قارئین11سال میں یہ کسی بھی چینی وزیر اعظم کا پہلا دورہ ہے ،جس کا مقصد بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال اور چینی صدر کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے دوطرفہ تعاون کو آگے بڑھانا اور شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس کے ساتھ ساتھ سی پیک کے دوسرے مرحلے کا افتتاح کرنا ہے ۔کراچی میں صرف 8روز قبل چینی شہریوں کے خلاف دہشت گردی کے باوجود چینی وزیر اعظم کی پاکستان آمد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی مضبوطی اور باہمی اعتماد کی مظہر ہے ۔شنگھائی کا نفرنس پاکستان کے دشمنوں کیلئے کتنی تکلیف دہ ہے،اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک جانب بلوچستان میں بی ایل اے اور فاٹا میں ٹی ٹی پی کی جانب سے مسلسل حملے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،اس کانفرنس سے محض 2روز قبل پی ٹی ایم کی کانفرنس اور دیگر عناصر کی اچھل کود پاکستان کو غیرمستحکم دکھانے کی کوشش تھی تو دوسری جانب امریکی میڈیا اور آئی ایم ایف بھی پروپیگنڈے کا طوفان اٹھائے ہوئے ہیں ،اس کے باوجود کم و بیش900 اعلیٰ غیر ملکی شخصیات پر مشتمل200وفود پاکستان پہنچ گئے ،سعودی عرب کا ایک 132رکنی تجارتی وفد 2روز قبل واپس گیا اور شنگھائی کانفرنس کے حوالے سے بھاری بھر کم ایک دوسرا وفد پاکستان پہنچ چکا گیا ۔چین ،روس اور سعودی عرب سمیت تمام اہم ممالک کے اعلیٰ سطح کے وفود اور سربراہان حکومت کی پاکستان آمد پاکستان کیلئے 1974کی او آئی سی سمٹ کے بعد ایک تاریخی موقع ہے اورمملکت خداداد کیلئے قابل فخر لمحہ ،پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار بنانے کی سازشیں ناکام ہوئیں ۔ہم سمجھتے ہیں یہ عظیم لمحات پاکستان کی کامیابی اور اسکی جغرافیائی حیثیت اور اہمیت کا عالمی اعتراف ہیں۔اگرچہ ایک جانب پاکستا ن کی فتح اور کامیابی ہے تو دوسری جانب یہ کانفرنس اور اس میں آنے والے مہمانوں کا اعتماد پاکستانی قوم پر بہت بڑی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے کہ ہم ذاتی،سیاسی اور گروہی اناسے نکل کر صرف پاکستانی بننے کی کوشش کریں ۔اس عالمی ایونٹ پرجشن منانا کافی نہیں ،اس سے فوائد حاصل کئے جائیں ،رابطے بڑھائیں ۔وقت نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ پاکستان دنیا کی ترقی اور سیاست کیلئے ہمیشہ سے اہمیت کا حامل ہے ۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ہوا،جس کے افتتاحی سیشن سے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پائیدار ترقی کیلئے علاقائی تعاون اور روابط کا فروغ ضروری ہے ۔ایس سی او کے 23 ویںاجلاس میںچین کے وزیر اعظم لی چیانگ ،روس کے وزیر اعظم میخائل مشوستن ،تاجکستان کے وزیر اعظم خیر رسول زادہ،کرغزستان کے وزیر اعظم زاپاروف اکیل بیگ،بیلا روس کے وزیر اعظم رومان گولوف چینکو،قازقستان کے وزیر اعظم اولڑ اس بینکتنوف اور ازبکستان کے وزیر اعظم عبداللہ ارپیو ف کے ساتھ ساتھ ایران کے نائب صدر محمد عارف اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر شریک ہوئے ۔اس اجلاس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں 4ایٹمی قوتیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاوررکھنے والے 2ممالک چین اور روس شریک ہیں ۔روس کے 76رکنی وفد کی سمٹ میں شرکت ثابت کر رہی ہے کہ وہ اس اجلاس کو اپنے بہترین مفاد کیلئے بروئے کارلا رہا ہے اور سی پیک کا حصہ بننا چاہتا ہے ۔ اس مقصد کی خاطر وہ سی پیک کے خدو خال کا ہر پہلو سے جائزہ رہا ہے ۔پاکستان کے ساتھ روس کو تجارت اور دفاعی امور میں دلچسپی ہے،کانفرنس کی سائڈ لائنز پر اس حوالہ سے کئی اہم ملاقاتیں اور اجلاس ہوئے ہیں ، جن کی پیش رفت آنے والے دنوں میں قوم کے سامنے آتی رہے گی۔کانفرنس کے 2روز میں چین کے علاوہ روس کے ساتھ کرغزستان، قازقستان ،تاجکستان اور ازبکستان کے وفود نے بھی مصروف ترین وقت گزارا اور پاکستانی وفود کے ساتھ مسلسل ملاقاتیں اور اجلاس رکھے ، ان تمام کا فوکس گوادر تک آزادانہ رسائی اور علاقائی تجارت اور صنعتی ترقی میں ایک دوسرے سے تعاون پر رہا ۔سی پیک اور شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس دونوں ہی پاکستان کیلئے گیم چینجر ثابت ہوسکتے ہیں ۔پاکستان کے عالمی سطح پر تنہائی کاشکار ہونے کا واویلاکرنے والے کچھ ممالک اور اندرونی عناصر کیلئے یہ اجلاس بذات خود بہت بڑا جواب ہے ۔ثابت اور ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان عالمی برادری سے دور اور الگ کبھی تھا،نہ ہے اور نہ ہی انشاء اللہ کبھی رہے گا۔پاکستان کی ترقی اورخوشحالی کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس دور رس نتائج کا حامل ہے۔جس کے ثمرات ابھی سے دیکھے جاسکتے ہیں ۔یہ اجلاس روس ،چین اور پاکستان کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے ،پاکستان جنوبی ایشیا میںچین کا انتہائی اہم شراکت دار بننے کی خواہش رکھتا ہے ۔روس البتہ ایک اور بھی خواہش رکھتا ہے اور یقینی بنانا چاہتا ہے کہ وسط ایشیائی جمہوری ممالک ،ایران ،پاکستان اور بھارت یوکرین کے معاملے پر غیر جانبدار رہیں ۔بھارت کے بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں لیکن پاکستان اس حوالے سے روس کو یقین دلا چکا ہے اور اپنے اس عزم پر قائم بھی ہے ۔بھارتی وزیر خارجہ نے دہشت گردی روکنے اور علیحد گی کی قوتوں کو ناکام بنانے کی بات کی، توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر بھارت ان اصولوں کو اپنالے تو یقیناً پاکستان اور خطے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا اور قیام امن میں مدد ملے گی،لیکن بھارت سے ایسی کوئی امید نہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایس سی او اجلاس ملک ،قوم اور حکومت کی بڑی کامیابی ہے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس اجلاس کے بعد اس کے ثمرات کے سمیٹنے کی بڑی اور اہم ذمہ داری بھی حکمرانوں کے کندھوں پر آگئی ہے ،یہ پاکستان کے استحکام کا ایک اہم موقع ہے،اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے۔