’’یہ دیکھیں، ڈاکٹر صاحب! دو، تین دن سے بخار ہے اور گلے میں درد بتا رہا ہے، آواز بھی عجیب سی ہوگئی ہے، پھنسی پھنسی سی، عجیب ڈھوں ڈھوں انداز میں کھانستا ہے، کچھ کھا پی بھی نہیں رہا، پانی پینے میں تکلیف ہوتی ہے، آپ کوئی اینٹی بائیوٹک لکھ دیں۔ اسکول کی چُھٹیاں ہورہی ہیں، امتحان بھی سر پہ ہیں۔‘‘ کلینک میں بیٹھی خاتون بولنا شروع ہوئیں، تو نان اسٹاپ بولتی ہی چلی گئیں۔وہ ہمارے کلینک پر اپنے بچّے کو دِکھانے آئی تھیں۔ہم نے بھی ٹوکنا مناسب نہ سمجھا اور اُنھیں پوری بات کرنے دی۔
ہمارے سامنے ایک چار، پانچ برس کا بچّہ بیٹھا ہوا تھا، جس کا چہرہ ہلکا سا سُرخ ہو رہا تھا، سانس لیتے ہوئے کھانسنے لگتا، لگ رہا تھا کہ اُسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے، ناک کچھ بہہ رہی تھی اور منہ کھول کر سانس لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ بظاہر کوئی وائرل انفیکشن لگتا تھا۔ اُس کی والدہ تفصیلات تو پہلے ہی بتا چُکی تھیں، ہم نے بچّے کا معائنہ شروع کیا، درجۂ حرارت تھوڑا سے بڑھا ہوا تھا، سینے کو اسٹیتھو اسکوپ سے چیک کیا، تو سانس کی آواز ایسی تھی، جیسے کوئی سیٹی بجا رہا ہو، دل کی دھڑکن تھوڑی سی تیز تھی، جو کہ عام طور پر بخار میں بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ گلا چیک کیا، تو سُرخی نظر آئی، ٹانسلز اور گلے کی دیوار پر اور ساتھ ہی ٹانسلز اور تالو پر سفیدی مائل دھبّے تھے۔ہم نے پوچھا’’کیا آپ کے بچّے کو حفاظتی ٹیکے لگے ہوئے ہیں؟‘‘اِس پر وہ تھوڑی سی شرمندہ نظر آئیں اور پھر بولیں۔
’’ڈاکٹر صاحب، ٹیکے لگوانا شروع کیے تھے، مگر دو ویکسین کے بعد سے نہیں لگوائے، اصل میں ویکسین سے متعلق یوٹیوب پر ایسی ایسی باتیں سُننے کو ملتی ہیں کہ ٹیکے لگوانے کو دل نہیں مانا۔‘‘ہم سمجھ گئے کہ بچّے کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائے گئے۔’’ویسے کیا آپ زندگی کا ہر فیصلہ یوٹیوب پر دیکھ کر کرتی ہیں،اچھا یہ بتائیں، آپ نے خنّاق(Diphtheria)کے بارے میں کچھ سُنا ہے؟‘‘اِس سوال کا جواب نفی میں تھا اور خاتون نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! کیوں، کیا ہوا میرے بچّے کو؟‘‘ہم نے اُسے تسلّی دیتے ہوئے کہا۔’’کچھ شک سا ہے کہ کہیں یہ خناق نہ ہو، اِس لیے بچّے کے کچھ ٹیسٹ کروانے پڑیں گے اور انفیکشنز کے کسی ماہر معالج سے مشورہ بھی کرنا پڑے گا۔‘‘
خنّاق، دراصل بیکٹیریا سے لاحق ہونے والی ایک بیماری ہے، جسے ’’Corynebacterium ‘‘ کہتے ہیں اور اس کی کئی اقسام ہیں، تاہم اِس کی دو اقسام ’’Corynebacterium Diphtherie‘‘ اور ’’Corynebacterium Ulcernce ‘‘ انسانوں میں بیماری کی وجہ ہیں۔ یہ انسان سے انسان میں پھیلنے والی بیماری ہے اور اس کا میزبان (Host)بھی انسان ہی ہوتا ہے۔ بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ یہ کسی اور ذریعے سے پھیلے۔ خناق ایک انسان سے دوسرے انسان میں سانس کے ذریعے پہنچتی ہے۔
اِس مرض میں مبتلا شخص کھانستا یا چھینکتا ہے، یا پھر اُس کی سانس اور ناک کی رطوبت کسی دوسرے انسان تک ہوا کے ذریعے پہنچتی ہے، تو دوسرا شخص بھی اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔اسے’’Droplets Infection ‘‘کہتے ہیں۔پھر دو سے پانچ دن میں اِس بیماری کے آثار طاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں، مگر اس کے پھیلنے کا دورانیہ (Incubation period ) ایک سے دس دن تک ہوتا ہے۔جب ایک مرتبہ یہ بیماری انسانی جسم میں داخل ہو جائے، تو اس کے بیکٹیریا دو قسم کے زہریلے مادّے خارج کرتے ہیں، جنھیں Toxin- A اور Toxin- B کہتے ہیں۔
ٹاکسن بی انسانی جسم کے ساتھ چپک کر ٹاکسن اے کو جسم کے خلیوں میں داخل کرنے میں مدد کرتا ہے، اور یہ ٹاکسن ہی اِس بیماری کی اصل وجہ ہے۔یہ زہریلے مادّے بہت تیزی سے اپنا کام کرتے ہیں، جب کہ انسانی جسم جواباً ان سے لڑنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے، اِس جسمانی ردّ ِ عمل کو’’Immune system ‘‘ کہا جاتا ہے اور یہی وہ مدافعتی نظام ہے، جو ویکسین کے ذریعے اپنا کام کرتا ہے اور فوری طور پر بیماری سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
جب Corynebacterium Diphtheria کسی بیمار مریض کی کھانسی یا چھینک کے ذریعے کسی بچّے کے جسم میں داخل ہوتا ہے، تو اُسے قدرتی مدافعتی نظام کی وجہ سے بخار چڑھ جاتا ہے،جس سے بچّے کی طبیعت کی خرابی کا پتا چلتا ہے۔ ذرا سوچیں! اگر قدرت کی طرف سے کسی بیکٹیریا یا وائرس کے جواب میں یہ بخار نہ ہو، تو ہمیں کیسے پتا چلے کہ ہم یا ہمارا کوئی بچّہ کسی بیماری کا شکار ہوگیا ہے، یعنی یہ بخار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک الارم ہے۔
آج کل خناق کی بیماری دوبارہ دیکھنے میں آ رہی ہے اور چھوٹے بچّے اِس کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ اِس بیماری میں بخار کے ساتھ نزلہ، کھانسی اور گلے میں درد ہوتا ہے، جو عام طور پر فلو کی بھی علامات ہیں اور لوگ اسے شروع میں عام فلو ہی سمجھتے ہیں، مگر جُوں جُوں یہ جراثیم جسم میں اپنا اثر دِکھانا شروع کرتے ہیں، تو گلے میں درد اِتنا بڑھ جاتا ہے کہ پانی پینے تک میں تکلیف ہوتی ہے اور ٹانسلز سوجنا شروع ہو جاتے ہیں، جب کہ گردن میں موجود غدود بھی سُوج جاتے ہیں اور گردن موٹی ہوکر کسی بیل کی گردن لگنے لگتی ہے۔
اگرچہ انسانی جسم میں کسی بھی غدود کا کام ہی باہر سے آنے والے جراثیم کو قابو کرکے بیماری سے بچانا ہے، مگر جب بیماری کا حملہ شدید ہو، تو بعض اوقات دفاعی نظام بھی کام نہیں کر پاتا اور خنّاق میں بظاہر ایسا ہی لگتا ہے۔بیکٹیریا سے نکلنے والا ٹاکسن اے ہر طرف تباہی مچا دیتا ہے۔ عام طور پر پانچ برس سے کم عُمر کے بچّے اور پچاس، ساٹھ برس سے زائد عُمر کے افراد اِس بیماری سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔
نیز، ایسے بڑے بچّے بھی اِس کی لپیٹ میں آسکتے ہیں، جنہیں اِس بیماری سے بچاؤ کے ٹیکے بالکل نہیں لگے یا ٹیکوں کا کورس مکمل نہیں کیا گیا۔ جب جراثیم سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوجائیں اور جسم میں اُن سے لڑنے کی صلاحیت موجود نہ ہو، تو پھر معاملہ صرف بخار اور گلے میں درد تک محدود نہیں رہتا۔
اثرات بڑھنے پر ٹانسلز اور تالو پر ایک تہہ سی بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ فرد کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے اور یہ بڑھتے بڑھتے سانس کی بندش(Choking) تک پہنچ جاتی ہے، جس کے باعث مریض کو مشینی سانس پر شفٹ کرنے کی بھی نوبت آ سکتی ہے۔بات یہیں تک محدود نہیں رہتی، اِن جراثیم کے زہریلے مادّے انسان کے جسم میں مختلف جگہ سُوجن کا سبب بنتے ہیں۔
یہ دل کے عضلات (Muscles) کو نقصان پہنچاتے ہیں اور Myocarditis کرسکتے ہیں، جس کی وجہ سے دل کی حرکت اور اس کی خون پمپ کرنے کی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، اعصابی نظام (Nervous System) پر بھی ان جراثیم کے زہریلے مادّوں کا اثر ہوتا ہے اور دل اور اعصاب پر اثرات بیماری کے ختم ہونے کے بعد تک بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
یہ بیماری اگر شدید نہ ہو، تو عام طور پر سات سے دس دن میں ختم ہو جاتی ہے، لیکن شدید بیماری تقریباً چھے ہفتے تک اپنے اثرات برقرار رکھتی ہے، جیسا کہ Myocarditis وغیرہ۔اگر خناق کے علاج کی بات کریں، تو اِس ضمن میں سب سے پہلا قدم بیماری کی تشخیص ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ اِتنی تیزی سے بڑھتی ہے اور بعض اوقات خطرناک بھی ہو جاتی ہے کہ معالج کو ٹیسٹ وغیرہ کے لیے زیادہ وقت ہی نہیں ملتا۔ اِس قسم کے حالات میں جب آپ کا شک یقین کی حد تک ہو، تو فوری طور پر اِس بیماری کا ٹیسٹ کروا لیا جائے، جو حلق سے لیا جانے والا کلچر ہے اور لیبارٹری کو خاص طور پر بتادیا جائے کہ ہمیں خنّاق کا شبہ ہے۔
ہم کلچر کے علاوہ Toxin کی PCR کے ذریعے بھی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر علاج، ٹیسٹ کے لیے نمونے بھیجتے ہی شروع کردیا جاتا ہے۔ علاج کے ضمن میں سب سے پہلے اِس Toxin کی اینٹی ڈوٹ، یعنی Diphtheria Antitoxin، انفیکشنز ڈیپارٹمنٹ کی گائیڈ لائن کے مطابق لگایا جاتا ہے۔ یہ اینٹی ڈوٹ گھوڑے کے سیرم میں تیار کیا جاتا ہے، اِس لیے پہلے ہی چیک کرلیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے کوئی ری ایکشن تو نہیں ہوگا، کیوں کہ اگر بغیر سوچے سمجھے لگا دیا جائے، تو سانس اکھڑنے(Anaphylaxis ) کا اندیشہ ہوتا ہے، اِسی لیے یہ ہر اسپتال میں نہیں لگایا جاتا۔
اِسے Infectious Disease کے مخصوص یا پھر اُن اسپتالوں ہی میں لگایا جاتا ہے، جو اِس طرح کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ اِس طرح کے مریض کو آئسولیشن میں رکھا جاتا ہے، جہاں مخصوص ماسک پہن کر ہی علاج کیا جاتا ہے تاکہ علاج کرنے والوں اور دیگر افراد کو اِس بیماری سے بچایا جاسکے، ورنہ اگر وہ لوگ مکمل طور پر ویکسینٹڈ بھی ہوں، تب بھی اِس بیماری کے Carrier بن سکتے ہیں۔متاثرہ فرد کو گائیڈ لائن کے مطابق Antidot کے ساتھ اینٹی بائیوٹک بھی دی جاتی ہے، جو عموماً14دن کے لیے ہوتی ہے۔
اگر مریض کو وقت پر دوا یا اینٹی ڈوٹ نہ ملے، تو صُورتِ حال بگڑ بھی سکتی ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اِس مرض میں اموات کی شرح تقریباً 30 فی صد ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کِن علاقوں میں یہ بیماری زیادہ ہے، تو عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ایشیا اور افریقا میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے، جب کہ بھارت اور پاکستان میں بھی خنّاق کے مریضوں کی خاصی تعداد موجود ہے۔
حالیہ دنوں میں کراچی میں ایک بار پھر اس کی لہر دیکھنے میں آئی ہے اور اِس کے سبب کئی اموات کی بھی اطلاعات ہیں۔واضح رہے، ویکسین کی دریافت کے بعد اِس بیماری پر خاصی حد تک قابو پالیا گیا ہے اور ویکسین ہی اِس سے بچاؤ کی سب سے بہتر تدبیر ہے، کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ ویکسین سے پہلے شمالی امریکا میں خناق کے دولاکھ سے زاید کیسز رپورٹ ہوئے اور اب صرف گنتی کے چند ہیں، لیکن کراچی میں پچھلے دنوں ایک سو سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جو ہر لحاظ سے ایک خطرناک صُورتِ حال ہے۔
مسئلہ کہاں ہے؟
خنّاق سے بچاؤ کے لیے جو ویکسینز لگائی جاتی ہیں، اُنہیں’’Dtap‘‘کہتے ہیں۔اس ضمن میں چھے سے آٹھ ہفتے پر پہلی، ایک مہینے بعد دوسری اور پانچ، چھے ماہ کی عُمر میں تیسری ویکسین EPI پروگرام کا حصّہ ہے۔ابتدائی تین ڈوز کے بعد 15 سے 18 مہینے میں چوتھی ڈوز لینی ہوتی ہے، جو عموماً نجی طور پر لگوانی ہوتی ہے، پھر چار سے پانچ سال کی عُمر میں پانچویں ڈوز اور دس سال بعد چھٹی ڈوز لی جاتی ہے۔ گویا مکمل ویکسی نیشن پروگرام چھے ڈوزز پر مشتمل ہے، لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم عموماً ابتدائی تین ڈوز کے بعد ویکسین کے لیے نہیں جاتے اور شاید ڈاکٹرز بھی یاد دِلانا بھول جاتے ہیں۔
ہم پہلے بھی بات کرچُکے ہیں کہ بچّے، عُمر رسیدہ یا قوّتِ مدافعت کی کمی کے شکار افراد خنّاق کا آسان ہدف ہیں، جب کہ یہ بیماری اُن مقامات پر بھی پھیل سکتی ہے، جہاں تنگ جگہ میں زیادہ لوگ رہتے ہوں،جیسے ہاسٹلز وغیرہ۔ اِس بیماری سے بچاؤ کے لیے ویکسین کے ساتھ ایک سادہ ترکیب یہ بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ ماسک کا استعمال کیا جائے۔
خاص طور پر شعبۂ صحت سے وابستہ افراد کو تو بے حد احتیاط کی ضرورت ہے۔ خواہ وہ صحت مند ہیں اور اپنی دانست میں مکمل ویکسینیٹڈ بھی۔بہرحال، خنّاق کے مریضوں کے قریب جانے کی صُورت میں احتیاطی تدبیر کے طور پر، ماہرین سے مشاورت کے بعد سات سے دس دنوں تک اینٹی بائیوٹک ادویہ استعمال کرلینی چاہئیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اب کچھ اینٹی بائیوٹکس کام نہیں کر رہیں، تو اِس ضمن میں فیصلہ کوئی ماہرِ جراثیم ہی کرے گا کہ اب کِن ادویہ کا استعمال بہتر ہے۔
آخری بات، ہم سب کو بچّے نہایت عزیز ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں، تو اِن کی حفاظت اور بہتر نشوونُما ہمارا فرض ہے۔ ہمیں اِن کی صحت کا خیال رکھنا چاہیے اور اِدھر اُدھر کی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے اپنے بچّوں کو حفاظتی ٹیکے ضرور لگوائیں اور اس حوالے سے کسی قسم کے پراپیگنڈے کا ہرگز شکار نہ ہوں۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ اطفال اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوی ایشن(پیما) کے ہیلتھ اوئیرنیس پراجیکٹ کے رُکن ہیں)