• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عزیزی حامد میر پر قاتلانہ حملہ کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور پاکستان ہی نہیں ساری دنیا کی صحافی برادری سرتاپا احتجاج بن گئی اور ایسا کیوں نہ ہوتا حامد میر ایک فرد نہیں صحافت میں سچ و حق کا علمبردار ہیں۔ سچ کہنے اور لکھنے میں اس نے کبھی بھی کسی سے رو رعایت نہیں کی، خصوصاً صحافیوں پر جہاں بھی ظلم و زیادتی ہوئی حامد میر نے نہ صرف صدائے احتجاج بلند کی بلکہ موقع پر بھی جا پہنچا۔ ٹیلی وژن پر آئی پی ایل کرکٹ میچ دیکھ رہا تھا، وقفہ پر جب جیو لگایا تو بریکنگ نیوز چل رہی تھی ،میں سکتے میں آگیا، حیرانی یوںنہیں ہوئی کہ ایک مدت سے چند سیاہ سائے اس کا پیچھا کررہے تھے اور وہ قریبی بزرگ و دوستوں سے یہ کہتا رہتا تھا کہ میری جان کو خطرہ ہے تاہم اس اچانک حملہ سے دکھ و صدمہ ہوا۔وہ مجھے بچوں کی طرح عزیز ہے۔ میرا اس سے احترام و محبت کا اٹوٹ رشتہ ہے کہ اس کے دلیر، جرات مند والد پروفیسر وارث میر میرے انتہائی قریبی دوست اور بھائی تھے۔ سچ بولنے اور حق گوئی کے پاداش میں پروفیسر مرحوم بھی ذہنی اذیت سے دو چار رہے۔ غیر تو غیر ہیں چند اپنے بھی’’ذہنی تشدد‘‘ میں پیش پیش تھے ، جنہیں وہ‘‘ جگے‘‘ کہا کرتا تھا۔ انہیںسچ اور حق کے لئے آواز بلند کرنا ’’ورثہ‘‘ میں ملا ہے۔ گزشتہ دنوں اس نے سابق صدر کے حوالے سے بڑا ہی تند و تیز کالم لکھا۔ ان لوگوں پر بڑے زور سے حملہ آور ہواجو قائد اعظم ؒاور علامہ اقبالؒ کی شخصیات کو وجہ تنازعہ بنانے کی سازش کررہے ہیں میں نے اس کو فون کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ لوگ تو اب میری جان کو آگئے ہیں مجھے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن میں دبنے اور جھکنے والا نہیں ہوں اور یہ سچ بھی ہے کہ اس نے کبھی عظیم قائدین اور وطن مخالفوں کے حوالے سے کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس کا قلم ننگی تلوار بن کر لڑتا رہا۔ دو سال قبل بھی جب ا س کی کار میں بم رکھا گیا ،کئی بار مشکوک گاڑیوں نے اس کا پیچھا کیا اور کئی بار اشارتاً اسے سچ لکھنے اور بولنے سے باز رہنے کی تلقین کی گئی اور میٹھی زبان میں اسے تلخ نتائج سے بھی آگاہ کیا گیا۔ برادری کے ہی چند افراد سے اس کی مخالفت کرائی گئی۔چند سال قبل جب اس نے نام لے کر مقتدر حلقوں کی ایک شخصیت کے خلاف دو تین انتہائی سخت کالم لکھے تو اس پر انہی حلقوں کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ وہ پاکستان کا ایک ایسا صحافی ہے جس کے کالموں کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ اس پر حملہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ملک کے تمام سیاسی و مذہبی حلقوں میں احترام و محبت رکھتا ہے کہ الطاف حسین، عمران خان سے لے کر طلال بگٹی، آفتاب شیر پائو اور آصف زرداری ،بلاول بھٹو، میاں نوازشریف، شہباز شریف سب نے شدید مذمت کی ہے اور اجتماعات و مساجد میں اس کے لئے جلد صحتیابی کی دعائیں بھی کیں جارہی ہیں۔ وہ کس قدر ذہنی دبائو سے دو چار تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ایک ادارہ اور اس کے سربراہ پر الزام عائدکردیا کہ اگر اسے کچھ ہو ا تو اس کے ذمہ دار ہونگے۔ میرا ملک کے وزیر اعظم سے سوال ہے کہ ’’جناب میاں صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ صحافتی تنظیمیں اور حامد میر کی جانب سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ صحافیوں کو تحفظ دیا جائے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کراچی میں کئی نامور صحافی شہید ہوچکے ہیں۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے اگر ’’ان دیکھے ہاتھ‘‘ وہ کوئی بھی ہوں یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح جبر و ظلم کی دیوار کھڑی کرکے جو سچ کا راستہ روک لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ ملک کی تمام صحافتی برادری حامد میر بن کر ان کے سامنے کھڑی ہوجائے گی۔’’ان دیکھے ہاتھوں‘‘ کو جنہوں نے مکر و جھوٹ کے دستانے پہن رکھے ہیں ان کے چہروں سے نقاب ضرور الٹے جائیں گے کیونکہ حامد میر پر حملہ ایک فرد نہیں تمام صحافت ،سول سوسائٹی اور محب وطن حلقوں پر حملہ ہے اور کوئی چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ وزیر اعظم کی یہ ذمہ داری ہے کہ اعلیٰ سطح کی ایک غیر جانبدار کمیٹی مقرر کریں جو اس سانحہ کی تحقیقات کرکے اور جلد ا ز جلد ملزموں کا سراغ لگائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ ایسا کرنے والوں کے مذموم عزائم کیا ہیں کیونکہ اس طرح کے بزدلانہ حملوں کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ملک میں افراتفری پیدا کی جائے۔ ایک طوفان برپا کردیا جائے۔ ظاہر ہے جب کھلے عام ،دیدہ دلیری سے یہ بدبخت لوگ سینہ چوڑا کرکے گولیاں چلاتے پھریں گے تو سارا ملک ایک آگ میں جل اٹھے گا۔ جس سے جمہوریت ہی نہیں ملک کی سالمیت پر بھی حرف آسکتا ہے۔ یہ کہاوت کھلا سچ ہے کہ مارنے والے سے بچانے والا بہت بڑا ہے۔ تین گولیاں کھا کر بھی حامد میر کی زند گی نہیں چھینی جاسکی ،ایسے لگتا ہے کہ قدرت اس سے کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہے۔ عالی جناب سید سرفراز شاہ ایک صاحب بصیرت ایسی روحانی شخصیت ہیں کہ جن کے ہر ایک کے لئے دعا کے لئے ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں سمیت ہر کوئی ان کے پاس حاضر ہوتا ہے ہفتہ کی صبح بہت سے لوگ ان کی اقامت گاہ پر موجود تھے۔ ان کے دیرینہ دوست کرنل (ر) محمود جنہیں شاہ صاحب قبلہ ’’لنگوٹیا‘‘ کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافی دنیا میں واٹرلپ مین اور ہنری کنگ کی بڑی دھوم رہی لیکن ایک امریکی صحافی ایسا ہے جس نے خطرات سے گزر کر صحافت کی اور آج بلندیوں پر ہے۔ اس پر سید سرفراز شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حامد میر کو یہی مقام حاصل ہے۔ وہ جرأت سے اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ شام جب حامد میر پر حملہ کی خبر آئی اور چاروں طرف سے احتجاج و مذمت ہورہی تھی تو میرا دھیان قبلہ شاہ کی جانب گیا جنہوں نے چند گھنٹے پہلے کہہ دیا تھا کہ حامد میر ملک کا ایک کھرا اور سچا صحافی ہے اور بڑا مقام بھی رکھتا ہے۔ ہم سب اس کی جلد صحتیابی کے لئے رب کائنات کے حضور دست دعا ہیں اور آخر میں دو شعر اپنے عظیم بیٹے کے نام
قد و گیسو میں قیس و کوہکن کی آزمائش ہے
یہاں ہم ہیں وہاں دارورسن کی آزمائش
رگ و پہ میں جب اترے زہر غم تو دیکھئے کیا ہو
ابھی تو تلخی کام و دہن کی آزمائش ہے
فراق گور کھپوری کا یہ شعر بھی
حیات موت کے انداز میں ہوئی تبدیل
ایک انقلاب کی زد میں ہے زندگی کا سفر
تازہ ترین