• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کو اللّٰہ سب کچھ دے چکا تھا، اسے خود کو مشکلات میں ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن وہ اپنے لوگوں سے محبت کرتا تھا، وہ اپنے ملک سے محبت کرتا تھا اور اس عظیم مشن کیلئے اسکی جان بھی حاضر تھی۔اس کے عظیم ملک پر اغیار کا قبضہ ہو چکا تھا، یہ قبضہ واگزار کرانے کیلئے قدرت نے اسے چن لیا تھا، وہ مسیحا تھا، قوم کی آخری امید۔ وہ سیاست کرتا تھا لیکن وہ سیاست دان نہیں تھا، نہ اسے خریدا جا سکتا تھا، نہ وہ طاقتور دشمنوں کے آگے سر جھکانے کیلئے تیار تھا۔ اسکے مخالف سیاست دان کٹھ پتلیاں تھے، جو دشمنوں کے ساتھ مل کر ملک کیخلاف سازشیں کر رہے تھے۔ یہ مختصر ترین تعارف ہے امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا، ان کے اپنے الفاظ میں، جس پر امریکا کی اکثریت نے اعتبار کیا ہے اور انہیں ووٹ دیکر ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس پہنچا دیا ہے۔

ٹرمپ کے ناقدین کی رائے اس سے مختلف ہے، وہ ٹرمپ کو ایک پاپولسٹ راہ نما سمجھتے ہیں جنہوں نے جذبات، خوف اور نفرت کی بنیاد پر اپنے قصرِ سیاست کی تعمیر کی ہے۔ اس الیکشن میں ٹرمپ نے امریکا میں آباد تارکینِ وطن کو امریکا کے تمام مسائل کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے اپنے جلسوں اور تقریروں میں اس الزام کا بار بار اعادہ کیا کہ امریکا میں جرائم تارکینِ وطن کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں، ڈیموکریٹس چارٹرڈ ہوائی جہازوں میں غیر قانونی طور پر دوسرے ملکوں کی جیلوں سے مجرموں کے گینگز، اور پاگل خانوں سے فاترالعقل لوگوں کو پیسے دے کرامریکا لا رہے ہیں اور یہ افراد اپنے ہم راہ بہت بڑی مقدار میں فینٹانائل (مارفین سے سو گنا اور ہیروئن سے پچاس گنا طاقت ور مرکب) بھی لیکر آ رہے ہیں۔امریکا کا ہائوسنگ بحران بھی تارکین کی وجہ سے ہے اور بے روزگاری کے مسئلے کی جڑ بھی تارکین وطن ہیں۔ امیگرنٹس کیخلاف نفرت کی ہانڈی کو تڑکا لگانے کیلئے ٹرمپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ سپرنگ فیلڈ اوہائیو میں تارکین ِ وطن ہمارے پالتو کتے اور بلیاں بھی کھا جاتے ہیں۔حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں ان میں سے ایک بات بھی درست نہیں تھی۔

واشنگٹن پوسٹ کی تحقیق کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارت کے دوران 30,573 مرتبہ دروغ گوئی اور مبالغہ آمیزی سے کام لیا تھا، اور پھر ان کا ایسا ’جھاکا‘ کھلا کہ انہوں نے 2020ءکے صدارتی انتخاب کو فراڈ قرار دیکر اپنے حامیوں کو کیپٹل ہل پر حملہ کرنے کی کامیاب ترغیب دی تھی۔ انکے پاس اس الزام کا سرے سے کوئی ثبوت نہیں تھا مگر پچاس فی صد ریپبلکن حامیوں نے اس الزام پر اعتبار کیا تھا۔ نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے اس طرح ٹرمپ نے اپنے حامیوں کی ’خودی‘ کو تحفظ فراہم کیا تھا جنہیں یقین دلا دیا گیاکہ وہ ہارے نہیں بلکہ انہیں ہرایا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ موجودہ ذرائع ابلاغ کی ہیئت و ترکیب نے سچ تک پہنچنے کے عمل کو انتہائی پیچیدہ بنا دیا ہے، یوں بھی سچ اکثرسادہ و بے رنگ ہوا کرتا ہے، جبکہ جھوٹ سننے والوں کی خواہشات اور نفسیاتی ضروریات کے عین مطابق مینوفیکچر کیا جا تا ہے، من مرضی کے رنگ و روغن سے آراستہ۔ بہرحال اب ٹرمپ امریکا کے سینتالیسویں صدر منتخب ہو چکے ہیں اور ان کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بجا طور پر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اگلے چار سال خوب رونق لگائے رکھیں گے۔ ٹرمپ بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ وفاقی حکومت سے ہزاروں ’سیاسی‘ افسران کو نکال دیں گے، اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کیسز بنائیں گے، بندوق رکھنے کے حق کی بھرپور حمایت کریں گے، اسقاطِ حمل کے حق کو محدود کریں گےاور موسمیاتی تبدیلی کو تو وہ سرے سے مانتے ہی نہیں۔

ٹرمپ کی جیت دنیا بھر کے پاپولسٹ راہ نمائوں اور ان کے مقلدین کیلئے خوش خبری سمجھی جا رہی ہے، اس جیت سے پاپولسٹ سیاست کے مقلدین کو تقویت ملی ہے جس کی بنیاد ہی اس نظریے پر ہے کہ سچ جھوٹ، جمہوریت فاشزم، نفرت و شائستگی، اخلاقیات و بدتہذیبی،خوش سیرتی وبے راہروی، کی بحثیں راہ نما کے چنائو میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔اس پس منظر میں ٹرمپ کی جیت عمران خان کیلئے یقیناً اچھی خبر ہے۔ بہرحال پارٹی کا سارا زور بس ایک ہی نکتے پر مرکوز ہے یعنی ٹرمپ آئے گا اور ’’شاہ زادے‘‘ کو ’’جِن‘‘ کی قید سے رہائی دلائے گا۔ پی ٹی آئی کے حامی کچھ ’’انٹلیکچول‘‘ ٹرمپ کی جیت کا استقبال کرتے ہوئے چند دل چسپ دلائل بھی دیتے ہیں۔ مثلاً، مشاہد حسین سید صاحب کو سننے کا اتفاق ہوا، فرطِ انبساط میں فرما رہے تھے کہ ٹرمپ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں اس لیے ان کی جیت کی بہت خوشی ہوئی ہے۔ ہمیں مشاہد صاحب کے خیالات سن کر ان کی فکری ’دیانت‘ پر دلی مسرت ہوئی۔ ساری زندگی پاکستانی، چینی اور ایرانی اسٹیبلشمنٹ کے ہم رکاب رہنے والے اس عمر میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو چکے ہیں یہ بہ ذاتِ خود ہمارے لیے ایک خبر تھی۔آخر میں، ٹرمپ کے جیتنے کی غالباً سب سے بڑی وجہ بلقیس بانو کی زبانی سُن لیجیے۔ بانو ہماری بہنوں کی طرح ہیں، پچھلے اٹھائیس سال سے ورجینیا امریکا میں مقیم ہیں، عمران خان کی شدید ناقد ہیں، اور پچھلے دو صدارتی انتخابات میں ٹرمپ مخالف رہی ہیں ۔ امریکی صدارتی انتخابات سے ایک دن پہلے فون پر بات ہوئی تو کہنے لگیںکہ اب وہ ٹرمپ کی حامی ہیں، وجہ پوچھی تو فرمانے لگیں ’’بھائی جان، مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے، پٹرول اور گروسری کی قیمتیں کئی گُنا بڑھ چکی ہیں، گزارہ نہیں ہو رہا۔‘‘ بانو نے کچھ اور وجوہات بھی بتائیں مگر میں ٹھیک سے سن نہ سکا، دماغ میں جیمز کارول کا معروف فقرہ گونجنے لگا:

It's economy, stupid!

تازہ ترین