بچپن میں ہم کبھی کبھی کنویں سے پانی نکالا کرتے تھے، ایک چھوٹی چرمی مشک جسے ’بوکا‘ کہتے تھے، کنویں میں ڈالتے اور جب وہ پانی سے بھر جاتا تو اسے اوپر کھینچ لیتے، یہ ایک مشقت طلب کام تھا۔ آج کل لاہور کی مسموم فضا میں سانس لیتے ہوئے اکثر اسی مشقت کا احساس ہوتا ہے، ہر سانس بوکے کی طرح کھینچتے ہیں، زور لگتا ہے، سینہ کٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے، گلا دُکھتا ہے، سانس پھول جاتی ہے۔ ایسے میں وہ ارتکاز کہاں سے لائیں جو کسی بھی منضبط تحریر کی شرط ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا پیشگی معذرت۔
لاہور کو تو پلاٹ Mafiaکھا گیا، شہر کے گرد باغ، درختوں کے جھنڈ، کھیت کھلیان ہوا کرتے تھے، لاہور کے پھیپھڑے ہوا کرتے تھے، وہ پھیپھڑے کاٹ دیے گئے، اب ہم کہتے ہیں لاہور شہر میں سانس کیوں نہیں آتا۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے۔ آج لاہور کے چاروں اطراف میں بھی لاہور ہے، ہائوسنگ کالونیاں ہیں، ہائوسنگ سوسائٹیاں ہیں، ہائوسنگ اتھارٹیاں ہیں۔ قلبِ شہر میں کچھ زمین میسر آئی تو وہاں سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ بنا یا جا رہا ہے، لاہور کے تابوت میں آخری کیل کے طور پر راوی کے دونوں طرف روڈا ایک نیا شہر بسا رہی ہے، ایک ماڈل شہر، لاہور سے جڑا ہوا، ایک اور لاہور۔ پچھلی حکومت نے یہ منصوبہ شروع کیا تھا اور یہ حکومت تن دہی سے اس کی تکمیل میں مصروف ہے۔ بلا شبہ، ہمارے ہاں سرکاری دیوانگی جنیٹک ہوا کرتی ہے، ایک حکومت سے اگلی حکومت میں منتقل ہو جاتی ہے۔ ہر مسئلے پر ایک دوسرے سے اختلاف کرنے والی حکومتوں میں ’دیہاڑیاں‘ لگانے پر کامل اتفاق پایا جاتا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو سانس آئے نہ آئے یہ طاقت وروں کا مسئلہ نہیں ہے، کہتے ہیں دنیا کے آلودہ ترین شہر لاہور میں اوسطً عمریں چار سال کم ہو جاتی ہیں، اور یہ بات بڑی سہولت سے کہہ دی جاتی ہے، زندگی کا ایک ایک دن انمول ہے، اور کمال ڈھٹائی سے زندگی کے چار سال کی کمی کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ حساب لگائیے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے چار چار سال کل ملا کر کتنے بنتے ہیں؟ بس یہی کوئی چھ کروڑ سال۔
سقوطِ ڈھاکا سے سموگ تک،ہم پر ٹوٹنے والی ہر آفت کا ذمہ دار ہندوستان ہے، ہمارا تو ان تباہ کاریوں میں کوئی ہاتھ نہیں۔لاہور میں یہ ہائوسنگ اتھارٹیز ہندوستان نے بنائی ہیں؟ ہمارے درخت ہندوستان کاٹ کر لے گیا ہے؟ ہمیں الیکٹرک گاڑیاں چلانے سے ہندوستان نے منع کیا ہے؟ ہم ’’ان لیڈڈ‘‘ پٹرول ہنود کی سازشوں کی وجہ سے استعمال نہیں کرتے؟ ہماری گاڑیاں برہمن دھواں چھوڑتی ہیں؟ کم از کم پندرہ سال سے تو سموگ کا مسئلہ سنجیدگی اختیار کر چکا ہے، اس دوران کیا کیا ہے ہماری حکومتوں نے؟ شہر کا یہ حال ایک رات میں تو نہیں ہوا، لاہور دنیا کا پہلا شہر تو نہیں ہے جسے سموگ کا سامنا کرنا پڑا ہے، لندن نے تو یہ صورتِ حال پچاس کی دہائی میں دیکھی، لاس اینجلس نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں، بعد ازاں بیجنگ سے میکیسکو تک، بہت سے شہر یہ بھگت چکے ہیں اور اس پر قابو پا چکے ہیں۔ ہمارے سامنے مثالیں موجود تھیں، اینٹی سموگ پالیسیاں موجود تھیں، مگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم مراجعت فرما رہے ہیں، پہلے ہم روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتے تھے، اب ہم صاف ہوا اور پانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ڈسٹوپیا اور کسے کہتے ہیں؟ ماہرین کہہ رہے ہیں اگر آج سے بھرپور کوشش آغاز کی جائے تو سموگ کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے لگ بھگ ایک دہائی صرف ہو گی۔لہٰذا، ایئر کوالٹی انڈکس کی ایپ فون میں ڈائون لوڈ کریں، ائیر پیوری فائر کے پیسوں کا بندوبست کیجیے، گھر سے نکلتے ہوئے ماسک لگائیے، اور ہاں زیرِ ماسک طاقت وروں پر تبرا بھیجنا نہ بھولیے گا۔
یونہی خیال آیا کہ آرمی چیف کی معیادِ ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی ہے، اور اگر اس میں ایک توسیع بھی شامل ہو جائے تو یہ ٹھیک دس سال بنتے ہیں، یعنی اتنا ہی عرصہ جتنا سموگ پر قابو پانے کیلئے درکار ہے۔ حکومتیں اپنے اہم امور خوشی سے نبٹائیں، بس ہمیں سانس لینے کی سہولت فراہم کر دیں۔ چیف صاحب کی مدتِ ملازمت بڑھانے پر یہ حکومتی جواز سامنے آیا ہے کہ عمرانی حکومت نے تو توسیع کا قانون پاس کیا تھا اور چھ سالہ مدت کا راستہ کھول دیا تھا، جب کہ ہم نے ایک سال مدت گھٹا کر پانچ سال کر دی ہے۔درست ہے، مگر حالیہ ترمیم نے توسیع کا راستہ تو نہیں روکا، یعنی اگر دونوں قوانین نافذالعمل رہیں تو پانچ جمع پانچ بعید از قیاس نہیں ہیں۔ ویسے معیادِ ملازمت میں یہ اضافہ حقیقت پسندانہ بتایا جا رہا ہے۔ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف تو خود کو ہی توسیع دے دیا کرتے تھے، لہٰذا کل ملا کر ان اصحاب نے لگ بھگ 33 سال حکومت کی۔ مشرف کے بعد کیانی صاحب اور باجوہ صاحبان چھ چھ سال اپنے عہدہ پرقائم رہے، راحیل شریف صاحب کو نواز شریف نے توسیع نہیں دی تو انہوں نے ایک جما جمایا نظام ہی الٹا دیا ۔ اس تاب ناک ماضی کی روشنی میں اب کیا تبصرہ کیا جائے؟ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اس نئے قانون پر تبصرہ فرماتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ فوج کا ’’اندرونی معاملہ‘‘ ہے۔ کیا پتاوہ ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں ۔
آرمی چیف کی مدتِ ملازمت اہم ہو گی، چھبیسویں آئینی ترمیم بھی اہم ہو گی، جوڈیشل کمیشن کی ہیئت بھی اہم ہو گی، نئے آئینی بنچ بھی اہم ہوں گے، حکومت صبح شام اپنی تمام تر توانائیاں ان پر صرف کرے، لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر اس کے ساتھ حکومت ہمیں سانس لینے کی عیاشی بھی فراہم کر دے۔ہم ’بوکے‘ کھینچنے کی مشقت سے تھک گئے ہیں۔ شعیب بن عزیز فرماتے ہیں ’مرے لاہور پر بھی اک نظر کر....’ترا مکہ رہے آباد مولا۔‘‘