• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: عائشہ عائش

ملبوسات: SAB TEXTILE BY FARRUKH

آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر

کوآرڈی نیٹر : آصف صلاح الدین

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

منیر نیازی کی ایک بہت خُوب صُورت نظم ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں مَیں‘‘ اَن گنت دِلوں کی آواز ہے۔ غالباً اِس لیےکہ یہ بہت حد تک عمومی انسانی مزاج، رویّے کی عکّاس بھی ہے۔ نظم کچھ اس طرح ہے ؎ ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں مَیں، ہر کام کرنے میں..... ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو..... اُسے آواز دینی ہو، اُسے واپس بلانا ہو..... ہمیشہ دیر کردیتا ہوں مَیں..... مدد کرنی ہو اُس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو..... بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو..... ہمیشہ دیر کردیتا ہوں مَیں..... بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو..... کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو..... ہمیشہ دیر کردیتا ہوں مَیں..... کسی کو موت سے پہلے، کسی غم سے بچانا ہو..... حقیقت اور تھی کچھ، اُس کو جاکے یہ بتانا ہو..... ہمیشہ دیر کردیتا ہوں مَیں۔‘‘ حالاں کہ کبھی کبھی بلکہ اکثر یہ دیر، تاخیر عُمر بھر کا روگ بھی بن جاتی ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم جانے، اَن جانے، دانستہ، نادانستہ، چاہتے، نہ چاہتے ہوئے بھی زندگی میں بارہا ایسی تقدیم و تاخیر کے مرتکب و قصور وار ٹھہرتے ہیں کہ جس کا پھر کوئی ازالہ و مداوا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ دراصل زندگی کی ہماہمی، دھکا مُکّی نے ہمیں اپنے پنجوں میں کچھ ایسے جکڑ رکھا ہے کہ آج ہم خال ہی کوئی کام بروقت، برمحل، عین موقعے پر کرپاتے ہیں۔ 

تھوڑا بہت توقف، تاخیر تو گویا روٹین کی بات ہے، لیکن ایسی دیری کہ جس کے بعد سوائے ندامت و پشیمانی، حسرت و ملال اور پچھتاوے کے، کچھ پلّے نہ رہ جائے۔ وہ کیا غالب نے بھی کہا تھا ناں کہ ؎ ’’کی مِرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ..... ہائے اُس زود پشیماں کا، پشیماں ہونا‘‘ تو ایسا ’’زود پشیماں‘‘ تو پھر عُمر بھر ہاتھ ملتا ہی رہ جاتا ہے ناں!! کسی کا بہت خوب صُورت قول ہے کہ ’’وقت پر ایک پھول دینا، بعد از وقت اپنا سب کچھ دینے سے بہتر ہے۔ 

صحیح وقت پر ایک خُوب صُورت لفظ کہنا، جذبات و احساسات کے مرجانے پر پوری نظم لکھنے سے کہیں اچھا ہے۔ برقت مدد، تسلی کے دو بول، بعد ازاں بہت کچھ لُٹانے سے کہیں افضل ہیں۔ کیوں کہ قول و عمل کی ایسی ناقابلِ تلافی تاخیر پھر کسی مُردہ ماتھے پر معافی کا بوسہ دینے ہی کے مترادف ٹھہرتی ہے۔‘‘

صد شُکر کہ ہمارا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے، جو زندہ لوگوں کو چاہنے، سراہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اُن کی خوبیوں، خواص کی تعریف و توصیف، کوششوں، کاوشوں کی حوصلہ افزائی اور کام یابیوں، کام رانیوں پر اظہارِ مسرّت سے دلی خُوشی محسوس کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ ٹسوے بہاتے ہوئے ’’مرحوم ایسے تھے، مرحوم ویسے تھے‘‘ کا ورد، وظیفہ کیا جائے۔ اور..... یہ جو ہر ہفتے ہم زندہ خواتین کو بہت زندہ کرنے، زندہ دلی کے ساتھ جی بھر جینے کا درس دینے چلے آتے ہیں، تو سمجھیں، یہ ہماری اِسی فطرتِ ثانیہ ہی کے سبب ہے۔ 

وگرنہ فیشن شُوٹ کی کچھ منتخب تصاویر، محض ڈیپ کیپشنز کے ساتھ لگا دینےمیں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یوں کہیں، ہمارا یہ موٹو ہے کہ خواتین اپنا خیال رکھیں، صاف سُتھری، بنی سنوری رہیں، چاہی، سراہی جائیں، اہلِ خانہ، حلقۂ احباب کے دِلوں پر راج کریں۔ آئینہ دیکھیں، تو خُود پہ پیار آئے، خُود اپنی تعریف کرتے بھی قطعاً نہ شرمائیں اور جن کے لیے بہت دل سے سجی سنوری ہوں، وہ بھی دیکھیں، تو بے اختیار ’’ماشاء اللہ، سبحان اللہ، چشمِ بددُور‘‘ کہہ اُٹھیں۔ 

توچلیں، اب آج کی بزم سے دودو ہاتھ کیے لیتے ہیں۔ ذرا دیکھیے، فیروزی اور سفید رنگ کے امتزاج میں تھریڈ ورک سے مرصّع کیسا نفیس پہناوا ہے۔ سُرخ ایمبرائڈرڈ ڈریس کی شان نرالی ہے، تو بے بی پنک رنگ کے دل آویز سے انداز کی تو کیا ہی بات ہے۔ لیمن شیڈ میں کاٹن ایمبوزڈ ٹراؤزر، شرٹ کا جلوہ ہے، تو لال اور پیلے کے روایتی امتزاج میں اسٹریٹ ٹراؤزر کے ساتھ پیپلم کی ہم آویزی بھی خاصی بھلی لگ رہی ہے۔ نیلے کے ساتھ سُرخ و سفید کے کنٹراسٹ میں تھری پیس ایمبرائڈرڈ پہناوا ہے، تو باٹل گرین رنگ کے ساتھ سیاہ کے تال میل میں اسٹائلش میکسی نُما فراک کے بھی کیا ہی کہنے۔

ہمارے اِن رنگ و انداز میں سے جو بھی مَن کو بھا جائے، اپنانے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ کیجیے گا کہ مبادا پھر کہتی رہیں ؎ ہمیشہ دیر کردیتی ہوں میں۔ بلکہ خُوب سج سنور کے، بزبانِ علی سردار جعفری کچھ یوں گاتی اِٹھلاتی پھریں؎ خوگرِ رُوئے خوش جمال ہیں ہم..... نازِ پروردۂ وصال ہیں ہم..... ہم کو یوں رائیگاں نہ کر دینا..... حاصلِ فصلِ ماہ و سال ہیں ہم..... رنگ ہی رنگ، خُوشبو ہی خُوشبو..... گردشِ ساغرِ خیال ہیں ہم..... رونقِ کاروبارِ ہستی ہیں..... ہم نے مانا شکستۂ حال ہیں ہم..... مال و زر، مال و زر کی قیمت کیا..... صاحبِ دولتِ کمال ہیں ہم..... کسی کی رعنائی خیال ہے تُو..... تیری رعنائی جمال ہیں ہم..... ایسے دیوانے پھر نہ آئیں گے..... دیکھ لو ہم کو، بے مثال ہیں ہم۔