• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ تعالیٰ پر توکُّل یعنی مکمل بھروسا، انبیائے کرام ؑکے طریقے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے۔ قرآن وحدیث میں ’’توکُّل علیٰ اللہ‘‘ کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں سات مرتبہ’’وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْن‘‘ فرماکر مؤمنوں کو صرف اللہ تعالیٰ پر توکُّل کی تاکید کی گئی ہے، یعنی حکمِ خداوندی ہے کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو صرف اللہ ہی کی ذات پر بھروسا کرنا چاہیے۔ 

آئیے، سب سے پہلے توکُّل کے معنیٰ سمجھیں۔ ’’توکُّل‘‘ کے لفظی معنی کسی معاملے میں کسی ذات پر اعتماد کرنے کے ہیں، یعنی اپنی عاجزی کا اظہار اور دوسرے پر اعتماد اور بھروسا کرنا، توکُّل کہلاتا ہے۔

شرعی اصطلاح میں توکُّل کے معنیٰ و مفہوم

اس یقین کے ساتھ اسباب اختیار کرنا کہ دنیاوی واخروی تمام معاملات میں نفع ونقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اُس کے حکم کے بغیر کوئی پتّا بھی درخت سے نہیں گرسکتا۔ ہر چھوٹی، بڑی چیز اپنے وجود اور بقا کے لیے اللہ کی محتاج ہے۔ مطلب خالقِ کائنات کی ذات پر مکمل اعتماد کرکے دنیاوی اسباب اختیار کرنا ’’توکُّل عَلَی اللہ‘‘ ہے۔ 

اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اُسے مرض سے شفایابی کے لیے دوا کا استعمال تو کرنا ہے، لیکن اس یقین کے ساتھ کہ جب تک اللہ تعالیٰ نہیں چاہے گا، دوا اثر نہیں کرسکتی۔ یعنی دنیاوی اسباب اختیار کرنا توکُّل کے خلاف نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ بندہ دنیاوی اسباب اختیار کرکے، کام کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسا کرے۔ بس، یہ یقین رکھے کہ جب تک حکمِ خداوندی نہیں ہوگا، اسباب اختیار کرنے کے باوجود کام یابی و کام رانی ممکن نہیں۔ 

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا۔ ’’کیا اونٹنی کو باندھ کر توکُّل کروں یا بغیر باندھے؟‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’پہلے اسے باندھو اور پھراللہ پر بھروسا کرو۔‘‘ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ)۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓفرماتے ہیں کہ اہلِ یمن بغیر سازوسامان کے فریضہ حج ادا کرنے آتے اور کہتے کہ ہم اللہ پر توکُّل کرتے ہیں، اور پھر جب مکّہ مکرّمہ پہنچتے تو لوگوں سے سوال کرنا شروع کردیتے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیت (سورۃ البقرہ 197) نازل فرمائی۔ ’’حج کے سفر میں زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)۔

جو بھی اسباب مہیّا ہوں، انہیں اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے کہ فائدہ دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے جب اپنی طویل بیماری کے بعد اللہ تعالیٰ سے شفایابی کے لیے دُعا فرمائی، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنے پیر کو زمین پر ماریں۔ 

اب غور کرنے کی بات ہے کہ کیا ایک شخص کا زمین پر پیر مارنا، اُس کی بیسیوں سال کی بیماری سے شفایابی کا ذریعہ یا اس کا علاج ہے؟ لیکن انہوں نے اللہ کے حکم سے یہ سبب اختیار کیا، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اُن کے زمین پر پیر مارنے سے پانی کا ایسا چشمہ جاری کردیا، جس سے غسل کرنے پر حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم کی بیسیوں برس کی متعدد بیماریاں ختم ہوگئیں۔ (حضرت ایوب علیہ السلام کے اس واقعے کی تفصیلات کے لیے ’’سورۃ الانبیاء‘‘ آیت 83 ، 84 اور ’’سورۂ ص‘‘ آیت41 سے 44 کی تفسیر کا مطالعہ کریں)۔ 

حضرت ایوب علیہ السلام کے اس واقعے سے ہمیں متعدد اسباق بھی ملتے ہیں۔ دو اہم میں سے پہلا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادے سے بھی حضرت ایوب علیہ السلام کو شفا دے سکتا تھا، مگر دنیا کے دارالاسباب ہونے کی وجہ سے حضرت ایوب علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ کچھ حرکت کریں، یعنی کم از کم اپنے پیر کو زمین پر ماریں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ جو بھی اسباب مہیّا ہوں، انہیں اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکم سے کم تر اسباب کے باوجود کسی بڑی سے بڑی چیز کا بھی وجود ہوسکتا ہے۔

حضرت مریم علیہا السلام نے جب اللہ کے حکم سے بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جَنا، تو اُن کے لیے حکمِ خداوندی ہوا کہ کھجور کے تَنے کو ہلائیں، یعنی حرکت دیں۔ اُس سے جب پکی ہوئی تازہ کھجوریں جھڑیں، تو انہیں کھائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے حضرت مریم علیہا السلام کو بغیر کسی سبب بھی کھجور کِھلا سکتے تھے، لیکن دنیا کے دارالاسباب ہونے کی وجہ سے حکم ہوا کہ کھجور کے تَنے کو اپنی طرف ہلاؤ۔ 

چناں چہ حضرت مریم علیہا السلام نے حکمِ خداوندی کی تعمیل میں کھجور کے تَنے کو حرکت دی۔ کھجور کا تَنا اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ چند طاقت وَر حضرات بھی آسانی سے نہیں ہلاسکتے، لیکن صنفِ نازک نے اس کم زور سبب کو اختیار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے سوکھے ہوئے کھجور کے درخت سے حضرت مریم علیہا السلام کے لیے تازہ کھجوریں، یعنی غذا کا انتظام کردیا۔

اس واقعے سے معلوم ہوا کہ جو بھی اسباب مہیّا ہوں، اللہ پر توکُّل کرکے اُنہیں اختیار کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ اسباب تو ہمیں اختیار کرنے چاہئیں، لیکن کامل بھروسا اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے کہ وہ اسباب کے بغیر بھی چیز کو وجود میں لاسکتا ہے اور اسباب کی موجودگی کے باوجود اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آسکتی۔ 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالا گیا، جلانے کے سارے اسباب موجود تھے، مگر حکمِ خداوندی ہوا کہ آگ حضرت ابراہیمؑ کے لیے سلامتی بن جائے، تو آگ نے انہیں ذرّہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچا،بلکہ وہ آگ جو دوسروں کو جلادیتی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے راحت اور سلامتی کا سبب بن گئی۔ 

اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر طاقت کے ساتھ تیز چھری چلائی گئی، مگر چُھری بھی کاٹنے میں اللہ کے حکم کی محتاج ہوتی ہے، اللہ نے اُس چُھری کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن کو نہ کاٹنے کا حکم دے دیا تھا، لہٰذا کاٹنے کے اسباب کی موجودگی کے باوجود چُھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن نہیں کاٹ سکی۔

اسباب وذرائع و وسائل کا استعمال، منشائے شریعت اور حکمِ الٰہی ہے۔حضور اکرم ﷺ نے اسباب و وسائل نہ صرف اختیار فرمائے بلکہ اختیار فرمانے کا حکم بھی دیا۔ خواہ جنگ ہو یا کاروبار۔ ہر کام میں حسبِ استطاعت اسباب اختیار کرنا ضروری ہے، لہٰذا جائز وحلال طریقے پر اسباب ووسائل اختیار کرنا، پھر اللہ کی ذات پر کامل یقین رکھنا ہی ’’توکُّل عَلَی اللہ‘‘ کی رُوح ہے۔ 

اگر توکُّل عَلَی اللہ کا مطلب یہ ہوتا کہ صرف اللہ کی مدد ونصرت پر یقین کرکے بیٹھ جائیں، تو سب سے پہلے قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اس پر عمل کرتے، حالاں کہ آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا، اور نہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم دیا، بلکہ دشمنوں کے مقابلے کے لیے پوری تیاری کرنے کی تاکید فرمائی۔

جیسا کہ عرض کیا گیا کہ قرآنِ کریم میں اللہ پر توکُّل یعنی بھروسا کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے، تو اختصار کے مدِّنظر یہاں صرف چند آیات کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔ ’’تم اُس ذات پر بھروسا کرو، جو زندہ ہے، جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘ (سورۃ الفرقان،آیت نمبر58)۔ ’’جب تم کسی کام کا عزم کرلو، تو اللہ پر بھروسا کرو۔‘‘ (سورۂ آلِ عمران، آیت نمبر159)۔ ’’جو اللہ پر بھروسا کرتا ہے،اللہ اُس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔‘‘ (سورۃ الطلاق، آیت نمبر3) ’’بے شک، ایمان والے وہی ہیں، جب اُن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے، تو اُن کے دل نرم پڑجاتے ہیں، اور جب اُن پر اُس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے، تو وہ آیات اُن کے ایمان میں اضافہ کردیتی ہیں اور وہ اپنے ربّ ہی پر بھروسا کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الانفال، آیت نمبر3)۔حضور اکرم ﷺ نے بھی متعدد مرتبہ اللہ پر توکُّل کی تعلیم دی ۔ 

حضرت عمر ؓفرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’اگر تم اللہ پر توکُّل کرتے، جیسے توکُّل کا حق ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس طرح رزق عنایت فرماتا، جیسا کہ پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح سویرے خالی پیٹ نکلتے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)۔ مشاہدہ ہے کہ پرندوں کو بھی رزق حاصل کرنے کے لیے اپنے گھونسلوں سے نکلنا پڑتا ہے، لیکن رزق دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔

اُحد کی جنگ سے جب کفارِ مکّہ واپس چلے گئے، تو راستے میں انہیں پچھتاوا ہوا کہ ہم جنگ میں غالب آجانے کے باوجود خواہ مخواہ واپس آگئے، اگر ہم کچھ اور زور لگاتے، تو تمام مسلمانوں کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔ اس خیال کے سبب انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا۔ 

دوسری طرف حضور اکرم ﷺ نے اُن کے ارادے سے باخبر ہوکر اُحد کے نقصانات کی تلافی کے لیے جنگِ اُحد کے اگلے دن صبح سویرے صحابہ ؓمیں یہ اعلان فرمایا کہ ’’ہم دشمن کے تعاقب میں جائیں گے، اور جو لوگ جنگِ اُحد میں شریک تھے، صرف وہ ہمارے ساتھ چلیں۔‘‘ صحابۂ کرامؓ جنگ کی وجہ سے زخمی اور بہت زیادہ تھکے ہوئے تھے، لیکن انہوں نے آپﷺ کی دعوت پر لبیک کہا۔ 

حضور اکرم ﷺ صحابہؓ کے ساتھ مدینہ منورہ سے حمراء الاسد کے مقام پر پہنچے، تو قبیلہ خزاعہ کے ایک شخص نے مسلمانوں کے حوصلے کا خود مشاہدہ کیا۔ بعد میں اس شخص کی ملاقات کفارِ مکّہ کے سردار ابوسفیان سے ہوئی، تو اس نے مسلمانوں کے حوصلے کے متعلق بتایا اور مکّہ مکرمہ واپس جانے کا مشورہ دیا۔ 

اس سے کفار پر رُعب طاری ہوا اور وہ واپس مکّہ مکرمہ چلے گئے، مگر ابوسفیان نے ایک شخص کے ذریعے مسلمانوں کے لشکرمیں یہ خبر (جھوٹی) پہنچادی کہ ابوسفیان بہت بڑا لشکر جمع کرچُکا ہے اور وہ مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے لیے اُن پر حملہ کرنے والا ہے۔ اس پر صحابۂ کرامؓ ڈرنے کے بجائے، بول اٹھے۔’’حَسبُنَا اللہُ وَنِعمَ الوَکِیل‘‘ہمارے لیے اللہ کافی ہے، اور وہ بہترین کارساز ہے۔ (سورۂ آل عمران، آیت نمبر173) یہی توکُّل ہے۔

حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک غزوے میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ تھے۔ جب ہم ایک گھنے سایہ دار درخت کے پاس آئے، تو اُس درخت کو ہم نے رسول اللہ ﷺ کے لیے چھوڑ دیا۔ مشرکین میں سے ایک شخص آیا اور حضور اکرم ﷺ کی درخت سے لٹکی ہوئی تلوار اُتار لی اور سونت کر کہنے لگا۔ ’’کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’نہیں۔‘‘ اُس نے کہا کہ ’’تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘ آپ ﷺ نے کہا۔ ’’اللہ۔‘‘ یہ سنتے ہی اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی۔ 

آپ ﷺ نے وہ تلوار پکڑ کر فرمایا۔ ’’اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘ بعدازاں آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’کیا تُو لا الہٰ الاّ اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیتا ہے؟‘‘ اُس نے کہا۔ ’’نہیں، لیکن میں آپ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ نہ مَیں آپ سے لڑوں گا اور نہ مَیں اُن لوگوں کا ساتھ دوں گا، جو آپ سے لڑتے ہیں۔‘‘ آپ ﷺ نے اُس کا راستہ چھوڑ دیا۔ 

وہ شخص اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہنے لگا۔ ’’میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں، جو لوگوں میں سب سے بہتر ہے۔‘‘ (مسند احمد، یہ واقعہ الفاظ کے فرق کے ساتھ بخاری ومسلم میں بھی موجود ہے)۔ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے مشرکین کے قدم دیکھے، جب کہ ہم غارِ (ثور) میں تھے۔ وہ ہمارے سروں کے اوپر کھڑے تھے۔ 

میں نے کہا، اے اللہ کے رسولﷺ! اگر اُن میں سے کوئی اپنے قدموں کی نچلی جانب دیکھے، تو وہ ہمیں دیکھ لے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اے ابوبکرؓ! تیرا ان دو کے متعلق کیا گمان ہے کہ اللہ جن کا تیسرا ہے۔‘‘ (بخاری ومسلم)۔

توکُّل عَلیَ اللہ کے حصول کے لیے ایک دُعا

حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جو شخص گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھے:’’بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘میں اللہ کا نام لے کر گھر سے نکلتا ہوں اور اللہ پر بھروسا کرتا ہوں، اور نہ کسی بھی کام کی قدرت میسّر آسکتی ہے، نہ قوت، مگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے‘‘ تو اُسے کہہ دیا جاتا ہے، تُو نے ہدایت پائی، تیری کفالت کردی گئی، تجھے ہر شر سے محفوظ کردیا گیا اور شیطان اس سے دُور ہٹ جاتاہے۔‘‘ (سنن ابوداؤد، ترمذی)۔