• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی نے مُلکی سیاست میں بدتہذیبی، گالم گلوچ کلچر کو فروغ دیا

بات چیت: محمد ارسلان فیاض، کوئٹہ

صوبہ ؕبلوچستان، کئی اعتبار سے ملک کے دیگر صوبوں سے مختلف و منفرد ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ ایک لاکھ سینتالیس ہزار مربع میل پر محیط ( ملک کا چالیس فی صد رقبہ) سب سے بڑا صوبہ، لیکن آبادی سب سے کم ہے۔ نیز، یہ معدنیاتی دولت سے بھی مالامال ہے، لیکن اس کے باوجود یہاں کے عوام دوسرے تمام صوبوں کے مقابلے میں حد درجہ غریب، پس ماندہ ہیں۔ جب کہ صوبے کی سیاست کا انداز بھی قدرے مختلف ہے۔ اگرچہ سرزمینِ بلوچستان کی سیاست قبائلی نوابوں، سرداروں کی میراث رہی ہے۔ 

تاہم، اب روایتی سیاست دانوں، الیکٹیبلز کے ساتھ ساتھ نئی اور جدید سوچ و فکر کے حامل سیاست دان بھی سامنے آرہے ہیں اور ان ہی میں سے ایک نام، سینیٹ آف پاکستان کے موجودہ ڈپٹی چیئرمین سیدال خان ناصر کا بھی ہے، جنہوں نے طلبہ یونین سے سیاست کا آغاز کیا اور گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے پاکستان مسلم لیگ نون سے وابستہ ہیں۔ 

اُن کا شمار مسلم لیگ نون کے نظریاتی کارکنوں میں ہوتاہے۔ بدترین حالات میں بھی وہ پارٹی اور قیادت کے ساتھ مخلص، ثابت قدم رہے۔ اس دوران قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور بحیثیت صوبائی آرگنائزر، مسلم لیگ کو صوبے کے طول و عرض میں فعال کرنے میں اہم کرداربھی ادا کیا۔

گزشتہ دنوں ہم نےان سے ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے لیے ملکی سیاست،صوبے کی زبوں حالی، تعلیم، صحت، روزگار، صوبے کے اہم مسائل سمیت سیاسی اور نجی زندگی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

س: سب سے پہلے تو اپنے خاندان اور جائے پیدائش کے حوالے سے کچھ بتائیں؟

ج: میرا تعلق پشتونوں کے قبیلے ’’ناصر‘‘ سے ہے۔ 17اپریل 1975ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوا۔ میرے والدرحمت خان ناصر تجارت پیشہ تھے، لیکن اس کے ساتھ نیپ کے سرگرم کارکن بھی تھے۔ سیاسی وابستگی کی وجہ سے میرے والد نے قید وبند اور جلاوطنی کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، لیکن کبھی اصولوں پرسودے بازی نہیں کی۔ پھر مَیں نے بھی جب سیاست کے میدان میں قدم رکھا، تو اپنے والد کی روش برقرار رکھتے ہوئے مشکل سے مشکل حالات میں بھی پارٹی کے ساتھ مکمل وفادار رہا۔ 

قناعت پسند، سیدھا سادہ انسان ہوں، بناوٹی زندگی سے سخت نفرت ہے۔ ہم نے سیاست کو کبھی مالی منفعت کا ذریعہ نہیں بنایا، کل وقتی سیاست سے منسلک رہنے کے باوجود گھر چلانے اور روزی روٹی کے لیے ذاتی کاروبار بھی کرتا ہوں اور ایک منرل واٹر کمپنی کا سی ای او ہوں۔

س: تعلیم کہاں تک حاصل کی اورسیاست کے میدان میں کب قدم رکھا؟ سیاسی جدوجہد کے حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج: مَیں نے تعمیرِنو ہائی اسکول، کوئٹہ سے میٹرک کے بعد ایف ایس سی اور بی ایس سی گورنمنٹ سائنس کالج، کوئٹہ، جب کہ جامعہ بلوچستان سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔ جہاں تک سیاست میں آنے کا سوال ہے، تو جب سے ہوش سنبھالا، والد کو سیاسی میدان میں متحرک ہی دیکھا، تو اُن کی دیکھا دیکھی مَیں بھی سیاست میں آگیا۔ 

جیسا کہ مَیں نے پہلے ذکر کیا کہ میرے والد تجارت پیشہ تھے، مگر سیاسی و سماجی امور میں بھی سرگرم رہتے، تو مَیں بھی اُن ہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زمانۂ طالب علمی ہی میں سیاست سے وابستہ ہوگیا اور سیاسی کیریئر کا آغاز پشتون اسٹوڈنٹ فیڈریشن (پی ایس ایف) سے کیا۔ 

پی ایس ایف میں شمولیت کے بعد مختلف تنظیمی عہدوں پر بھی فائز رہا۔ کچھ عرصہ عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی اور صوبائی عہدوں پرفائز رہنے کے بعد سوچا کہ قومی سیاست میں آنا چاہیے، تو 1992ء میں باضابطہ طور پر پاکستان مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کی۔ مَیں دراصل مسلم لیگ نون کے قائد، میاں محمد نواز شریف کی شخصیت اور سیاسی وژن سے بے حد متاثر تھا۔ 

مسلم لیگ جوائن کی، تو جلد ہی مجھے مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا جنرل سیکرٹری بنادیا گیا۔ بعدازاں، مسلم لیگ یوتھ ونگ کا صدر مقرر ہوا،پھر 2002ء میں پارٹی کا ایڈیشنل جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا، اسی دوران صوبائی جنرل سیکرٹری سینیٹر عبدالصمد ڈوگر کے انتقال کے بعد مجھے قائم مقام جنرل سیکرٹری کا عہدہ دیا گیا۔ 

وہ جنرل پرویز مشرف کا آمرانہ دَور تھا، لہٰذا پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق کی پاداش میں مجھے سینٹرل جیل، کوئٹہ میں پارٹی کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ نظر بند کردیا گیا۔ بعدازاں، جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مَیں22سال سے پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا رکن ہوں، 2004ءسے 2008ء کے دوران صوبائی آرگنائزنگ سیکرٹری رہا۔ اس دوران ہم نے صوبے کے طول و عرض میں مسلم لیگ نون کو نہ صرف ڈویژن، ضلعی بلکہ یونٹ کی سطح پر فعال کیا۔

 2013ءسے 2018ءتک پاکستان مسلم لیگ (ن) کا صوبائی سینئر نائب صدر، جب کہ2018ء سے 2020ء تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کاصوبائی جنرل سیکرٹری رہا۔ 2015ء میں اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ، نواب ثناء اللہ زہری کا مشیر برائے ایس اینڈ جی اے ڈی بھی رہا۔ سیاسی سفر میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، لیکن اللہ پاک کا شُکر ہے کہ کبھی ہمّت نہیں ہاری اور اپنی جماعت کے ساتھ مشکل سے مشکل حالات میں بھی ڈٹ کر کھڑا رہا۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے…(عکّاسی: رابرٹ جیمس)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے…(عکّاسی: رابرٹ جیمس)

مَیں ایک عام سیاسی کارکن تھا، لیکن پارٹی قیادت، خصوصاً قائد مسلم لیگ، میاں محمد نواز شریف اور وزیرِ اعظم پاکستان، میاں محمد شہباز شریف نے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے سینیٹ کا ٹکٹ دیا، تو نہ صرف بلامقابلہ منتخب ہوا، بلکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے بھی میرا انتخاب بلامقابلہ ہوا۔ یہ یقیناً میرے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ 

ہم نے ہمیشہ سیاست میں اخلاقیات کو ترجیح دی ہے اور ہمارے قائد کی بھی یہی تربیت ہے کہ تہذیب کا دامن کبھی مت چھوڑو، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ دَور میں ایک جماعت پی ٹی آئی نے سیاست میں بدتہذیبی اور گالم گلوچ کے کلچر کو فروغ دیا، جس نے ہماری سیاسی اقدار اور روایات کو بری طرح مسخ کردیاہے۔

س: آپ بلوچستان کے حالات کو کیسے دیکھتے ہیں؟

ج: بلوچستان کا مسئلہ آج کا نہیں، یہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے، مَیں بتاتا چلوں کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی مسئلہ ہو، اس کا واحدحل مل بیٹھ کر افہام و تفہیم اوربات چیت ہی سے نکالاجاسکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے صوبے میں شدید احساسِ محرومی ہے۔ لوگ اپنے ساحل،اپنے وسائل پر اپنا حق مانگتے ہیں، جو بالکل جائز بات ہے، لیکن اس کی آڑ میں بے گناہوں کو شناختی کارڈ چیک کرکے قتل کرنا بھی انتہائی قابلِ مذمّت اقدام ہے۔

ان مسائل پر قابو پانے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں کے مقامی لوگوں کو تعلیم،صحت،روزگار، بنیادی انفرا اسٹرکچر کی سہولتیں فراہم کی جائیں، کیوں کہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی احساسِ محرومی اوربے روزگاری ہے اوران بنیادی مسائل ہی کی وجہ سے حالات خراب سے خرا ب ترہوتے جاتے ہیں۔ اگر چہ ماضی میں ہمارے صوبے سے وزیر اعظم بھی بنے، یہاں کے موجودہ و سابق تمام وزرائے اعلیٰ کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے، لیکن لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ کسی نے اس صوبے کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ واحد وزیرِ اعلیٰ تھے، جنہوں نے کالجز، یونی ورسٹیز قائم کیں۔ اُن کے دَورمیں کچھ ترقیاتی کام ہوئے، توصوبے کے عوام اپنے حکم رانوں سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ انہوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کام کیے ؟ بہرکیف، صوبے میں پائی جانے والی محرومی اور بدامنی پر قابو پانے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرزمل بیٹھ کرتمام مسائل کا حل نکالیں۔ ناراض لوگ بھی ہمارے بہن ،بھائی ہیں، اُن کی جائز داد ردرسی کے لیے فوری اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ صوبے میں آباد تمام افراد کے جان و مال کا تحفظ بھی یقینی بنایا جانا چاہیے۔

س: آپ کا بھی یہی خیال ہے کہ وفاقی حکومتوں نے بلوچستان کوہمیشہ نظرانداز کیا ؟

ج: بالکل نہیں، یہ قطعاً غلط ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وفاق کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی قیادت نے بھی ہمیشہ بلوچستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا۔ مَیں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ این ایف سی ایوارڈ کےموقعے پراُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب، میاں محمد شہباز شریف نے اپنے صوبے کے حصّے سے کٹوتی کرکے صوبہ بلوچستان کو فنڈز دیئے۔ حقیقت یہ ہے کہ وفاق، پنجاب اور سندھ کی قیادت نے بلوچستان کے ساتھ ہمیشہ تعاون کیا ہے۔ 2008ءسے2012ءتک پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں بلوچستان میں میگا پراجیکٹس پر کام شروع ہوا۔ اِسی طرح 2013ءسے 2017ءکے دوران سابق وزیر اعظم، میاں محمد نواز شریف نے بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا۔ 

اب وہ چاہے سی پیک منصوبہ ہو یا کوئٹہ انٹر نیشنل ائر پورٹ اورگوادر انٹر نیشنل ائرپورٹ کی تعمیر یاقومی شاہ راہوں کی تعمیر و مرمت کا کام،وفاق نے کوئٹہ پیکیج کے تحت اربوں روپے کے فنڈ ز فراہم کیے۔ وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف نے سابق دورِ حکومت میں کوئٹہ، کراچی شاہ راہ کی توسیع کا منصوبہ شروع کروایا۔2022ءمیں جب بلوچستان میں سیلا ب سے تباہی آئی تو ہر دوسرے دن وزیر ِاعظم، میاں محمد شہباز شریف بلوچستان کے دورے پر ہوتے تھے، لیکن اس کے برعکس ہمارے قوم پرستوں نے بلوچستان میں بیٹھ کر وفاق اور پنجاب کے خلاف ہمیشہ نفرت کی سیاست کی۔

یہاں تک کہ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی کی قیادتوں نے کئی جھوٹے مقدمات کا بھی سامنا کیا ۔میرے خیال میں تو موجودہ حکم رانوں اور رہنمائوں نے ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے جلاوطنی اور اسیری کی جو صعوبتیں برداشت کیں، وہ کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں، لہٰذا وفاق، پنجاب اور سندھ کی قیادت پر الزام تراشی قطعاً مناسب نہیں۔

س: بحیثیت ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، آفس اورسیشن چلانے میں آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

ج: شروع میں سینیٹ کے رُولز آف بزنس سے ناواقفیت کے سبب کچھ مشکلات ضرور پیش آئیں، لیکن الحمدللہ، اب مَیں آئینی معاملات اور سینیٹ اجلاس کی صدارت بحسن و خوبی کرتا ہوں۔ مَیں سینیٹ کے اراکین میں کوئی تفریق نہیں رکھتا، سب کو برابر وقت دیتا ہوں اور میرے آئینی عہدے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ حکومتی ارکان ہوں یا اپوزیشن، سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھا جائے۔ الحمدللہ، مجھ سے دونوں بینچز کے رکن خوش ہیں۔ 

میرے چیمبر کے دفاترمیں روزانہ دو ڈھائی سو افراد ملاقات کی غرض سے آتے ہیں، تو اُن کے مختلف مسائل کے حل کے لیے اپنے اسٹاف کو فوری احکامات دیتا ہوں اور اس انٹرویو کے توسّط سے یہ خبربھی دینا چاہتا ہوں کہ مَیں عن قریب کوئٹہ میں بھی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا کیمپ آفس قائم کررہا ہوں، تاکہ صوبے کے عوام اسلام آباد کےدُور دراز کے سفر سے بچ سکیں۔

س: آپ سیاست میں اپنا آئیڈیل کسے مانتے ہیں؟

ج: میاں محمد نواز شریف، خان عبدالولی خان اور بے نظیر بھٹو کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہوں۔ میاں محمد نواز شریف آج بھی جمہوریت اور سیاسی اقدار کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، وہ اعلیٰ پائے کے لیڈر ہیں۔ اسی طرح خان عبدالولی خان اور بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کے لیے قربانیاں کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ دونوں ہمیشہ جمہوری اقدار کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ بلاشبہ، ان جیسے لیڈرز صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

س: مسلم لیگ نون نے ماضی میں مُلک بھر میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھایا، لیکن 2022ء میں پی ڈی ایم کے مخلوط حکومت کے بعد اس کا امیج بُری طرح متاثر ہوا؟کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ نون مُلک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے اور دوبارہ عوامی اعتماد بحال کرنے میں کام یاب ہوگی؟

ج: اگر آپ پاکستان میں حکومت سازی کی تاریخ پر نظر دوڑائیں اور خصوصاً مسلم لیگ نون کا دورِ حکومت دیکھیں، تو بدقسمتی سے ہمیں ہمیشہ انتہائی مشکل اور نا مساعد حالات ہی میں اقتدار ملا، جب کہ اندرونی اور بیرونی چیلنجز اس کے علاوہ ہیں۔ 

اس کے باوجود مسلم لیگ نون نے اپنے تجربے، کارکردگی اور سیاسی تدبّر کی بنیاد پر عوام کو مسائل سے نجات دلا کر جینے کی اُمید دی۔ 8فروری کے عام انتخابات سے قبل بھی مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت کا مشاورتی اجلاس ہوا تھا، جس میں مُلک میں شرح ترقی میں اضافے، ٹیکس اصلاحات، توانائی کے بحران کے خاتمے اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں کمی کے نکات طے کیے گئے۔ 

زراعت، صنعت، آئی ٹی کی ترقی و مراعات پر مبنی پیکیج بنایا گیا اور سالانہ بنیادوں پر روزگار کی فراہمی اور نوجوانوں کو ہُنرمند بنانے کے لیے پالیسی نکات مرتّب کیے گئے۔ 

نیز، زرعی مقاصد کے لیے خصوصی رعایت پر شمسی توانائی کی فراہمی اور گھریلو صارفین کو بجلی کی فراہمی میں بڑی مراعات کا تعین بھی اسی پیکیج میں شامل ہے۔ پھر حکومت تعلیم، صحت اور انفرااسٹرکچر کےحوالے سے بڑے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ 

 سچ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ نون نے اپنی سیاست دائو پر لگا کر عوامی مفاد میں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کیں، تب ہی سات ارب ڈالر قرض منظور ہوا۔ اور اِن شاء اللہ اب امید ہے کہ مُلکی معیشت میں جلد استحکام آجائے گا۔

س: پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بھی معاشرے کی اصلاح میں کوئی کردار ادا کررہے ہیں؟

ج: بلاشبہ، ذرائع ابلاغ ہی عوام تک اپنی بات پہنچانے کا مؤثر ذریعہ ہیں۔ تاہم، بدقسمتی سے سوشل میڈیا کو مثبت کے بجائے منفی طور پر زیادہ استعمال کیا جارہا ہے۔ اسی سبب دنیا کے کئی ممالک میں سوشل میڈیا کے اکثر ٹولز پر پابندی لگائی جاچکی ہے اور سخت قوانین بناکر نافذالعمل بھی کردئیے گئے ہیں۔ یاد رہے، پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے، جہاں کُھلم کُھلا سوشل میڈیا کا غلط اور ناجائز استعمال زور و شور سے کیا جاتا ہے، لہٰذااسے آئینی دائرے میں لانا بے حد ضروری ہے۔

دورِ حاضر میں میڈیا ہی وہ قوت ہے، جس کے ذریعے حالات کو یک سر تبدیل کیا جاسکتا ہے، تو اس طاقت کا غلط استعمال نہ صرف ملک کے حالات بلکہ معاشی ومعاشرتی نظام بھی درہم برہم کرسکتا ہے، تو اسے ہر صُورت شعور و آگہی میں اضافے ہی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

س: مطالعہ کرتے ہیں؟ اورعموماً کن موضوعات کی کتابیں زیرِمطالعہ رہتی ہیں؟

ج: جی بالکل، مجھے مطالعے کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ یہ میری عادت ہے۔ مجھے بچپن ہی سےکتابوں سے حد درجہ عقیدت رہی ہے،کتابیں جمع کرنے کا شوق، اپنے ذاتی کتب خانے کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی جستجو رکھتا ہوں، کیوں کہ میرے خیال میں ایک اچھی کتاب اپنے قاری کے لیے ایسے دوست کی حیثیت رکھتی ہے، جو اُسے تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتی، بلکہ یہ ایک ایسے ہم سفر کی مانند ہے، جو اپنے ساتھی کو دُوردراز کے علاقوں، شہروں، ممالک تک کی سیر کروادیتی ہے۔ بلاشبہ جس کو کتابوں سے وابستگی کی نعمت کا ادراک ہوجائے ،اُس کے لیے بغیر مطالعہ زندگی گزارنا دشوار ہوجاتا ہے۔

س: شاعری و موسیقی سے بھی کچھ شغف ہے؟

ج: مجھے شاعری اور موسیقی دونوں ہی سے شغف ہے۔ شاعرِ مشرق، علّامہ محمد اقبال،حبیب جالب،احمد فراز اورفیض احمد فیض کو بہت پڑھا ہے۔ اب بھی فرصت کے لمحات میں انھیں ضرور پڑھتا ہوں۔ جہاں تک موسیقی کی بات ہے، تو محمد رفیع، مہدی حسن، عابدہ پروین اور پشتو گلوکار ناشناس، سردار علی ٹکر وغیرہ کے نغمات شوق سے سنتا ہوں۔

س: بچّے کتنے ہیں اور کیا کیاکرتے ہیں؟

ج: الحمدللہ، میرے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ سب ہی زیرِتعلیم ہیں۔ بڑا بیٹا محمد اسرار نویں جماعت کا طالب علم ہے، اس سے چھوٹا محمد ابرارکلاس تھری اور سب سے چھوٹا محمد اقرار، پریپ میں ہے۔ جب کہ بڑی بیٹی بی ایس سی کررہی ہے، دوسری فرسٹ ایئرمیں ہے اور ان سے چھوٹی دو بیٹیاں اسکول میں زیرِ ِتعلیم ہیں۔ پوری کوشش ہے کہ میرے تمام بچّے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بہترین انسان، معاشرے کےکارآمد شہری بنیں۔

س: ملبوسات کیسے پسند کرتے ہیں؟ شاپنگ کہاں سے اور کون کرتا ہے؟

ج: سادگی پسند ہوں، لہٰذا سادہ ملبوسات ہی پسند ہیں۔ اور ویسے بھی لباس بس صاف اور سادہ ہونا چاہیے۔ شلوار قمیص زیادہ پسند ہے۔ گرم موسم میں عموماً ویسٹ کوٹ اور سردیوں میں کوٹ پہننا پسند کرتا ہوں۔ جہاں تک شاپنگ کی بات ہے، تو میری شاپنگ سمیت گھر اور بچّوں کے لیے تمام تر خریداری اہلیہ ہی کرتی ہیں۔

س: کھانے میں کیا پسند ہے، اور زیادہ شوق سے کیا کھاتے ہیں؟

ج: ویسے تو سب ہی کچھ کھالیتا ہوں۔ تاہم، سبزیاں اور گوشت زیادہ پسند کرتا ہوں۔

س: مستقبل کے عزائم کیا ہیں؟

ج: اللہ پاک نے جس عہدے پر متمکن فرمایا ہے، اس پر رہتے ہوئے مستقبل میں بھی اپنی بھرپور صلاحیتوں کا اظہار کروں گا۔ میری کوشش ہوگی کہ ہائوس میں چاہے کوئی حکومتی بینچز سے تعلق رکھتا ہو یا اپوزیشن سے، کسی کو میری وجہ سے کوئی تکلیف نہ ہو۔ اپنی سیاسی جماعت کے قافلے کا سپاہی ہوں، ہر مشکل اور اچھے وقت میں پارٹی قائدین کے ساتھ وفاداری نبھائی ہے۔ آئندہ بھی پارٹی قیادت جو ذمّے داریاں سونپے گی،انھیں بحسن و خوبی نبھانے کی کوشش کروں گا۔

س: قارئین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: بس یہی پیغام ہے کہ جس شعبے سے بھی آپ کا تعلق ہے، پوری دل جمعی کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیں، کبھی ہمّت نہ ہاریں، کچھ کرنے کا جذبہ ہو توایک نہ ایک روز کام یابی ضرور ملتی ہے۔ مَیں خاص طور پر نوجوانوں سے کہنا چاہوں گا کہ آپ ملک کا بہت قیمتی سرمایہ ہیں۔ اس مُلک کی تعمیر و ترقی کا انحصار آپ ہی پر ہے۔ اور یہ کس قدر افسوس کی بات ہےکہ آج کا نوجوان مختلف فتنوں کا شکار ہورہا ہے۔

آپ کو ان سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ نوجوان ہی ایک اچھے اور طاقت وَر معاشرے کے معمار بھی بن سکتے ہیں اور اسے مسمار بھی کرسکتے ہیں، معاشرے کی ذہنی نشوونما اور فکری ارتقا کا دارومدار آپ پر ہے، لہٰذا مثبت سوچ و فکر کے ساتھ مُلک و قوم کی خدمت کو اپنا نصب العین بنالیں۔

س: ایک دُعا، جو ہمیشہ ہونٹوں پر رہتی ہے؟

ج: ایک سچّے اور محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے میری ہمیشہ یہی دعا رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سرزمین پاک کی حفاظت فرمائے اور اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو نیست و نابود کردے۔