جدیدانسانی تاریخ کے عظیم بزنس مین رتن نیول ٹاٹا اٹھاسی سال کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کرگئے ہیں، انکا شمار دنیا کے ان چند گِنے چُنے افراد میں کیا جاتا ہے جو مخلوقِ خدا کی بے لوث خدمت کی بدولت ہمیشہ کیلئے امر ہوجاتے ہیں، جب وہ دنیا سے جاتے ہیں تو انکی یاد میں ہر مذہب اور قومیت کا انسان آنسو بہاتا ہے اور اچھے الفاظ سے یاد کرتا ہے۔ نمودونمائش، ریاکاری اور دکھاوے کی مصنوعی زندگی سے کوسوں دور بھاگنے والےرتن ٹاٹا نے برطانوی راج کے دوران28 دسمبر1937میں آنکھیں کھولیں، انکے والدین کا تعلق ہندوستان کے امیر ترین کاروباری خاندان ٹاٹا گروپ سے تھا۔ٹاٹا گروپ کے بانی جمشید نوشیرواں جی ٹاٹا کوانیسویں صدی کے اختتام میں بمبئی میں قائم ایک اعلیٰ ہوٹل میں اس بنا پر داخل نہیں ہونے دیا گیا کہ انکی رنگت انگریزوں جیسی نہیں تھی، پارسی دھرم کے پیروکار جمشید جی کو اس بات پر شدید صدمہ پہنچا اور انھوں نے عہد کیا کہ وہ اس ہوٹل سے زیادہ اعلیٰ معیارکا ہوٹل بنائیں گے جس میں تمام لوگوں کو بغیرکسی تفریق کے داخلے کی اجازت ہوگی، پھر 1903ء میں موجودہ ممبئی کے ساحل پر تاج محل ہوٹل کی صورت میں ایک ایسا عظیم الشان ہوٹل قائم کیا جو اپنے زمانے کی پہلی عمارت تھی جس میں بجلی، الیکٹرک پنکھے اور لفٹ سمیت جدید سہولیات موجود تھیں،آج جمشید جی ٹاٹا کے قائم کردہ ہوٹل کی شاخیں ہندوستان سے باہر امریکہ، برطانیہ سمیت نو ممالک میں پھیل چکی ہیں اور اسکے دروازے دنیا کے تمام شہریوں کیلئے کھلے ہیں۔جب رتن ٹاٹا نے1990ء میں ٹاٹا گروپ کی قیادت سنبھالی تو انہوں نے نئے دور کے تیزی سے بدلتے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے وسیع پیمانے پر کاروباری اصلاحات متعارف کرائیں، انہوں نے ٹاٹا کے تمام ذیلی اداروں کو ضم کیا، ٹیٹلی اور جیگوار لینڈ روور جیسی عالمی کمپنیاں خریدیں اور ٹاٹا موٹرز کا نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں اندراج کرایا جس سے ٹاٹا گروپ کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔رتن ٹاٹا کی سربراہی میں چھ براعظموں میں پھیلے ٹاٹا گروپ میں کمپنیوں کی تعداد ایک سو تک پہنچ گئی جنکی مشترکہ آمدنی ایک سو بلین امریکی ڈالرز سے زائد ہے، رتن ٹاٹا نے اپنے کاروبار کو دنیا کے کونے کونے میں وسعت دیکر ناقابل یقین کامیابیوں کی بلندیوں کو چھو لیا،تاہم میری نظر میں انکی متاثرکن داستان میں سب سے اہم بات عاجزی، انکساری اور مخلوقِ خدا کی خدمت ہے، زرتشتی عقیدے پر عمل پیرا رتن ٹاٹا نے خدا سے اپنا رشتہ مضبوط کرنے کیلئے دُکھی انسانیت کی خدمت کو ہمیشہ ترجیح دی،وہ دل و جاں سے مانتے تھے کہ دنیا میں ایک اچھے انسان کا مقصدِ زندگی اچھائی کے ذریعے برائی کا خاتمہ کرنا ہے تاکہ خدا کی دھرتی امن کا گہوارا بن جائے جس میں ہر مرد اور عورت، امیر اور غریب، جوان اور بوڑھے سب کو برابری کے حقوق حاصل ہوں،وہ پارسی دھرم کے تحت عملیت پسندی پریقین رکھتے تھے جس میں رہبانیت یا ترکِ دنیاکی کوئی گنجائش نہیں۔ رتن ٹاٹا ہندوستان کے سب سے بڑ ے کامیاب کاروباری رہنمائوں میں سے ایک تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو دنیا کے امیرترین لوگوں کی دوڑ میں شامل نہیں کیا، رتن ٹاٹا کی صحیح پہچان سخاوت، دریادلی، خداترسی، انکساری اور عاجزی ہے، انہوں نے ہمیشہ مالی فوائد سے پہلے سماجی اور ملازمین کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی،رتن ٹاٹا سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے والے بتاتے ہیں کہ وہ ہر چھوٹے بڑے کو اسکی سماجی حیثیت سے قطع نظریکساں عزت دیتے، گرمجوشی سے مصافحہ کرتےاور مہمان نواز ی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے، دنیا کے دیگر امیر کاروباری شخصیات کے برعکس وہ اپنا فون خود سنتے، پیغامات کا جواب دیتے اور دوران سفر اپنا سامان خود اٹھاتے، جیسے ہی ہوائی جہاز اڑان بھرتا وہ خاموشی سے مطالعے میں مصروف ہوجاتے۔ رتن ٹاٹا جانوروں خصوصاً کتوں سے گہری محبت کے لیے بھی پہچانے جاتے تھے، انہوں نے ممبئی میں اسمال انیمل ہسپتال قائم کیا جہاں ٹھکرائے ہوئے جانوروں کا علاج معالجہ کیا جاتا، وہ وقتََا فوقتاََ سوشل میڈیا پر جانوروں کے ساتھ اپنی تصاویر شیئر کرکے باقی لوگوں کو بھی خدا کی بے زبان مخلوق سے اظہارِ ہمدردی کرنے کی ترغیب دیتے رہتے۔میں سمجھتا ہوں کہ رتن ٹاٹا کی متحرک زندگی کا خلاصہ زرتشت کی تین بنیادی تعلیمات اچھے خیالات، اچھے الفاظ اور اچھے اعمال میں بیان کیا جاسکتا ہے، انہوں نے اپنے سماج میں بہتری لانے کیلئے اپنے آپ کو وقف کردیا، وہ خیراتی اداروں کو دل کھول کرچندہ دیتے اور فلاح و بہبود کے پروجیکٹس کی کامیابی کیلئے ٹا ٹا گروپ سے حاصل کردہ آمدنی کو استعمال میں لاتے۔ میری نظر میں رتن کی کامیابی کاایک بڑا راز جو عام لوگوں کی آنکھ سے اوجھل رہا وہ لوگوں کو صحیح پرکھنا اورٹیلنٹ کی قدرتھا، رتن کو مستقبل کے لیڈروں کی شناخت کی خداداد مہارت حاصل تھی، وہ رائٹ پرسن ایٹ رائٹ جاب کے اصول پرعمل کرتے ہوئے اپنے کاروباری سیٹ اپ میں ایسے لوگوں کو اوپر لاتے جو ٹاٹا گروپ کو دن دگنی رات چوگنی ترقی سے ہمکنار کراتے، ٹاٹا گروپ میں ملازمت حاصل کرنا انکے ملک کے ہر تعلیم یافتہ قابل نوجوان کی اولین خواہش ہوتی لیکن ٹاٹا گروپ میں بھرتی کا معیار سول سروس میں شمولیت سے زیادہ کٹھن مرحلہ سمجھا جاتا، رتن ٹاٹا کی ایک اور وجہ شہرت جان جائے پر زبان نہ جائے تھی، وہ اپنے وعدے کے پکے تھے، انہوں نے کاروباری اور روزمرہ کے دیگر معاملات میں کروڑوں کا نقصان برداشت کیا لیکن کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ رتن ٹاٹا نے اپنی لازوال کامیابیوں سے ثابت کیا کہ آپ اخلاقیات پر سمجھوتہ کیے بغیربھی کاروبار میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ، فتنوں کے اس پرآشوب دور میں جب نت نئے فراڈ اور دھوکادہی کی خبریں منظرعام پر آتی رہتی ہیں،رتن ٹاٹا نے شارٹ کٹ کو رد کرتے ہوئے اور اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے دنیا بھر کے انسانوں کو یہ یقین دلایا کہ آپ صراطِ مستقیم پر چلتے ہوئےاپنے مقصدِ زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں بشرطیکہ آپ کی نیت نیک اور سمت درست ہو۔