مولا کے رنگ! عوامی لیگ کی طلبہ چھاتر و شبیر دہشتگرد تنظیم ، آج بنگلہ دیش میں پابندی لگ چکی ہے۔ 1971ءمیں وطن کی حفاظت کیلئے سینہ سپر الشمس، البدر، اسلامی چھاتر آج سرخرو ، 1972ء میں بین ہونیوالے ’پاکستانی رضاکار‘ کا ڈنکا چار سُو، سرخرو ہو چکے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ، حسن نصراللہ، یحییٰ سنوار، ہاشم صفی کی شہادت رنگ لانے کو، قطع نظر کہ مستقبل میں مزید دُکھ سہنا پڑیں گے۔ ایران پر حملہ عملاً تیسری عالمی جنگ، امریکہ اسرائیل کی تباہی و بربادی کا نقطہ آغاز سمجھا جائیگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ’’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے‘‘۔ آئینی ترامیم کے بعد عدالتی پارٹی شروع ہو چکی ہے۔
ملکی سیاست کا محور تحریک انصاف یا عمران خان، انکی بیگم بشری بی بی رہا، تحریک انصاف کے تنظیمی و سیاسی ڈھانچہ کا نیا امتحان، پارٹی شروع۔ ایران کو خراج تحسین، ایسے موقع پر کہ بے حِس اسلامی حکمران فلسطین پر فاتحہ خوانی کر چکے تھے۔ یحییٰ سنوار سمیت شہادتوں کی کہکشاں فلسطین کی جنگِ آزادی کو رفعتیں مل چکی ہیں۔ یحییٰ سنوار کی بوقتِ شہادت ویڈیو کلپ جس میں ایک بازو کے بغیر اگلے لمحہ شہید کرنیوالے ڈرون کو لکڑی کا ٹکڑا مارتے دیکھا جا سکتا ہے، عزم و استقامت کی بے مثال داستان ہے۔ چند دن پہلے کا انٹرویو، بستر پر مرنے سے زیادہ شہادت کو گلے لگاؤں گا۔ امریکی اسرائیلی سامراج نے اُمت مسلمہ کو غیر مہذب، اجڈ، فرومایہ سمجھا، زیرِ استعمال رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے حمیت اسلامی کا پاسبان و محافظ ایران کو منتخب کر لیا۔
ایران نے اسرائیل کو مجبور کر دیا کہ اب ایران حملہ اسرائیل پر لازم ہے۔ وگرنہ اسرائیل جو ایک سال سے غزہ میں فتح کا متمنی لبنان، عراق، شام کو تباہ کرنے میں مگن، اپنی سالمیت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ بلا شبہ! اسرائیل کا ایران پر حملہ، لامحالہ مراکش، لیبیا، گلف ممالک اور پاکستان عوام الناس کو سڑکوں پرلے آئیگا، حکمرانوں کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ کمال مہارت سے اسرائیل کو ایک ایسی جنگ میں جکڑ لیا گیا جس میں ایک کو بچنا ہے ایک کو ختم ہونا ہے۔ پہلے ہلے میں تو اسرائیل نے مزید تباہی و بربادی پھیلانی ہے۔ ایران پر حملہ ایک لامحدود جنگ کا نقطہ آغاز ہو گا۔ آغاز میں مسلمانوں پر ناقابل بیاں کوہِ غم ضرور ٹوٹنا ہے، مگر ’’خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحَر پیدا‘‘۔ جس نظریہ کو پچاس سال دل و دماغ، روح کا حصہ بنایا، اُسکا تقاضا کہ جس طرح ایران نےفرقہ واریت سے بالاتر ہو کر اسلام، امتِ مسلمہ اور اسلامی تحریکوں کیلئے اپنے آپکو وقف کر رکھا ہے، مسلمانوں کا فرض کہ ایران کی قیادت کا ساتھ دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آج ریٹائر ہو جائیں گے۔ اگر مملکت آج مارشل لا یا ایمرجنسی سے محفوظ ہے تو سہرا قاضی عیسیٰ کے سر ہے۔ 8فروری کے الیکشن انعقاد کا کریڈٹ قاضی صاحب کو جاتا ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل، صدارتی ترامیم آرڈیننس پر فل کورٹ نہ بنانا، اسکا عدالتی جائزہ نہ لینا یقیناً بحث و تمحیص رہنی ہے۔ منصور علی خان صاحب کا چیف جسٹس قاضی فائز کو تازہ بہ تازہ خط، یقیناً تحفظات کی گنجائش موجود مگر شاہ صاحب کا کہنا کہ ’’لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں، تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی‘‘۔ شاہ صاحب کی قابلیت، اصول پسندی، دیانتداری کا اعتراف لیکن ’’لوگوں‘‘ کی تعریف ضروری، کون لوگ؟ کیا ضروری ہے کہ تاریخ دان ’’انصافی لوگوں‘‘ کی روایات لیں، فریق مخالف لوگوں کی بھی سنی جائے۔ لوگ تو علانیہ کہہ رہے ہیں کہ خصوصی نشستوں پر 8 رکنی بینچ کا فیصلہ صدارتی آرڈیننس اور آئینی ترامیم کا باعث بنا ہے۔
آرڈیننس اور آئینی ترامیم’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ ضرور، مگر طریقہ کار آئین و قانون کےمطابق اختیار کیا گیا۔ آسودگی اتنی کہ سپریم کورٹ میں ماورائے پارلیمان فیصلوں میں رکاوٹ صرف اور صرف قاضی فائز رہے۔ جابر سلطان کے سامنے انصاف کا علم بلند کرنا، ملکی تاریخ میں جسٹس قاضی فائز کے علاوہ شاید گنتی کے چند اور ججز ہونگے۔ کوئٹہ دہشتگردی انکوائری کمیشن ہو یا فیض آباد دھرنا، جنرل فیض حمیدپر FIR درج کرنے کا حکم، ملکی تاریخ میں ایسی جرأت رندانہ سے مزین کوئی اور ہے تو سامنے آئے۔ قاضی صاحب! تاریخ آپکو جسٹس کارنیلئس کیساتھ رکھے گی، مورخ یقینا ً آپکی عظمت کا اعتراف کریگا۔ آئینی ترامیم یا آرڈیننس جاری کرنا، حکومت کا آئینی اور قانونی استحقاق ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے کرتوتوں سے کیسے صَرف نظر کر سکتی ہیں۔ اگر آج عسکری سربراہ مطلق العنان ہے تو اس میں 70 سال سے سیاسی جماعتوں کی محنت اور امدادی کمک میسر رہی۔ عمران خان کا وجود اسٹیبلشمنٹ کا مرہون منت، آج بھی ’’اسٹیبلشمنٹ سے اُمید‘‘، تو’’پھر ہماری بلی ہمی کو میاؤں‘‘۔ آئینی بینچ ہو یا دوسری عدالتی اصلاحات کڑے وقت کی نوید ہیں۔ جن لوگوں کو گھیرنے کیلئے پاپڑ بیلے گئے اُنکے نزدیک گھیرا مزید تنگ ہونے کو ہے، اطلاعاً عرض ہے اسکو شروعات سمجھیں۔
وطن عزیز کی یہی تاریخ، اب تک جو کچھ ہوا نیٹ پریکٹس تھی، آنیوالے دن زیرحراست پی ٹی آئی قیادت پر کڑے ہونگے۔ تحریک انصاف کی کُلی آزاد قیادت باجماعت اسٹیبلشمنٹ سے جڑی ہے، انکے زیر اثر و زیر استعمال ہے۔ سیاسی شعور سے عاری عمران خان کی بہنیں ناجائز گرفتار ضرور، جب آزاد تھیں تو عمران خان کی سیاست کو پروان چڑھانے کی بجائے، مشکلات میں اضافہ اور پارٹی میں گروپ بندی کا باعث تھیں۔ مشکل حالات میں آج بشریٰ بی بی رہا ہو کر آ گئی ہیں۔ آنیوالے دنوں میں بنی گالہ عمران خان سیاست کا مرکز، مرکزی قیادت رہائی پر دھواں دار استقبالیہ پریس کانفرنس کر چکی ہے۔ آنیوالے دنوں میں عمران خان پر جیل کا عرصہ حیات مزید تنگ ہو گا۔ البتہ ملاقاتیں بشریٰ بی بی، بہنوں اور سلیکٹڈ وکلاء تک محدود رہیں گی۔
عمران خان اپنے آپکو کو مرجع خلائق جان چکے ہیں۔ خلقِ خدا سے اُمید کہ کسی وقت مقتدرہ پر ٹوٹ پڑے گی۔ ساری سیاست کا احتجاجوں پر تکیہ، جو ناکام رہے، باوجود یہ کہ احتجاج کی داد فریاد، حکم براہ راست صادر فرماتے رہے۔ موجودہ حالات میں عمران خان کی فیملی دل و جاں سے ساتھ ہے۔ اگرچہ سب کی سیاسی خواہشات بھی ساتھ ساتھ جڑی ہیں۔ فیملی کا اخلاص نصرت بھٹو ، بینظیر بھٹو یا مریم نواز کی مانند تن من دھن حاضر۔ عمران خان کی بدقسمتی اتنی کہ فیملی کے اندر ایک ’’کالی بھیڑ‘‘ موجود ہے۔ انگریزی محاورہ " A Fly In The Ointment "، مکھی مرہم پٹی کی دوا، مکھی زہریلا بنا دے گی۔ اللہ تعالیٰ عمران خان کو 172 سال زندگی دے تاکہ پارٹی انکو آئندہ 100سال جیل میں رکھنے کی متمنی ہو۔ عمران خان بے دست و پا، سیاسی طور پر یک و تنہا، حکمت عملی قرب و جوار میں نہیں ہے اور نہ ہی اسکے آثار ہیں۔ پچھلے اڑھائی سال سے باآواز بلند، تکرار کیساتھ ایک ہی بات بتائی ہے کہ عمران خان کی مشکلات ابھی شروع ہونا ہیں۔ کیا وہ وقت آن پڑا ہے ۔ بدقسمتی کہ عمران نے اپنی عقل کو خواہشات اور جذبات کے تابع کر رکھا ہے۔ عمران خان کو کون سمجھائے کہ پارٹی شروع ہوا چاہتی ہے۔