خود کشی حرام ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت خودکشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ میں اس خطرے سے بے خبر تھا۔ مجھے اس خطرے کی خبر وفاقی کابینہ کے ایک رکن کی گفتگو میں ملی۔ وہ سوشل میڈیا پر نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کیخلاف شروع ہونے والی مہم پر کافی پریشان لگ رہے تھے۔ پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ نئے چیف جسٹس کو مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی آئین میں 26 ویں ترمیم کے ذریعے تیسرے نمبر سے اوپر لے کر آئے۔ نئے چیف جسٹس کی تقرری کو آٹھ دس دن بھی نہیں گزرے اور سوشل میڈیا پر کچھ ایسے خواتین و حضرات نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی ہے جن کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعلق کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ شہباز شریف کی کابینہ کے اس رکن کا خیال تھا کہ نئے چیف جسٹس کو سوشل میڈیا کے ذریعے بلیک میل کرنے کی کوشش خود کشی کے مترادف ہے کیونکہ جسٹس یحییٰ آفریدی کسی دھونس یا دھمکی میں آنے والے نہیں۔ میں نے پوچھا کہ سوشل میڈیا پر جسٹس یحییٰ آفریدی کے خلاف چلنے والی مہم کا حکومت کے مستقبل سے کیا تعلق ہے؟ کابینہ کے رکن کا کہنا تھا کہ نئے چیف جسٹس کے خلاف دشنام طرازیاں کرنے والے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو کچھ عرصہ قبل صدارتی ایوارڈ دیئے گئے۔ اگر کسی نے ان کی فائلیں منگوا کر صرف یہ پتہ کروا لیا کہ انہیں صدارتی ایوارڈ دینے کی سفارش کہاں سے آئی تھی تو بڑی مشکل ہو جائے گی۔ کابینہ کے یہ رکن بتا رہے تھے کہ کچھ دیگر وفاقی وزراء نے بھی چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی مہم پر تشویش ظاہر کی ہے کیونکہ جن خواتین و حضرات کی طرف سے یہ مہم شروع کی گئی ہے ان کی نواز شریف، مریم نواز اور قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ محبت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک اور سینئر رہنما چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے خلاف مہم کو ایک بالکل مختلف زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے تک ان کے بارے میں بتایا جا رہا تھا کہ وہ وفاقی کابینہ میں شامل کئے جا رہے ہیں۔ نئے چیف جسٹس کی تقرری کے ٹھیک سات دن بعد وہ اپنے قریبی دوستوں کو یہ کہتے سنے گئے کہ اِس سیاست نے میرے خاندان کو رسوا کیا، کاروبار تباہ ہوگیا اور بار بار جیلوں کے دھکے کھائے۔ اب کچھ اچھا وقت آیا ہے لیکن لگتا ہے کہ ہماری قیادت نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیںسیکھا۔ وہ دوبارہ خودبھی جیل جائیں گے اور ہمیں بھی ساتھ لے کر جائیں گے۔ ان صاحب نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر سیاست چھوڑنے پر غور و فکر شروع کردیا ہے۔ میں کوئی سنی سنائی بات نہیں لکھ رہا۔ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے اس ایم این اے کے خیالات سے اچھی طرح واقف ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور نئے چیف جسٹس کی تقرری کے باوجود اسلام آباد اور لاہور میں صف ماتم کیوں بچھ گئی ہے؟ وجہ تلاش کرنا کوئی مشکل نہیں۔ سوشل میڈیا پر جسٹس یحییٰ آفریدی کے خلاف چیخ و پکار کرنے والوں کے دو تین اہم اعتراضات ہیں۔ پہلا یہ کہ دو سینئر ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں کیوں شامل کیا گیا؟ ان دونوںسینئر ججوں نے سپرسیڈ ہونے کے باوجوداستعفے کیوں نہ دیئے؟پھر یہ کہ دونوں جج جسٹس یحییٰ آفریدی کی بلائی گئی فل کورٹ میٹنگ میں کیوں شامل ہوئے؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے نیشنل جیل ریفارم پالیسی کی تشکیل کیلئےلاہور میںبلائے گئے اجلاس میں 9مئی 2023ءکے واقعات کی ایک ملزمہ خدیجہ شاہ کو کیوں مدعو کیا؟ غور کیا جائے تو جسٹس یحییٰ آفریدی نے ابھی تک آئین و قانون کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ وہ تمام ججوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش میں ہیں اور سپریم کورٹ میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیل ریفارم کیلئے بلائے گئے۔
اجلاس میں جسٹس عالیہ نیلم، جسٹس شمس محمود مرزا اور انسانی حقوق کی کارکن صائمہ امین خواجہ کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر احد چیمہ کو بھی مدعو کیا گیا۔ احد چیمہ اور خدیجہ شاہ کو مدعو کرنے کی وجہ یہ تھی کہ دونوں نےپنجاب کی جیلوں میں لمبی قیدیں کاٹی ہیں اور دونوں جیلوں میں اصلاحات کے بارے میں اچھی تجاویز دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی ہے۔ تحسین کی بجائے ان کی نیت پر شک کرنا کم ظرفی کے سوا کچھ نہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت تشکیل پانے والے جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس بھی پانچ نومبر کو ہونے والا ہے۔ اس کمیشن میں سپریم کورٹ کے سینئر جج منصور علی شاہ، منیب اختر، امین الدین خان، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، شیخ آفتاب، عمر ایوب، شبلی فراز، فاروق نائیک اور اٹارنی جنرل شامل ہوں گے۔ اگر کمیشن کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن مل جل کر فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہیں تو جیل ریفارم کے اجلاس میں خدیجہ شاہ کی شمولیت پر سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت کی پریشانی کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ نئے چیف جسٹس کی تقرری کے بعد عدلیہ کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ عمران خان کے ایک وکیل انتظار حسین پنجوتھہ کی رہائی کیلئے عدلیہ نے اتنا زیادہ دبائو ڈالا کہ ریاستی اداروں کو انہیں رہا کرنے کیلئے ایک جعلی پولیس مقابلہ کرنا پڑا جس نے شیخ رشید احمد، عثمان ڈار اور صداقت عباسی کےفکسڈ ٹی وی انٹرویوز کی یاد تازہ کردی۔ایمان مزاری اور ان کے خاوند ہادی علی چٹھہ کو بھی دہشت گردی کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا گیا لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان دونوں کی ضمانت لے لی۔ آنے والے دنوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی شکایات کا معاملہ بھی فیصلہ کن رخ اختیار کرسکتا ہے۔ تحریک انصاف 9 نومبر کے بعد احتجاج کا نیا سلسلہ شروع کرنے کی تیاریوں میں ہے۔ اس احتجاج کے باعث سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا ایک نیا دور کچھ نئی پیچیدگیاں پیدا کرے گا۔ سپریم کورٹ میں قاضی فائز عیسیٰ کی عدم موجودگی حکومت کو کافی پریشان کرے گی کیونکہ نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی آئین کی سبز کتاب ہاتھ میں پکڑ کر ڈرامے بازی پر یقین نہیں رکھتے۔ جب وہ اس سبز کتاب پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے تو حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو بھی لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ اپوزیشن کے کچھ دوستوں کو امریکا کے صدارتی الیکشن سے بڑی امیدیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے تو عمران خان جیل سے باہر آ جائیں گے۔ یہ سوچ دراصل عمران خان کے موقف کی نفی ہے۔ ایسی رہائی کا کیا فائدہ جس کے پیچھے امریکا کا جھنڈا لہراتا نظر آئے۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان کی رہائی کیلئے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم اور آئین کی سبز کتاب پر انحصار کریں۔ احتجاج اور جلسے جلوس ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے لیکن اس حق کو آئین کے اندر رہ کر استعمال کریں۔ جو بھی آئین کے خلاف جائے گا وہ یہ مت سمجھے کہ اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔ آئین نہیںپکڑے گا تو اوپر والا تو کبھی نہ کبھی پکڑے گا۔ تھوڑے دن میں بہت کچھ سامنے آنے والا ہے۔ چور اپنا نشان ضرور چھوڑتا ہے۔ آئین کو دھوکہ دینے والا چور بھی پکڑا جائے۔