چیف آف ساراوان، سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، نواب محمّد اسلم خان رئیسانی عوام میں’’ادا‘‘( بڑے بھائی) کے طور پر معروف ہیں۔ اُن کی محفل میں سنجیدہ گفتگو کے ساتھ، ہنسی مذاق بھی چلتا رہتا ہے۔ وہ بڑی سے بڑی بات ایک آدھ جملے میں بیان کرنے پر کمال قدرت رکھتے ہیں۔ پانچ مرتبہ رُکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوچُکے ہیں اور وزارتِ اعلیٰ کے علاوہ کئی صوبائی وزارتوں پر بھی فائز رہے۔
ان کے والد، نواب غوث بخش رئیسانی 1971ء میں گورنر بلوچستان بنے اور وفاقی وزیرِ زراعت بھی رہے۔ نواب اسلم رئیسانی کے فرزند، نواب زادہ یادگار رئیسانی اور رئیس رئیسانی قبائلی معاملات میں اُن کی اعانت کرتے ہیں، جب کہ رئیس رئیسانی حال ہی میں بلوچستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی منتخب ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں نواب محمّد اسلم رئیسانی کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
س: سب سے پہلے تو اپنے تعلیمی سفر سے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: میں 5جولائی 1955ء کو پیدا ہوا۔ نرسری اور کے-جی ٹو تک سینٹ جوزف کانونٹ اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ کے-جی تھری میں سینٹ فرانسز گرائمر اسکول بھیجا گیا۔جب بابا وفاقی وزیر بنے، تو مَیں اسلام آباد چلا گیا اور سرگودھا بورڈ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بعدازاں، بلوچستان یونی ورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔
مجھے شروع ہی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا اور اِس کے لیے مواقع تلاش کرتا رہا۔2019ءمیں ایم فِل کے لیے بلوچستان یونی ورسٹی میں داخلہ لیا اور ڈیورنڈ لائن کے موضوع پر تھیسز کے لیے باقاعدہ تحقیق بھی شروع کردی تھی، لیکن چوں کہ ایسے کاموں کے لیے پوری توجّہ درکار ہوتی ہے اور مَیں اپنی مصروفیات کی وجہ سے تسلسل جاری نہ رکھ سکا، تو مقالہ ادھورا رہ گیا، جس کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔
س: آپ ایک زمانے میں سرکاری ملازم بھی تو رہے ہیں؟
ج: جی ہاں۔1976ء میں بلوچستان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں بطور ڈپٹی مینیجر بھرتی ہوا، بعدازاں پاسکو میں بطور پرچیزنگ آفیسر ایک سال تک ذمّے داریاں سرانجام دیں۔ پھر پی آئی اے میں فلائٹ اسٹیورڈ کے طور پر انٹرویو پاس کیا، تاہم بابا نے وہاں نوکری کرنے سے منع کردیا۔ اِسی دَوران محکمۂ پولیس میں ڈی ایس پی کی اسامیاں مشتہر ہوئیں، تو ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد منتخب ہوا۔
سیالہ میں چھے ماہ کی تربیت بھی حاصل کی۔ 1983 ء کے بلدیاتی انتخابات میں میرے بھائی، میر اسماعیل رئیسانی امیدوار تھے، مَیں بھی گاؤں ہی میں تھا، تو وہاں ایک ناخوش گوار واقعہ پیش آگیا، جس کی وجہ سے ہمیں افغانستان جانا پڑا اور پھر 1986ء میں وطن واپسی ہوئی۔
س: سیاست کے میدان میں کیسے آنا ہوا؟
ج: بابا کی شہادت کے بعد بحیثیت سردار میری دستار بندی ہوئی۔1988ء کے انتخابات میں مستونگ سے آزاد حیثیت میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کھڑا ہوا اور صوبائی اسمبلی کی نشست جیت لی۔مَیں آپ کے توسّط سے مستونگ کے عوام کا شُکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور مجھے عزّت بخشی۔
س: 2008 ء میں جب آپ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان بنے، تو صوبے کے حالات انتہائی خراب تھے، یقیناً کافی مشکلات پیش آئی ہوں گی؟
ج: کوئی مشکل نہیں تھی، بلکہ میرے لیے مشکلات پیدا کی جا رہی تھیں۔ کوئٹہ سبزی منڈی سے شیخ واصل تک ہزارہ برادری کو قتل کیا جارہا تھا، حالاں کہ تفتان بارڈر سے زائرین میرے حلقے تک ٹھیک ٹھاک پہنچتے تھے۔ اُس کے بعد اُنہیں نقصان پہنچایا جاتا تھا، آخر کیوں؟ محض میرے لیے رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے کہ اس کے علاوہ کوئی اور حربہ کارآمد نہیں ہوسکتا تھا۔ دوسری طرف64معزّز اراکانِ اسمبلی آخر دَم تک میرے شانہ بہ شانہ کام کرتے رہے۔ مَیں تب بھی امن کا خواہاں تھا اور آج بھی امن کا داعی ہوں۔
س: یعنی آپ کی حکومت کو کسی کی نظر لگ گئی تھی؟
ج: ایسا ہی سمجھ لیں۔ مَیں نے اپنے پانچ سال مکمل کیے، گورنر راج اور نگران وزیرِ اعلیٰ کے لیے مَیں نے خود نام تجویز کیے تھے، مگر پتا نہیں کیوں، اُس وقت کے صدر کو مجھے گھر بھجوانے کی کیا جلدی تھی۔
س: آپ کے خیال میں بلوچستان کا مسئلہ کیسے حل کیا جاسکتا ہے؟
ج: بلوچستان کے مسائل سمجھنے کے لیے تاریخ سے واقفیت ضروری ہے۔ انگریزوں نے بھی بحیثیت وکیل، ریاستِ قلّات کا مقدمہ لڑا۔ خان آف قلّات میر احمد یار خان نے مشروط طور پر پاکستان میں شمولیت کی ہامی بھری تھی۔ کاش! اس الحاق کو آئینی اور اخلاقی طور پر تسلیم کیا جاتا، کیوں کہ یہ معاہدہ کسی فردِ واحد یا کسی گروہ کا نہیں، بلکہ بلوچ قوم کے فیصلے پر منحصر تھا۔ ایک ریاست جس کا اپنا سکّہ، عدلیہ، ٹیکس جمع کرنے کا نظام اور اپنی پارلیمنٹ ہو، اُس کی تین سو سالہ خود مختاری کو بیک جنبشِ قلم کیسے ختم کیا جاسکتا ہے، کم از کم اس کے بعد انصاف کے تقاضے تو پورے کیے جاتے۔
س: بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا برملا اعتراف تو کیا جاتا ہے، مگر ازالے کو کوئی تیار نہیں؟
ج: یہ بات درست ہے۔ جانے وہ کیوں عوام کو تکلیف دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کشمیر کے استحصال کی تو بات ہوتی ہے، مگر بلوچستان، پختون خوا اور سندھ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور استحصال پر کیوں بات نہیں ہوتی۔ حقوق کی بات کرنے پر غدّار اور دہشت گرد بنا کر پیش کیا جاتا ہے، ماورائے عدالت قتل، لوگوں کوغائب کرنا، یہ عوام سے کس بات کا انتقام ہے۔
س: آپ نے گوادر کو سرمائی سیکریٹریٹ بنانے کا اعلان کیا تھا، اس کی کیا وجہ تھی؟
ج: یہ میرا وژن تھا کہ وزیرِ اعلیٰ سیکریٹریٹ بنے اور پھر اِس مقصد کے لیے گوادر پورٹ پر اسمبلی کی عمارت کے لیے جگہ کا انتخاب کیا گیا۔ مختلف محکموں کے لیے دفاتر کی نشان دہی کی گئی۔ جب مَیری حکومت نہیں رہی، تب بھی نئی حکومت کے کارندوں کو کہا کہ گوادر جا کر دفاتر آباد کریں، مگر پتا چلا کہ ان جگہوں پر تو طاقت وَروں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
اب بھی کوئی جا کر دیکھے، تو سنگار ہاؤسنگ اسکیم میں پورے سیکریٹریٹ کے لیے جگہ موجود ہے۔ وہاں ڈی سیلینیشن پلانٹ لگانے کا منصوبہ تھا۔ گویا، مَیں بلوچستان اور گوادر پورٹ کی ترقّی یقینی بنانا چاہ رہا تھا، جسے پاکستان کی ترقّی میں ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔ مجھے قانون کا علم ہے اور مَیں نے جو کام کیا، قانونی دائرے ہی میں رہ کر کیا۔
س: اِس منصوبے کی مخالفت کی وجہ کیا رہی؟
ج: عاقبت نااندیش حُکم رانوں کی ہٹ دھرمی۔ صدر ایّوب خان سے لے کر آج تک کچھ اداروں کی مسلسل مداخلت کی وجہ سے اسمبلیاں تماشا بن چُکی ہیں۔ پڑھے لکھے اور مخلص سیاست دانوں کے لیے سیاست ممنوع قرار دی جاچُکی ہے، جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، دنیا انگلیاں اُٹھا رہی ہے، مگر ہم اپنی خارجہ پالیسی درست کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی داخلہ پالیسی بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
س: یہ ریکوڈک کا معاملہ کیا تھا؟
ج: ریکوڈک کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ مَیں نے’’بلوچستان گولڈ اینڈ کارپر پراجیکٹ‘‘ کے نام سے ایک کمپنی بنائی اور اسے سیکیوریٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں رجسٹر کروایا۔ ہم نے کام کا باقاعدہ آغاز کیا، جس کے لیے مٹیالوجیکل لیبارٹری بنائی اور رہائشی کالونی تعمیر کروائی۔ ہمارے پاس تمام شعبوں کے قابل انجینئر ہیں، تو جب ہم سارا کام خود کرسکتے ہیں، تو پھر باہر سے کسی کمپنی کو لانے کی کیا ضرورت تھی۔
میرے پاس سابق وزیرِ اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور ایک قوم پرست پارٹی کے رہنما ریکوڈک پر بات کرنے آئے، تو مَیں نے اُنھیں کہا کہ باقی باتیں چھوڑیں، دیرارتھمنلرز کو، جسے لیتھیم جیسے منرلز کا مستقبل کہا جاتا ہے، محفوظ بناؤ۔میری حکومت نے 2018ء میں ریکوڈک اور سی پیک کے حوالے سے متفّقہ قرار داد منظور کی کہ اِس حالت میں ہمیں سی پیک سے کوئی فائدہ نہیں۔
س: آپ نے زمینوں کی الاٹمنٹ کیوں منسوخ کردی تھی؟
ج: مَیں، غیر ضروری الاٹمنٹس کے خلاف تھا۔ مثلاً پاکستان ایئر فورس نے جام یوسف کے زمانے میں بلاوجہ 75ہزار ایکڑ اراضی الاٹ کروائی تھی۔ سوئی میں چھاؤنی کا خیال غلط تھا، تو مَیں نے اسے کیڈٹ کالج بنایا۔ گوادر پورٹ کے لیے سنگاپور پورٹ اتھارٹی نامی کمپنی کو نکال باہر کیا۔
گوادر پورٹ کے ماسٹر پلان میں54ایکڑ اراضی پرقبضہ تھا۔35 ایکڑ پر نیشنل لاجسٹک سیل کا قبضہ تھا، کراچی کا ایک بڑا بزنس مین 35ایکڑ اراضی پرقابض تھا، تو یہ سب زمینیں خالی کروانے کا مقصد، سوئی گیس ڈیویلپمنٹ سرچارج سے آنے والے پیسوں سے کچھ بچا کر، گوادر پورٹ خرید کر حکومتِ بلوچستان کا حصّہ بنانے کا پروگرام تھا، جو نہیں ہوسکا۔
اب بھی میری مخلصانہ رائے یہی ہے کہ ہم ساڑھے سات سو کلومیٹر طویل ساحل پر دو پورٹ بنا سکتے ہیں۔ ہمارا کوسٹ شپ منٹ کے لیے بہت اچھا ہے۔ دنیا میں جو مینوفیکچرنگ ہو رہی ہے، یہ لوکیشن اُنھیں سُوٹ کرتی ہے۔ یورپ یا فار ایسٹ ایشیا، جاپان، انڈونیشیا اور سنگاپور وغیرہ یہاں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔
اِس علاقے کو معاشی و اقتصادی حب بنانے کے لیے سازگارماحول کی ضرورت ہے، جس کے لیے ذاتی پسند و ناپسند، لُوٹ کھسوٹ کا رویّہ ترک کرنا ہوگا۔کوئی اُن سے پوچھے کہ نئے معتبرین اور سردار بنانے سے اُنہیں کتنے نوافل کا ثواب مل رہا ہے یا شخصی آزادی پر پابندیوں سے مُلک و قوم کی کون سی خدمت ہو رہی ہے۔
س: نواب غوث رئیسانی شہید بڑے زمین دار تھے، اُن کی شعبۂ زراعت سے دل چسپی کو اب تک یاد کیا جاتا ہے، کیا آپ بھی اِس شعبے میں دل چسپی رکھتے ہیں؟
ج: سیاسی انتقام والوں نے 2001ء میں ہمارا گاؤں بلڈوز کیا۔ یہ تو ہمارے ساتھ ہوا، مگر آج تو عام زمین دار بھی اپنی قسمت کو رو رہا ہے۔ بلوچستان میں ڈیم بنائے جارہے ہیں اور نہ ہی سڑکوں کی حالت بہتر کی جارہی ہے۔ بجلی کا شدید بحران ہے، وفاق کی نظریں صرف وسائل پر ہیں، انسان ہوں گے، تو زندگی ہوگی۔ انسان خوش اور صحت مند ہوں گے، تو صحت مند رجحانات کی خواہشات پوری ہوں گی۔
پورا مُلک آج دہائی دے رہا ہے، مگر کوئی سُننے کو تیار نہیں۔ ادارے آپس میں الجھ کر رہ گئے ہیں، پارلیمنٹ کا وقار سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ انتخابات مذاق بن گئے ہیں، اگر مُلک بچانا ہے، تو ماضی کی غلطیوں سے باز رہنے ہی میں عافیت ہے۔ اداروں کو سیاست سے دُور رہنا ہوگا اور اگر وہ اپنی ذمّے داریوں کے مطابق قانونی دائرے میں رہ کر کام کریں گے، تو حالات خود بخود بہتر ہوجائیں گے۔
س: آپ نے بحیثیت وزیرِ اعلیٰ کِن کِن شعبوں پر خصوصی توجّہ دی؟
ج: مَیں نے خراب حالات کے باوجود صحت اور تعلیم کے کئی منصوبے مکمل کروائے۔ کالج، اسپتال، اسکول اور لائبریریاں تعمیر یا فعال کروائیں۔ مستونگ میں ایک جدید اسپتال، ڈیجیٹل لائبریری اور یونی ورسٹی کے لیے ذاتی زمین کا عطیہ اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ جن علاقوں میں طالبات کے لیے اسکول یا گرلز کالج نہیں تھے، وہاں ترجیحی بنیادوں پر کام کیا۔
ادیبوں کا ایک وفد اکادمی ادبیات کے لیے دفتر کا مطالبہ کرنے میرے پاس آیا، تو مَیں نے اُنہیں سرکاری زمین الاٹ کی اور اُن کے لیے ایک شان دار عمارت تعمیر ہوئی۔ بہرحال، ایک طویل فہرست ہے، لیکن اس کے ساتھ مَیں امن کا خواہاں رہا۔ پہاڑوں پر موجود بلوچ نوجوانوں سے بات چیت کی اور اُنہیں خلوصِ دل سے سُننے پر بھی زور دیتا رہا۔ ماؤں کی بد دعاؤں سے ظالموں کو خبردار کرتا رہا۔
س: ادبیات کی بات ہوئی، تو کیا آپ کو ادب سے بھی دل چسپی ہے؟
ج: مجھے پڑھے لکھے لوگ اچھے لگتے ہیں اور مَیں نے ہمیشہ اُن کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ایک زمانے میں شعر وادب سے گہری دل چسپی تھی۔ ترقّی یافتہ ممالک اپنے پڑھے لکھے اور مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے شہریوں پر مشتمل تھنک ٹینکس بناتے ہیں، مگر ہماری توجّہ تھنک کی بجائے ٹینکس پر مرکوز ہے۔
س: سُنا ہے آپ نے ٹی وی پر اداکاری بھی کی ہے؟
ج: جی ہاں،1976ء میں سرکاری ملازمت کے دَوران ٹی وی پروڈیوسر، میر صلاح الدین مینگل اور شہنشاہ نواب سے رابطہ تھا۔ اُنہوں نے مجھے اداکاری کا کہا، تو مَیں نے ہامی بَھر لی اور کچھ ڈراموں میں کام بھی کیا۔ ٹی وی میں اچھا کام کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا، تو اچھے پروڈیوسرز فارغ کر دئیے گئے، جن میں میرے یہ دوست بھی شامل تھے، باقی آپ تاریخ سے واقف ہی ہیں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ٹی وی میں اداکاری کے لیے مجھے اپنے محکمے کے سربراہ سے باقاعدہ اجازت لینی پڑی تھی۔
س: کیا موسیقی سے بھی شغف رکھتے ہیں؟
ج: موسیقی شوق سے سُنتا ہوں، جب واکنگ ٹریک پر ہوتا ہوں، تو عربی موسیقی سُنتا ہوں۔ اس کے علاوہ بلوچی، براہوی اور پشتو موسیقی پسند ہے۔ کبھی کبھار دیگر زبانوں کے اچھے گانوں سے بھی محظوظ ہوتا ہوں۔
س: کتنی زبانیں بول لیتے ہیں؟
ج: انگریزی، اردو کے علاوہ براہوی، بلوچی، سندھی، پنجابی، پشتو، دہواری اور گونگوں کی زبان بول، سمجھ لیتا ہوں۔
س: فلمیں بھی دیکھتے ہوں گے؟
ج: جی بالکل۔ ویسے زیادہ تر ہالی وڈ ہی کی فلمز دیکھتا ہوں۔ ایم جی ایم، یونیورسل، پیرا ماؤنٹ جیسی کمپنیز کی فلمز دیکھتا ہوں اور اب سونی بھی اس فہرست میں شامل ہے۔
س: کتابیں پڑھنے کے لیے کتنا وقت نکالتے ہیں؟
ج: کتابیں خریدتا اور پڑھتا ہوں، مگر اب وقت بہت کم ملتا ہے، البتہ ریفرنس بُکس پر زیادہ توجّہ ہے۔ اپنے ماسٹرز آف فلاسفی کی کلاسز لینے اور لیکچرز کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے یوٹیوب اور نیٹ سے استفادہ کرتا رہا ہوں۔ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال ہی سے ہم آج کی دنیا کو سمجھنے کے قابل بن سکتے ہیں۔ نوجوانوں کی اس سمت رہنمائی کی اشد ضرورت ہے، لہٰذا جعلی ڈگری رکھنے والوں کی صحبت اور ماتحتی سے اُنہیں نجات دلائی جائے۔
س: سوشل میڈیا پر آپ سے منسوب چٹکلوں کا چرچا رہتا ہے؟
ج: پہلے بھی وضاحت کر چُکا ہوں، دوبارہ کہتا ہوں کہ اُن میں سے کئی جملے یا چٹکلے میرے نہیں ہوتے۔ مَیں بامقصد بات، دل چسپ انداز میں ضرور کرتا ہوں، جیسے’’ ڈگری، ڈگری ہے‘‘یا’’نواز شریف، درود شریف‘‘ والی بات، لیکن مَیں کسی کی تضحیک کا قائل نہیں ہوں۔ لوگ مجھ سے باتیں منسوب کرنے کی بجائے خود بولنے کی جرأت پیدا کریں۔
س: ہائکنگ اور بائکنگ کا شوق رکھتے ہیں؟
ج: بہت شوق ہے، لیکن اب اُن کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔اگر مَیں بائکنگ کروں بھی، تو کہاں کروں، موٹر وے پر تو پابندی ہے، حالاں کہ میرے پاس ہنڈا 175 سی سی طالبِ علمی کے زمانے سے رہا۔
س: لباس میں کیا پسند ہے؟
ج: شخصیت اُبھارنے کے ساتھ سہولت کا بھی قائل ہوں۔ عام دنوں میں شلوار قمیص اور جہاں ضرورت ہو، ٹائی بھی لگا لیتا ہوں۔ بیرونِ مُلک جینز پہنتا ہوں۔ خاص طور پر بلیو رنگ کی، جس کے کچھ فائدے بھی ہیں، مثلاً جَلد میلی نہیں ہوتی، چُستی آجاتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ استری کے جھنجٹ سے جان چُھوٹ جاتی ہے۔
س: کون سی خوش بُو پسند ہے؟
ج: اچھے اور سلجھے ہوئے انسانوں کی خُوش بُو پسند ہے۔ویسے پھول بھی اچھے لگتے ہیں۔
س: کھانے میں کیا پسند ہے؟
ج: جو صحت پر بوجھ نہ بنتا ہو، مناسب کھانا پسند کرتا ہوں۔
س: اکثر قبائلی معاملات نمٹاتے ہوئے ملتے ہیں؟
ج: یہ ضروری ہے۔ مُلک میں انصاف کا فقدان ہے، عدلیہ سمیت تمام اداروں میں عام لوگوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی، تو وہ ہم تک شکایات اور اپنے تنازعات لے کر آتے ہیں، شاید یہاں اُنہیں اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ عوام کو فوری فیصلے اور انصاف چاہیے، قانون کے نام پر لُوٹ مار، تضحیک اور وقت کی بربادی اُن کے لیے مصیبت کے سِوا کچھ نہیں۔