ڈاکٹر یاسمین شیخ
الرجی یا حسّاسیت ایک ایسی علامت کا نام ہے، جس میں بدن پر سُرخی، جلن، چُبھن، سُوجن یا خارش محسوس ہوتی ہے۔ یہ معمولی بھی ہو سکتی ہے اور بہت شدید بھی۔ جسم کے ایک حصّے پر اُبھار ہوتا ہے، تو دوسرے حصّے سے سُرخی غائب ہورہی ہوتی ہے۔
جب یہ جِلد پر حد سے زیادہ بڑھتی ہے، تو ہونٹ سُوجنے لگتے ہیں اور اگر اِس کا فوری طور پر علاج نہ کیا جائے، تو سانس کی نالی کی اندرونی سطح تک سُوجنے لگتی ہے، جس سے دَم گُھٹتا محسوس ہوتا ہے۔ اِن حالات میں خون کا دباؤ گھٹ بھی سکتا ہے اور بڑھ بھی، یہاں تک کہ مریض کی جان تک خطرے میں پڑسکتی ہے اور یہ ایک قسم کی ایمرجینسی والی کیفیت ہوتی ہے، جسے عرفِ عام میں ’’پِتّی اُچھلنا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کیفیت بعض اوقات عارضی طور پر ٹھیک بھی ہوجاتی ہے، مگر چند روز بعد یہی الرجی کسی اور جگہ شروع ہوجاتی ہے۔
ابتداً تو ضروری ادویہ اور انجیکشنز کے ذریعے مریض کو آرام پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن کچھ مریض مستقلاً سال ہا سال تک آئے دن الرجی کی شکایت بھی کرتے ہیں اور تنگ آکر خود ہی میڈیکل اسٹورز سے اینٹی الرجی ادویہ لے کر کھانے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ الرجی کا وقتی علاج تو کرسکتے ہیں، مگر مکمل چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے کہ اِس کے لیے معالج کو بہت توجّہ دینی پڑتی ہے۔ دراصل الرجیز کی کچھ بیرونی وجوہ ہیں، کچھ اندرونی اور کچھ خود ساختہ۔
الرجی کی بیرونی وجوہ
جہاں تک بیرونی وجہ کا تعلق ہے، بہت سے لوگوں کوخُوش بو سےالرجی ہوتی ہے۔ جوں ہی کوئی عِطر، سینٹ، باڈی واش، خوش بُودار صابن لگایا، چھینکیں آنے لگیں، سانس میں گھٹن شروع ہوگئی۔ اِسی طرح اکثر مٹی کے ذرّات ناک میں جاتے ہی الرجی شروع ہوجاتی ہے۔ ہوا میں موجود پولن، مچھلی کے ذرّات بھی اُن کے لیے الرجی کا باعث بن جاتے ہیں۔ کچھ پھول، پودے ایسے ہیں کہ جن کے سونگھنے یا بدن پر چُھو جانے سے خارش ہونے لگتی ہے۔
جیسا کہ عموماً پارک میں پودوں کے درمیان جا گھسنے والے حسّاس بچّوں کے بدن پر جُونہی کوئی جھاڑی لگتی ہے، اُس کا رس بچّے کی جِلد پر لمبی لمبی سُرخ دھاریاں بنادیتا ہے، جسے بچّہ کُھجانے پرمجبورہوتا ہے۔ جہاں مچھر کاٹتا ہے، وہاں شدید جلن اور خارش محسوس ہوتی ہے۔
بعد میں لال دانہ بھی ابھر سکتا ہے، جب کہ کچھ عورتوں اور بچّوں کے کُھلے حصّوں مثلاً چہرے، بازوؤں، ٹانگوں وغیرہ پر اگر مچھر کاٹتا ہے، تو نہ صرف کھجلی ہوتی ہے بلکہ پانی بَھرا آبلہ بھی بن جاتا ہے اور اگر اِس طرح بار بار آبلہ بنتا رہے، تو جِلد ٹھیک ہو کر بھی کالی پڑ جاتی ہے اور تھوڑی سخت بھی ہوجاتی ہے۔
ایسے حسّاس افراد کو مون سون کے موسم میں پوری آستین کی قمیصیں، اور پورے پاجامے یا شلواریں پہننی چاہئیں تاکہ مچھر آسانی سے نشانہ نہ بنا سکیں۔ کچھ لوگوں کو کھٹمل کے کاٹنے سے بھی الرجی ہوجاتی ہے، کیوں کہ اُس کے انڈے سے جب بچّے نکلتے ہیں، تو وہ سفید رنگ کے ہوتے ہیں اور آسانی سے نظر بھی نہیں آتے، لیکن جِسے کاٹتے ہیں، وہ کُھجا کُھجا کر جِلد زخمی کر لیتا ہے۔
یاد رہے، یہ وہ کیڑا ہے، جو چھے ماہ تک بغیر کھائے پیے بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ بھنورے اور شہد کی مکّھی کے کاٹنے سے اُن کا زہر جِلد میں داخل ہوکر سخت جلن، خارش اور سُوجن کا سبب بنتا ہے۔
بعض اوقات تکلیف اتنی شدید ہوتی ہے کہ جِلد پر جگہ جگہ سُوجن، جلن کے ساتھ سانس میں بھی گھٹن ہونے لگتی ہے۔ اگر ایسا ہوتو فوری معالج سے رجوع کریں۔ گھروں میں بدبو ختم کرنے کے لیےجو خُوش بُودار اسپرے استعمال کیے جاتے ہیں، وہ بھی حسّاس لوگوں کے لیے سخت الرجی کا سبب بن سکتے ہیں۔
نیز آج کل خواتین میں دونوں ہاتھوں، پیروں کی الرجی کی شکایات بہت بڑھ گئی ہیں اور یہ صفائی ستھرائی کے لیے استعمال کیے جانے والے پاؤڈرز، بلیچ، صابن اور ڈش واشنگ کے مختلف محلولوں کے سبب ہیں۔ بعض خواتین اِن کے اجزاء سے الرجی کا شکار ہوجاتی ہیں۔
ابتدا میں ہاتھ، پاؤں میں سُرخی اور خارش ہوتی ہے۔ بعدازاں، انگلیوں، ہتھیلیوں پر باریک باریک پانی بَھرے دانے اُبھرآتے ہیں اور اِن کے پھٹنے پرجِلد زخمی بھی ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ گھریلو امور انجام دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ پیاز، لہسن، ادرک کاٹنے پر اُن کا رس لگتے ہی آگ سی لگتی ہے۔ لیموں، موسمی، مالٹے، ٹماٹر کا رس بھی الرجی کرتا ہے۔
فرش کی صفائی کے وقت فنائل یا بلیچ ڈال کر ننگے پاؤں چل کر جب دُھلائی کرتی ہیں، تو پاؤں کے تلوے دانوں سے بَھرجاتے ہیں۔ ایسی خواتین کو چاہیے کہ اگر گھر میں دیگر خواتین بھی ہوں تو کام بانٹ لیں۔
متاثرہ خاتون پانی، صابن کا کام نہ کریں، تب علاج سے مسئلہ جلد حل ہوجاتا ہے، لیکن اگر کام کرنا ضروری ہو، گھر میں چھوٹے بچّوں کو پکا کر کِھلانے والی کوئی دوسری خاتون نہ ہو، تو بہتر یہ ہے کہ دستانے پہن کر برتن، کپڑے دھوئیں۔ فرش کی دُھلائی کے وقت پاؤں میں موزے پہن کر پلاسٹک کےجوتے پہن لیں۔ اس طرح کیمیکلز براہِ راست جلد پر نہیں لگیں گے، ساتھ ہی علاج پر بھی توجّہ دیں۔
عموماً خواتین شادی، بیاہ کی تقاریب کے لیے منہدی لازماً لگواتی ہیں۔یاد رکھیں، اصلی منہدی کے پتّوں سے کبھی الرجی نہیں ہوگی، یہ کون منہدی کے کیمیکل مِلے اجزاء، اگر رنگ چوکھا چڑھاتے ہیں، تو ساتھ شدید قسم کی الرجی کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ دلہن کو شادی سے ایک آدھ روز قبل لگائی جانے والی منہدی سے اتنی شدید الرجی کا اٹیک ہوتا ہے کہ سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔
بہتر ہے کہ یہ منہدی لگانے سے قبل الرجی ٹیسٹ کرلیا جائے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ تھوڑی سی منہدی جسم کے کسی ڈھکے حصّے یعنی پشت یا بازو کی اندرونی سائیڈ پر لگا کر دائرہ بنادیں۔ 24 گھنٹے میں اگر کسی قسم کی جلن محسوس نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اُس کون منہدی سے دلہن کو الرجی نہیں ہوگی۔ اِس طرح ایک بڑی پریشانی سے بچا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح بعض ادویہ سے بھی الرجی ہوسکتی ہے۔
اگر ایسا ہو توفوراً دوا روک کر الرجی کا علاج کروائیں اور دوا کانام لکھ کر رکھ لیں۔ تاکہ جب کسی ڈاکٹر کے پاس جائیں، تو الرجی دینے والی دوا کا نام بتا سکیں اور معالج لاعلمی کے سبب اُسی جیسی کوئی دوا نہ دے دے۔
الرجی کی اندرونی وجوہ
الرجی کی اندرونی وجوہ کی بات کریں، تو جگر کی خرابی سےجب رنگت اور آنکھیں پیلی ہوجاتی ہیں، تو خون میں بڑھے ہوئے بلیوربن کی بنا پر بھی خارش ہونے لگتی ہے۔ گُردوں کے افعال متاثر ہونے پر خون میں یوریا کی مقدار بڑھ جاتی ہے، تو جِلد کی رنگت زردی مائل ہو کر کھجلی کی شکایت پیدا کرسکتی ہے، یہاں تک کہ مریض خارش کر کر کے بدن سے خون نکال لیتا ہے، مگر کسی طور آرام نہیں پاتا اور پھر ٹیسٹس کروانے پر مرض کی شناخت ہوتی ہے۔ اِسی طرح آئے دن معدے کی خرابی کی بناء پر نہ صرف جسم میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے، سینے میں جلن اور بےچینی ہوتی ہے، وہیں خارش اور پِتّی بھی اُچھلنے لگتی ہے۔
اِسی طرح لبلبے کی خرابی سے جہاں ذیابطیس کی شکایت ہوسکتی ہے، وہیں بدن پر آئے دن خارش والے پھوڑے بھی ہوسکتے ہیں۔ اِسی طرح پتّے میں پتھری کی موجودگی سے بھی بدن پر بار بار پِتّی اُچھلتی ہے، جو دواؤں سے وقتی طور پر کم ہوجاتی ہے، مگر جب تک پھتری کا مناسب علاج نہ ہو، شکایت برقرار رہتی ہے۔ پُرانا اپینڈکس بار بار پیٹ میں درد کا باعث بنتا ہے، تو اِس سے الرجی بھی ہوسکتی ہے۔
پیٹ میں موجود کیڑے بھی (جن میں کینچوے، دھاگے نما کیڑے، (چلونے) اور کدو دانے (TAENIA SAGINATA) شامل ہیں، جو گائے وغیرہ کے گوشت میں انڈے نُما شکل میں محفوظ رہتے ہیں اور گوشت ٹھیک سے نہ پکانے کی صُورت میں انسانی آنتوں میں پل کر کیڑے بن جاتے ہیں) خارش پیدا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بچّوں کے پیٹ میں موجود دھاگے نما کیڑے رات کو مقعد پرآ کربےتحاشا خارش کرتے ہیں، تو چھوٹی بچیوں میں پیشاب کی جگہ پر سوزش ہو سکتی ہے۔
ایستھیٹکس کی الرجی
بلاشبہ اس نئی فیلڈ نے انسانی حُسن کے اضافے کے ضمن میں بہت کام کیا ہے، البتہ حسّاس جِلد والی خواتین یا حضرات کو اِس سے الرجی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جیسا کہ بال رنگنے کے لیے مختلف قسم کےشیڈز استعمال کیے جا رہے ہیں، جن میں سیاہ رنگ سرِ فہرست ہے، تو اِس کا ایک اہم جُزو PPD ہے، جس سے الرجی ہو سکتی ہے۔
جب یہ الرجی شروع ہوتی ہے، تو ابتداً سرپرہلکی خارش ہوتی ہے، بعد میں چہرے پرجلن، سُرخی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اگر مزید شدت آجائے، تو آنکھ کے پپوٹوں پر اتنی سُوجن ہوجاتی ہے کہ دونوں آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔
یہ انتہائی تکلیف دہ حالت اور فوری توجّہ کی متقاضی ہوتی ہے۔ ایسی حسّاس جِلد والی خواتین کو اپنی بھنوؤں کو خمیدہ کرنے اور گہرا سیاہ رنگ بھروانے کے لیے۔Semi Permanent Makeup سے گُریز کرنا چاہیے۔ اِسی طرح سُرخ رنگ سے بھی الرجی ہوسکتی ہے، گرچہ سیاہ رنگ کے مقابلے میں اِس کا تناسب خاصا کم ہے، مگر ہوسکتی ہے۔ مثلاً ناخنوں پر سُرخ نیل پالش لگانے سے الرجی ہو سکتی ہے، لیکن وہ ناخنوں پر نہیں ہوگی، کیوں کہ ناخن جس میٹریل سے بنے ہیں، اُس میں خارش نہیں ہوتی۔
الرجی، آنکھوں کے پپوٹوں پر خارش کی شکل میں نمودار ہوگی اور وہ اس لیے کہ آنکھوں اور پلکوں کو انگلیوں سے چُھوا جاتا ہے، تو سُرخ رنگ وہاں الرجی دے گا۔ پھر ہمارے یہاں رنگ گورا کرنے والی کریمز کا بے دریغ استعمال بھی عام ہے، حالاں کہ اُن میں شامل طرح طرح کے اجزاء حسّاس جِلد پر سُرخی، جلن کے بعد رنگت کو مزید خراب کردیتے ہیں۔
بعض خواتین تو باقاعدہ رنگ گورا کرنےکے انجیکشنز بھی لگواتی ہیں۔ حالاں کہ اگر یہ انجیکشن کسی کو الرجی دے بیٹھیں، تو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں کہ اِن سے جسم کی پوری کھال آبلہ بن کر اُدھڑ جاتی ہے۔ اِسی لیے ایف ڈی اے(Food and drug Administraion) نے اِن کے استعمال کی اجازت نہیں دی ہے۔
خُود کردہ الرجی
اپنی غلطیوں کی بناء پر ہونے والی الرجی کو خُود کردہ الرجی کے ذیل میں شمار کیا جاسکتا ہے اور اِس میں سرِفہرست بچّوں کی ’’پیمپر الرجی‘‘ ہے۔ بچّے کی ران، چڈے، کُولھے پر ابتداً سُرخی اور پھر باریک دانے ہوجاتے ہیں۔ پیشاب، پاخانے کی جگہ لال ہوکر جلن کرتی ہے اور جب پیمپر میں پیشاب یا فضلہ بھرتا ہے تو اس میں شامل یوریا، تیزابیت اور جراثیم سب مل کر اس کی نرم و نازک جلد کو سخت نقصان پہنچاتے ہیں۔ چوں کہ یہ غلاظت باہر نہیں آتی، اندرہی رہتی ہے، اِس لیےماؤں کو صفائی کرنے میں تاخیر بھی ہوجاتی ہے۔ بچّہ کھاپی کر بھی بے چین رہتا ہے۔
مسلسل روتا ہے، کسی قسم کی کریم لگانے سے بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ تو اِس کا آسان حل یہ ہے کہ کچھ وقت کے لیے پیمپر کے بجائے کاٹن کے جانگیے پہنا کر اوپر سے پلاسٹک کی چڈّی پہنادیں تاکہ بچّے کے پیشاب کرتے ہی پتا چل جائے اور اگر کہیں باہر جانا ہو تو پیمپر میں اندر کی طرف ململ کے کپڑے کی تہہ بچھادیں تاکہ پیمپر براہِ راست جِلد سے مس نہ ہو۔ بعض چھوٹی بچیوں میں ایک الرجی اُن کی شرارت کے سبب بھی ہوتی ہے۔
وہ غسل خانے میں رکھے شیمپو، صابن، باڈی واش، آفٹرشیو کریم وغیرہ کو بڑے شوق سے کسی مگ میں مکس کر کے ایک محلول تیار کرتی ہیں اور پھر اُن سے اپنے ہاتھوں، پیروں کو خُوب رگڑ رگڑ کر دھوتی ہیں، تو اِتنے کمیکلز کے ملاپ سے ری ایکشن تو ہونا ہی ہوتا ہے، جو سُرخی، جلن اور خارش کا باعث بنتا ہے۔
اسی طرح اسکول جانے والی بچّوں، بچیوں میں رنگ دار پینسلز یا کرے اونز کے استعمال سے بھی خارش ہو سکتی ہے اور یہ زیادہ تر کالے، نیلے یا لال رنگ سے ہوتی ہے۔ یہ الرجی ہتھیلی یا انگلیوں پر دانے، آبلے اور خارش کی صُورت ہوتی ہے۔
فوڈ الرجی
ہمارے یہاں ایک عجیب ٹرینڈ ہے کہ فائدہ مند چیزوں میں بھی خُوب صُورتی پیدا کرنے کے لیے بلاوجہ ہی رنگ چڑھا دیتے ہیں، نتیجتاً اُن کے استعمال سے الرجی کی شکایت ہوجاتی ہے۔ مثلاً چِھلی ہوئی مٹر کے دانوں پر ہرا رنگ، مونگ کی دال پر پیلا رنگ، بینگن پرکالا رنگ، اور کالے زیرے، کالے چنے پر کالا رنگ چڑھا ہوتا ہے۔ تو اگر کسی کو کالے رنگ یا خضاب سےالرجی ہو، اوروہ ایسےرنگ چڑھے اجزاء استعمال کرلے تو پِتّی اُچھلنا لازمی ہے۔ اِس سےبچنے کاآسان حل یہ ہے کہ کھانا پکانے سے پہلے سبزیوں یا دیگر چیزوں کو پانی میں ڈال کر اچھی طرح دھوئیں اور چیک کرلیں۔
اگر رنگ چڑھا ہوگا تو پانی میں صاف نظر آجائے گا، تو پھروہ اشیاء الرجی کے شکار افراد کے لیےنہ پکائیں کہ ایسے مریض بار بار سخت خارش لے کر آتے ہیں۔بہت سوں کے تو ٹیسٹ بھی ٹھیک ہوتے ہیں، تو اُن سے یہی کہا جاتا ہے کہ اپنے ہر کام پر نظر رکھیں، کوئی غیر معمولی بات نظرآئے، جس کے بعد خارش کا دورہ پڑ جاتا ہے، تو فوراً بتائیں، تب کہیں جاکر مرض کی جڑ پکڑی جاتی ہے۔
مصنوعی طور پر پکے آم یا دیگر پھلوں سے الرجی
آم کے موسم میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا کیمیکل کاربائیڈ (کیلشیم کاربائیڈ) ہوتا ہے۔ یہ بےرنگ بھی ہوتا ہے اور سُرمئی، بھورا بھی،اور اِس میں لہسن جیسی بُو بھی ہوسکتی ہے۔ اِسے دو تین پُڑیوں میں ڈال کر کچّے آموں کی پیٹی میں دَبا دیا جاتا ہے۔
یہ کیمکل اتنی زیادہ گرمی پیدا کرتا ہےکہ جو آم قدرتی طریقے سے دس سے بارہ دنوں میں پکتا ہے، اس کی گرمائش سے تین سے پانچ دنوں میں پک جاتا ہے۔ اس گرمی کی وجہ پاؤڈر سے نکلنے والی ایسیٹائیلن گیس (ACETYLENE GAS) ہے، جس میں برائے نام آرسینک اور فاسفورس جیسے اجزاء موجود ہوتےہیں اورجوانسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اگرچہ اس طرح آم جلدی پک جاتے ہیں، مگر اُن میں نہ خوش بو ہوتی ہے اور نہ ہی قدرتی ذائقہ۔
پیٹی میں جہاں یہ پڑیا آم کو چُھوتی ہے، وہ سڑ بھی سکتا ہے۔ ایسے آم کے منہ پر پھپھوند (فنگس) بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اوراِس پھپھوند کو جب لیبارٹری میں کلچرٹیسٹ کے لیے رکھا گیا، تو کچھ عرصے بعد اِس میں فنگس پائے گئے۔ بعض اوقات لوگ جلدی میں آم بغیردھوئے چُوس کر کھالیتے ہیں، جس کےبعد پہلے گلا خراب ہوتا ہے، پھر کھانسی اور بلغم پیدا ہوتا ہے، سانس لینے میں دشواری ہونے لگتی ہے، ساتھ ہی بدن پر جگہ جگہ لال ابھاربھی ہوجاتےہیں، جو کبھی آتے،کبھی غائب ہو جاتے ہیں۔
ایسے افراد کے جب ایکس ریز کروائے گئے اور بلغم کو لیبارٹری میں کلچر ٹیسٹ کےلیےدیا گیا، تو رپورٹ میں وہی فنگس ملا، جو آم کی سطح پر تھا۔ البتہ چند ہفتےفنگس کےعلاج کی ادویہ کے استعمال سے سینہ صاف اور خارش غائب ہوجاتی ہے۔
نیز، ایسے آم کھانے والوں کو کئی اور شکایت بھی ہوسکتی ہیں، جن میں منہ کا ذائقہ خراب ہونا، پیٹ میں درد، متلی، سینے کی تکلیف، دل کا گھبرانا وغیرہ۔ جبکہ پھلوں میں تھوڑی مقدار میں شامل یہ کاربائیڈ اگر زیادہ عرصہ بدن میں جاتا رہتا ہے، تو جگر، گُردوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ خون کے سُرخ، سفید ذرّات کم ہوسکتے ہیں۔
قوتِ مدافعت کی کمی کی بناء پر کوئی بھی جرثوما، بشمول فنگس حملہ آورہوسکتا ہے۔ نیز، یہ پاؤڈر جِلد پرلگ جائے، توخارش کرسکتا ہے اور انہی نقصان دہ اثرات کی بناء پر دنیا کے کئی ممالک میں اِس کے استعمال پر پابندی ہے۔ پڑوسی مُلک بھارت نے بھی اِس کا استعمال بند کردیاہے،جب کہ ہمارے یہاں پچھلے چند سالوں میں اِس کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔
صرف آم، کیلا ہی نہیں، دیگر پھلوں پربھی حسبِ ضرورت کاربائیڈ چھڑک کر اُنہیں وقت سے پہلے پکایا جارہا ہے۔ بہرحال، آپ جب بھی بازار سے کوئی پھل خریدیں، تواُسے بہت اچھی طرح دھونے کے علاوہ کھاتے وقت چھلکا اُتارلیں تاکہ نقصان کا تناسب کم ہوجائے۔
گٹکے، ماوے سے الرجی
آج کل خارش اور بار بار الرجی کی شکایت اُن مَرد و خواتین میں بھی دیکھی جارہی ہے، جو گٹکا، ماوا کھانے کے عادی ہیں۔ اُن کی کیفیت بھی نشئیوں سی ہے۔ کھانا مِلے، نہ مِلے، گٹکا ملنا ضروری ہے۔ جب کہ اِس گٹکے، ماوے کی تیاری میں جس قدر نقصان دہ اجزاء شامل ہوتے ہیں، شاید ہی کسی اورچیزمیں شامل کیے جاتے ہوں۔
تب ہی تو اِن کے مستقل استعمال کے عادی افراد کے منہ کی اندرونی نرم گلابی سطح کٹ جاتی ہےاور یہ غلیظ، زہریلا، مضرِصحت نشہ بآسانی رِس کر خون میں شامل ہو کے اپنا اثر دکھاتا ہے۔ یہاں تک کہ ذائقہ محسوس کرنے کے لیے، زبان کی سطح پر موجود، قدرت کے تخلیق کردہ باریک ابھار، جنہیں ’’ٹیسٹ بڈز‘‘ کہاجاتاہے، وہ میٹھا، نمکین، کڑوا کسیلا محسوس کرنے سے عاری ہوجاتے ہیں۔
متاثرہ انسان کو کتنا ہی مزےدار کھانا کھلا دیا جائے، اُسے ذائقہ محسوس نہیں ہوتا۔ اورجب یہ علّت کم ہونے میں نہیں آتی، تو گلا، تالو، گال سب میں زخم ہو جاتےہیں۔ منہ میں سرطان ہوجاتا ہے، رفتہ رفتہ گوشت گلنےلگتا ہے، حتیٰ کہ مُنہ میں جانے والی خوراک، دوا سب باہر آجاتی ہے اور کینسر جان لے لیتا ہے۔
یہی نہیں، اِس سے معدہ، جگر، گردے، لبلبہ، دل تمام اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔ دانت جلدی گرجاتے ہیں، مسوڑھوں میں زخم، پیٹ میں جلن، خارش عام ہوتی ہے اور انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آج کل یہ خطرناک علت مردوں کے ساتھ خواتین بلکہ جوان لڑکیوں میں بھی دیکھی جارہی ہے۔
گھر کے راشن سے زیادہ اِس گٹکے، ماوے کا بجٹ ہوتا ہے۔ خصوصاً خواتین میں اس کےاستعمال سے رنگت سیاہی مائل ہونےلگتی ہے، تو بال تیزی سےگرنے لگتےہیں۔ ماہ واری کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ نیز، حمل ضائع ہونے اور مُردہ یا کم وزن بچّوں کی ولادت کا تناسب بڑھ جاتاہے۔ جب کہ خواتین کو تو نہ صرف خود کو، بلکہ گھر کے مَردوں کو بھی اس لت میں مبتلاہونےسےبچانےکی کوشش کرنی چاہیے۔ اور جو شکار ہو چُکی ہیں، وہ آج ہی سےسچّے دل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں۔
پکا ارادہ کر کے ان کااستعمال آہستہ آہستہ کم کرنا شروع کریں۔ چوں کہ یہ ایک نشہ ہے، تو اچانک بند کرنے سے طبیعت میں چڑچڑاپن، نیند میں کمی اور ڈیپریشن محسوس ہوگا۔ لیکن مضبوط قوّتِ ارادی سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرنا ناممکن نہیں۔ اِس انتہائی خطرناک، مضرِصحت نشے کےمتبادل کے طور پر صاف سُتھرےدھنیے کے بیج اور سونف لے کر اُنھیں بھون لیں۔
اُس میں کھوپرے کا چورا یا باریک ٹکڑے ڈالیں، ساتھ ہی مصری کی چھوٹی ٹکڑیاں ملا کر بوتل میں بھرلیں یا پلاسٹک کی چھوٹی سی پڑیا بنالیں۔ جوں ہی ذہن گٹکے کی طرف جائے، یہ پڑیا مُنہ میں ڈال لیں۔ منہ میں چھالے سے بن چُکے ہوں، تو پھل، جوس، دودھ، لسی، روح افزا، نرم کھجور، شہد، میٹھی ڈشز جیسےفیرنی، سوجی کاحلوہ، سویّاں، کسٹرڈ وغیرہ کا استعمال کریں، یہ مُنہ میں تکلیف نہیں دیتے۔
کھانا خود گھر پہ بنائیں، جس میں مرچ مسالا کم رکھیں۔ نرم چاول، کھچڑی، دال، سبزی، ہڈی کی یخنی، اُبلے انڈے، نرم پکی مچھلی، ہلکی کالی مرچ،نمک ملا کر کھائیں، یا تازہ چکّی کے آٹے کی نرم چپاتی بنائیں اور سالن میں ڈبو کرکھائیں تاکہ اچھی خوراک ہضم ہو کرخون بڑھائے۔
عمومی طور پر بھی صاف، طاقت بخش کھانوں، سبزیوں، پھلوں کے استعمال کی عادت ڈالیں۔ صحت اور الرجی کے کئی مسائل سے تو یوں ہی نجات مل جائے گی کہ اچھی غذا ہی سے رنگت خود بخود صاف ہوکر نکھرنے لگتی ہے۔ بالوں کی بڑھوتری تیز ہو جاتی ہے اور جسم کی خشکی، خارش آپ ہی آپ کم ہونے لگتی ہے۔ اورصرف یہی نہیں، ایسے افراد کی جو اولاد پیدا ہوگی، وہ بھی نہ صرف خُوب تن درست ہوگی، بلکہ آئندہ بھی متعدد امراض سے بچی رہے گی۔ یعنی متوازن، صحت بخش غذا، صرف آپ ہی کی نہیں، ایک پوری تن درست و توانا نسل، صحت مند معاشرے کی ضامن ہے۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ جِلد ہیں اور انکل سریا اسپتال، کراچی میں خدمات انجام دے رہی ہیں)