محمد یاسین شیخ
اللہ تعالیٰ نے جب انسانِ اوّل حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمایا، تو اللہ کی معصوم، عبادت گزار مخلوق، فرشتوں نے شکوہ ظاہر کیا، جس کا ذکر قرآنِ مبین میں کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے آیتِ مبارکہ کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ’’جب اللہ نے فرمایا کہ مَیں روئے زمین پر اپنا خلیفہ پیدا کر رہا ہوں۔‘‘ تو فرشتوں نے کہا کہ ’’کیا آپ اُسے بنا رہے ہیں، جو دنیا میں فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا؟‘‘ جواب میں اللہ پاک نے صرف ایک جملہ فرمایا کہ ’’جو میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔‘‘(سورۃ البقرہ)۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مختلف چیزوں کا علم عطا کیا اور اُن کے علم کے ذریعے فرشتوں کے اس تردّد کو دُور فرمایا، جو انہیں پیدا ہوا تھا۔ پھر اسی انسان کو فرشتوں سے سجدہ بھی کروایا، جنہیں وہ پہلے باعثِ فساد سمجھ رہے تھے۔ جس کا ذکر اگلی پانچ آیات میں موجود ہے۔
دوسری جانب قرآنِ پاک کی ابتدائی اور ہر نماز میں پڑھی جانے والی سورت، ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ کو اللہ نے ’’اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ‘‘ سے شروع فرمایا، اور خود کوتمام جہاں کا ربّ یعنی پالنے والا اور تربیت کرنے والا بتایا۔ ان دونوں باتوں سے اُن دو چیزوں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے، جو انسان کو ہر فساد سے بچائے،اللہ کے قریب لائے، برگزیدہ ہستیوں میں تذکرے کاسبب اور دنیاو آخرت میں کام یابی کا ذریعہ بنے۔ وہ دو باتیں ’’تعلیم اور تربیت‘‘ہیں۔
فرشتوں کے شکوے کو اللہ تعالیٰ نے علم کے ذریعے دُور فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو وہ امور سکھائے، جو فرشتوں کے علم میں بھی نہیں تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر ’’ربّ‘‘ کے لفظ سے فرمایا ہے۔ زندگی میں تربیت کی کتنی اہمیت ہے، یہ بات اسی سے سمجھ آجاتی ہے۔ خود اللہ تعالیٰ اپنی طرف اس کی نسبت کر رہا ہے، تو معلوم یہ ہوا کہ تعلیم و تربیت انسان کے لیے نہایت ضروری ہے، جس کے ذریعے وہ دنیا میں اپنے آنے کا مقصد بطریقِ احسن پورا کرسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے دنیا میں آنے کا مقصد اپنی عبادت بتایا ہے، مگر ایک انسان کے سامنے جب یہ آیت ’’وَمَا خَلَقتُ الجِنَّ وَالاِنسَ اِلَّا لِیَعبُدُون۔‘‘(سورۃ الذاریات، آیت نمبر 56) آتی ہے، تووہ شش وپنج میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے کہ عبادت کیا ہے؟ عبادت کسے کہتے ہیں، یہ کیسے، کب کرنی ہے؟دوسری طرف تعلیم و تربیت بھی اتنی اہم ہے کہ وہ اس مقصد کی تکمیل کا جزو لازم ہے، تو علم کیسے حاصل ہو اور تربیت کون کرے؟
ذہنوں میں گردش کرتے ان تمام سوالات کا جواب اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آیت میں دےدیا اور فرمایا۔ ترجمہ:’’بلاشبہ، تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب، آیت 21)اللہ پاک نے اس آیتِ مبارکہ کے ذریعے واضح فرمادیا کہ انسان اپنا مقصدِ حیات کیسے پورا کرے۔ یہ بھی بتادیا کہ علم کس کے ذریعے حاصل ہوگا اور یہ بھی کہ انسان کی تربیت کو ن کرے اور تربیت کا معیار کیا ہو۔
آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح انسان درندگی اور کم عقلی میں جانوروں سے بھی تجاوز کیے ہوئے تھا۔ معمولی معمولی باتوں پر سالہا سال خوں ریزی کا بازار گرم رہتا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے رحمت بنایا، اس صنفِ نازک یعنی بیٹیوں کو منحوس سمجھ کر زندہ درگور کردیا جاتا۔ غلاموں اور باندیوں کے ساتھ ظالمانہ رویّہ برتا جاتا۔ ہر مال دار اپنے سے کم تر کو اپنے جوتے کی خاک سمجھتا۔ جھوٹ، غیبت، تکبّر، چوری، زنااور شراب نوشی جیسے بڑے بڑے گناہوں کا بے جھجک ارتکاب باعثِ فخر سمجھا جاتا۔
دھوکے، فریب کاری میں لطف محسوس کیا جاتا۔ جہالت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انسان دنیا میں رہنے کے اصولوں ہی سے اَن جان ہوگیا تھا، چہ جائیکہ مقصدِ حیات پورا کرتا۔ مگر جس طرح اندھیرا خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، اُجالا پَل بھر میں اُس کا خاتمہ کردیتا ہے، اسی طرح جہالت کے اندھیرے کے بھی خاتمے کا وقت آچکا تھا، جب اللہ نے اُس عظیم ہستی کو وجود بخشا، جن کے لیے کائنات تخلیق کی گئی۔ ہر نبی، ہر قوم کو جن کی نوید سُنائی گئی، جن کی امّت میں شامل ہونے کی خواہش انبیاء نے کی۔
جو سب کے سردار بنائے گئے، جنھیں اللہ نے اپنا حبیب بنایا اور جن کے ذریعے نبوت کے سلسلے کو مکمل فرمایا۔ وہ عظیم، برگزیدہ ہستی امام الانبیاء، حبیبِ کبریاء، امام المتّقین، شافع المذنبین، خاتم النبیین و المرسلین، سیّد الاوّلین والآخرین، محبوبِ دو جہاں، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺہیں۔ جنابِ رسول اللہﷺ وہ مقرب ومحبوب شخصیت ہیں، جو خالقِ کائنات کو سب سے زیادہ عزیز ہیں۔
آپؐ کی آمد سے پہلے ہر دَور میں اللہ نے اپنے حبیبﷺ کا ذکر کیا۔ اللہ کے ساتھ اپنے حبیبﷺ کی محبت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ دیگر انبیاء پر مختلف کتب اور صحیفے نازل کیے گئے، مگر رسول اللہ ﷺپر اپنا کلام، قرآنِ مجید نازل کیا، پھر صرف یہی نہیں، بلکہ قرآنِ پاک میں آپ کا ذکر ایسے پیارے انداز سے فرمایا، جس سے اللہ کی اپنے حبیبﷺ سے بے مثال محبت خوب واضح ہوتی ہے۔
اسی بات کی طرف اس روایت میں بھی اشارہ ہے کہ جب کسی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آپﷺ کے اخلاق کے متعلق پوچھا، تو امّی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’کان خلقہ القرآن۔‘‘ (مسندِاحمد، حدیث نمبر 25813) قرآنِ مجید ہی آپﷺ کے اخلاق ہیں، یعنی آپﷺ کے اخلاق اگر معلوم کرنے ہیں، تو قرآن پڑھ لیا جائے، کیوں کہ قرآن مجید آپﷺ کے اخلاق کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ اب جب اللہ نے اپنے حبیبﷺ کو ہر محبوب خوبی سے نوازا، تو ان دو خوبیوں کو کیسے چھوڑ دیتا، جو انسان کی کام یابی کے لیے ضروری ہیں، جب ہر خوبی آپ میں بدرجہ اتم موجود ہے، تو تعلیم و تربیت کا ملکہ بھی کامل طور پر آپ ؐ میں پایا جاتا ہے۔
نبی کریمﷺ، بہ حیثیت معلّم
انسان اپنے علم ہی کے ذریعے حیوانات سے ممتاز ہے۔ علم انسان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ ، اچھے بُرے کی تمیز سکھاتا ہے۔ یہ اللہ کی وہ بیش بہا نعمت ہے، جو ہر شعبے میں ترقی کاسبب بنتی ہے۔ ویسے تو کسی بھی چیز کا جان لینا، خواہ اُس کا تعلق کسی بھی موضوع سے ہو، علم کہلاتا ہے، مگر اللہ کے نزدیک اور شریعت میں علم سے مراد ’’علمِ دین‘‘ ہے، جس میں عقائد، احکامات، تاریخ ، سزا و جزا اور ان جیسی باتوں کا علم شامل ہے۔
جب کہ اللہ عزو جل نے علم کی نسبت مکمل طور پر اپنی طرف کی ہے کہ اللہ سب کچھ جاننے والا ہے، خواہ وہ کسی بھی چیز کا علم ہو، پھر اللہ نے اپنے علم میں سے ہر نبی کو علم دیا، جو انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو سکھایا، جب کہ آخر میں یہ علمی وراثت تاج دارِ دوجہاںﷺ کو ملی۔ یہ بات مسلّم ہے کہ اللہ نے اپنے بعد سب سے زیادہ علم اگر کسی کو دیا، تو وہ پیارے آقاﷺ ہیں اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ انبیاء دنیا میں اللہ کے نمائندے اور قاصد ہوتے ہیں، جس کا ذکر گزشتہ آیات میں بھی آیا کہ اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا خلیفہ کہا، اور یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت محمدﷺ تمام انبیاء کے سردار اور اللہ کو سب سے زیادہ عزیز ہیں، تو ان تینوں باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کی طرف سے سب سے زیادہ عِلم سکھانے والے بھی ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ ہیں۔
اسی بات کی طرف قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اشارہ ہے، جن سے یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ جنابِ رسول اللہﷺ تمام معلمین کے سردار ہیں، کیوں کہ نبی کریمﷺ آخری نبی ہیں اور قیامت تک ان ہی کی شریعت، راہِ ہدایت ہے، تو قیامت تک آنے والے آخری فرد کے لیے بھی بالواسطہ معلّم نبی کریمﷺ ہی ہیں۔
خود رسول اللہﷺ نے بھی اپنے معلّم ہونے کی تصریح فرمائی ہے، چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ۔ ’’ایک دن نبی کریمﷺ اپنے حجرے سے تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے، وہاں دو حلقے لگے ہوئے تھے، ان میں سے ایک حلقہ تو وہ تھا، جس میں صحابۂ کرامؓ قرآنِ پاک کی تلاوت کررہے تھے اور اللہ سے دُعا مانگنے میں مشغول تھے، جب کہ دوسرا حلقہ وہ تھا، جس میں صحابہؓ سیکھنے سکھانے کے عمل میں مصروف تھے۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا، سب کے سب خیر پر ہیں، یہ (پہلے حلقے والے) قرآنِ مجید کی تلاوت اور اللہ سے دُعا مانگنے میں مشغول ہیں، چاہے اللہ دے دے، چاہے نہ دے، اور یہ (دوسرے حلقے والے) سیکھنے سکھانے میں مصروف ہیں اور مجھے تو معلّم ہی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ پس، آپﷺ اسی (دوسرے حلقے) میں بیٹھ گئے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، باب فضل العلماء والحثّ الی طلب العلم، جلد نمبر1، صفحہ 83، بحوالہ الرسول المعلّم واسالیبیہ فی التعلیم)
کسی بھی معلّم کی قابلیت کا اندازہ اُس کی تعلیمات اور شاگردوں کی قابلیت سے لگایا جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ کے اوّل مخاطب طلبہ، صحابہ کرامؓ تھے، اسلام لانے سے قبل جو لوگ بُرائی کرنے میں ذرا سی شرم بھی محسوس نہیں کرتے تھے، اسلام لانے کے بعد اچھائی میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگے، قبل از اسلام جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، وہی اسلام کے بعد ایک دوسرے کے جاں نثار ہوگئے، اور یہ علم ہی کی بدولت ممکن ہوا۔
اُن کی زندگیوں میں یک دَم مثبت تبدیلیاں، دینِ اسلام کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنا، دنیا کے کونے کونے میں جاکر اسلام کی دعوت عام کرنا، اخلاق کا ایسا منہ بولتا ثبوت دینا کہ جس کے ذریعے معاشرے کا نظام اللہ کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق ہوجائے اور اللہ کی محبت میں خود کو مٹادینا، معلّمِ کاملﷺ کی دی گئی تعلیمات اور خود رسول اللہﷺ کے سب سے بہترین معلّم ہونے کی دلالت کرتا ہے۔
حضرت معاویہ بن حکم السُلَمیؓ فرماتے ہیں۔ ’’مَیں رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ اسی دوران، جب ایک آدمی نے چھینک ماری، تو میں نے جواب میں’’یَرْحَمُکَ اللہَ‘‘ کہا، پس، تمام لوگ مجھے ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ مَیں نے کہا۔ ’’میری ماں مجھے گُم کردے، تم لوگ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘ پس وہ لوگ اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں پر مارنے لگے، جب مَیں نے یہ دیکھا کہ سب مجھے چُپ کروارہے ہیں، تو مَیں خاموش ہوگیا۔ جب رسول اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے، تو مجھے بلایا۔
میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں کہ مَیں نے آج تک، اُس سے پہلے، نہ اس کے بعد ایسا معلّم نہیں دیکھا، جو اتنے عمدہ انداز سے تعلیم دے، اللہ کی قسم، نہ آپؐ نے مجھے جھڑکا، نہ مارا، نہ ہی بُرا کہا، بلکہ آپﷺ نے فرمایا۔ ’’نماز میں باتیں کرنے کی گنجائش نہیں، نماز میں تو تسبیح، تکبیر اور قرآن پڑھا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، باب تحریم الکلام فی الصلوٰۃ،جلد نمبر5، صفحہ 20، بحوالہ الرسول المعلّم )۔اس ایک روایت سے نبی کریمﷺ کی صفتِ معلّم اتنی واضح ہوتی ہے کہ اس کے تقابل میں مثال لانا ناممکن ہے۔ ایک ایسا معلّم جو بغیر جھاڑے،بغیر مارے، بغیر کچھ بُرا کہے، ایسی تعلیم دےدے کہ لوگ خود تو خود، اپنے ماں باپ تک کوبھی قربان کرجائیں، وہ معلّم نبی کریمﷺ کے علاوہ کوئی اور ہوا ہی نہیں، نہ ہوسکتا ہے۔
نبی کریمﷺ، بہ حیثیت مربّی
’’تربیت‘‘ دراصل تعلیم ہی کے عملی جامے کا نام ہے۔ اللہ کے احکام اوررسول اللہﷺ کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں عملاً لانا تربیت کہلاتا ہے۔ پھر تربیت کے لیے تمام علوم پر عبور شرط نہیں، بس ضروریاتِ دین کا جان لینا کافی ہے۔ اگرچہ تربیت یافتہ ہونے کے ساتھ تعلیم یافتہ ہونا احسن ہے، مگر کتنے ہی ایسے لوگ تاریخ میں ملتے ہیں کہ علمی دنیا میں ان کا کوئی مقام نہ تھا، مگر ان کی تربیت اس انداز سے ہوئی کہ بڑے بڑے اہلِ علم اپنا ہاتھ ان مربّیوں کے ہاتھ میں دے دیتے۔ جہاں تربیت اتنی اہم ہو کہ اللہ خود کو ربّ کے لفظ سے پُکارے، تو اس اہم خصوصیت کو بھی کامل طور پر اللہ نے اپنے پیارے حبیبﷺ میں رکھا، جو تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی تربیت فرماتے کہ ناخواندہ صحابہؓ بھی پڑھے لکھے لوگوں کے پیشوابن جاتے۔
ذخیرئہ احادیث میں نبی کریمﷺ کی صفت مربّی ہونے کا تذکرہ بہ کثرت موجود ہے۔ دعوت و تبلیغ ہو یا میدانِ کارزار ، اہلِ خانہ سے معاملہ ہو یاعامۃ النّاس سے، مخاطب مسلمان ہوں یا کافر، ہر ایک شعبے میں آپﷺ نے مثالی تربیت فرمائی، چناں چہ حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں۔ ’’ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کیا، تو لوگ اس کی طرف لپکے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسے کرنے دو، پھر آپ نے پانی کا برتن منگوایا اور اس پر بہادیا۔‘‘(سنن ابنِ ماجہ،528، تحقیق شعیب ارنؤوط)۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت ہے ۔’’ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہوا، آپﷺ تشریف فرماتھے، اس نے یوں دُعا کی کہ اے اللہ!میری اور محمدﷺ کی مغفرت فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور کی مغفرت نہ کرنا، تو آپﷺ ہنسنے لگے، اور فرمایا۔ تو نے تو وسیع چیز کو تنگ کردیا، پھر وہ اٹھ کر جانے لگا، یہاں تک مسجد کے ایک کونے پر پہنچا تو پیشاب کرنے لگا، اپنی غلطی جان لینے کے بعد کہنے لگا کہ رسول اللہﷺ میری جانب اٹھے، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، نہ مجھے انہوں نے ڈانٹا، نہ بُرا بھلا کہا، پس فرمایا- مسجد میں پیشاب نہیں کیا جاتا، اسے تو اللہ کے ذکر اور نماز کے لیے بنایا گیا ہے۔ پھر آپ نے پانی کا ڈول لانے کا حکم دیا اور پیشاب پر پانی بہا دیا گیا۔‘‘ (ایضاً، حدیث 529)۔
ایک اور روایت میں اس طرح کے الفاظ منقول ہیں۔’’رسول اللہﷺ نے مخاطبین سے یہ فرمایا کہ بےشک تم آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، نہ کہ مشکلات پیدا کرنے والے، اور اُن سے فرمایا کہ پانی کا ڈول بہادو۔‘‘ (مسندِ احمد،جلد7، صفحہ90، تحقیق احمد محمد شاکر، قاہرہ)۔ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کتنا ہی سنگین معاملہ کیوں نہ ہو، ہمارے نبیﷺ نے تربیت کا وہ سنہرا انداز اپنایا کہ آپ کا اسوئہ حسنہ رہتی دنیا تک کے لیے مثال اور سبق آموز ہوگیا۔
آپﷺ کی مبارک سیرت کا اگر مطالعہ کیا جائے، تو یہ کہنا بالکل بھی غلط نہ ہوگا کہ آپﷺ کی سیرتِ مبارکہ در حقیقت آپ کے تربیتی وصف ہی کی ترجمانی کرتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق آپﷺ نے تربیت کے رہنما اصول بیان فرمائے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپﷺ ہی تمام لوگوں کے لیے بہترین نمونۂ عمل ہیں، جو آپ کے اصولوں سے انحراف کر کے اپنا طرز اختیار کرے، تو وہ بندہ اللہ کو بھی قبول نہیں۔
خلاصۂ بحث یہ ہے کہ آپﷺ وہ معلّم و مربّی ہیں کہ آپ کا ثانی کوئی نہیں، آپﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے اس پہلو پر عمل کرلیا جائے، تو فی زمانہ تعلیم و تربیت کے مسائل حل ہوجائیں اور استاد، شاگرد کے درمیان جو اجنبیت محسوس کی جارہی ہے، وہ بھی ختم ہوجائے۔ اللہ ہمیں اپنے حبیب ﷺ کی کامل اتباع کی توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین)