قارئین کرام، خصوصاً برادران و رفقائے کار صحافت (بشمول) شبابی سٹیزن جرنلٹس، (جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے)!
آئیں! آج وطن عزیز کے ’’انٹرسٹنگ ٹائم ‘‘ (حالت ابتری) میں اعتراف حقیقت کی بڑی طاقت کو سمجھنے کی مشترکہ کوشش کریں یعنی اپنی پیشہ ورانہ عملداری میں پاکستان کی خاطر چوکس ہو جائیں کہ جو کچھ ہم سوسائٹی کو ڈلیور کر رہے ہیں وہ اس کی کتنی ضرورت ہے؟ اور یہ ڈلیوری کتنی مبنی برحقائق ہے آپ سب جیسے زیرک، پختہ ذہن و تجربہ کار منجھے محب وطن اور تازہ ذہن ہونہاروں کو میرے جیسے خاکسار و ناچیز کا سمجھانابتانا بنتا تو نہیں لیکن نہ جانے کیوں دھڑکا لگ رہا ہے (شاید میری ہی کمزوری ہو)کہ ملک میں حالیہ بدترین فضائی آلودگی سے نجات( ایک سال کے ) بعد اب ملکی جاری ابتری میں ایک مہلک ابلاغی جنگ نے آن گھیرا ہے جو پاکستانی قومی نفسیات کو بری طرح متاثرکر رہی ہے ہماری 77سالہ تاریخ کے گزرے کسی نہ کسی بڑے درجے پر سات پرآشوب عشروں میں میڈیا کی تقسیم سرکاری اور کم حجم کے آزاد اور پرواپوزیشن میڈیا کے حوالے سے رہی یا پرنٹ اور الیکٹرانک (ریڈیو اور ٹی وی ) اور نیم آزاد الیکٹرانک میڈیا کے ظہور پذیر نجی شعبے نے سرکاری کنٹرولڈ میڈیا کے حجم کو کم تر اور غیر موثر کر دیا۔ بلاشبہ رواں صدی کے عین آغاز پر اس کے مقابل کسی ٹی وی چینلز کی آمد بہار نے ملکی ابلاغی دھارے میں بڑا سماں پیدا کیا۔ خصوصاً اس سے حالات حاضرہ کے موضوعات پر رائے عامہ کی تشکیل کا مفید عمل تیز بھی ہو گیا اور کثیر الجہت بھی ۔نجی ٹی وی چینلز اپنے بڑھتے غلبے کے ساتھ اور سرکاری کنٹرولڈ میڈیا اپنے تئیں معاشرے اور حکومت کی ابلاغی ضرورتوں کو بخوبی پورا کر رہا تھا ۔ بہت سی کمیاں خامیاں ارتقائی عمل سے دور ہو رہی ہیں۔ اس طرح یہ بحیثیت مجموعی ہمارا اہم اورحساس قومی ابلاغی اثاثہ ہے لیکن تین سال سے بڑے گھمبیر آئینی اور سیاسی و معاشی اور انتظامی بحران کی گرفت میں آکر منفی انداز میں متاثر ہو رہا ہے۔تشویش یہ ہے کہ ان کی یہ جکڑ ملک کے ہر شعبے کے لئے مہلک شکل اختیار کر رہی ہے اور اپنے تئیں طاقت سے ملک کو سنواراجا رہا ہے لیکن کمیونیکیشن سائنس واضح بتا رہی ہے کہ سنوار نہیں بگاڑ آرہا ہے۔ملکی تاریخ میں نیشنل میڈیا کی تقسیم اور مختلف اقسام کے مقابل گزشتہ تین سال سے ہو گئی قومی ابلاغ کی تقسیم اپنی اپنی الگ پریکٹس کے حوالے سے ہے تو بہت بڑی حساس لیکن ناگزیر ہے۔اسے روکا ہی نہیں جاسکتااس کی سعی لاحاصل میں خود کو مزید ابتری میں مبتلا کرکے پبلک منی بہاتے اس کی بندش اور کنٹرول کی مہم جوئی میں ہرگز مبتلا نہیں ہونا چاہئے ۔اس سے ہماری قومی ابتری کیفیت اور اس کے واضح امکانی نتائج میں جتنا اضافہ ہو رہا ہے اس کا کوئی اندازہ ہماری گورننس کو ہے نہ وہ یہ لگانے کی اہل ہے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ اس سے پہلے سے موجود گھمبیر سیاسی عدم استحکام عوام کی معاشی حالت زار، بڑے بڑے ایڈمنسٹریٹو ڈیزاسٹر اور سماجی سیاسی گرتی اخلاقی اقدار کا گراف بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اب جو قومی ذرائع ابلاغ کی تقسیم اپنا رنگ اک ’’جنگ وجدل ‘‘ ( ابلاغی) کی سی کیفیت میں دکھا رہی ہے یہ درست ہے کہ اب روایتی جنگوں کے مقابل کمیونیکیشن وار فیئر کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے جس کی اب ہمارے نیشنل میڈیا کی تقسیم روایتی مین اسٹریم میڈیا اور آزاد مگر غیر پیشہ ورانہ ڈیجیٹل سوشل میڈیا کے حوالے سے ہو گئی ہے جو (سوشل میڈیا) سوسائٹی میں بڑھتے کردار کے باعث اپنے منفی پہلوئوں کے باوجود ناگزیر ہو گیا جس پر بند باندھنا ممکن نہیں اسے روکنے کی نیک نیت اور بدنیتی پر مبنی کوشش، سعی لاحاصل ہی نہیں خسارے کا باعث ہو گی ہاں اس میں کمی اور اسٹریم لائن کرنے کا دوررس نسخہ موجود ہے وہ ہے متعلقہ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت اور مسلسل جمہوری اقدار کے فروغ کی برداشت اور انہیں دبانے اور ڈرانے سے گریز جو ہماری منتخب سیاسی حکومتوں نے بھی نہیں کیا خود پیمرا کی اتھارٹی ریگولیٹری ہونے کے حوالے سے استعمال ہونے کی بجائے حکومت کے ٹول یا مہا تابعدار کے طور استعمال ہوئی جیسا کہ جاری تین سالہ حالت ابتری سے قبل بھی پیمرا کا ریکارڈ روح آئین سے متصادم قانون سازی کی عملداری کے حوالے سے مایوس کن ہے جس نے الیکٹرانک میڈیا کو ایوب تا بھٹو دور کے نیشنل پریس ٹرسٹ کا میڈیا اسٹرکچر بنا دیا جس نے تین عشروں تک پرنٹ میڈیا کے بڑے حصے کو حکومت کا تابع و خدمت گزار رہنے کے علاوہ کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا اور یہ آئین 1973ءنافذ العمل ہونے کے بعد بھٹو دور کے اختتام (1977ء) تک یہ ہی منفی اور خلاف جمہوری کردار ادا کرتی رہی۔ اگر پیمرا ابتری کے موجود دور سے قبل کی روح آئین کیخلاف قانون آئین کے نفاذ سے گریز کرکے حکومت اور پارلیمان سے لا بنگ کرتے طریقے سلیقے سے راہ راست پر لاتی تو آج بھی الیکٹرونک میڈیا کا جو قومی اثاثہ آنے والے اہم اور حساس وقتوں کی ابلاغ ضرورت پوری کرنے کے لئے تیار ہوا۔وہ ملکی نوجوان کے کنٹرول اور غلبے میں آئے سوشل میڈیا سے داخلی ابلاغی جنگ و جدل میں مبتلا نہ ہوتا۔ بلکہ اپنی سمت و کردار کو قومی و عوامی بناتا اس کے سنبھلے رہنے اور سنوارنے کا باعث بھی بنتا۔ ۔اب صورت یہ ہے کہ جاری تین سالہ دور ابتری میں دونوں ہی بڑے ابلاغی اضافے، روایتی مین اسٹریم نیشنل میڈیا (پرنٹ اور نجی و سرکاری الیکٹرانک) سیاسی جنگ و جدل کی ایجنڈا سیٹنگ پر غالب ہوتے مزید قومی تقسیم، تشویشناک قومی ابلاغ کی لپیٹ میں آ کر قومی نفسیاتی کیفیت پر منفی انداز میں اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس کے خسارے ساتھ ساتھ نکلنے کے باوجود داخلی ابلاغی جنگ، ہر دو (روایتی اور شبابی میڈیا) کو اس سے لاپروا بنا رہی ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ روایتی نیشنل میڈیا سے وابستہ سینئر صحافیوں کی بڑی کھیپ اس اوپن سیکرٹ کے ہر ہر پہلو سے بخوبی واقف ہے کہ اگر جرنلزم میں پروپیگنڈہ کا رنگ آ جائے اور یہ کسی ایک فریق کا مکمل آلہ کار بن جائے تو جس میڈیا سے وہ وابستہ ہیں اس کی متاع عزیز ’’اس پر عوام کا اعتماد‘‘ ( بڑی تیزی سے گرنے لگتا ہے۔ اسکے مقابل اگر اس میڈیا پر کمال حکومتی فراخدلی سے ’’تھیوری آف پولیٹکل اکانومی آف میڈیا‘‘ کا اطلاق ہو رہا ہے تب بھی یہ میڈیا کیلئے سخت خسارے کا سودا ہے۔ یہ ہی تو وجہ ہے کہ پاکستان کا سٹیزن جرنلزم دنیا میں کسی مین اسٹریم میڈیا پر غیر معمولی تیزی اور اثر سے غلبہ پانے کا دنیا بھر کے میڈیا اسکالرز کیلئے بہت قابل توجہ چپٹر رقم کر رہا ہے۔واضح رہے پاکستان کی ان ہونی کو ہونی بنانے والے چار بڑے پوٹینشل، نظریہ ،پلیٹ فارم، قیادت کے بعد چوتھا اور یکساں اہمیت کا حامل وہ ابلاغی معاون نظام تھا، جو برصغیر کی جدید تاریخ میں مسلم صحافت کے نام سے جانا جاتا ہے، اسکے بغیر تینوں دستیاب پوٹینشل (صلاحیتیں) جمود میں ہی رہتیں یا اس کی سست روی کے مثبت نتائج میں قیام پاکستان شامل نہ ہوتا۔ یقین جانیے اتنا ہی نتیجہ خیز نیشنل کمیونیکیشن سسٹم تعمیر کیلئے مطلوب تھا، اس کی بنیاد تو تحریک پاکستان کا معاون پرنٹ اور منظم جلسہ ہائے عام اور سوشیوپولیٹکل موبلائزیشن کے طرح طرح کے ذرائع اور میڈیمز تھے۔ پاکستان میں اسکے فروغ میں بے آئینی سیاست سے رکاوٹیں بہت پیدا ہوئیں لیکن اس نے پھر بھی نومولود اور بڑھتے پھلتے پھولتے وطن کی تعمیر میں اپنا کردار تو ادا کیا لیکن اسی بے آئینی سیاست سے ہی پیچیدگی میں مبتلا ہونے سے حاصل نتائج معدوم ہوگئے اور ہو رہے ہیں۔ مخاطبین کرام! اعتراف حقیقت کی گمشدہ طاقت کو پائیں جس کیلئے آپ کو کسی درس، لیکچر اور نصیحت و صیت کی ضرورت نہیں کہ آپ سب جانتے ہیں کہ حقائق سچ اور کیا ہے۔ وما علینا الالبلاغ۔