیں تو نیو ہاسٹل کی رونقیں لَوٹ آئیں۔ ایک روز کیا دیکھتا ہوں کہ کالی عینک لگائے ایک شخص انتہائی تمکنت کے ساتھ سیڑھیوں سے اُتررہا ہے۔ قریب آیا تو دیکھا کہ وہ توخواجہ صاحب ہیں، جو اب اپنے آپ کو بہت بڑا رائٹر تصوّر کرنے لگے تھے۔ اسی لیے چال ڈھال بھی تبدیل ہوگئی تھی، دوسرے روز خواجہ صاحب دوچار دوستوں کے بیچ میں کھڑے انہیں افسانہ نگاری کے اسرار و رموزسِکھا رہے تھے کہ مَیں بھی وہاں جاپہنچا، اور اچانک ہی سوال داغ دیا۔ ’’خواجہ صاحب! یہ حُور اور زیب النساء کیسے رسالے ہیں، اُن کے افسانوں کا کیا معیار ہے؟‘‘ میرا سوال سُنتے ہی وہ اپنا سارا وعظ بھول گئے اور کالی عینک اتار کر ہونّقوں کی طرح مجھےغور سے دیکھنے لگے کہ ’’یہ کیوں پوچھ رہا ہے؟ کہیں چوری کا کوئی clue اِس کے ہاتھ تو نہیں لگ گیا؟‘‘ اور پھر اچانک کوئی جواب دیئے بغیر ہی وہاں سے کھسک گئے۔
دوسرے روز پھر وہ کسی کمرے میں بیٹھے ایک باقاعدہ ادبی محفل کی صدارت فرما رہے تھے تو مَیں وہاں پہنچ گیا اوراُن کی تقریر کے دوران مداخلت کرکےپھر’’حُور‘‘رسالے کا ذکر چھیڑدیا۔ ایک صاحب بولے۔ ’’یہاں تو کالج کی حُوروں کی بات ہو رہی تھی کہ آپ نے حُور رسالے کی بات چھیڑ دی۔‘‘ مگر خواجہ صاحب پر ایک بار پھر خاموشی طاری ہوگئی۔
اُسی شام وہ خاص طورپرمیرےکمرے میں آئےاور کہنے لگے۔ ’’چیمہ صاحب! آپ حُور رسالے کا بڑا ذکر کرتے ہیں، یہ کہاں سے نکلتا ہے، کیا آپ اس کے قاری ہیں؟‘‘ اب مَیں نےاُن سے کہا۔ ’’خواجہ صاحب! معاملہ بڑا سیریس ہے، کمرے کی کنڈی لگالیں، کہیں کوئی آنہ جائے۔‘‘ وہ میرے پاس آکر بیٹھ گیا، تو مَیں نے کہا۔ ’’آپ نے حُور اور زیب النساء میں کسی کےچَھپے ہوئے افسانے یہاں اپنے نام سے چھپوا دئیے؟‘‘ جواباً خواجہ بدک اٹھا۔ ’’نہیں نہیں، یہ غلط الزام ہے۔
اگر کوئی کہتا ہے، تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’خواجے! یہ رسالے لے جاؤ اور کمرے میں جاکر پڑھ لو۔ تم نے فل اسٹاپ، کوما بھی تبدیل نہیں کیا اور یہ بھی سُن لو، تم نے جس خاتون نجمہ اکرام کے افسانے چوری کیے ہیں۔ اُس کا والد پولیس میں ایس پی ہے اور وہ راول پنڈی کے تھانہ صادق آباد میں تمہارے خلاف ایف آئی آر درج کروانے جارہی ہے۔ ہوسکتا ہے، چند روز بعد راول پنڈی کی پولیس تمہیں گرفتار کرنے آجائے۔‘‘ یہ سن کر تو خواجےکی ہوائیاں اُڑ گئیں، مگر چُپ چاپ کمرے سے نکل گیا۔
رات کو میرے دروازے پردستک ہوئی۔ مَیں نے دروازہ کھولا توباہر خواجہ کھڑا تھا۔ اندر آکر اُس نے کنڈی چڑھالی اور میرے سامنے بیٹھ کر ہاتھ جوڑ دئیے۔ کہنے لگا، ’’آپ میرے بھائی ہیں، خدا کے لیے نجمہ اکرام سے بات کریں یا اپنے بھائی صاحب سے کہیں، جو پنڈی میں جج ہیں کہ وہ اُس کے والد سے بات کریں تاکہ معاملہ تھانے تک نہ جائے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’بڑا مشکل کام ہے۔ سُنا ہے، وہ بہت غصّے میں ہے اور کہتی ہے کہ مَیں ہر قیمت پرچور کو سزا دلوائوں گی۔‘‘ اِس پر خواجے کے پسینے چھوٹ گئے۔
گڑگڑانےلگا، ’’چیمہ صاحب! آپ میرے دوست ہیں، کسی طریقے سے یہ معاملہ حل کروائیں، مَیں ہمیشہ آپ کا احسان مند رہوں گا۔ سزا ہوگئی، توکبھی نوکری نہیں مل سکے گی۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’اگر خاتون کو کچھ دے دلا کر ٹھنڈا کیا جا سکے، تو کتنا دے لوگے؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’اب گھر والوں سے پوچھنا پڑے گا، مگر دس ہزار تک کا (اُس وقت ہاسٹل کا ماہانہ خرچ پانچ سو روپے ہوتا تھا، تو سوچیں، دس ہزار کتنی بڑی رقم ہوگی) بندوبست کرلوں گا۔‘‘ دل تو کیا کہ خواجے سے ہرجانے کے پیسے وصول کر کے کچھ روز دوستوں کے ساتھ بہترین ہوٹلوں میں کھانے کھائے جائیں، مگر اُس کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر مجھے ترس آگیا۔
اِس لیے کینٹین پر دو چار مرتبہ خواجے کے پلّے سے کیک پیسزاڑانے ہی پراکتفا کیا۔ اور پھر ایک روز اُسے بُلا کرتسلی دے دی کہ’’بھائی صاحب کی خاتون کے والد سے بات ہوگئی ہے اور وہ لوگ اب کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ جائو، موج کرو، مگر آئیندہ ایسی کوئی حرکت نہ کرنا۔‘‘ خواجے نے خوش ہوکر مجھے سلام کیا اور کہنے لگا۔ ’’ میرے باپ کی بھی توبہ، اگر اب کوئی افسانہ لکھا یا پڑھا۔‘‘ بعدازاں، وہی ’’خواجہ صاحب‘‘ سی ایس ایس کرکے گریڈ بائیس کے افسر بنے اور وہاں بھی کئی سال تک اِسی طرح ملک و قوم کی ’’خدمت‘‘ کرتے رہے، مگر مَیں جب بھی اُن کے سامنے ’’حُور‘‘ کا نام لیتا ہوں، اُن کے ماتھے پر پسینہ آجاتا ہے۔ (جاری ہے)