• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے مقتد ریاستی اداروں میں مسلسل پائے جانیوالے بڑے بگاڑ کے 7عشروں بعد اسٹیٹس کو اب انتہا کو پہنچ کر قریب اختتام ہے؟ گزشہ اڑھائی تین سال سے یہ سوال شدت اختیار کرکے ملکی پرآشوب حالات حاضرہ پر موجود اور بنتے سوالات میں سب سے نمایاں ہو گیا ہے۔ اب یہ آسان بیانیوں میں ٹرانسلیٹ ہو کر عوام الناس کیلئے مکمل قابل فہم ہوگیا ہے۔ گزشتہ روز اسیر اڈیالہ کی اپیل پر اسلام آباد کے ڈی چوک پر احتجاجی دھرنا جمانے کیلئے انسداد احتجاج کی علمبردار شہباز حکومت اور پی ٹی آئی کے احتجاجی کارکنوں اور حامی شہریوں کے مجموعی رویے کا اندازہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی رپورٹس کی ڈلیوری میں ممکنہ رکاوٹوں کے باوجود ہوگیا۔ مین اسٹریم میڈیا پر مرضی کی اور کم تر کوریج کے باوجود واضح ہوگیا کہ انسداد احتجاج کی سخت حکومتی پالیسی اور فیصلوں کی ہوگئی بڑی انتظامی شکست نے آشکار کر دیا کہ نظام بد کی شکست و ریخت تیز تر ہوگئی ہے۔ جی ہاں حکومت کی انتظامی شکست مکمل واضح جیسا کہ چیلنجنگ احتجاجی پروگرام کے آغاز سے پہلے عالم بوکھلاہٹ میں پنجاب میں دو ہزار کارکنوں اور سرگرم حامیوں کی گرفتاری قبل از’’جرم‘‘ سے احتجاجی پروگرام کے اعلان کو اہم ترین بنا کر اس (احتجاج) کے ٹیمپو کا گراف غیرمعمولی حد تک بڑھا دیا۔ دوران گرفتاری بعض کارکنوں کے بقول انکی سوشل میڈیا پر آئی خبروں اور متاثرین کے اپنے بیان کے مطابق انکے گھروں میں گھس کر گرفتاریاں ہی نہیں ہوئیں بلکہ اندرون خانہ توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ اگر ایسے چند واقعات بھی ہوئے ہیں تو اس سے حکومتی فسطائی ذہنیت اور رویے کا پیغام تو ملک اور پاکستانی ڈائیس پورہ میں عام ہوا۔ گلی محلوں گھروں و بازاروں میں انسداد احتجاج کے بے مثال اور غیر منطقی انتظامات نے عوام کے اذہان اور باہمی گفتگو میں ایک سیاسی ہلچل مچا دی جسے ریڈ کرنے کی صلاحیت سے عاری حکومتی مشنری اپنی دھن میں بڑے فخر سے لگی رہی۔ پی ڈی ایم کے وفاقی و صوبائی وزراء اطلاعات پی ٹی آئی کے احتجاجی پروگرام پر تبرے پر تبرے کیلئے آراستہ کئی روز سے جو پریس کانفرنسیں اور بیان بازی تواتر سے کر رہے ہیں اس سے شائد انکے اپنے کیمپ کے حامی کم ترفیصد کے شہریوں کی تسلی و تشفی ہو جاتی پیپلز ایٹ لارج ان پھلجھڑیوں سے سخت بیزار ہیں کہ ان کی اپنی حالات کے تجزیے کی صلاحیت بہت بڑھ چکی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خان اعظم کی تمام مقدمات سے تقریباً مکمل ہوگئی رہائی کے بعد یہ تو گنجائش تھی کہ کچھ اور حیلوں بہانوں سے مذاکرات کا حقیقی ڈول ڈال کر انہیں ایک دو ہفتے جیل میں اور رکھ لیتے اس سے آگے صرف پی ٹی آئی نہیں، یقین جانیے عوام بھی ہرگز تیار نہیں کہ وہ اب بھی رہا نہ ہوں سو انکی طویل اور مشکل ترین قانونی جنگ میں کامیابی کے فوراً بعد پھر درج بے بنیاد مقدمات کی بھرمار میں سے چند چن کر، ان کی گرفتاری پھر ڈالنے سے عوام کی بھاری اکثریت خاموشی سے سیخ پا ہوگئی اس میں سے ایک مخصوص فیصد کی تعداد عملاً پی ٹی آئی’’احتجاج برائے دھرنا‘‘ کیساتھ ہوگئی ہے یہ انسداد احتجاج کی تیاریوں کے باوجود بڑی سیاسی شکست بذریعہ انتظامی ڈیزاسٹر ہے لیکن اب یہ کامل یقین ہو چکا ہے، پی ٹی آئی کی آرگینک پبلک سپورٹ کے مقابل پی ڈی ایم کی برائلر حکومت حقیقت پسندی سے مطلوب فیصلہ سازی کی طرف آئے۔قارئین کرام یاد رہے کہ ’’آئین نو‘‘ میں واضح کیا جا چکا ہےکہ موجودہ پیچیدہ ترین اور گھمبیر ملکی سیاسی آئینی و انتظامی صورتحال اور اسٹیٹس کو کی طاقت و حکومت کے مقابل قوت، اخوت عوام کی شعور و مزاحمت کم نہیں، ریاستی اداروں کی کل ورکنگ/ فنکشن47والی حکومت کے تابع ہے۔اس وقت مطلوب رائے سازی کا عمل بری طرح ڈسٹرب ہے، رائے سازی اپنی اپنی پوزیشن لئے ہوئے ہیں،کج بحثی، بلیم گیم ملکی ابلاغ پر حاوی ہے، سو ایسے میں ’’آئین نو‘‘ نے بیش بہا کمیونیکشن، ٹیکنالوجی میں انقلابی آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر انحصار میں اضافہ کر دیا ہے جسکا دوسرا مطلب علمی معاونت پر انحصار، جیسا اے آئی، جو رہنمائی کرتی ہے کسی مخصوص سیاسی جماعت، رہنما، تھنک ٹینک یا عوامی کیمپ کا تجزیہ یا رائے نہیں بلکہ متفقہ اور پریکٹیسنگ علمی ذخائر سے ہماری کوآرڈی نیٹر کے جواب دیتا ہے، موضوع زیر بحث پر جو معاونت حاصل کی گئی ہے آپ کے مطالعے کیلئے حاضر ہے۔ذرا سوچئےکوئیری ’’آئین نو‘‘ ریاستی آئین میں شہریوں کو حق احتجاج کی ضمانت ہونے کے باوجود اگر ریاست اس حق کو دینے سے مسلسل انکاری ہو اور اسکے مطالبے کے خلاف بھی مزاحمت کرے تو ایسی صورت کے نتائج کیا ہوسکتےہیں۔ رسپانس،میٹا اے آئی:ریاست کا یہ انکار آئین اور جمہوریت کی سنگین خلاف ورزی ہوگی، ریاست کی جانب سے ایسے انکار کے یہ نتائج نکل سکتے ہیں۔1۔ بداعتمادی: شہری حکومت اور اداروں پر اعتماد کھو سکتے ہیں۔2۔ مزاحمت میں اضافہ:پرامن احتجاج کے ارادے بھی مزاحمت کا رنگ اختیار کرسکتے ہیں۔ 3۔ سیاسی کھینچا تانی: معاشرے کے مختلف سیاسی طبقات میں تنائو و الجھائو کی کیفیت میں اضافہ ہو سکتا ہےاور یہ سماجی بے چینی کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔

قارئین کرام! 47والی ہماری حکومت نے حق احتجاج سے مسلسل انکاری اور مصلحتاً اجازت دے کر مویشی منڈیوں اور مطلوبہ شہر سے دوردراز تاریک ناہموار اور خاک زدہ گڑھوں سے پر محدود مقاما ت پر پی ٹی آئی کو جلسوں کی اجازت دیکر محدود اور عین وقت پر ختم کرنیکی کڑی شرائط اور عمل کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی قوت کو حق احتجاج سے عملاً انکاری یا اس مقدم حق کی آڑ میں عوام کی توہین پر تلی ہوئی ہےاس کے اس آئین بیزار رویے سے متذکرہ تمام منفی نتائج نکلنے کا خدشہ نہیں، نکل آئے ہیں۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین