آپ روزانہ کوئی نہ کوئی بریکنگ نیوز سنتے ہیں۔ اکثر اوقات بریکنگ نیوز پہلے سے بجھے دلوں کو مزید بجھا دیتی ہے۔ بہت دنوں کے بعد مجھے ایک ایسی بریکنگ نیوز ملی جو مایوسی کے اندھیروں میں امید کی کرن بن کر چمک رہی تھی۔ یہ بریکنگ نیوز میں نے سنی نہیںبلکہ خود دیکھی اور محسوس کی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام دسویں اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول میں بڑی تعداد میں ایسے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نظر آئے جنہوں نے بہت سی کتابیں پڑھ رکھی تھیں اور وہ مزید کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کا ادب، شاعری اور تاریخ کی کتابوں کے ساتھ رشتہ کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہو رہا ہے۔ اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول میں زہرہ نگاہ اور کشور ناہید کی شاعری پر نوجوانوں کا جھوم جھوم جانا بتا رہا تھا کہ جنون صرف قائم نہیں بلکہ بغاوت کے شعلوں کی صورت میں بدستور سلگ رہا ہے اور ہوا کا ایک جھونکا ان شعلوں کو آگ بنا سکتا ہے۔ شفقت نغمی کے ناول ’’سات جنم‘‘ کی تقریب رونمائی میں اصغر ندیم سید نے جمہوریت کو بار بار قید کرنے والوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ مانا کہ تم بہت طاقتور ہو اور ہم تمہارا نام لے کر تمہاری مذمت نہیں کرسکتے فکر نہ کرو ہم تمہارے خلاف استعاروں کی بھرمار کر دیں گے۔ اس دھمکی پر پورا لٹریچر فیسٹیول تالیوں سے گونج اٹھا۔ مجاہدبریلوی کی میزبانی میں صحافتی اخلاقیات پر سیشن میں نوجوانوں کےسوالات کا نشانہ غیرعلانیہ سنسر شپ کی زنجیروں میں جکڑا میڈیا تھا جس کی ساکھ مجروح ہونے کا فائدہ سوشل میڈیا کو ہوا ہے۔تین روزہ لٹریچر فیسٹیول میں یوم اقبال پر سیشن میں پروفیسر فتح محمد ملک نے کہا کہ آج پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ جمہوری تماشا ہے اسے ہم سلطانی جمہور نہیں کہہ سکتے۔ ایک بزرگ دانشور کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کو نوجوانوں کی طرف سے جوپذیرائی ملی وہ ان تمام صاحبان اختیار کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو موجودہ جمہوری بندوبست کو علامہ اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر قرار دے کر قوم کو نہیںبلکہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اس لٹریچر فیسٹیول میں اردو زبان کے شاعروں کے ساتھ ساتھ پشتو، پنجابی اور دیگر زبانوں کے شاعروں کوبھی سر آنکھوں پر بٹھایا جارہا تھا۔ بلوچ، سندھی، سرائیکی، بلتی اور کشمیری نوجوان لسانی و صوبائی تعصبات سے بالاتر ہو کر سوچ و فکر پر پہرے بٹھانے والوں کے خلاف متحد نظر آ رہے تھے۔ برقعے میں ملبوس ایک پختون طالبہ نے مجھے کہا کہ وہ کئی سال سے میرا کالم پڑھ رہی ہے۔ طالبہ نے شکوہ کیا کہ آپ کے کچھ کالم نگار ساتھی اپنا قد بڑھانے کے لئے علامہ اقبال پر بلاوجہ تنقید کرتے ہیں۔ آپ کبھی جواب دیتے ہیں اور کبھی نہیں دیتے۔ طالبہ نے کہا کہ پچھلے دنوں آپ کے ایک ساتھی نے روزنامہ جنگ میں لکھاکہ ٹیگور کو نوبل پرائز ملا لیکن علامہ اقبال کو نہیں ملا اس لئے ٹیگور بڑا شاعر ہے۔ طالبہ نے شکایت آمیز لہجے میں پوچھا کہ آپ نے اس بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ طالبہ کے لہجے میں موجود کرب نے میری تمام توجہ سمیٹ لی۔ میں نے اس ذہین بیٹی سے کہا کہ کچھ چھوٹے لوگ اپنا قد بڑھانے کے لئے نہ صرف اقبال کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں بلکہ کچھ کم ظرف ٹیگور پر بھی بے بنیاد تنقید کرتے ہیں۔ ٹیگور اور اقبال کا موازنہ آج سے نہیں کئی دہائیوں سے ہو رہا ہے۔ کسی شاعر کی عظمت کا پیمانہ نوبل پرائز نہیں ہوتا۔ اردو، فارسی اور ہندی کے کسی بڑے شاعر کو آج تک نوبل پرائز نہیں ملا اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ان زبانوں نے کوئی عظیم شاعر پیدا نہیں کیا۔ طالبہ نے پوچھا کہ کیا رابندر ناتھ ٹیگور کو ان کی بنگالی شاعری پر نوبل پرائز نہیں ملا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ ٹیگور نے اپنی بنگالی شاعری کا انگریزی میں خود ترجمہ کیا اور انہیں اس انگریزی ترجمے پر 1913ء میں ادب کا نوبل پرائز دیا گیا۔ علامہ اقبال کے فارسی کلام کا مجموعہ ’’اسرار خودی‘‘ 1915ء میں شائع ہو ااور کیمبرج یونیورسٹی میں فارسی کے ایک استاد پروفیسر رینالڈ نکلسن نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس انگریزی ترجمے میں کم از کم 150 غلطیاں تھیں جن کی نشاندہی خود اقبال نے کی۔ نکلسن نے غلطیاں درست کرکے کتاب کا دوسرا ایڈیشن 1940ء میں شائع کیا جب اقبال وفات پا چکے تھے۔ طالبہ نے پوچھا کہ یہ تفصیل کہاں ملے گی؟ میں نے بتایا کہ ڈاکٹر سلیم اختر کی کتاب ’’اقبال.. ممدوح عالم‘‘ میں آپ کو ساری تفصیل مل جائے گی۔ اس طالبہ نے ایک معصومانہ فرمائش کی کہ آپ اپنے کسی کالم میں یہ تو ضرور لکھیں کہ ٹیگور کو نوبل پرائز کیوں ملا اور علامہ اقبال کو کیوں نہیں ملا؟۔
اس فرمائش کو سن کر مجھے چند ہفتے قبل بیروت کے علاقے الحمرا میں ایک لبنانی ادیب کے ساتھ ہونے والی گفتگو یاد آگئی۔ اس لبنانی ادیب زید عبدالفتح نے بتایا کہ وہ 1981ء میں بیروت کے کیفے یونس میں فیض احمد فیض اور ڈاکٹر اقبال احمد کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے فیض سے پوچھا کہ فلسطین کا درد آپ کو کہاں سے ملا؟ فیض نے بتایا کہ فلسطین کا درد انہیں علامہ اقبال کی شاعری سے ملا۔ اقبال فلسطین کے مسئلے پر برطانیہ کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید نہ کرتے تو انہیں نوبل پرائز ضرور ملتا۔ جو شاعر یہ کہہ دے کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے
ایسا شاعر تو دراصل نوبل پرائز کو دھتکار رہا تھا۔ یہ پرائز الفریڈ نوبل کے نام پر دیا جاتا ہے جو ڈائنا مائٹ کا موجد تھا۔ ڈائنا مائٹ (بارودی سرنگ) کے موجد کے نام پر 1901ء میں نوبل پرائز کا سلسلہ شروع ہوا۔ بھارت کی سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے 2015ء میں الزام لگایا تھا کہ ٹیگور کی نظم ’’جنا گنا منا‘‘ دراصل برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم کی مدح میں لکھی گئی تھی۔ 1911ء میں جارج پنجم ہندوستان کے دورے پر آئے تو آل انڈیا کانگریس نے ایک قرار داد کے ذریعہ انہیں خوش آمدید کہا تھا۔ ٹیگور نے 1937ء میں تردید کی تھی کہ انہوں نے جارج پنجم کی مدح سرائی نہیں کی۔ اسی قسم کے الزامات اقبال پر بھی لگائے جاتے ہیں۔ اقبال کی شاعری میںٹیپو سلطان کی تعریف کو برطانیہ دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اقبال کے کچھ برطانوی ناقدین نے الزام لگایا کہ وہ مسلمانوں کو پوری دنیا پر اسلام کا جھنڈا لہرانے کےلئے اکساتے تھے۔ ٹیگور کے خیال میں اقبال اعلیٰ انسانی قدروں کے شاعر تھے۔ ٹیگور کو نوبل پرائز ملا تو بہت اچھا ہوا۔ اقبال کو نہیں ملا۔ یہ اقبال کا نہیں ان کے حاسدین کا مسئلہ ہے۔ اوسلو میں امن مذاکرات کرنے پر یاسر عرفات اور شمعون پیریز کو امن کا نوبل انعام دے دیا گیا۔ کیا اس نوبل پرائز سے مشرق وسطیٰ میں امن آگیا؟۔ امن کے عالمی ٹھیکیداروں کی اصلیت بے نقاب ہو چکی ہے اور نوجوان یہ جان چکے ہیں کہ ان کی دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں اور فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے۔