عکاّسی: عرفان نجمی
زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہوگا، جس میں پاکستانی خواتین نے مَردوں کے دوش بدوش کارہائے نمایاں انجام نہ دئیے ہوں۔ ایسا ہی ایک شعبہ میڈیکل یا پیرا میڈیکل ہے، جس کا 70 فی صد عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔جو خواتین عہدِ حاضر کے چیلنجز قبول کرتے ہوئے مسیحائی کے محاذ پر سرگرمِ عمل ہیں، اُن میں ڈاکٹر صومیہ اقتدار کا نام بھی نمایاں ہے۔
اُنہوں نے 2004ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ 2010ء میں FCPS ، 2021ء میں FRCP (لندن) کا امتحان پاس کیا اور 2023ء میں چارلس ولسن فیلو شپ کا اعزاز حاصل ہوا۔ اِن دِنوں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج/ یونی ورسٹی سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر( انٹرنل میڈیسن) وابستہ ہیں۔
ڈاکٹر صومیہ درجنوں بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کر چُکی ہیں، جب کہ ڈینگی اور کورونا کے محاذ پر اُنہوں نے جس تن دہی سے جنگ لڑی، اُس پر اُنہیں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ان کی داستانِ جدوجہد یقیناً خواتین کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔ آئیے، اِس’’ جواں مرد خاتون‘‘، ’’وومین ہیلتھ ہیرو‘‘سے ایک خصوصی ملاقات کرتے ہیں۔ واضح رہے، نہ صرف پروفیشنل لائف بلکہ ذاتی زندگی میں بھی ڈاکٹر صومیہ ایک انتہائی کام یاب، رول ماڈل خاتون ہیں۔ اُن سے ہونے والی بات چیت سوالاً جواباً پیشِ خدمت ہے۔
س: کیا بچپن ہی سے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا؟
ج: جی بالکل۔ ہمارے ہاں اکثر بچّے کہتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، لیکن مَیں بچپن میں بھی یہ بات رسماً نہیں کہتی تھی، بلکہ حقیقی معنوں میں ڈاکٹر ہی بننا چاہتی تھی۔ یوں سمجھیے، مسیحائی کا جذبہ میرے ڈی این اے میں شامل تھا۔ مَیں لاہور میں پیدا ہوئی۔ کریسنٹ ماڈل اسکول میں کلاس وَن سے میٹرک تک ہمیشہ فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ تقریری مقابلوں میں ہمیشہ اوّل رہتی تھی۔ ایک تقریری مقابلے میں پاکستان بَھر سے پہلی پوزیشن حاصل کی، تو ریڈیو پاکستان سے خبریں پڑھنے کی آفر ہوئی، لیکن کم عُمری آڑے آگئی۔
تاہم، اتوار کو بچّوں کا پروگرام پیش کرنے کی اجازت مل گئی۔پھر مجھے میرے والد ہر اتوار ریڈیو پاکستان کے لے جاتے۔ اِسی طرح ایف ایس سی میں بھی نمایاں پوزیشن حاصل کی اور پھر جب میڈیکل کے لیے اینٹری ٹیسٹ ہوا، تو اُس میں بھی نمایاں کام یابی ملی، جس کی بنیاد پر مجھے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (یونی ورسٹی) میں داخلہ مل گیا۔ یوں میرے خوابوں کی تعبیر کا ایک اہم مرحلہ مکمل ہوگیا اور مسیحائی کی دنیا کے دروازے کُھل گئے۔ ہاؤس جاب میو اسپتال کے ایسٹ میڈیکل وارڈ میں مکمل کی۔
مَیں نے مریضوں کی خدمت میں دن رات ایک کر دیا اور ثابت کیا کہ خواتین صرف گائنی یا دیگر نسبتاً پُرسکون شعبوں ہی کے لیے موزوں نہیں، بلکہ میڈیسن کے شعبے میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر سکتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب مجھے اس وارڈ کا رجسٹرار مقرّر کیا گیا، تو بہت سے لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ایک خاتون ڈاکٹر اِتنا صبر آزما اور چیلنجز سے بھرپور کام کیسے کر سکتی ہے۔
اِسی دَوران میری وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے ملاقات ہوئی، تو مَیں نے ہائوس جاب کے دَوران قلیل تن خواہ کا مسئلہ پیش کیا، جس پر پہلی مرتبہ زیرِ تربیت ڈاکٹرز کے ہاؤس جاب کے الاؤنس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ 2010ء میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اور 2017ء میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر انٹرنل میڈیسن میری تقرّری ہوئی۔ اِسی دوران FCPS اور FRCPکے امتحانات بھی پاس کیے۔
س: انٹرنل میڈیسن کا شعبہ خواتین کے لیے نیا کیوں ہے؟
ج: پوری دنیا میں یہ نسبتاً ایک نئی فیلڈ ہے۔ بالعموم، تمام بڑی بڑی بیماریوں، کارڈیالوجی، ذیابطیس، گردوں، جگر اور معدے کے امراض کے لیے علیٰحدہ علیٰحدہ اسپیشلسٹس مقرّر ہیں، لیکن انٹرنل میڈیسن بیک وقت ان تمام بڑے امراض سے ڈیل کرتی ہے اور مریض کو الگ الگ اسپیشلسٹس سے رجوع نہیں کرنا پڑتا۔
پاکستان میں ہم نے 2019ء میں انٹرنل میڈیسن سوسائٹی کی بنیاد رکھی، جس کا باقاعدہ الحاق عالمی سطح پر انٹرنل میڈیسن سوسائٹی سے ہے۔ ابھی اس کے بین الاقوامی ارکان کی تعداد 50سے زائد ہے، لیکن وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
س: کس کس نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور اُن پر کیسے قابو پایا، جس کے بعد عالمی سطح پر بھی آپ کی خدمات کا اعتراف کیا گیا؟
ج: میری زندگی میں پہلا چیلنج تو ایم بی بی ایس کے پہلے پروفیشنل امتحان میں پیش آیا، جب والد صاحب کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اُن کی طبیعت خراب تھی اور دسرے روز میرا امتحان تھا، لیکن اُنھوں نے سختی سے کہا کہ’’مجھے جو کچھ بھی ہو جائے، صومیہ کو ہرگز ڈسٹرب نہ کیا جائے۔‘‘ چناں چہ مَیں نے امتحان دیا اور والد صاحب کے یہ الفاظ تمام عُمر میرے لیے طاقت کا سرچشمہ بنے رہے۔
ہمارے یہاں عموماً خواتین ڈاکٹرز کے لیے صرف گائنی، الٹراسائونڈ، ڈرماٹالوجی اور کچھ دیگر نسبتاً آسان شعبے ہی سازگار سمجھے جاتے ہیں۔ اُنھیں مسیحائی کے اگلے’’مورچوں‘‘ کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا، لیکن مَیں نے ڈینگی اور کورونا وباؤں کے دَوران مرد ڈاکٹرز کے ساتھ دن رات فرنٹ پر کام کر کے ثابت کر دیا کہ خواتین ڈاکٹرز مشکل سے مشکل حالات سے نبرد آزما ہو سکتی ہیں۔
بلاشبہ، میرے ساتھ دیگر خواتین ڈاکٹرز بھی شامل تھیں۔ مجھے یاد ہے، 2011ء میں جب ڈینگی نے پورے پاکستان، خصوصاً پنجاب پر حملہ کر دیا تھا، تو مَیں نے اور میری دیگر کولیگز نے اس کا ’’مردانہ وار‘‘ مقابلہ کیا۔ ہمارے سامنے کئی نوجوانوں نے دَم توڑا، تو ہم نے عزم کیا کہ بس ڈینگی کو ہر صُورت ختم کرنا ہے۔ دراصل، تب پاکستان میں یہ آفت پہلی بار آئی تھی اور ڈاکٹرز یا ماہرین کو پتا تک نہیں تھا کہ اس سے کیسے نمٹنا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ عالمی ادارۂ صحت اِس سلسلے میں کافی سرگرم ہے، لیکن پاکستان میں اس کا کوئی نیٹ ورک نہیں۔سو، اعلیٰ حکّام کے ساتھ مل کر عالمی ادارۂ صحت کو خط لکھا کہ پاکستانی ڈاکٹرز کو اِس ضمن میں تربیت دی جائے۔ پھر ادارے کے تعاون سے تھائی لینڈ سے ڈاکٹرز کا ایک گروپ آیا، جس نے پہلی بار پاکستانی ڈاکٹرز کو تربیت دی۔
بعدازاں، جب تھائی لینڈ میں تربیت کا وقت آیا، تو مَیں پاکستانی ڈاکٹرز کے گروپ میں واحد خاتون ڈاکٹر، بلکہ ٹیم لیڈر تھی اور مَیں وہاں سے اِس عزم کے ساتھ پاکستان واپس آئی کہ اب ڈینگی سے کسی کی موت واقع نہیں ہوگی۔ یہ وہ وقت تھا، جب میو اسپتال میں روزانہ ایک ہزارسے زائد مریض آرہے تھے۔ پاکستان میں عالمی ادارے نے مجھے ’’ماسٹر ٹرینر‘‘ کا خطاب دیا، کیوں کہ ایشیا پیسیفک ریجن میں میرا کام، میری پہچان بن چُکا تھا۔ بعدازاں، جو عُہدے میرے لیے باعثِ اعزاز بنے، اُن میں سیکریٹری ایڈوائزری، ڈینگی ایکسپرٹ گروپ آف دی کنٹری جیسے عُہدے شامل ہیں۔
اس حیثیت میں، مَیں نے ڈینگی کے علاج معالجے کے لیے جو گائیڈ لائنز تیار کیں، اُن پر آج بھی عمل ہو رہا ہے۔ پھر جب کورونا وبا نے پورے مُلک کا نظام مفلوج کر دیا، تو یہی تجربہ میرے کام آیا اور مَیں نے دیگر ڈاکٹرز کے ساتھ مل کر، اپنی زندگی کا خطرہ مول لیتے ہوئے اس وبا کا مقابلہ کیا، جب کہ مَیں کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ آف پاکستان کے طور پر بھی کام کرتی رہی۔
س: انٹرنل میڈیسن کے حوالے سے آپ کی کیا خدمات ہیں؟
ج: جیسا کہ ذکر ہو چکا، مَیں اس کی بانی رُکن ہوں اور اس حیثیت میں کئی بین الاقوامی کانفرنسز میں بھی شرکت کر چُکی ہوں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ عالمی سطح پر انٹرنل میڈیسن سے متعلق جو ٹیکسٹ بُکس لکھی گئیں، اُن میں سے دو کتابوں کے کئی ابواب مَیں نے لکھے ہیں۔
یہ کتابیں دنیا بَھر کی میڈیکل یونیورسٹیز میں بطور نصاب پڑھائی جاتی ہیں۔ اِس کے علاوہ، میرے55 ریسرچ مقالے بین الاقوامی جرائد میں شائع ہو چُکے ہیں۔ مجھے گورنر پنجاب کی طرف سے’’ وومین ہیلتھ ہیرو‘‘ کا خطاب دیا گیا، جب کہ میرا نام گلوبل ہیلتھ کی100 سرِ فہرست عالمی خواتین میں بھی شامل ہے۔
س: پاکستان میں خواتین زیادہ تر کِن امراض کا شکار ہیں، ان کے اسباب کیا ہیں اور ان سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟
ج: خواتین میں بڑھتے شعور و آگہی کے باوجود، پاکستان میں زچگی کے دَوران مائوں کی اموات کی شرح ایک لاکھ میں 186ہے۔ پاکستانی خواتین بالعموم جن امراض میں مبتلا ہیں، ان میں خون کی کمی، موٹاپا، گائنی کے مسائل، جوڑوں کا درد، ہڈیوں کا بُھربُھرا پن، بریسٹ کینسر، دل کے امراض، شوگر، بانجھ پن اور بلڈ پریشر وغیرہ شامل ہیں۔ نسوانی امراض اور اُن کا علاج، ایک طویل موضوع ہے، جسے چند جملوں میں سمیٹنا مشکل ہے۔
تاہم، میرا مشاہدہ ہے کہ خواتین کے امراض کے پسِ پردہ ایک ہی کہانی ہے، جس کا آغاز لڑکیوں کے بچپن سے ہو جاتا ہے، جب بالعموم اُن سے کھانے پینے کے ضمن میں لڑکوں کی نسبت امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ پھر دورانِ حمل اُنھیں متوازن و مناسب خوراک نہیں ملتی اور نہ ہی اُن کا باقاعدہ میڈیکل چیک اَپ کروایا جاتا ہے۔
عموماً لوگوں کا خیال ہے کہ بچّے کی پیدائش ایک نارمل عمل ہے، جو سال ہا سال سے چلا آرہا ہے۔جب کہ طبّی معاینہ نہ ہونے کے سبب حمل کے دَوران خون کی کمی، ذیابطیس، بلڈ پریشر اور دیگر امراض(جو عارضی طور پر لاحق ہوتے ہیں) علاج نہ ہونے کے باعث مستقل صُورت اختیار کر لیتے ہیں۔
قوّتِ مدافعت بڑھانے کے لیے دوا اور غذا، دونوں ہی پر توجّہ نہیں دی جاتی۔پھر بچّے کو جنم دینے کے بعد بھی کچھ زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا، تو حمل کے دَوران لاحق ہونے والا موٹاپا یا بلڈ شوگر مستقل شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ بچّے کو دودھ پلانے کے دوران خواتین کو اضافی کیلشیم کی ضرورت ہوتی ہے، مگر وہ ایک گلاس دودھ بھی نہیں پیتیں، جس سے عُمر گزرنے کے ساتھ اُنہیں ہڈیوں کی کم زوری کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ پھر اکثر عوارض ایسے ہیں، جن پر خواتین از خود احتیاطی تدابیر اختیار کر کے یا اپنی غذا بہتر بنا کر قابو پاسکتی ہیں، لیکن اُن کی تمام تر توجّہ بچّوں پر مرتکز ہوتی ہے۔
سو، اپنے آپ سے بے نیازی کا نتیجہ اُنہیں قوّتِ مدافعت میں کمی کی صُورت بھگتنا پڑتا ہے۔ 45سے 50سال کی عُمر کے بعد خواتین میں دل کے امراض کی شرح مَردوں کے مقابلے میں زیادہ دیکھی گئی ہے۔ خواتین کا ایک اور بڑا مرض بریسٹ کینسر ہے۔ اگر وہ ابتدا ہی میں، علامت کے نمودار ہونے پر ڈاکٹر سے رجوع کرلیں، تو یہ مرض مکمل طور پر قابلِ علاج ہے۔ اِسی طرح غذائی احتیاط سے وہ موٹاپے پر بھی قابو پاسکتی ہیں، جب کہ اکثر خواتین بچّوں کی پیدائش کے بعد اسے معمول کی تبدیلی سمجھ لیتی ہیں۔ وہ بچّوں کا بچا ہوا کھانا، کھانا اپنا فرض سمجھتی ہیں، جس سے فربہ ہو جاتی ہیں۔
بیش تر خواتین ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتی ہیں، جس سے اُنھیں موٹاپے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ آج کل کی خواتین کی نقل و حرکت ویسے بھی محدود ہو گئی ہے۔ پہلے خواتین گھر کی صفائی، برتنوں، کپڑوں کی دھلائی وغیرہ کا کام خود کرتی تھیں، اب اکثر نے گھریلو ملازم رکھ لیے ہیں، جس سے اُن کی ورزش ختم ہو گئی ہے۔ نیز، پاکستان میں بچّوں کی ناقص ذہنی و جسمانی نشوونما بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ماں کا دودھ بچّوں کے لیے بہترین اور عمدہ غذا ہے، لیکن اب مائیں اُنھیں فیشن کے طور پر ڈبّے کا دودھ پلاتی ہیں۔
بعض خواتین، کم سِن بچّوں کو بھی ہاضمے کے لیے کولا مشروبات پلاتی ہیں، جو ایک انتہائی غلط عمل ہے۔ اب اکثر مائیں، بچّوں کو موبائل فون پر کارٹون دِکھانے کا لالچ دے کر کھانا کھلاتی ہیں، یہ بھی ایک انتہائی منفی رجحان ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خواتین کے ذہنی و جسمانی مسائل صرف احتیاطی تدابیر ہی سے حل ہو سکتے ہیں اور اِس سلسلے میں جنگی بنیادوں پر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے کہ اس طرح علاج معالجے پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپوں کی بچت ہو سکتی ہے۔
س: آپ کے شوہر، ڈاکٹر نبیل اکبر چوہدری بھی ایک معروف کارڈیالوجسٹ ہیں، دیکھا گیا ہے کہ اگر میاں بیوی، دونوں ڈاکٹر ہوں، تو گھریلو زندگی اور بچّوں کی پرورش خاصی متاثر ہوجاتی ہے، کیا واقعی ایسا ہے؟
ج: جی نہیں، بالکل ایسا نہیں ہے۔ اس امر میں تو شک نہیں کہ ڈاکٹرز کی ڈیوٹی 24گھنٹے کی ہوتی ہے، لیکن اگر معاملات درست طریقے سے مینیج کیے جائیں، تو سب کام خوش اسلوبی سے طے پاسکتے ہیں۔ ہمارے ماشاء اللہ دو بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا، شاہ ویز کلاس فورتھ اور چھوٹا، شایان دوسری کلاس میں پڑھتا ہے۔ دونوں ایچی سن کالج میں زیرِ تعلیم ہیں۔
بچّوں کو اسکول چھوڑنے کی ذمّے داری نبیل کی ہے، جب کہ مَیں اُنہیں واپسی میں لیتی ہوں۔ راستے میں بچّوں سے گپ شپ بھی جاری رہتی ہے۔آپ اِسی سے اندازہ لگالیں کہ ہم بچّوں کو اسکول سے لانے، لے جانے کے لیے بھی ڈرائیورز پر بھروسا نہیں کرتے۔
س: آپ کی شادی اریجنڈ ہے یا لَو میرج؟
ج: نبیل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں میرے کلاس فیلو تھے اور ہماری راہ ورسم بس واجبی سی تھی۔ بعد میں ان کے والد، جو کہ خود بھی ڈاکٹر ہیں، کے ای ایم سی میں ہمارا زبانی امتحان لینے آئے، تو اُنہوں نے مجھے اپنے بیٹے کے لیے منتخب کر لیا۔ یوں ہماری شادی میں والدین کی مرضی شامل ہے۔
بلاشبہ، ہماری پیشہ ورانہ ذمّے داریاں بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم نے بچّوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ ہم نے ہفتے اور اتوار کے ایّام مکمل طور پر بچّوں کے لیے مختص کر رکھے ہیں۔ اُنہیں باہر کھانے پر لے جاتے ہیں اور ہمیشہ ایسا ریسٹورنٹ منتخب کرتے ہیں، جہاں بچّوں کے لیے کھیل کود کی سہولت موجود ہو۔
س: آپ اکثر بین الاقوامی کانفرنسز میں بھی شرکت کرتی ہیں، تو ایسے مواقع پر بچّوں کو کون سنبھالتا ہے؟
ج: مَیں کوشش کرتی ہوں کہ ایک بچّہ میرے ساتھ ہو۔ مجھے یاد ہے، شاہ ویز چھے ماہ کا تھا، جب مَیں اسے ویت نام میں منعقدہ ایک کانفرنس میں اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ اِسی طرح ایک بار ملائیشیا میں بھی کانفرنس میں شرکت کے لیے ایک بیٹے کو ساتھ لے کر گئی۔
ڈاکٹر صومیہ اقتدار کے شوہر، ڈاکٹر نبیل اکبر چوہدری نے بھی اِس امر کی تصدیق کی کہ وہ دونوں میاں، بیوی اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کو بچّوں کی تعلیم وتربیت پر اثر انداز نہیں ہونے دیتے۔ اُنہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ’’ میرا نہیں خیال کہ اگر میاں، بیوی دونوں ڈاکٹر ہوں، تو ازدواجی زندگی یا بچّوں کی پرورش متاثر ہوتی ہے۔
میرے اپنے والدین ڈاکٹر ہیں۔میرے خیال میں تو کام کرنے والی خواتین اپنے معمولات ایڈجسٹ کرنے میں بھی ماہر ہوتی ہیں۔ ہم نے ہفتہ اور اتوار بچّوں کے لیے مختص کر رکھا ہے۔ میری اہلیہ، ماشاء اللہ مُلکی اور عالمی سطح پر مصروف ترین وقت گزارتی ہیں، لیکن اُنھوں نے اپنی مصروفیات کو بچّوں کی تعلیم و تربیت پر اثر انداز نہیں ہونےدیا۔
وہ ایک مثالی خاتون ہی نہیں، ایک شان دارماں بھی ہیں اور مَیں بہت فخر محسوس کرتا ہوں کہ وہ خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے دن رات کوشاں ہیں اور یہی کام یابیوں کا احساس، ہم دونوں کے ازدواجی رشتے کو مزید مستحکم بناتا ہے۔ ہم دونوں بچّوں پر اپنی مرضی ٹھونسنے کے بھی حق میں نہیں۔ ویسے بھی آج کل کے بچّوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کی آزادی دینی چاہیے۔‘‘