گورنمنٹ کالج سے گریجویشن کے بعد مَیں نے قانون کی ڈگری کے لیے پنجاب یونی ورسٹی، لاء کالج میں داخلہ لیا، جو قانون کی تعلیم کے لیے برِّصغیر پاک وہند کا سب سے قدیم، معیاری اور معتبر ادارہ تھا۔ اُس وقت یہ کالج، گورنمنٹ کالج اور انارکلی کے درمیان واقع تھا۔ پورے مُلک میں جس طرح یونی ورسٹی لاء کالج سب سے اعلیٰ سمجھا جاتا تھا، اِسی طرح اس کے پرنسپل شیخ امتیاز علی بھی اپنی مثال آپ تھے۔ وہ ایک با اصول اور سخت گیر منتظم تھے(اللہ تعالیٰ اس زندہ لیجنڈ کو صحتِ کاملہ سے نوازیں)۔
مُلک کے نام وَر قانون دان اور جج صاحبان کالج اساتذہ میں شامل تھے، معروف ایڈوکیٹ اعجاز بٹالوی صاحب ہمیں Law of Torts اس طرح پڑھاتے، جیسے کوئی ناول پڑھا رہے ہوں۔ آفتاب فرّخ صاحب (بعدازاں جسٹس آفتاب فرّخ) کریمنل پروسیجر کوڈ کے، عامر رضا صاحب (جسٹس عامر رضا) سول پروسیجر کوڈ کےاور وسیم سجاد صاحب (وزیرِ قانون اور چیئرمین سینیٹ) آئینِ پاکستان کےاستاد تھے۔
بیرسٹراعتزاز احسن اورخالد رانجھا صاحب بھی وہیں پڑھاتے تھے۔ خود شیخ امتیاز علی صاحب ہمیں Evidence Act پڑھاتے اور اُنھیں اپنے مضمون پر مکمل دسترس تھی۔ وہ کلاس میں چلتے پھرتے پڑھاتے تھے اور طلبہ سے سوال پوچھتے رہتے تھے۔ اُن کاپیریڈ گویا interactive session ہوتا تھا۔ بلاشبہ اُن عظیم اساتذہ سے قانون کے ضابطے، زندگی کے اصول سیکھنے کا بہت موقع ملا۔ شیخ امتیازعلی جیسے سخت گیر پرنسپل کی وجہ سے کالج میں ڈسپلن، میرٹ اور قواعدوضوابط کاراج تھا۔
اسٹوڈنٹس یونینزاُن دنوں بڑی متحّرک اور توانا ہوتی تھیں۔ پنجاب یونی ورسٹی میں نظریاتی تقسیم بڑی گہری تھی، ایک طرف ’’ایشیا سُرخ ہے‘‘ کے نعرے لگانے والے دین بےزار نوجوان تھے، تو دوسری طرف ’’نعرۂ تکبیر‘‘ اور ’’راہ بر و راہ نما، مصطفےؐ، مصطفےؐ‘‘ کے نعرے لگانے والے نوجوان بھی تھے۔ جن میں سے زیادہ تر مولانا مودودیؒ کی کتب سے نظریاتی و فکری توانائی حاصل کرتے تھے۔ بلاشبہ مذہبی عقائد سے متعلق شکوک و اشتباہ کے صحرا میں بھٹکنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کواسلام کی طرف راغب کرنا مولانا مودودیؒ کا تاریخی کارنامہ ہے۔
دوسری طرف سوشلسٹ نظریات رکھنے والے طلبہ بھی کافی مطالعہ کیا کرتے تھے (سوویت یونین کے ٹوٹنے سے وہ نظریاتی گروپ ختم ہوگیاہے) اسلامی ذہن رکھنے والے طلباوطالبات کواسلامی جمعیت پلیٹ فارم مہیا کرتی تھی۔ مَیں جمعیت کا رُکن نہیں تھا، مگر اسلام کی جانب رجحان رکھنے والے electables کو جمعیت والے انتخابات میں ترجیح دیتے تھے۔ ویسے بھی لاء کالج میں نظریات سے زیادہ تعلقات کام آتے تھے۔
یونین کے انتخابات میں ہمارے پینل کی طرف سے رب نواز، عارف اقبال(امریکا میں مقیم ہیں) اور ہمایوں احسان(ایک لاء کالج کے سربراہ ہیں) بالترتیب جوائنٹ سیکریٹری، جنرل سیکریٹری اورنائب صدارت اور راقم صدارت کا امیدوار تھا۔ مخالف پینل سے صدارت کے لیے کئی دن تک ثاقب نثار(چیف جسٹس سپریم کورٹ) کا نام سُننے میں آتا رہا۔
مجھے یاد ہے، سابق چیف جسٹس حمود الرحمٰن صاحب کا بیٹا حمیدالرحمٰن (بعدازاں، جسٹس حمیدالرحمٰن) ایک دن میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ’’مَیں ثاقب نثار کی وجہ سے مجبور تھا کہ ہم اسکول کے وقت سے کلاس فیلوز ہیں، مگر اب حالات دیکھ کرثاقب نے الیکشن لڑنے کا ارادہ ترک کردیا ہے، لہٰذااب مَیں پوری طرح آپ کے ساتھ ہوں۔‘‘ ثاقب نثار امیدوار تو نہ بنے مگر انھوں نے حسبِ عادت بائیں بازو کے امیدواروں کی طرف سے نعرے بازی کے فرائض سنبھال لیے۔
اِس سے پہلے گورنمنٹ کالج میں بھی موصوف یہی کام کیا کرتے تھے۔ وہ لاء کالج میں میرے سیاسی مخالف تھے، مگر اُس وقت بھی اور بعد میں بھی میرے اُن کے ساتھ ذاتی مراسم ہمیشہ بہت اچھے رہے۔ لاء کالج میں ثاقب نثار کا طرزِ عمل اور سرگرمیاں دیکھ کر اُن کے کلاس فیلوز یہی سوچتے تھے کہ وہ کچھ دیر وکالت کرکے سیاست میں آجائیں گے اور پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایم پی اے وغیرہ بن جائیں گے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ موصوف ایک دن منصبِ قضاء پر (اوروہ بھی اعلیٰ عدلیہ میں) فائز ہوں گے اور پھر عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بھی بن جائیں گے۔ یقیناً ربِّ ذوالجلال بڑا بے نیاز ہے۔
اُس وقت کے کلاس فیلوز میں سےاشتراوصاف (بعدازاں، اٹارنی جنرل)، طارق باجوہ (گورنر اسٹیٹ بینک)،خواجہ شمائل (فیڈرل سیکریٹری)، ظفرعباس (آئی جی پولیس)، سید احسن محبوب (آئی جی پولیس)،اسلم حیات (فیڈرل سیکریٹری)، عارف چوہدری(ایڈووکیٹ جنرل)، مُراد علی (سفیرِ پاکستان) میرے حامی اور ووٹرز تھے، جب کہ سیرت اصغر(وفاقی سیکریٹری)، جاوید چیمہ، چوہدری ظہور ناصر، چوہدری جہانگیر، شعیب چیمہ، مسعود احمد، ملک اسلم، جمیل افضل، سرفراز ٹوانہ اورعلی اصغر وینس میری انتخابی مہم کولیڈ کررہے تھے۔
اِن دوستوں میں سے کچھ شعبۂ وکالت میں چلے گئے، کچھ نےہماری طرح سرکاری نوکری میں پناہ ڈھونڈ لی اورکچھ کاشت کاری کررہے ہیں۔ زیادہ تر طلباءوطالبات کُھل کراپنی پسند کےامیدواروں کو سپورٹ کر رہے تھے، مگر دو طالبِ علم ایسے تھے، جن کے ناموں کے آگے دونوں دھڑوں نے انگریزی لفظ D لکھا ہوا تھا، یعنی دونوں گروپس کے نزدیک وہdoubtful (مشکوک) تھے۔ بعد میں، اُن میں سے ایک پولیس سروس اور دوسرا ڈی ایم جی کا افسر بنا۔ شام کو طلبہ کی کثیر تعداد انتخابی نتائج سُننےکے لیے لاء کالج (اولڈ کیمپس) میں جمع ہوگئی۔ رات کےنوبج چُکے تھے، جب پرنسپل شیخ امتیازعلی صاحب خُود بالکونی میں نمودار ہوئے اورنتائج کا اعلان شروع کیا۔
وہ جوائنٹ سیکریٹری سے شروع ہوئےاورآخر میں جب اُنھوں نے میری کام یابی کا اعلان کیا تو فضا تالیوں، نعروں سے گونج اُٹھی، ہمارا پورا پینل ہی جیت گیا تھا۔ کئی دوستوں نے ڈھول تاشوں کا انتظام کررکھا تھا، لہٰذا ڈھول کےساتھ فتح کا جلوس نکالا گیا، جس نے حسبِ روایت ہاسٹل کی دونوں منزلوں کا چکر لگایا اور رات گئے تک یہ ڈھول ڈھمکّوں، بھنگڑوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ جیتنے والوں کوپھولوں کے ہاروں سے لاد دیا گیا۔
دوسرے روز ہماری ہار پہنے تصویریں اخبارات کے صفحۂ اوّل پرچَھپیں۔ مگر خالص گُلاب کے پھولوں کے داغ میری قمیص سے کبھی نہ اُترسکے۔ حلف برداری کی تقریب بڑے اہتمام اور شان سے منائی جاتی تھی۔ ہماری تقریبِ حلف برداری ہاسٹل کے سامنے والےسبزۂ زار میں منعقد ہوئی۔ لاہورہائی کورٹ کے جسٹس جاوید اقبال (علامہ اقبالؒ کے فرزند) مہمانِ خصوصی تھے۔
اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کی حیثیت سے مَیں نے تہیہ کرلیا تھا کہ یونین کے پلیٹ فارم کو صرف اورصرف پروفیشنل(قانون کی تعلیم وتربیّت سے متعلقہ) سرگرمیوں کےفروغ کے لیے استعمال کیا جائےگا۔ مباحثوں اورمذاکروں کے علاوہ ہم نے Law Moots کا (جس میں باقاعدہ عدالت بنائی جاتی ہے، وکیلِ استغاثہ اور وکیلِ صفائی دلائل دیتےہیں اور آخر میں فیصلہ سُنایا جاتا ہے، یہ قانون کےطلبہ کی تربیت کےلیے بہت مفید ہوتے ہیں) اہتمام بھی کیا، جن کی صدارت کے لیے ایک بار سابق چیف جسٹس حمود الرحمٰن صاحب کو بلایا گیا۔ اُن کی شان دار انگریزی میں کی گئی تقریر نے سامعین پر سحرساطاری کردیا تھا۔
انھوں نے اپنی دل نشین تقریرمیں قانون کے طلبہ کومفید ٹپس دیں۔ ایک اورلاء مُوٹ کی صدارت کے لیےمختلف نام تجویز ہوئے، تومَیں نےکہا، سابق چیف جسٹس کارنیلئس صاحب کو بلانا چاہیے۔ سب نے اِس پر اتفاق کیا۔ ہم میں سے کسی کو اُن کی رہائش گاہ کاعلم نہیں تھا۔ کالج کے ایک پروفیسر صاحب نے بتایاکہ اُن کا اپنا گھر نہیں ہے اور وہ فلیٹیز ہوٹل کےایک کمرے میں رہائش پذیر ہیں۔ چناںچہ مَیں اورنائب صدرہمایوں احسان ایک روز فلیٹیز ہوٹل پہنچ گئے۔
جسٹس صاحب عُمر رسیدہ اور کم زور ہو چُکے تھے، انھوں نے اپنی گرتی صحت کےباعث آنے سے معذوری ظاہر کی۔ جس پر مَیں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا۔ ''Sir!your presence would inspire the law Students'' تو ہمارا اشتیاق دیکھ کر اُنھوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مقررہ دن ہم جسٹس صاحب کو سہارا دے کر اُن کے کمرے سے نیچے لائے اور کار میں بٹھا کر سینیٹ ہال لے آئے۔ مُلک کی معروف شخصیات اور جسٹس حمود الرحمٰن اور جسٹس کارنیلیس جیسے عظیم ججز اور جیورسٹس سے interact کرنے اور چوٹی کے قانون دانوں کے ساتھ ملاقاتوں نے میری خُود اعتمادی بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
اب تو ہر تعلیمی درس گاہ میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے برابر ہے یا بڑھ چُکی ہے، مگر اُس وقت پورے کالج میں صرف پانچ، چھے لڑکیاں ہوتی تھیں۔ چند سال قبل اِسی لاء کالج میں پروان چڑھنےوالےایک مشہور رومان کی خُوشبو ابھی تک کالج کی فضائوں میں مہک رہی تھی (بعد میں دونوں کردار جناب ایس ایم ظفر کے جونئیر بنے اور وہیں اُن کا عشق، نکاح پرمنتج ہوا) اِس لیے بہت سے طلبہ اُن ’’رُومانی بزرگوں‘‘ کی روایات کو آگےبڑھانے کا پختہ عزم کیے ہوئے تھے، مگر مسئلہ یہ تھا کہ ماحول اتنا لبرل نہیں تھا اور ’’محبوباؤں‘‘ کے مقابلے میں ’’عُشّاق‘‘ کی تعداد کئی گُنا زیادہ تھی۔
سو، زیادہ تر کشتگانِ ہجر کوریڈورز ہی میں ناکام پِھرتے نظر آتے۔ ایک دیہی پس منظر کا طالبِ علم ایک طالبہ کےعشق میں ایسا کھویا کہ کلاس سےغیر حاضر رہنے لگا۔ ایسا کیس شیخ امتیاز علی صاحب کی نظروں سے کیسے بچ سکتا تھا۔ ایک روز راہ چلتے جب مذکورہ عاشقِ زار اپنے خوابوں میں گم تھے، اُنھوں نے پیچھے سےگردن پرہاتھ ڈال کرگھمایا اور روبرو کرکےکہا۔ ’’او چوہدری! قانون سے زیادہ خاتون میں دل چسپی لوگے توخُود بھی خوار ہوگے اور والدین کا پیسا بھی برباد کرو گے۔‘‘
شیخ صاحب کی تنبیہ سے اُس کے عشق کا بھوت نکل گیا اور وہ پڑھائی میں دل چسپی لینے لگا۔ آج کل وہ ایک معروف قانون دان اور ایک سیاسی پارٹی کا اہم رہنما ہے۔ لاء کالج ہاسٹل کا ماحول بہت منفرد تھا، اکثریت تو محنتی، ذہین طلبہ کی تھی، مگر کچھ بڑے زمیں داروں کے بیٹے اور میاں والی، سرگودھا کےکڑیل جوان صبح گیارہ بجے تک ہاسٹل کے لان میں سوتے رہتے، تو حجام وہیں پہنچ جاتا اورحالتِ مخموری ہی میں اُن کی شیو بنا دیتا۔
مذکورہ صاحبان دوپہر کو بعد از غُسل لنچ تناول فرماتے اور پھر کلف شدہ بوسکی کےکُرتے پہن کرانارکلی کا رُخ کرتے۔ ہاسٹل میں میرے ساتھ والا کمرا عظمت سعید (جسٹس عظمت سعید) کا تھا۔ موصوف کواُس وقت بھی ہاسٹل کے لڑکے مذاقاً ’’انٹیلکچوئل‘‘ کہتے تھے۔ ہم ایل ایل بی میں پہنچے، تو میرا بہت قریبی دوست، سیرت اصغر جَوڑا میرے کمرے میں شفٹ ہوگیا۔ سیرت کو قدرت نے غیرمعمولی ذہانت و قابلیت سے نوازا تھا۔
رات کے کھانے کے بعد ہم مال روڈ پر سیر کے لیے نکلتے (اُس وقت رش بالکل نہیں ہوتا تھا اور سیربڑی خوش گوارہوتی) تو وہ ساحر اور فیض کی غزلیں اور مختار مسعود کی مقبول کتاب ’’آوازِ دوست‘‘ کے صفحوں کےصفحے زبانی سُنادیتا (بعد میں وہ فیڈرل سیکریٹری بنا اور انتہائی دیانت دار، باضمیر افسر کے طور پرنیک نامی کما کے ریٹائر ہوا)۔
اسٹوڈنٹس یونین کےعہدےدار ہر معاملے میں اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، حتیٰ کہ داخلوں اور اساتذہ کی تقرریوں میں بھی دخل اندازی کرتے ہیں، مگر مَیں نے دیکھا کہ شیخ امتیاز علی اگر اسٹوڈنٹس یونین کی سفارش نہیں مانتےتھے، تو صوبےکے پھنّے خاں گورنر اور وزیرِاعلیٰ کی سفارشیں بھی رَد کر دیتے تھے۔
اُن کی اصول پسندی،میرٹ دیکھ کر میرے دل میں اُن کے لیے بےحد عزت و احترام کے جذبات تھے۔ پنجاب یونی ورسٹی کی یونین شیخ صاحب سے ناخوش تھی اوراُنھیں ٹف ٹائم دینے پراصرار کرتی تھی، مگر مَیں نے اس معاملے میں جمعیت کی قیادت سے اتفاق نہ کیا، کیوں کہ مجھے خُود، گھر کی تربیت کے باعث شیخ صاحب کےاصول، انصاف اورسخت گیری پسند تھی۔
اِس پر یونی ورسٹی یونین مجھ سے بھی ناراض ہوگئی۔ مجھے یاد ہے، ہم نے ایل ایل بی کے امتحان کے بعد اسٹوڈنٹس یونین کی طرف سے نئی عمارت میں الوداعی تقریب منعقد کی، جس میں پرنسپل صاحب،تمام اساتذہ اورطلبہ نے شرکت کی۔ اس موقعے پر بحیثیت صدر یونین، راقم نے طلبہ کے لیے کی جانے والی مختلف خدمات کا ذکرکرتے ہوئے جب یہ کہا کہ ’’مَیں آج بڑے فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے لاء کالج میں agitational politics کی بجائے educational politics کو فروغ دیا ہے۔‘‘ تو حاضرین کی پُرزور تالیوں نے اِس کی بھرپور تائید کی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُس دَورمیں طلبہ سیاست کو تشدّد اور سیاسی پارٹیوں کی مداخلت نےانتہائی خطرناک بنا دیا تھا، اِسی لیے مَیں آج تک اسٹوڈنٹس یونینز کے حق میں نہیں ہوں۔
لاء کالج سے فارغ ہونے کے بعد مَیں نے معروف فوج دار وکیل خواجہ سلطان صاحب (خواجہ حارث کے والد) کا چیمبر جوائن کیا۔ میرے علاوہ خواجہ شریف (جو بعد میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے) ثاقب نثاراور خواجہ حارث بھی اُسی چیمبر سے وابستہ تھے۔ ایک طرف لوئر کورٹس کی گرد، کرپشن اور تعفّن زدہ ماحول نےمجھے بددل کردیا، تو دوسری طرف بہت سے کلاس فیلوز سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے ڈی ایم جی، پولیس اور فارن سروس میں شامل ہونے لگے، تو مجھے بھی انگیخت ہوئی اور مَیں نے بھی سی ایس ایس کا امتحان دینے کا فیصلہ کیا۔
امتحان کی تیاری مَیں نے گاؤں میں رہ کر ہی کی۔ مَیں جس کمرے میں تیاری کررہا تھا، وہاں دن میں ایک دوبار والدہ صاحبہ ضرورآتیں، کھانے پینے کا پوچھتیں اور صحت کا خیال رکھنے کی ہدایت کرتیں۔ وہ میری پسند کی ڈشز بھی تیار کرکے بھیجتی رہتی تھیں۔ مَیں جتنے روز امتحان دیتا رہا، والدہ صاحبہ سجدے ہی میں رہیں۔ اُس روز مَیں گھر ہی پرتھا، جب بڑے بھائی صاحب شہر سے اخبار لے آئے، جس میں میرا رزلٹ تھا، میری بڑی اچھی پوزیشن آئی تھی اور مجھے پولیس سروس الاٹ ہوئی تھی۔ انہوں نے باآوازِبلند خوش خبری سنائی۔
والدہ صاحبہ اور سب بہن بھائیوں کی خوشی دیدنی تھی۔ والد صاحب برآمدے میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے، گاؤں کے لوگوں نے آکر مبارک باد دی کہ آپ کا بیٹا ایک بڑا پولیس افسر بن گیا ہے، توانہوں نے اطمینان سے لیٹے لیٹے ہی کہا۔ ’’محکمہ تے بڑا بدنام اے۔ اللہ تعالیٰ اینوں سِدھی راہ تے رکھے۔‘‘ (محکمہ تو بہت بدنام ہے، اللہ تعالیٰ اسے سیدھی راہ پر رکھیں)۔ (جاری ہے)