• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زیتون اور کاٹن کی کاشت سے نئے دَروَا ہوسکتے ہیں

ڈائریکٹر جنرل ،زراعت (شماریات)بلوچستان، محمد اختر بزدار سے بات چیت
ڈائریکٹر جنرل ،زراعت (شماریات)بلوچستان، محمد اختر بزدار سے بات چیت

بات چیت:وحید زہیر، کوئٹہ

زراعت کا شعبہ نہ صرف عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرتا ہے، بلکہ ملکی معیشت و صنعت کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زرعی ترقی کے بغیر صنعتی ترقی بھی ممکن نہیں کہ بہرحال، صنعتوں کے لیے خام مال یہی شعبہ فراہم کرتا ہے اور اسی کے ذریعے کوئی بھی ملک زرِمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ 

پاکستان کی 70فی صد سے زائد آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے اور مجموعی قومی پیداوار میں اس کا حصّہ 21فی صد ہے۔یوں بھی پاکستان کا موسم زراعت کے لیے سازگار ہے۔ اس کا نہری نظام دنیا کے بہترین نہری نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔ نیز، صوبہ بلوچستان میں دنیا کا سب سے بڑا زمین دوز نہری نظام ’’کاریز ‘‘ موجود ہے۔ پھر ہر سال بارشیں بھی ہوتی ہیں اور بعض اوقات تو اتنی ہوتی ہیں کہ سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

ان تمام عوامل کے باجود افسوس ناک امر یہ ہے کہ ملک میں زراعت کا شعبہ نہ صرف یہ کہ زوال کا شکار ہے، بلکہ ہمیں اپنی ضرورت کے لیے زرعی اجناس برآمد بھی کرنی پڑ رہی ہیں۔ حالاں کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنّے اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور مُلک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرِمبادلہ بھی حاصل کرتا ہے، اس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سُست ہے۔ صوبہ بلوچستان میں لوگوں کی اکثریت کا ذریعۂ معاش، زراعت و مال مویشی ہی ہیں، مگر منصوبہ بندی کے فقدان اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب یہ معاشی ذرائع بھی بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

محمد اختر بزدار ،محکمۂ زراعت (شماریات) کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ اس شعبے سے طویل وابستگی، وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ سو، گزشتہ دنوں اُن سے شعبہ زرات سے متعلق سیر حاصل گفتگو ہوئی، جس کی رُوداد نذرِ قارئین ہے۔

س: سب سے پہلے تو اپنے بچپن اور تعلیم سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: بچپن، گائوں کے قدرتی ماحول میں بہت شان دار گزرا۔ ہمارا گھرانہ، علمی و ادبی تھا۔ میرے والد، غلام قادر بزدار بلوچی زبان کے مایۂ ناز ادیب اور شاعر تھے، اُن کی دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ مَیں نے ابتدائی تعلیم ’’گورنمنٹ ہائی اسکول، بارتھی سے حاصل کی۔ اُس زمانے میں بزدار قبیلے کے لیے ’’بارتھی‘‘ واحد اسکول تھا۔ بعدازاں، موسیٰ خیل میں بزدار قبیلے کے لیے پہلا ہائی اسکول، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے قائم کیا۔ 

ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم ڈیرہ غازی خان اور اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور سےحاصل کی۔ مجھے اکنامکس سے دل چسپی تھی، مگر بلوچستان یونی ورسٹی میں سیٹس محدود ہونے کے سبب داخلہ نہ ہوسکا، تو اسلامیہ یونی ورسٹی، بہاول پور چلا گیا اوروہاں سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا۔

یونی ورسٹی میں سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب، سردار عثمان بزدارمجھ سے ایک سال جونیئر تھے۔ بہرحال، اکنامکس میں ماسٹرز کے بعد مَیں نے کوئٹہ لاء کالج سے ایل ایل بی کیا۔

س: محکمۂ زراعت سے کب اور کیسے منسلک ہوئے؟

ج: 1992ء کی بات ہے، پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے محکمۂ شماریات کی جانب سے چند اسامیاں مشتہر ہوئیں، تو مَیں نے بھی اپلائی کردیا، جہاں بہت آسانی سے میرا تقرر ہوگیا۔ تعیناتی کے بعد فاصلاتی طریقۂ کار کے مطابق مجھے اعداد وشمار جمع کرنے کی ذمّے داری سونپی گئی۔ اس کام کے لیے فضا سے عکس بندی کے ذریعے سیمپلز جمع کیے جاتے تھے۔ یہ کام انتہائی محنت و دقّت طلب ہونے کے ساتھ دل چسپ بھی تھا، جو بخیر و خوبی انجام دیا۔

س: محکمۂ زراعت میں اِس وقت کن کن شعبوں میں کام ہورہا ہے؟

ج: اس وقت زراعت کے مختلف شعبوں میں کام ہورہا ہے، جن میں زراعت توسیعی پروگرام ،واٹر مینجمنٹ، مارکیٹنگ، کراپ رپورٹنگ، ریسرچ ورک اور انجینئرنگ وغیرہ شامل ہیں۔ ویسے تو ملک کے دیگر زرعی کالجز محکمۂ تعلیم کے زیرِ انتظام ہیں، لیکن بلوچستان میں زرعی کالج محکمۂ زراعت کی مالی و انتظامی معاونت سے قائم ہے۔

س: تو کیا یہ سارے شعبے فعال بھی ہیں؟

ج: شعبے تو فعال ہیں، مگر مطلوبہ فنڈز کا مسئلہ ہمیشہ درکاررہتا ہے۔ اس کے علاوہ زراعت کے لیے مختص سرکاری زمینوں پر دیگر محکموں کی غیرقانونی اجارہ داری ہے، بلکہ کئی محکمے تو ان زمینوں پر ناجائز قبضے بھی کررہے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر لینڈ مافیا سے بھی ٹکراؤ ہوتا رہتا ہے۔ دراصل، زرعی انجینئرنگ کے کام میں زراعت کے لیے زمینیں ہم وار کرنا بھی شامل ہے، مگر اس ضمن میں بلڈوزرز کی کمی اور فنڈز کی عدم دست یابی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ 

دل چسپ بات یہ ہے کہ شماریات کی مَد میں ایک طرف فنڈز مختص نہیں کیے جاتے، دوسری طرف ان تمام شعبوں سے اچھے نتائج کی توقع بھی رکھی جاتی ہے۔ بہرکیف، ان دشواریوں، رکاوٹوں اور پریشانیوں کے باوجود محکمے کے افسران اور اہل کار اپنی ذمّے داریاں بخوبی نبھا رہے ہیں۔ 

کوئٹہ، پشین، پنجگور، تربت، آواران، اوتھل، خاران، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، حب اور چمن میں کولڈ اسٹوریج قائم ہیں۔ نصیر آباد، گدر، قلات، سبّی، گنداواہ، تربت اور اوتھل سمیت چند دیگر علاقوں میں زرعی اور سیڈ فارمز بھی قائم ہیں، جب کہ کوئٹہ، لورالائی اور نصیر آباد کے مارکیٹس بھی فنکشنل ہیں۔

س: موسمی لحاظ سے کتنے زونز میں کام ہوتا ہے؟

ج: زراعت کے پانچ زونز بنائے گئے ہیں، درجۂ حرارت کے حوالے سے مختلف پھل اور سبزیاں اُگائی جاتی ہیں، جس میں 1500 سے 6000 تک سطحِ سمندر سے بلندی والے علاقے شامل ہیں، صرف گندم اور مکئی ان میں مشترک ہے۔

س: ربیع اورخریف میں یہ تقسیم کس طرح ہوتی ہے؟

ج: ربیع، یعنی موسمِ بہار میں گندم، سرسوں، مسور کی دال، مٹر، سبزیاں، کینولا اور سورج مکھی وغیرہ کاشت ہوتی ہے، جب کہ خریف یعنی مون سون میں چاول، جوار، باجرہ، تیل دار اجناس، مسالاجات، کپاس، سبزیاں، خاص طور پر پھل ( 96فی صد خریف میں پیداہوتے ہیں)کاشت کیے جاتے ہیں۔

دونوں صورتوں میں 850لاکھ ایکڑ پر کاشت ہوتی ہے۔ جب کہ مزید کاشت کے لیے 53لاکھ ایکڑ زمین خالی پڑی ہے۔ نیز، سبی، ہرنائی، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، نصیر آباد، جعفر آباد، کچھی اور جھل مگسی میں تِل کاشت ہوتی ہے، جس کا رقبہ 11725ایکڑ بنتا ہے۔

س: اس کے باوجود زمین دار اکثر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، تو اس کی کیا وجہ ہے؟

ج: زمین داروں کا احتجاج بجا ہے، وہ مطلوبہ جدید ٹیکنالوجی سے محروم، متواتر لوڈشیڈنگ سے تنگ اور بے شمار مسائل سے دوچار ہیں، خصوصاً بجلی کی مسلسل بندش کا مسئلہ سرفہرست ہے۔’’ امدادِ باہمی‘‘ محض نام کی حد تک رہ گیا ہے، زیادہ تر کسان و زمین دار ذاتی حیثیت اور کڑی شرائط پر باہر سے قرض لینے پر مجبور ہیں، نتیجتاً بہت سے زمین داروں کو اپنی پیداوار سے دست بردار بھی ہونا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود بلوچستان میں حب، اوتھل، وندر سے کیلے، چیکو اور پپیتے، جب کہ مکران، وارشک، خاران سے کھجور اور نصیر آباد سے گندم اور چاول کی خاطر خواہ پیداوار حاصل ہورہی ہے۔

کیپشن: نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی:رابرٹ جیمس)
کیپشن: نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی:رابرٹ جیمس)

س: کیا حکومت کسانوں اور زمین داروں کو سبسڈی بھی دیتی ہے؟

ج: حکومت سبسڈی تو دیتی ہے، مگر محدود پیمانے پر۔ یہ سہولت سب کو حاصل نہیں۔ بجلی کی مد میں ماہانہ30ہزار ٹیوب ویلز کودو ہزار روپے دیئے جاتے ہیں، جب کہ زمین دار 12ہزار روپے ادا کرتے ہیں، اس کے باوجود 8گھنٹے بجلی کی فراہمی کی بجائے بمشکل تین گھنٹے بجلی دی جاتی ہے اوران ہی عوامل کے سبب پیداوار کم ہونے سے کسان و زمین دارجائز آمدنی حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔

س: پانی کی کم یابی کا مسئلہ بھی تو ہے، اس حوالے سے کیا حکومتی اقدامات کیے گئے ہیں؟

ج: جی ہاں، زیرِ زمین پانی کی مقدار روز بہ روز کم ہوتی جارہی ہے۔ اکثر علاقوں میں تو اب پانی ہے ہی نہیں، پانی کی سطح ایک ہزار فٹ گرچکی ہے۔ سو، اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے موجودہ حکومت، خصوصاً ٹیوب ویلز کے لیے شمسی توانائی کے نظام کا انتظام کررہی ہے۔

س: لیکن شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کے ضمن میں بھی خاصے تحفّظات ہیں؟

ج: جی، وہ اس طرح کہ اگر مسلسل دھوپ کے بعد بلاوجہ اور بے دریغ پانی کا استعمال ہوگا، تو زیرِ زمین موجود باقی پانی بھی ختم ہونے کا خطرہ ہے۔ اس ضمن میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام وضع کرنے کے ساتھ شعور و آگاہی پر زیادہ توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔

س: بارشوں کا پانی بھی تو ضائع ہورہا ہے، اُسے قابلِ استعمال بنانے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟

ج: ہمارے ہاں پانی اسٹور کرنے کا رواج ہی نہیں، حالاں کہ باشعور اقوام پانی کی ایک ایک بوند ضائع ہونے سے بچاتی ہیں۔ چند برس قبل ایک سوڈیمزکی تعمیر کا اعلان کیا گیا، مگر اب تک عمل درآمد تو دُورکی بات، کوئی پیش رفت بھی نہیں ہوئی۔ 

جو چند ایک ڈیم بنے بھی تو ناقص تعمیر کی وجہ سے کارآمد ثابت نہیں ہوئے، تاہم میرانی ڈیم کا تجربہ کام یاب رہا، جس سے اس وقت 30ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوتی ہے۔ حالاں کہ اس وقت صرف حب ڈیم سے پورا کراچی مستفید ہورہا ہے۔ تو مُلک میں ڈیمز نہ ہونے کی وجہ ہی سے عوام کو زرعی اور پینے کے پانی کی کمی کا شدید سامنا ہے۔

س: قطراتی طرزِ آب پاشی کے حوالے سے کچھ بتائیے، اس کا تجربہ کیسا رہا؟

ج: جی، اس حوالے سے بڑی کوشش کی، لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ بعض اوقات کسی وزارت کا قلم دان ایسے شخص کے حوالے کردیا جاتا ہے، جسے اُس وزارت سے متعلق کچھ پتا نہیں ہوتا، تو اس طرح بھی کام بگڑتے ہیں۔

بہرحال، موجودہ سیکرٹری علی اکبر کسانوں کو درپیش مسائل کے حل اور زراعت کے فروغ کے لیے دل چسپی سے کام کررہے ہیں۔ جہاں تک قطراتی طرزِ آب پاشی کی بات ہے، تو اس ضمن میں مکمل معلومات نہ ہونے کی وجہ سے کئی فصلوں خصوصاً سیبوں کے باغات کو خاصا نقصان ہوا، نتیجتاً سیب کی پیداوار 30فی صد کم ہوئی۔

س: لیکن گندم، پھل اور سبزیوں کی پیداوار میں تو بہتری آئی ہے؟

ج: پچھلے سال15لاکھ ٹن گندم پیدا کی گئی، جب کہ ضرورت 16لاکھ ٹن تھی، تو بعد میں پنجاب سے منگوانی پڑی۔ ہاں، پھل اور سبزیاں ہماری ضرورت سے زیادہ ہوتی ہیں، جو دوسرے صوبوں ،خصوصاً ڈیرہ غازی خان، ملتان اور کراچی میں فروخت کے لیے بھجوادی جاتی ہیں۔

س: گندے نالوں کے آلودہ پانی سے سبزیاں اُگانے کی شکایات بھی عام ہوتی جارہی ہیں؟

ج: جی ہاں، انسانی صحت کے حوالے سےیہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمارے یہاں پانی کی ری سائیکلنگ نہیں ہوتی۔ صاف پانی سروس اسٹیشنز، قالین، کپڑے دھونے کے علاوہ فرش اور باتھ رومز کی صفائی میں استعمال ہوتا ہے، یہ سراسر زیادتی ہے، حالاں کہ ان ہی ٹیوب ویلز کا پانی بطور منرل واٹر پینے کے لیے فروخت ہورہا ہے۔ 

دوسری جانب ٹینکر مافیا کے کاروبار کو وسعت دی جارہی ہے، اگر انتظامی ادارے عوام کو قانون کا پابند کریں اور عوام خود بھی شعور کا مظاہرہ کریں، تو بڑی حد تک بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں، جب تک بدعنوانیوں کا راستہ نہیں روکا جائے گا، حکومتوں کے لیے کام کرنا ناممکن ہے۔ صحت بخش خوراک کے بغیر صحت مند معاشرہ بھلا کیسے تشکیل پا سکتا ہے۔ 

بدقسمتی سے ان عوامل کی وجہ سے بلوچستان میں بارکھان، نصیر آباد، خضدار جیسے شہروں میں کینسر اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہورہا ہے۔

س: ملک میں کاٹن اور زیتون کی پیداوار کس حد تک نقد آور ثابت ہورہی ہے؟

ج: زیتون اور کاٹن کی کاشت سے نئے دَر وَا ہوسکتے ہیں۔ان فصلوں کی پیداوار کے حوالے سے بلوچستان کے اکثر علاقے انتہائی موزوں ہیں، جہاں مطلوبہ درجۂ حرارت اور مناسب پانی دست یاب ہے۔ خضدار اور قلعہ سیف اللہ و دیگر شہروں میں کاٹن کی سالانہ پیداوار60,000ٹن ہے۔ اسی طرح زیتون کی پیداوار اپنی بہترین کوالٹی کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔

س: پیاز اور ٹماٹر اچانک منہگے ہو جاتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟

ج: جب دوسرے صوبوں میں ان کی کاشت کاری کا موسم نہیں ہوتا، تو ہماری پیداوار مارکیٹ میں آجانے سے اس کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے، پھر امپورٹر بھی موقعے سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں، نتیجتاً زمین داروں کو زیادہ پیداوار کے باوجود فائدہ کم ہی ملتا ہے۔ جب کہ پیداوار کم ہونے کی صُورت میں ایران سے ٹماٹر منگوایا جاتا ہے۔

س: میوہ جات کی پیداوار کے حوالے سے بھی کچھ بتائیے؟

ج: الحمدللہ، سیب، آڑو، انگور اور بعض خشک میوہ جات میں ہم خود کفیل ہیں اور اس ضمن میں بلوچستان کو 90فی صد پیداوار دینے کااعزاز حاصل ہے۔ جب کہ اگر امن وامان کی مخدوش صورتِ حال، ٹرانسپورٹریشن کا مسئلہ اور سڑکوں کی ابتر صورتِ حال نہ ہو تو میوہ جات کی پیداوار میں مزید اضافہ ممکن ہے۔

س: زراعت کے شعبے کو مزید کارآمد کیسے بنایا جاسکتا ہے؟

ج: مسائل و مشکلات تو بہت ہیں۔ تاہم، اگر جدید ٹیکنالوجی تک زمین داروں کی رسائی ممکن بنادی جائے تو بلوچستان مال داری اور زمین داری میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتا ہے۔ نیز، ڈیمز کی تعمیر سے بھی متعدد مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید