وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 23ویں سربراہ اجلاس کے انعقاد کیلئے انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے، تازہ تفصیلات کے مطابق آئندہ ہفتے پندرہ اور سولہ اکتوبر کو منعقد ہونے والی ایس سی او کانفرنس کی سیکورٹی پاک فوج سنبھال چکی ہے، اسلام آباد کی اہم شاہراہوں سمیت اہم عمارات کی تزئین و آرائش اور دلکش سجاوٹ کا عمل جاری ہے۔ خطے کی اہم ترین کانفرنس کی میزبانی پاکستان کیلئے بہت بڑا اعزاز ہے،، تاہم میری نظر میںمذکورہ کانفرنس کی سب سے اہم بات پڑوسی ملک بھارت کے وزیرخارجہ جے شنکر کی ممکنہ اسلام آباد آمد ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کیلئے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو دعوت نامہ ارسال کیا گیا تو ابتدائی طور پر پراسرار خاموشی اختیار کرلی گئی جسکی بنا پر دونوں ممالک کےمیڈیا میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، بعد ازاں جب بھارت سرکار کا یہ اعلان منظرعام پر آیا کہ بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر پردھان منتری نریندرمودی کی نمائندگی کرتے ہوئے اسلام آباد جائیں گے تو اسے سفارتی محاذ پر ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا۔بھارت کی جانب سے ایس سی او کانفرنس میں باضابطہ شرکت کی تصدیق نے میڈیا پر جاری اس بحث کو مزید بڑھاوا دیا کہ آیا بھارتی وزیرخارجہ کی پاکستان آمد برف پگھلنے کا باعث بن سکے گی؟ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کا جواب کھوجنے سے قبل شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام اور اغراض و مقاصد کا مختصرجائزہ لینا بہت ضروری ہے۔تاریخی طور پر آج سے اٹھائیس سال قبل چین، روس اور وسطیٰ ایشیائی ریاستوں تاجکستان، کرغزستان اور قازقستان کے سربراہانِ مملکت نے شنگھائی فائیو کے نام سےسرحدی علاقوں میں عسکری تعاون کو مستحکم کرنے کا معاہدہ کیا، بعد ازاں ازبکستان کی شمولیت سے تنظیم کا نام شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او)ہوگیا، پاکستان کو 2005ء سے مبصر کا درجہ حاصل تھاجبکہ 2017ء میں پاکستان اور بھارت کو بھی شنگھائی تعاون تنظیم کی مکمل رکنیت حاصل ہوگئی، کچھ عرصے بعد ایران اور بیلاروس بھی اس اہم ترین علاقائی تنظیم کے سرکردہ ممبر بن گئے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سالانہ اجلاس کی میزبانی ہر سال کسی ایک ممبر ملک کو سونپی جاتی ہے جبکہ سربراہان مملکت کی شرکت اس تنظیم کی افادیت کو چارچاند لگادیتی ہے،گزشتہ برس ایس سی اووزرائے خارجہ کا اجلاس بھارت کے شہر گوا میں منعقد ہوا تو ایک مرتبہ پھر میڈیا میں پاک بھارت تعلقات زیربحث آنے لگ گئے، تاہم وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کی بھرپور نمائندگی کرکے سفارتی سطح پر ہر قسم کے پروپیگنڈے کوزائل کردیا۔رواں برس اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ایسے حالات میں منعقد ہونے جارہا ہے جب پاکستان کو اندرونی سطح پر سنگین نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں، ایک طرف کچھ ناعاقبت اندیش عناصر احتجاج کی آڑ میں اپنا انتشاری ایجنڈہ آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو بیرونی طاقتوں کے ایما پر شدت پسند عناصر پھر سے سر اٹھانے لگ گئے ہیں۔میں یہ امر پہلے بھی ہائی لائٹ کرچکا ہوں کہ اس وقت بھارتی میڈیا میں بھی پاکستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے بہت زیادہ تشویش پائی جارہی ہے، سرحدپار بہت زیادہ فکرمندی دیکھی جارہی ہے کہ اگر خطے کا اہم ترین ملک پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوتاہے تو یہ بھارت سمیت پورے خطے کیلئے باعث پریشانی ثابت ہوگا، عالمی تجزیہ نگار پاکستان کی حالیہ صورتحال کو پرفیکٹ اسٹارم کا نام دے رہے ہیں یعنی پاکستان بیک وقت مختلف اطراف سے آنے والے طوفانوں کا مقابلہ کررہا ہے۔اس سلسلے میں مبصرین اس امر کو بطورِ خاص اپنے تجزئیوں کا حصہ بنا رہے ہیں کہ سشما سوراج پاکستان کے دورے پر آنے والی آخری بھارتی وزیر خارجہ تھیں جنکے بعد دوطرفہ تعلقات سردمہری کا شکار ہوتے چلے گئے،مجھے یاد ہے کہ جب میں نے اپنے دورہ بھارت کے دوران انہیں امن کا سندیسہ پہنچایا تھا تو سشما جی نے خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا، تاہم انکی زندگی نے وفا نہ کی، مجھے یقین ہے کہ اگر آج وہ ہمارے درمیان موجود ہوتیں تو ضرور دونوں ممالک کو قریب لانے میں اپنا کردار ادا کرتیں۔اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں ہوسکتا کہ پاکستان اور بھارت دنیا کے نقشے پر دو ایسے منفرد ممالک ہیں جنکی نہ صرف ہزاروں سالہ ماضی کی تاریخ مشترکہ ہے بلکہ حال اور مستقبل بھی ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہے، آج اگر بھارت اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے پڑوسی پاکستان کے ساتھ دیرینہ تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنا ہوگا، اسی طرح ہمیں بھی سمجھنا چاہیے کہ بھارت میں رواں برس الیکشن نتائج نے شدت پسندی کے راستے پر گامزن بے جی پی سرکار کو شدید دھچکا پہنچایا ہے اوراب وہاں امن پسند قوتیں دھیرے دھیرے تقویت پا رہی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ماضی میں اٹل بہاری واجپائی بھی پاکستان آئے اور نریندر مودی نے بھی غیرعلانیہ پاکستان کا دورہ کیا لیکن ہم انکی اپنے ملک میں آمد سے سفارتی محاذ پر کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے،اب جبکہ مالک نے شنگھائی تعاون تنظیم کی صورت میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر سنہرا موقع فراہم کیا ہے تو ہمیں علاقائی امن و استحکام اور اپنے عوام کی بہتری کی خاطر بطور میزبان امن پسند ملک ہر صورت میں برف پگھلانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میری نظر میں بھارتی وزیرخارجہ کی پاکستان آمد دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے کیلئے نہایت موثر ثابت ہوسکتی ہے، تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کریں اور اپنے دوستوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس اہم ترین کانفرنس کے موقع پر اپنا اصولی موقف بھرپور انداز میں اجاگرکریں،اس وقت پاکستان اور انڈیا میں بسنے والے کروڑوں امن پسند انسانوں کی نظریں شنگھائی تعاون تنظیم کی جانب مرکوز ہیں۔