چکن گونیا ایک وائرل بیماری ہے، جو بنیادی طور پر مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے اور اِس کا سبب’’چکن گونیا وائرس‘‘ (CHIKV) ہے، جو الفا وائرس فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔
اِس مرض کا نام’’چکن گونیا‘‘ ایک افریقی زبان، مکونڈے سے لیا گیا ہے، جس کا مطلب’’جُھکنا‘‘ یا’’مُڑنا‘‘ ہے، کیوں کہ اِس بیماری میں مریض شدید جوڑوں کے درد کی وجہ سے جُھکنے یا مُڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یہ پہلا علاقہ تھا، جہاں یہ بیماری سامنے آئی تھی۔
بیماری کا پھیلاؤ اور مچھر کا کردار
چکن گونیا عام طور پر ایڈیز ایجپٹائی اور ایڈیز البوپکٹس مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے، جو ڈینگی وائرس پھیلانے میں بھی ملوّث ہیں۔ یہ مچھر زیادہ تر دن کے وقت کاٹتے ہیں، خاص طور پر صبح اور شام کے اوقات میں۔
چکن گونیا کی دریافت اور ابتدائی کیسز( 1952-1960ء)
چکن گونیا وائرس کا پہلا تصدیق شدہ کیس 1952 ء میں تنزانیہ اور موزمبیق کے سرحدی علاقوں میں رپورٹ ہوا۔ یہ بیماری پہلی بار افریقا کے ایک قبیلے کے افراد میں پائی گئی، جہاں متاثرین میں بخار اور شدید جوڑوں کے درد کی علامات دیکھنے کو ملیں۔
ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا کہ بیماری کی بنیادی وجہ مچھر سے پیدا ہونے والا ایک وائرس تھا، جو الفا وائرس گروپ سے تعلق رکھتا تھا۔ اُس دَور میں چکن گونیا کو ایک علاقائی بیماری سمجھا جاتا تھا اور اس کے کیسز زیادہ تر مشرقی افریقا کے جنگلاتی علاقوں تک محدود تھے۔
ابتدائی تحقیق اور افریقا میں پھیلاؤ (1960-1980ء)
1960 ء اور1980 ء کی دہائی کے دَوران چکن گونیا پر مختلف سائنسی تحقیقات ہوئیں، جس کی مدد سے سائنس دانوں نے جانا کہ یہ بیماری دو اقسام کے مچھروں، ایڈیز ایجپٹائی اور ایڈیز البوپکٹس کے ذریعے پھیلتی ہے۔ یہ مچھر زیادہ تر دن کے اوقات میں کاٹتے ہیں اور گھروں کے اندر اور باہر، دونوں جگہوں پر موجود رہتے ہیں۔1970ء کی دہائی میں چکن گونیا افریقا کے مختلف علاقوں میں پھیلنے لگا، لیکن یہ پھیلاؤ محدود تھا۔
چوں کہ یہ مچھر جنگلاتی علاقوں اور دیہی بستیوں میں زیادہ پائے جاتے تھے، اِس لیے اُس وقت تک بیماری بڑے شہری مراکز تک نہیں پہنچی تھی۔ تاہم، یہ واضح ہو چُکا تھا کہ یہ وائرس کسی بھی خطّے میں مچھر کی موجودگی کے ساتھ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔
ایشیا میں چکن گونیا کی آمد (1950-2000ء)
چکن گونیا کے کیسز پہلی بار1958 ء میں تھائی لینڈ اور بعد میں فلپائن میں رپورٹ ہوئے۔ 1960 ء اور1970 ء کی دہائیوں میں وائرس نے جنوب مشرقی ایشیا کے مختلف ممالک میں سَر اُٹھایا، لیکن اس کے پھیلاؤ کو زیادہ خطرناک نہیں سمجھا گیا۔1970 ء اور1980 ء کی دہائی میں بھارت اور سری لنکا جیسے جنوب ایشیائی ممالک میں بھی اس کے کیسز سامنے آنے لگے۔
تاہم، ان کیسز کی شدّت زیادہ نہیں تھی اور اُس وقت چکن گونیا کو ایک موسمی بیماری کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ البتہ یہ بات واضح ہو چُکی تھی کہ شہری علاقوں میں مچھر کی افزائش بڑھنے سے اس بیماری کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔
بحرِ ہند کی وبا (2005-2006ء)
چکن گونیا کے پھیلاؤ میں ایک بڑا موڑ2005ء میں آیا، جب یہ بیماری بحرِ ہند کے جزائر، خصوصاً ری یونین جزیرے میں وبا کی صُورت اختیار کر گئی۔ اس وبا کے دَوران266,000 سے زائد افراد متاثر ہوئے اور بیماری نے عالمی ادارۂ صحت(WHO) سمیت دیگر اداروں کی توجّہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ری یونین اور ارد گرد کے علاقوں میں وبا کے تیزی سے پھیلنے کی بنیادی وجوہ میں موسمی حالات، مچھروں کی تعداد میں اضافہ اور متاثرہ علاقوں میں ناقص نظامِ صحت وغیرہ شامل تھے۔
یہ پہلا موقع تھا، جب چکن گونیا نے ایک بڑی آبادی کو بیک وقت متاثر کیا اور عالمی سطح پر ایک وارننگ جاری کی گئی۔ 2006 ء کے بعد یہ وبا بھارت تک پہنچ گئی، جہاں ہزاروں افراد اِس کا شکار ہوئے۔ بھارت کے مختلف شہروں میں مچھر سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا پہلے ہی زور تھا اور چکن گونیا کے اضافی کیسز نے صحت کے نظام پر مزید دباؤ بڑھا دیا۔
عالمی سطح پر پھیلاؤ( 2010-2020ء)
2010 ء کے بعد چکن گونیا نے کئی نئے خطّوں میں قدم رکھا، جن میں یورپ اور امریکا بھی شامل ہیں۔2013ء میں یہ وائرس پہلی بار کیریبین جزائر اور بعد میں جنوبی امریکا کے ممالک، برازیل اور وینزویلا تک پہنچ گیا۔2014 ء میں امریکا کے فلوریڈا اور ٹیکساس جیسے جنوبی علاقوں میں چکن گونیا کے کیسز رپورٹ ہوئے، جس نے ظاہر کیا کہ یہ بیماری اب مختلف جغرافیائی خطّوں میں مچھر کی موجودگی کے ساتھ کسی بھی وقت وبا کی صُورت اختیار کر سکتی ہے۔
یورپ میں بھی گرمیوں کے دَوران چکن گونیا کے کیسز سامنے آئے، خصوصاً اٹلی اور فرانس میں، جہاں ایڈیز مچھر کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔ یہ بات واضح ہو چُکی تھی کہ موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتی شہری آبادی کے باعث چکن گونیا جیسی بیماریاں مستقبل میں مزید پھیل سکتی ہیں۔
پاکستان میں چکن گونیا کی آمد( 2016-2017ء)
پاکستان میں چکن گونیا کا پہلا بڑا پھیلاؤ2016 ء میں کراچی اور دیگر جنوبی شہروں میں رپورٹ ہوا۔ چوں کہ اِس سے پہلے پاکستان میں مچھر سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں ڈینگی وائرس نمایاں تھا، اِس لیے چکن گونیا کے ابتدائی کیسز کو بھی ڈینگی سے منسلک کیا گیا۔ تاہم، بعد میں ٹیسٹ کے ذریعے معلوم ہوا کہ یہ چکن گونیا وائرس تھا۔
کراچی اور اندرونِ سندھ میں ہزاروں افراد اِس بیماری کا شکار ہوئے اور اسپتالوں میں مریضوں کا رش بڑھ گیا۔یوں چکن گونیا کے ساتھ ڈینگی اور دیگر وائرل انفیکشنز کے پھیلاؤ نے نظامِ صحت کو بُری طرح متاثر کیا۔
پاکستانی حکومت نے اِس وبا پر قابو پانے کے لیے مختلف مہمّات کا آغاز کیا، جن میں مچھر مار اسپرے اور آگاہی پروگرام بھی شامل تھے۔ تاہم، عوامی آگاہی کی کمی اور صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے چکن گونیا کے مکمل خاتمے میں مشکلات کا سامنا رہا۔
حالیہ پیش رفت اور مستقبل کے چیلنجز (2020 ء کے بعد)
چکن گونیا اب بھی دنیا کے کئی خطّوں میں ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث مچھروں کی افزائش کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو رہا ہے اور گنجان آباد شہری علاقوں میں مچھر سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
ماہرینِ صحت کا ماننا ہے کہ چکن گونیا جیسی وبائیں مستقبل میں مزید شدّت اختیار کر سکتی ہیں، خصوصاً اُن خطّوں میں، جہاں کا نظامِ صحت ناقص اور موسمی حالات مچھروں کی افزائش کے لیے سازگار ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت اور دیگر متعلقہ ادارے اِس امر پر زور دے رہے ہیں کہ دنیا کو مچھر سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
چکن گونیا کی علامات
چکن گونیا وائرس کے انفیکشن کی عام علامات درج ذیل ہیں۔
(1) تیز بخار: اچانک شروع ہونے والا بخار 102-104 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ سکتا ہے۔
(2) جوڑوں کا درد: شدید اور مسلسل درد رہتا ہے، خاص طور پر ہاتھوں، پیروں، کلائی اور ٹخنوں کے جوڑوں میں درد ہوتا ہے۔
(3) جِلد پر خارش: جسم پر دھبّے یا سُرخ نشانات نمودار ہو سکتے ہیں۔
(4) سر درد اور تھکاوٹ: بیماری کے دَوران مریض کو شدید تھکاوٹ محسوس ہو سکتی ہے۔
(5) پٹھوں کا درد: عضلات میں اکڑن اور کم زوری محسوس ہوتی ہے۔
(6) متلی اور قے: بعض کیسز میں ہاضمے کے مسائل بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
بعض مریضوں میں یہ علامات چند دنوں میں ختم ہو جاتی ہیں، مگر بعض کو مہینوں تک جوڑوں کا درد رہ سکتا ہے۔ اگرچہ چکن گونیا شاذ و نادر ہی جان لیوا ثابت ہوتا ہے، لیکن بزرگ افراد اور پہلے سے بیمار افراد کے لیے یہ بیماری پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
تشخیص
چکن گونیا کی تشخیص عام طور پر مریض کی علامات کے ذریعے کی جاتی ہے۔ تاہم، اس کی تصدیق کے لیے درج ذیل ٹیسٹ کروائے جا سکتے ہیں۔
(1) آر ٹی-پی سی آر ٹیسٹ:یہ وائرس کی موجودگی کا پتا لگانے کے لیے کروایا جاتا ہے۔
(2) سیرو لوجیکل ٹیسٹ: خون کے نمونوں سے اینٹی باڈیز کا پتا لگایا جاتا ہے۔
(3) ایلائزا ٹیسٹ: IgM اور IgG سے اینٹی باڈیز کی موجودگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
ڈینگی اور زیکا وائرس کے ساتھ چکن گونیا کی علامات میں مماثلت کی وجہ سے تشخیص میں اکثر مشکلات پیش آتی ہیں۔
علاج
چکن گونیا کے لیے فی الحال کوئی مخصوص اینٹی وائرل دوا یا ویکسین موجود نہیں، لہٰذا اس کا علاج علامات ہی کے مطابق کیا جاتا ہے۔
(1) درد کم کرنے والی ادویہ: پیراسیٹامول یا آئبوپروفین جیسی ادویہ بخار اور جوڑوں کا درد کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
(2) آرام: جسمانی کم زوری اور جوڑوں کے درد کے پیشِ نظر مکمل آرام ضروری ہے۔
(3) پانی کی مقدار بڑھانا: جسم میں پانی کی کمی سے بچنے کے لیے مریض کو زیادہ پانی پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
(4) طبّی نگرانی: بزرگ افراد اور دائمی امراض کے شکار افراد کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسپتال میں داخلے کی عموماً ضرورت نہیں ہوتی، لیکن اگر بخار کے ساتھ دیگر پیچیدگیاں نمودار ہوں، تو فوری طبّی امداد ضروری ہوجاتی ہے۔
بچاؤ کے اقدامات
چکن گونیا سے بچاؤ کے لیے مچھر کے کاٹنے سے بچنا سب سے اہم ہے اور اِس ضمن میں درج ذیل احتیاطی تدابیر مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
(1) مچھر مار اسپرے کا استعمال: گھروں اور دفاتر میں مچھر مار ادویہ کا استعمال کریں۔
(2) مچھردانی کا استعمال: خاص طور پر رات کے وقت مچھر دانی کا استعمال کیا جانا چاہیے۔
(3) بدن ڈھانپے رہیں: ایسے کپڑے پہنیں، جو جسم کو زیادہ سے زیادہ ڈھانپ سکیں۔
(4) پانی کے ذخائر کی صفائی: گھروں کے آس پاس کھڑا پانی صاف کریں، کیوں کہ یہ مچھر کی افزائش کے لیے موزوں جگہ ہے۔
(5) مچھر بھگانے والے لوشن: جِلد پر مچھر بھگانے والے لوشن یا ریپیلنٹ کا استعمال کریں۔
چکن گونیا کی پیچیدگیاں
اگرچہ زیادہ تر مریض چند ہفتوں میں صحت یاب ہو جاتے ہیں، لیکن بعض کیسز میں درج ذیل پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
(1) دائمی جوڑوں کا درد: کئی مریضوں کو مہینوں یا سالوں تک جوڑوں کے درد کا سامنا رہ سکتا ہے۔
(2) اعصابی مسائل: شاذ و نادر ہی مریضوں کو نیورولوجیکل مسائل، جیسے فالج یا دماغی سوزش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
(3) مدافعتی کم زوری: بزرگ اور کم زور مدافعتی نظام کے حامل افراد میں انفیکشن زیادہ شدید ہو سکتا ہے۔
(4) حاملہ خواتین میں خطرہ: حاملہ خواتین کے لیے چکن گونیا انفیکشن پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے، جیسے قبل از وقت پیدائش یا پیدائشی نقائص۔
چکن گونیا اور دیگر بیماریوں کے درمیان فرق
چکن گونیا کی علامات ڈینگی اور زیکا وائرس سے مِلتی جُلتی ہیں، لیکن ان میں چند اہم فرق بھی ہیں۔
(1) ڈینگی: چکن گونیا کے برعکس، ڈینگی میں پلیٹلیٹس کی تعداد میں کمی ہوتی ہے اور بعض کیسز میں یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
(2) زیکا وائرس: زیکا وائرس کی بنیادی علامت ہلکا بخار اور جِلدی خارش ہوتی ہے اور اس کا زیادہ اثر حاملہ خواتین پر ہوتا ہے۔
واضح رہے، ان بیماریوں کے درمیان درست تشخیص کے لیے طبّی ماہرین کی رہنمائی ضروری ہے۔
چکن گونیا ایک سنگین وائرل بیماری ہے، جو انسانوں کو جوڑوں کے شدید درد اور بخار میں مبتلا کر سکتی ہے۔ اگرچہ یہ بیماری عموماً جان لیوا نہیں ہوتی، لیکن اس کی علامات معمولاتِ زندگی کو بُری طرح متاثر کر سکتی ہیں۔سو، اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مچھر سے بچاؤ کے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ (مضمون نگار، انڈس یونی ورسٹی اسپتال،کراچی سے بطور کنسلٹنٹ فزیشن وابستہ ہیں)