موازنہ بتاتا ہے کہ نواز شریف کے بجائے قبلہ عمران پر قوم کا زیادہ احسان ہے۔ رہی بات کپتان کے قوم پر احسان یا میاں صاحب کی قوم پر نوازشات کی تو اس کا جائزہ محققین کو لینا ہوگا ! عرق ریزی یہی کہتی ہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ92 اور شوکت خانم وہ فتوحات ہیں جن کے پیچھے خان کی کپتانی ضرور ہے لیکن تھا یہ قومی ٹیم ورک۔ یہ دونوں کھیل اگر اسکواش ہوتے تو ہم ضرور مان لیتے کہ حضور جہانگیر خان یا جان شیر خان جیسے کھلاڑی ہیں۔ لیکن ایک کرکٹ کا معاملہ اور دوسرا ویلفیئر کا گویا دونوں کا تعلق اسکواش سے دور دور تک کا نہیں!
خان پر قوم کا احسان اپنی جگہ، لیکن خان پر زرداری صاحب اور میاں صاحب کا بھی ایک احسان ہے ، وہ یہ کہ جب ان لیڈران نے اسٹیٹس کو کے بت کو پاش پاش کرنے کے بجائے مندر میں سجا لیا تو ایک طبقہ اٹھا جس نے اس بت کو توڑنا چاہا۔ یوں اس طبقہ کے نوجوانوں نے خان کی ورلڈ کپ کی جیت دیکھی نہ کرکٹ، 2010 تک اس کی سیاست کو بھی منہ نہ لگایا اور یہ ایک اکلوتی قومی اسمبلی کی سیٹ کے مالک تھے پھر 2013تک یہ ایسی سیاسی حیثیت میں آئے کہ پولیٹکل سائنس دنگ رہ گئی۔ وجہ کیا تھی ؟ لوگوں نے امیدیں باندھ لیں، سوچا اصلاحات ہوں گی، کورٹ کچہری سے کرپشن ختم، تھانے انصاف کی آماجگاہیں ہوں گے، انڈسٹری چلے گی، سرکاری دفاتر میں بغیر رشوت کام ہو گا، روزگار ملے گا اور بیوروکریسی انسان کو انسان سمجھے گی۔ اس امید سے کے پی کےمیں تو 2013ہی میں حکومت دے دی۔ اس نے کچھ خاص نہ کیا لیکن 2018میں کے پی کے کے سنگ مرکز اور پنجاب میں حکومت بھی بن گئی سو مرکز میں پونے4سال خان وزیر اعظم رہے ، پنجاب میں ان کا وزیرِ اعلیٰ رہا، دونوں حکومتوں نے کچھ نہ دیا، وعدے جھوٹے اور کابینہ نااہل ثابت ہوئی، بین الاقوامی سطح پر رسوائی ہوئی۔ عدم اعتماد کی تحریک میں اسپورٹس مین اسپرٹ کا فقدان رہا، سائفر کیس کا جھوٹ پکڑا گیا۔ 1کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھروں کی فراہمی بےبنیاد بات نکلی۔ الیکشن 2024تک وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور کے پی کے کے دو سابق وزرائے اعلیٰ پرویز خٹک اور محمود خان تک چھوڑ گئے لیکن عوام نے کچھ نہ پانے کے باوجود خان کا ساتھ نہ چھوڑ کر اس پر احسان کیا، کرپشن ثابت ہونے کے باوجود مسیحا سمجھا! قوم اس سے بڑا احسان کیا کرتی؟ مگر قوم کو کیا دیا گیا؟ اسٹیبلشمنٹ نے احسان کیا کہ جنوبی پنجاب محاذ انتخابات سے چند دن قبل طشتری میں رکھ کر دیا کہ سبھی الیکٹبل تھے جو 2018 میں جیتے۔ ملک بھر سے دھونس دھاندلی سے الیکٹبل لاکر وزیراعظم بنانے کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل 2017میں ثاقب نثار جیسے عادل سے شریف فیملی کا سیاسی قلع قمع کرا کے، عمرانی جیت کا راستہ ہموار کیا، یوں شریف سیاست کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ آصف زرداری کیلئےسیاسی مشکلات پیدا کی گئیں۔ مقتدر ہ کا یہ احسان تھا کہ فرش سے عرش تک پہنچایا۔ عوامی احسان کہ یہ بھول کر خان اور اس کی نرگسیت کے دلدادہ رہے۔ لیکن بانی پی ٹی آئی نے محسن مقتدر ہ اور محسن قوم کو کیا دیا؟ مانا کہ تاریخ میں کئیوں نے مقتدر سے استفادہ کیا لیکن انہوں نے پرفارم کرنے کے علاوہ اس قدر محسن کشی نہیں کی جو خان نے کی۔
جس جس قیادت سے خان کا موازنہ کیا جاتا رہا، اس میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت دیکھیں تو اصلاحات کا انبار ملے گا۔ بی بی اور زرداری کی صورت میں بےشمار کامیابیاں اور میثاقِ جمہوریت اور جدو جہد کی لمبی داستان ملے گی۔ شریف خاندان کے ہاں ترقیاتی کاموں کی سنہری تاریخ ہے جو کسی صورت میں بھی بانی کے کریڈٹ پر نہیں لیکن قوم نے پھر بھی پیار اور احسان کیا بےشک خان نے نفرت اور مقتدرہ کی مدد سے سیاسی اڑان بھری جو ہیرو ہوتے ہوئے بھی زیرو رہے! ائیر ٹائمز، لکھاری اور اینکرز، آر ٹی ایس کا بیٹھنا کس نے دیا؟ اجی، ستر فیصد سے زائد حامی حُبِ علی والے نہیں بغضِ معاویہ والے ہیں!
ایک تازہ ترین موازنہ دیکھ لیجئے۔ خان حکومت نے بہترین رپورٹ بنائی، عمر ایوب جیسے وزیر نے پریس کانفرنسوں سے میلہ لوٹا، سیمینار اور تقریریں ہوئیں لیکن آئی پی پیز کے معاہدے ازسرِ نو نہ ہو سکے، پچھلے حکمرانوں کو گندا کیا مگر نتیجہ زیرو ، الٹا آئی پی پیز کے مالکان کو ایڈجسٹ کر دیا گیا۔ عوام کے احسان کا بدلہ یہ تھا کہ تدبر اور حکمت سے محسن مقتدرہ کے ساتھ چل کر عوام کی جھولی میں ثمرات ڈالے جاتے اور وعدے پورے کئے جاتے۔ موجودگی حکومت آئیڈیل نہ سہی لیکن بڑے بڑے آئیکون کو منا کر پانچ آئی پی پیز کمپنیوں کو منوالیا گیا ہے جس میں رزاق داؤد اور میاں منشا جیسے لوگوں نے مہربانی فرمائی ، جس سے لگا کہ باقی پاور پراجیکٹس والے بھی مان جائیں گے۔ حقیقتاً یہ حکومت اور مقتدرہ کے ایک صفحہ پر ہونے کا عملی ثبوت سامنے آئے اور لوگوں کو بجلی میں ریلیف ملنے کے آثار پیدا ہوئے حکومت کی ایک سو سے زائد ارب روپے کی بچت ہوگی، عوام کی ساٹھ ارب تک کی بچت ہوگی۔ انڈسٹری کو آکسیجن ملے گی۔ اگر صوبوں کی مدد رہی تو مائکرو اور میکرو اکنامکس کے تال میل سے مہنگائی میں مزید کمی ہوگی۔ جو سی پیک منصوبہ لپیٹ دیا گیا تھا وہ چل پڑا ہے۔ اور یہ خوش قسمتی نہیں تو کیا ہے؟
2018تا 2022تک ایک ہی مشن رہا، خود کچھ نہ کر پائیں تو مخالفین کو اندر کردیں یا ان پر کیچڑ اچھال کر سیاسی الو سیدھا رکھیں۔ وزیر اعظم بن کر بھی اپوزیشن لیڈر والی تقریریں، عدم اعتماد کی تحریک کا غیر آئینی انداز میں سامنا کہ تحریک جمع ہوتے ہوئے بھی اسمبلی توڑ دینے کی ایڈوائز، اس کاوش میں رہے کہ مقتدرسیٹ اپ اپنی مرضی کا لاکر 2028تک حکومت کریں اور صدارتی نظام کو لایا جائے... پھر بھی قوم محبت اور احسان کرنے کے موڈ میں رہے تو ایسا قرض کیسے اتارا جاسکتا تھا ؟
قول و فعل کے تضاد سے نہیں۔ فرشتے ہیں تو فرشتگی ثابت کر کے!