تحریر: نرجس ملک
ماڈل: اقراء علی
ملبوسات: زرقا خان بوتیک
زیورات: Fashion Hood Jewellers By Ali
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
کوآرڈی نیشن: عمران ملک
عکّاسی: ایم کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
بچّوں نے ’’بڑا‘‘ تو ہونا ہی ہوتا ہے، لیکن خصوصاً بچیاں کچھ اس تیزی سے قد کاٹھ نکالتی، ماؤں کے کاندھے آ لگتی ہیں کہ خُود ماؤں کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ کل تک جو نرم وملائم، روئی کی گالوں سی، مَن موہنی صُورت پنگھوڑے میں جُھولتی، آغوش میں سما جاتی تھی، آج آئینے کے مدِمقابل ہو، تو ماں سے بھی کچھ لمبی ہی لگتی ہے (یوں بھی بیٹیاں جوان ہو جائیں، تو والدین کے کاندھے آپ ہی آپ جُھکنے لگتے ہیں) وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’بیٹیاں کھیلتے کُودتے ہی یک دَم بڑی ہوجاتی ہیں۔ پتا ہی نہیں چلتا، کب اُن کا کھیل ختم اور نصیب کا کھیل شروع ہوگیا۔‘‘
اکثر مائیں، اِن تیزی سے اُٹھان بَھرتی بیٹیوں کو ککڑی کی بیلوں، دھریک کے درخت سے بھی تشبیہہ دیتی ہیں کہ ککڑی کی بیلیں بھی بظاہر نرم ونازک، لیکن کچھ ایسی تیزی سے پَھلتی پُھولتی ہیں کہ مہینوں میں کہاں سے کہاں جا پہنچتی ہیں، تو دھریک کا درخت (نیم اور بکائن کے درختوں سے مشابہ) بھی نہ صرف جلد ہی قدآور ہوجاتا ہے، بلکہ کاسنی رنگ پھول بھی پرونے لگتا ہے۔
یوں تو بیٹیاں، ماؤں کے جنم جنم کی سہیلیاں، ہوبہو اُن کا عکس، پرچھائیں، بہت ہم درد، مونس و غم خوار، ہر دُکھ درد کی سنگی ساتھی ہوتی ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہےکہ بہرحال وہ پرایا دَھن، پردیسنیں ہی ٹھہرتی ہیں۔ لاکھ سائے کی طرح، ماؤں کے ساتھ ساتھ لگی، چِمٹی رہیں، مگر اِک نہ اِک روز بابل کی دہلیز چھوڑ جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’بیٹی چاہے شاہ کی ہو یا گدا کی، رخصت کرنی ہی پڑتی ہے۔‘‘
وہ گھرآنگن، جہاں آنکھ کھولی، گُھٹنوں گُھٹنوں چلنا، پہلا قدم اُٹھانا، پہلا لفظ بولنا سیکھا اور پھر جہاں توتلی زبان سے لے کر فرفر بولنے، ڈگمگاتے، ڈولتے قدموں سے اپنے پیروں پہ کھڑے ہونے، چھوٹے سے بستے سے کالج، یونی ورسٹی کا بیگ سنبھالنے، ابّو کے ہاتھ کا لقمہ لینے سے خُود نت نئی ڈشز ٹرائی کر کے تعریفیں وصولنے، امّی کی لپ اسٹک، نیل پالش خراب کرنے سے نت نئے برانڈز کی پراڈکٹس منگوانے، ننّھے ننّھےفراکس، چڈیاں پہننے سے ایک سے بڑھ کے ایک ڈیزائنرزڈریس کا انتخاب کرنے، گڈے، گڑیا کا بیاہ رچانے سے خُود اپنے بیاہ شادی کی تیاریاں کرنےاور…چھوٹی چھوٹی باتوں پہ روٹھنے، منانے سے بابل کا آنگن چھوڑ، پیا دیس جا بسنے تک کے سارے مراحل طے پاتے ہیں، یک سر ہی پرایا، بیگانہ، یک دَم ہی ’’میرے گھر‘‘ سے ’’امی کا گھر(میکہ)‘‘ ہوجاتا ہے۔
وہی گھر، جس میں موجود اپنے کمرے کی اِک اِک شئےکوخُوب سنوارواُجال، سینت سنبھال کے رکھا جاتا ہے، ذرا کسی بہن بھائی نے کچھ اِدھر اُدھر کردیا، ایک ہنگامہ بپا ہوگیا، شادی بیاہ کے دِنوں میں پورا کا پورا تلپٹ ہوجاتا ہے، پر پیشانی پہ بَل نہیں آتا۔ جس گھر کے نہ جانے کتنے گوشوں، خلوتوں میں لمبے لمبے سجدے کیے، خُوب گِڑگڑا گِڑگڑا کے بہت خشوع و خضوع سے بہت خاص دُعائیں مانگی جاتی ہیں، شہر پار یا دُور دیس بیاہے جانے کے بعد پھر وہیں آکے دوگانہ، قصر نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔ تو بس، اپنی مثال آپ، بیٹیوں کی بپتا کچھ ایسی ہی ہے۔
ایک پنجابی کہاوت ہے،’’کُڑیاں، چِڑیاں، بکریاں …تیریوے ذاتاں وکھریاں‘‘، مطلب لڑکیاں، چِڑیاں اور بکریاں، تینوں بس الگ ہی ذاتیں ہیں۔ اوربزرگوں کی یہ کہاوتیں ہرگزبے سبب و بے محل، ناموزوں نہیں ہوتیں۔ کوئی نہ کوئی حکمت تو پوشیدہ ہوتی ہی ہے کہ عموماً چِڑیاں، بکریاں معصوم، بھولی بھالی، ڈرپوک، سہمی سہمی سی، کبھی اِدھر اُدھر پُھدکتی، کُودتی پھاندتی، کسمساتی، منمناتی، تو کبھی چہکتی مہکتی، خُوب اِتراتی، اِٹھلاتی پِھرتی ہیں۔ اسی طرح لڑکیاں بالیاں بھی اکثر و بیش تر اِن ہی کے مِثل مختلف النّوع رویّوں کا اظہار کرتی ہیں۔ ہاں، مگر یہ ضرور ہے کہ لڑکیاں جہاں بھی ہوں، اپنے ہونے کا احساس ضرور دلاتی ہیں۔ گھر کے کونے کونے، چپّے چپّے پر اپنے بہت گہرے، اَن مِٹ نقش ثبت کر جاتی ہیں،جب کہ والدین کے تو جیسے دِلوں پراُن کے نقوش کی مُہریں ثبت ہوتی ہیں۔
وہ منظر بھوپالی کی ’’بیٹیاں‘‘ کے عنوان سے ایک نظم ہے ناں ؎ ’’اُن کو آنسو بھی جو مل جائیں،تومسکاتی ہیں…بیٹیاں توبڑی معصوم ہیں، جذباتی ہیں…اُن سے قائم ہے، تقدّس بھی ہمارے گھر کا…صُبح کو اپنی نمازوں سے یہ مہکاتی ہیں…لوگ بیٹوں سے ہی رکھتے ہیں توقع لیکن…بیٹیاں اپنی بُرے وقت میں کام آتی ہیں… بیٹیاں ہوتی ہیں پُرنور چراغوں کی طرح… روشنی کرتی ہیں، جس گھر میں چلی جاتی ہیں…بیٹیوں کی ہے زمانے میں انوکھی خوشبو … یہ وہ کلیاں ہیں، جو صحرا کو بھی مہکاتی ہیں…ایک بیٹی ہو تو کِھل اُٹھتا ہے گھر کا آنگن …گھروہی رہتا ہے، پررونقیں بڑھ جاتی ہیں… فاطمہ زہراؓ کی تعظیم کو اُٹھتے تھے رسولﷺ …محترم بیٹیاں اِس واسطے کہلاتی ہیں۔‘‘
تو بھئی، جب اِن ننّھی پریوں، بابل کے انگنے کی کلیوں، تتلیوں، امن کی آشاؤں، فاختاؤں کے خُوب بننے سنورنے کی عُمر آپہنچے یا پھر پیا دیس سدھارنے کے دن آجائیں (وہ کیا ہے کہ ؎ وے ماہیا تیرے ویکھن نُوں…چُک چرخا گلی دے وچ ڈاہواں…مَیں لوکاں باہنے سوت کتدی…تند تیریاں یاداں دے پاواں) تو تب بھی اِن کی سب خواہشوں، آرزوؤں، تمناؤں، ارمانوں کا بھرم والدین، خصوصاً ماؤں ہی نے رکھنا ہوتا ہے۔ سو، لیجیے، آج ہم ساحر لدھیانوی کے اِس دُعائیہ گیت کے ساتھ ؎ ’’بابل کی دُعائیں لیتی جا، جا تجھ کو سُکھی سنسار ملے… میکے کی کبھی نہ یاد آئے، سسرال میں اتنا پیار ملے… نازوں سے تجھے پالا مَیں نے، کلیوں کی طرح پھولوں کی طرح… بچپن میں جُھلایا ہے تجھ کو، بانہوں نے مِری جُھولوں کی طرح… مِرے باغ کی اے نازک ڈالی! تجھے ہر پل نئی بہار ملے… جس گھر میں بندھے ہیں بھاگ تِرے، اُس گھر میں سدا تِرا راج رہے… ہونٹوں پہ ہنسی کی دھوپ کِھلے، ماتھے پہ خوشی کا تاج رہے… کبھی جس کی جوت نہ ہو پھیکی، تجھے ایسا رُوپ سنگھار ملے… بِیتیں تِرے جیون کی گھڑیاں، آرام کی ٹھنڈی چھاؤں میں… کانٹا بھی نہ چُبھنے پائے کبھی، مِری لاڈلی ترے پاؤں میں… اُس دوار سے بھی دُکھ دُور رہے، جس دوار سے تیرا دوار ملے۔‘‘ آپ کی لاڈو پَری، نازوں پلی ’’دھی رانی‘‘ کے لیے ایک بہت ہی حسین، خاص الخاص سی بزم سجا لائے ہیں۔
ذرا دیکھیے تو گہرے جامنی رنگ کے انتہائی جاذبِ نظر، خُوب کام دار غرارے، چولی، بلڈ ریڈ رنگ لانگ شرٹ کے ساتھ لہنگے سے لے کر دھانی اور مسٹرڈ رنگ کے دو بہت ہی نفیس، بیش قیمت پہناووں تک کیسا ماورائی، افسانوی سا انتخاب ہے۔ یہاں تک کہ زیبِ تن کرنے والی کے ملکوتی حُسن کی تاب لانا مشکل ہورہا ہے۔ بلاشبہ ان رنگ و انداز سے سجنے سنورنے کے بعد بے ساختہ، بےاختیار ہی گنگنایا جائے گا ؎ ’’نین تیرے شکار کرتے ہیں…دل ہمارا فگار کرتے ہیں… خُوب رُوجب سنگھار کرتے ہیں…آرسی پر بہار کرتےہیں.....خوش نگاہ اوربَر میں سبز لباس..... سَرو کُوں شرم سار کرتے ہیں۔‘‘