زیتون، بلاشبہ قدرت کا اَن مول ترین تحفہ ہے، اس کا ذکر قرآنِ مجید میں اس کے نام سے چھے بار آیا ہے۔ سورۃ المومنون آیت نمبر 20میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ:’’اور وہ درخت جو طورِ سینا سے نکلتا ہے، جو کھانے والوں کے لیے روغن اور سالن لے کر اُگتا ہے۔‘‘زیتون کی وطنیت کے حوالے سے قرآنِ کریم کی سورۃ النور کی آیت نمبر35میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
ترجمہ:”اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اُس کے نور کی مثال ایسی ہے، جیسے طاق میں چراغ ہو، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے، قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارہ ہے، زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے، نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے، اگرچہ اسے آگ نے نہ چُھوا ہو، روشنی پر روشنی ہے، اللہ جسے چاہتا ہے، اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔“
زیتون کو انگریزی میں Oliveکہتے ہیںاور اس کا نباتاتی نام (Olea Europaea) ہے۔ اس کے درخت کی اونچائی اوسطاً 15فٹ تک ہوتی ہے،جب کہ اور اس کی پیداوار قلم لگا کر حاصل کی جاتی ہے، کیوں کہ بغیر قلم لگائے پودا پھل نہیں دیتا۔ اس کا کچّا پھل چٹنی اور اچاروغیرہ بنانے میں استعمال ہوتا ہے، جب کہ پکا ہوا پھل انتہائی شیریں اور لذیذ ہوتا ہے۔
یاد رہے، اس کے بیضوی شکل کے 2سے 3سینٹی میٹر تک لمبے پھل کے گودے میں پندرہ سے چالیس فی صد تک تیل ہوتا ہے، جو اپنی خصوصیات کے سبب بے مثال مانا جاتا ہے۔ زیتون کا تیل ڈائٹ پلان کا وہ خاص جزو ہے، جو مختلف خصوصیات کی بنا پر انسان کو قلبی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے، کیوں کہ اس میں بلڈ پریشر کی سطح کم کرنے کی خصوصیات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دل کی صحت کے لیے زیتون کا تیل بے حد فائدہ مند ہے۔
اس مفید درخت کے باغات جنوبی یورپ، شمالی افریقا اور کئی عرب ممالک میں پائے جاتے ہیں، جب کہ اسپین اور اٹلی زیتون کا پھل اور تیل پیدا کرنے میں سرِفہرست ہیں۔ روغنِ زیتون کی عالمی پیداوار تین ملین میٹرک ٹن سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ویسے تو روغنِ زیتون چراغ کی روشنی کے لیے زمانۂ قدیم سے بہت مشہور اور بڑا اہم رہا ہے کہ یہ عمدہ قسم کا تیل نہایت شفّاف ہوتا ہے۔
اِسے اگر کسی صاف برتن، گلاس یا قندیل میں رکھا جائے، تو ایسا محسوس ہوگا کہ کوئی شے ہے، جو خُود ہی روشن ہے اور اگر اس سے چراغ جلایا جائے، تو ایسا لگے گا کہ گویا نور سے نور نکل رہا ہے۔ اسی حقیقت کی منظر کشی سورۃ النور، آیت 35میں کی گئی ہے اور روغن زیتون سے روشن قندیل کی روشنی کو ”نور علیٰ نور“ کہا گیا ہے۔
ہمارے یہاں فلاحی و سماجی خدمات کے حوالے سے متحرک ایک فاؤنڈیشن بھی خصوصاً زراعت کے شعبے میں بڑے پیمانے پر خدمات انجام دے رہی ہے۔ مذکورہ ادارے کے تحت تھرپارکر میں اب تک نہ صرف 60سے زیادہ ایگروفارم بناکر مقامی کسانوں کے حوالے کیے جاچکے ہیں، بلکہ پانی سے محروم بنجر، بیابان خطّے میں کھجور، انار، بیر اور زیتون کی کاشت کے کام یاب تجربات بھی کیے جارہے ہیں۔
اکتوبر2020ء میں جب اس نے ’’جنگلی زیتون“ کی قلم کاری کے حوالے سے کام کا آغاز کیا اور اس حوالے سے ایک وڈیو اَپ لوڈ کی، تو مُلک بھر میں زیتون کی کاشت ایک بڑا موضوع بن گیا۔ اس کے بعد تھرپارکر کی بنجر اور بے آب و گیاہ زمین میں زیتون کے ساتھ کھجور، انار اور بیر کے سیکڑوں پودے بھی لگائے گئے۔ دراصل اس سے قبل راجستھان، بھارت میں زیتون کی کاشت کام یابی سے جاری تھی، تو اسی خیال سے کہ جب سرحد کے اُس پار صحرا میں زیتون بڑے پیمانے پر کاشت ہوسکتی ہے، تو اس طرف کیوں نہیں؟
بہرحال، دو سال مسلسل محنت و لگن کے بعد کھجور اور انار کے کچھ درختوں پر پھل آگئے۔ گرچہ انار کے پھل کا سائز چھوٹا رہا، لیکن بیر کے درختوں پر بہت ہی اچھے سائز کا خوش ذائقہ پھل لگا۔نیز، اسی دوران دوران زیتون کے پودے بھی پھلتے پُھولتے رہے، واضح رہے، زیتون کی کاشت کے لیے300 Chilling hours درکار ہوتے ہیں۔
یعنی موسمِ سرما میں درجۂ حرارت صفر تا سات ڈگری سینٹی گریڈ ہونا ضروری ہے۔ اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں ساڑھے آٹھ کروڑ کے لگ بھگ جنگلی زیتون کے درخت موجود ہیں، جنہیں گرافٹنگ کے ذریعے کارآمد بنا کر ان کا پھل اور تیل حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن افسوس حکومتی عدم دل چسپی کے سبب ان سے استفادہ نہیں کیا جارہا۔
خیبر پختون خوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت 2013ء سے قائم ہےاور اس دوران سابق وزرائے اعلیٰ پرویز خٹک، محمود خان، سابق گورنر شاہ فرمان اور وزیرِ زراعت نے صوبے کے مختلف علاقوں میں زیتون کی کاشت میں کسی حد تک دل چسپی لی، بلکہ شاہ فرمان کی دل چسپی نہ صرف زیتون کی کاشت میں تھی، وہ زعفران کی کاشت اور شہد کی پیداوار بڑھانے میں دل چسپی رکھتے تھے۔
پھر صوبائی حکومت نے 1154 ملین روپے کے ایک منصوبے کا آغاز بھی کیا، مگر بدقسمتی سے مختلف مالی بے قاعدگیوں کے سبب 2018ء میں اسے ختم کرنا پڑا۔ جب کہ گزشتہ حکومت کے شجرکاری کے سب سے بڑے منصوبے ’’بلین ٹری سونامی‘‘ میں تو زیتون سرے سے شامل ہی نہیں تھا۔
بعدازاں، سابق سینیٹر سراج الحق نے لوئر دیر کے علاقے میدان میں جنگلی زیتون کی قلم کاری کے ایک منصوبے کا افتتاح کی اور اس موقعے پرکہا کہ ’’مَیں دو مرتبہ سینئر صوبائی وزیر رہ چکا ہوں، لیکن اس ضلعے اور صوبہ خیبر پختون خوا میں جنگلی زیتون کے کروڑوں درختوں کی موجودگی کا علم نہ مجھے تھا اور نہ کسی اور کو۔
اگر یہ بات 2002ء میں مجھے اور صوبے کے عوام کو معلوم ہوجاتی، تو اب تک صوبے میں زیتون کا انقلاب آچکا ہوتا۔‘‘بہرحال، اس ضمن میں ایک اچھی پیش رفت یہ ہوئی کہ 28اکتوبر 2020ء کو جماعت اسلامی کے اراکینِ صوبائی اسمبلی عنایت اللہ خان، سراج الدین اور حمیرا خاتون نے اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا، تو اُس کے بعد کچھ ہلچل ضروری ہوئی۔
واضح رہے کہ اس وقت استعمال میں نہ لائی جانے والی چار ملین ہیکٹر زمین ایسی ہے، جہاں زیتون کے باغات لگائے جا سکتے ہیں۔ اسپین دنیا میں سب سے زیادہ زیتون پیدا کرتا ہے جب کہ اس کی صرف 2.6 ملین ہیکٹر زمین پر زیتون کے باغات ہیں۔ یعنی پاکستان میں اسپین سے زیادہ زمین موجود ہے، جہاں اچھی کوالٹی کا زیتون کاشت کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے برعکس پاکستان اپنی ضرورت کے لیے سالانہ تین بلین ڈالر سے زائد زیتون کا خوردنی تیل درآمد کرتا ہے۔
ماہرین ِزراعت کے مطابق، زیتون کی پیداوار میں اضافہ مُلک کی معیشت کے لیے انتہائی سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔ پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے بہت سے علاقے جنگلی زیتون کی کاشت کے لیے بہت موزوں سمجھے جاتے ہیں اور ان علاقوں میں زیتون کی مختلف اقسام بڑے پیمانے پر کاشت کی بھی جارہی ہیں، جنہیں مقامی زبانوں پنجابی میں کہو، پشتو میں خونہ اور بلوچی میں حث کہتے ہیں۔
ان علاقوں میں زیتون کوایک مقامی درخت ہی سمجھا جاتا ہے، جو خودرَو ہے اور موافق آب وہوا میں تیزی سے پھل دینے لگتا ہے۔ اصل المیہ یہ ہی ہے کہ دیہی علاقوں میں کسان اور زمین دار زیتون کی افادیت سے پوری طرح واقف ہی نہیں۔
انھیں اس سے تیل حاصل کرنے یا دیگر غذائی اشیاء کی تیاری کے لیے باقاعدہ تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم،خوش آئند امر یہ بھی ہے کہ اب مُلک بھر میں زیتون کے حوالے سے آگہی بڑھتی جارہی ہے ، پنجاب اور خیبرپختون خوا کے بعدوفاقی پروگرام کے تحت صوبہ سندھ میں بھی زیتون کی تجرباتی کاشت کا آغاز ہوگیا ہے۔
صرف جامعہ کراچی میں زیتون کے200پودے لگائے جاچکے ہیں۔ اگرچہ شہر میں 300چلنگ آورز مہیّا نہ ہونے کے باعث پھل آنے کا امکان انتہائی کم ہے، لیکن ان درختوں سے کم از کم ماحول پر اچھا اثر ضرور مرتّب ہوسکتا ہے۔واضح رہے، پاکستان میں جنگلی زیتون کے پھل سے تیل نکالنے کا کام یاب تجربہ سب سے پہلے خیبرپختون خوا کے کچھ ماہرین نے 2002ء میں کیا تھا۔
قبلِ ازیں،1954ء میں محکمۂ جنگلات کے افسران نے بھی جنگلی زیتون کا پھل اٹلی کی ایک لیبارٹری بھجوا کر تیل نکلوایا اور اس کا ٹیسٹ کروایا تھا، جس کا ذکر جرنل آف فاریسٹری کے جنوری 1963ء کے شمارے میں موجود ہے۔
نیز، اس جنگلی زیتون کے تیل کے حوالے سے کئی ملکی و غیر ملکی ماہرین کی تحقیقاتی رپورٹیں مختلف مستند جریدوں میں بھی شائع ہوچکی ہیں، جن کے مطابق، جنگلی درختوں کے لیے کسی بھی قسم کی کھاد یا ادویہ کا استعمال نہ ہونے کے سبب یہ تیل مکمل طور پر آرگینک ہے۔
یعنی پاکستان میں اُگنے والے جنگلی زیتون سے نکلنے والا تیل انتہائی اعلیٰ معیار کا حامل ہے۔ اس تیل کی چین، مراکش، تیونس، اسپین اور دیگر ممالک میں بہت زیادہ مانگ بھی ہے۔معلومات میں اضافے، شعور و آگہی بڑھنے کے ساتھ اب پاکستان کے مختلف علاقوں میں 1500 ٹن تک زیتون کاشت کی جا رہی ہے، جس سے 830 ٹن تیل حاصل کیا جاتا ہے اور پیداوارکے اضافے کو دیکھ کر بین الاقوامی زیتون کاؤنسل نے فروری 2022ء میں پاکستان کو اپنا ممبر منتخب کر کے مستقبل میں زیتون کی پیداوار بڑھانے کے لیے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔ واضح رہے کہ دنیا بھر سے اس کائونسل کے صرف انیس ارکان منتخب کیے گئے ہیں اور جنوبی ایشیا سے پاکستان اس کا واحد ممبر ملک ہے۔
خیبرپختون خوا، پنجاب، بلوچستان اور آزاد جموں و کشمیر میں جنگلی زیتون کی دو ورائٹیز کے ساڑھے آٹھ کروڑ درخت موجود ہیں۔ اگر ان میں سے صرف پانچ کروڑ درختوں سے پھل جمع کرکے تیل حاصل کیا جائے اور ہر درخت سے پانچ لیٹر تک تیل مل جائے، تو ہم ہر سال پچیس کروڑ لیٹر زیتون کا خالص تیل بغیر کوئی باغ لگائے حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر اس تیل کی قیمت فی لیٹر ایک ہزار روپے ہو، تب بھی یہ رقم اربوں روپے ہوگی۔
اس طرح جن علاقوں میں یہ درخت پائے جاتے ہیں، وہاں مقامی لوگوں کو نہ صرف روزگار کا ایک بہتر ذریعہ میسّر آجائے گا، بلکہ کھانا پکانے کا خالص تیل بھی نہایت آسانی سے دست یاب ہوگا۔
امید ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مختلف علاقوں میں زیتون کا تیل نکالنے کی مشینوں کی تعداد میں اضافہ کریں گی اور زرعی ماہرین لوگوں کو جنگلی زیتون کے پھل سے تیل حاصل کرنے کےضمن میں بہتر رہنمائی فراہم کریں گے۔
زیتون کا پودا، ریتلی، کچّی، پکّی، پتھریلی اور صحرائی زمینوں میں کام یابی سے لگایا جاسکتا ہے۔ صرف کلر والی یا ایسی زمینیں، جہاں پانی کھڑا رہے، اس کے لیے موزوں نہیں۔ واضح رہے کہ زیتون کا درخت انتہائی گرم و سرد موسم برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے درخت پر خزاں نہیں آتی، یہ سدا بہار ہوتا ہے۔
زیتون کے پودے کو شروع شروع میں تقریباً دس دن کے وقفے سے پانی لگانا چاہیے۔ تاہم، بہ لحاظِ موسم اس وقفے میں کمی، بیشی کی جاسکتی ہے، یعنی جب پودے کو پانی کی ضرورت ہو، تب لگائیں تاکہ پھل اچھا آئے، جیسے جیسے پودا بڑا ہوتا جاتا ہے، ویسے ویسے اس کی پانی کی ضرورت بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ جب کہ کم از کم دو سال کے بعد زیتون کے پودے کو20 سے25 دن کے وقفے سے پانی لگانا چاہیے۔
زیتون کے پودے موسمِ بہار یعنی فروری، مارچ، اپریل یا پھر مون سون کے موسم یعنی اگست، ستمبر اور اکتوبر میں لگائے جا سکتے ہیں۔ باغ لگاتے ہوئے پودوں کا درمیانی فاصلہ کم از کم 18فٹ ہونا ضروری ہے۔اس طرح ایک ایکڑ میں تقریباً150پودے لگائے جا سکتے ہیں۔
یہ بھی دھیان رہے کہ زیتون کے پودے باغ کی بیرونی حدود سے تقریباً8تا 10فٹ کھیت کے اندر ہوں۔ پودے لگانے کے لیے دو فٹ گہرا اور دو فٹ چوڑا گڑھا کھودکر تین لیئرز میں گڑھے کے چاروں کونوں پر فینائل کی گولیاں رکھ دیں تاکہ پودے دیمک سے محفوظ رہیں۔
اس کے لیے دیمک کُش ادویہ بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ پھر زرخیز مٹی اور بھل سے گڑھوں کی بھرائی کر دیں۔ پودا لگانے سے ایک ہفتے قبل تیار شدہ گھڑوں کو اچھی طرح پانی لگائیں، جس کے بعد زمین تیارہوجائے توشاپر میں لائے گئے پودوں کو احتیاط سےنکال کر شاپر کا نچلا حصہ کاٹ لیں اور گاچی کو مٹی میں دبائیں تاکہ گاچی ٹوٹ کر جڑوں کو ہوا نہ لگے۔
پھر گڑھے کی مٹی کھود کر پودا لگائیں اور اس کے بعد پودے کے چاروں طرف مٹی کو اچھی طرح دبا دیں تاکہ ننّھا پودا مستحکم ہو جائے۔ چھوٹے پودے کا تَنا ذرا نازک ہوتا ہے، اس لیےاسے پلاسٹک کے پائپ سے سہارا دے دیا جائے، تو زیادہ بہتر ہے، سہارے کے لیے لکڑی کا استعمال نہ کریں، کیوں کہ لکڑی کو دیمک لگ سکتی ہے اور جو بعد میں پودے پر بھی حملہ آور ہوسکتی ہے۔
(مضمون نگار، طویل عرصے سے سماجی خدمات کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ الخدمت، گرین کریسنٹ ٹرسٹ، ہیلپنگ ہینڈ اور مسلم ایڈ کے ساتھ صحرائے تھر میں مختلف منصوبوں پر کام کرچکے ہیں، جب کہ سابق سٹی ناظم، نعمت اللہ خان کے مشیربھی رہے)