• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کاربن مارکیٹ پالیسی کی تشکیل و مستقبل

کاشف اشفاق
آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ-29 میں پاکستان نے اپنی کاربن مارکیٹ پالیسی کے حوالے سے گائیڈ لائنز متعارف کروا دی ہیں۔ یہ کاربن مارکیٹ پالیسی تین بنیادی نکات پر مبنی ہے جن میں ماحولیاتی قوانین کی تعمیل کو یقینی بنانا، اقتصادی ترقی کیلئے سرمایہ کاری کو متحرک کرنا اور سماجی تحفظات کے ذریعے منصفانہ فائدے کے اشتراک کو فروغ دینا شامل ہے۔ اس پالیسی کے ذریعے قومی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کو قانونی فریم ورک فراہم کیا گیا ہے تاکہ کاربن کریڈٹ کے اجرا اور تجارت میں سہولت فراہم کی جا سکے۔ علاوہ ازیں اس کاربن مارکیٹ پالیسی میں کاربن ٹریڈنگ کیلئے ون ونڈو سہولت کا قیام بھی شامل ہے۔ اس سے پروجیکٹ ڈویلپرز اور خریدار ممالک کیلئے ایک مشترکہ فریم ورک فراہم کیا گیا ہے تاکہ اعتماد سازی کو فروغ دیا جا سکے۔
واضح رہے کہ کاربن مارکیٹ ایک ایسا نظام ہے جسے موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ نظام کاربن ٹریڈنگ کے ذریعے کام کرتا ہے جہاں ممالک، کاروباری اداروں اور تنظیموں کو کاربن کریڈٹ خریدنے اور فروخت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک کریڈٹ ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی اخراج کے حق کی نمائندگی کرتا ہے جسے اپنی مختص حد سے کم اخراج والے ادارے اپنی حد سے تجاوز کرنے والوں کو بیچ سکتے ہیں۔ اس سے کاربن کے اخراج میں مجموعی کمی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ کاربن مارکیٹیں دو طرح سے کام کرتی ہیں ایک مارکیٹ حکومتوں یا بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے ریگولیٹ ہوتی ہیں جبکہ دوسری مارکیٹ میں کاروبار اور افراد آزادانہ طور پر اپنے کاربن فٹ پرنٹ کو کم کرنے کیلئے کریڈٹ خریدتے ہیں۔کاربن ٹریڈنگ اکثر کیپ اینڈ ٹریڈ سسٹم یا بیس لائن اور کریڈٹ اپروچ کے ذریعے کام کرتی ہے۔ کیپ اینڈ ٹریڈ سسٹم میں ایک ریگولیٹری اتھارٹی صنعتوں، الاؤنسز یا اجازت ناموں کی تقسیم کیلئے اخراج کی حد مقرر کرتی ہے۔ تنظیموں کو اخراج کو اس حد کے اندر رکھنا چاہیے یا دوسروں سے اضافی الاؤنس خریدنا چاہیے۔ بیس لائن اور کریڈٹ سسٹم ایسے منصوبوں کو انعام دیتا ہے جو اخراج کو فعال طور پر کم کرتے ہیں۔ اس میں قابل تجدید توانائی کے اقدامات یا جنگلات کے تحفظ کے منصوبوں کے ذریعے کاربن کریڈٹ فروخت کئے جا سکتے ہیں۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والی مقامی کمیونٹیز کیلئے کاربن مارکیٹ کافی فوائد فراہم کر سکتی ہے۔ جنگلات کی کٹائی، صاف توانائی کے منصوبوںیا پائیدار زراعت کے طریقوں میں شامل کمیونٹیز کاربن کریڈٹس کی فروخت کے ذریعے آمدنی حاصل کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ماحول دوست طریقے اپنانے والے کاشتکار اپنی کاربن کے حصول کی کوششوں سے اضافی آمدن کما سکتے ہیں۔ یہ فنڈز اکثر بہتر انفراسٹرکچر، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور ذریعہ معاش میں تبدیل ہوتے ہیں جس سے پائیدار ترقی کو فروغ ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کاربن مارکیٹ کے منصوبے ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف مقامی کمیونٹیز کو زیادہ بااختیار بنانے میں بھی معاون ثابت ہوئے ہیں۔ قابل تجدید توانائی کی تنصیبات یا جنگلات کی بحالی کے اقدامات نہ صرف آمدنی پیدا کرتے ہیں بلکہ مقامی ماحولیاتی نظام کو بھی بہتر بناتے ہیں۔ تاہم اس کے لئے موثر گورننس اور منصفانہ محصولات کی تقسیم کا طریقہ کار اہم ہے۔ اقتصادی ترغیبات کو موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے کاربن مارکیٹیں کمزور کمیونٹیز کی ترقی کے ساتھ ساتھ عالمی اخراج میں کمی لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کی کاربن مارکیٹ پالیسی کی تشکیل ملک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے ان شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا جو کاربن کے اخراج کو کم کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے توانائی، زراعت اور جنگلات کے تحفظ کے منصوبے اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ کاربن مارکیٹ پالیسی کے تحت بین الاقوامی کاربن منڈیوں میں پاکستان دوسرے ممالک کو آف سیٹ کریڈٹ فراہم کر سکے گا۔ اس سلسلے میں دوسرے ممالک کے ساتھ تمام لین دین اور مواصلات کیلئے ون ونڈو سہولت قائم کی گئی ہے تاکہ خریدار ممالک کیلئے شفافیت اور ٹریکنگ کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان نے 2030تک اپنے اخراج کو 50فیصد تک کم کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس میں سے 15فیصد کمی پاکستان اپنے وسائل سے ممکن بنائے گا جبکہ 35فیصد کمی کیلئے بین الاقوامی فنڈنگ پر انحصار کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان پیرس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہے ان ممالک کو 2030تک قومی سطح پر طے شدہ شراکت میں اپنے بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنا ہے۔ پیرس معاہدے کے آرٹیکل 6کے تحت، رضاکارانہ بین الاقوامی تعاون اور کاربن کریڈٹ کی پیداوار اور لین دین کیلئے بین الاقوامی کاربن مارکیٹ کی تشکیل ضروری تھی۔ اس سے پاکستان ممکنہ طور پر 2030تک کاربن مارکیٹوں سے پانچ ارب ڈالر تک کا فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم اس کیلئے کاربن مارکیٹ کے صحیح طریقے سے انتظام کے ساتھ ساتھ ایک سازگار ریگولیٹری اور پالیسی فریم ورک ضروری ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس اقدام سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے متاثرہ کمیونٹیز تک فوائد پہنچیں گے۔ پاکستان کو اقتصادی، ادارہ جاتی، تکنیکی اور سماجی رکاوٹوں کی وجہ سے کاربن مارکیٹوں اور کاربن ٹریڈنگ میں مؤثر طریقے سے حصہ لینے میں جن چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ ان میں ایک اہم رکاوٹ پالیسی سازوں، کاروباری اداروں اور کمیونٹیز کے درمیان محدود آگاہی ہے۔ اسی طرح کاربن کو کم کرنے والے منصوبوں کیلئے ابتدائی لاگت زیادہ ہونا بھی ایک چیلنج ہے۔ اس حوالے سے ہمیں ادارہ جاتی صلاحیتوں اور ڈیٹا سسٹم کو بہتر بنانے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے اور کمیونٹی بیسڈ کاربن پروجیکٹس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین