کیا آج سے چند دن پہلے کوئی تصور کرسکتا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے اہم ملک شام کا مضبوط ترین حکمران بشار الاسد آناََ فاناََ ملک چھوڑ نے پر مجبور ہوجائے گا اور گزشتہ پانچ دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط الاسد خاندان کے دورِ آمریت کا یوں خاتمہ ہوجائے گا؟ مڈل ایسٹ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق بشار الاسد کا طویل دورِ حکمرانی اب قصہ ماضی بن چکا ہے، روسی میڈیا کے مطابق بشار الاسد اپنے خاندان سمیت ماسکو میں موجود ہیں،بشارالاسد گزشتہ تیرہ سال تک غیرملکی طاقتوں کی آشیرباد پر سرزمینِ شام کو لہولہان کرنے کے باوجود اپنے اقتدار کو بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے، تاہم الاسد کی حکومت سے اچانک بے دخلی اس لحاظ سے حیران کُن ہے کہ بشار الاسد اپنے خلاف تمام تر بغاوت کو سختی سے کچلنے میں بظاہر کامیاب ہوگئے تھے، علاقائی طاقتیں بھی اس موقف کی قائل ہوگئی تھیں کہ شام میں بشارالاسد کا متبادل موجود نہیں اور الاسد خاندان کے خلاف مزاحمت کو جاری رکھنا دیوار سے اپنا سر پھوڑنے کے مترادف ہے، اسکی سب سے بڑی مثال سعودی عرب کی تیرہ سال بعد شام کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی اور دمشق میں سعودی سفیر کی تعیناتی ہے۔ سال2011ء میں مشرق وسطیٰ کے ملک تیونس سے عرب اسپرنگ کا آغاز ہوا تو مڈل ایسٹ کے کم و بیش تمام ممالک شدید متاثر ہوئے، بیشتر ممالک میں حکومتوں کا تختہ الٹ دیا گیا جبکہ مشرق وسطیٰ کے دیگر مطلق العنان حکمران اپنے عوام کے بدلتے ہوئے تیور بھانپ کر حکومتی اصلاحات کرنے پر مجبور ہوگئے۔بشار الاسد کے خلاف عوامی مزاحمت اس بناء پر کامیاب نہ ہوسکی کہ انکی حمایت میں دو بڑی علاقائی طاقتیں روس اور ایران کھُل کر میدان ِ جنگ میں آگئیں، روسی فضائیہ نے باغیوں کے ٹھکانوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا، ایران کی پاسدارانِ انقلاب اورلبنان میں سرگرم حزب اللہ سے وابستہ بے شمار جنگجو بشارالاسد کو محاذِ جنگ پر کمک پہنچانے لگے، مغربی میڈیا میں ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ باغیوں کے زیرتسلط شہروں پر فاسفورس اور کیمیکل بم گرائے گئے، ایک طرف باغیوں کے تباہ کُن حملے اور دوسری طرف بشارالاسد حکومت کی سخت عسکری کارروائیوں کی بدولت ہنستا بستا شام جلد ہی کھنڈرات کا ڈھیر بنتا چلا گیا۔ شام میں جاری خانہ جنگی میں کتنے لاکھ لقمہ اجل بنے؟ اس حوالے سے کوئی مصدقہ اعداد وشمار دستیاب نہیں لیکن شام میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں معمول بن گئیں، بارہ ملین سے زائد معصوم شامی شہری اپنی زندگیاں بچانے کیلئے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے، بے شمار شامی شہری سیکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے،بارڈر بند ہونے پرسیکیورٹی فورسز اور موسمیاتی سختی کی بدولت زندگی ہار بیٹھے، سمندر کے راستے یورپ داخلے کی کوششوں میں نجانے کتنے ڈوب گئے، ترکی کے ساحل پر کم سن شامی بچے کی لاش کی تصویر آج بھی انسانیت کو خون کے آنسو رُلاتی ہے۔دنیا بھر کے امن پسند حلقے بشار الاسد سے اپنے طرزِ حکمرانی پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے معصوم شامی عوام پر رحم کرنے کی اپیلیں کرتے رہے لیکن بشارالاسد بیرونی ایماء پر ٹس سے مس نہ ہوئے۔کافی عرصے سے دنیا کو اندر کی صورتحال سے آگاہ نہیں کیا جارہا تھا لیکن بشارالاسد حکومت اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوچکی تھی، طویل خانہ جنگی نے ملکی معیشت کو تباہ کن نقصان پہنچایا جسکا تخمینہ 200 بلین ڈالر سے زائد ہے، ملک کے مختلف علاقوں پر باغیوں اور کُرد جنگجوؤں کا عملی راج تھا، الاسد کا اہم اتحادی روس یوکرائن کے ساتھ جنگ میں اُلجھا ہوا تھا، حزب اللہ اپنا سربراہ کھودینے کے بعد اس پوزیشن میں نہ تھی کہ ماضی کی طرح دمشق کی حمایت میں مزید آگے رہے، ایران اسرائیل کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے باعث کوئی نیا محاذ کھولنے سے کترا رہا تھا۔جب ماہ نومبر کے آخری ایام میں ہیئت تحریر الشام نامی باغی گروپ نے فیصلہ کُن حملے شروع کردیے تو حکومتی فورسز انکا مقابلہ کرنے سے قاصر رہیں،فقط ایک ہفتے کے اندر محمد البشیر کی قیادت میں باغیوں نے تیزی سے ادلب، حلب اور دیگر نمایاں شہروں کا کنٹرول سنبھالنا شروع کردیا اور پھر آٹھ دسمبر کو بشارالاسد کی مطلق العنان حکومت کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے دارالحکومت دمشق کو آزاد قرار دے دیا گیا۔سابق شامی حکمران کے ہیلی کاپٹر پر ملک سے فرار کی خبریں سامنے آئیں، بعد ازاں روس کی جانب سے تصدیق کردی گئی۔ تازہ اطلاعات کے مطابق ہیئت تحریر الشام کے سربراہ محمد البشیرکو شام کی عبوری حکومت کا وزیراعظم نامزد کردیا گیا ہے، کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کا اچانک زوال خطے میں ہنگامہ خیزی اور عدم استحکام کو بڑھاوا دینے کا باعث بنے گا۔ تاہم میری نظر میں کرما کے سال میں بشار الاسد کا انجام کوئی انہونی بات نہیں،کرما تھیوری رواں سال کے اختتام تک متحرک رہے گی، اس دوران ہر حکمران کے پاس دوآپشن ہیں کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا مداوا کرے ورنہ خمیازہ بھگتنے کیلئے تیار رہے۔میری نظر میں شام کی نئی قیادت کو تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کوئی بیرونی قوت اپنی پراکسی وار کا میدان جنگ سرزمین شام کو نہ بناسکے، یورپ اور دیگر ممالک میں نقل مکانی کرجانے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ شامی شہریوں کو اب اپنے ملک کی تعمیرنو کیلئے واپسی کی راہ اختیار کرنی چاہیے، شام کی نئی عبوری حکومت کو یہ امر یقینی بنانا چاہیے کہ اب جنگجوؤوں کے ہاتھوں میں ہتھیار نہیں بلکہ قلم ہونے چاہئیں اورشام کی سرزمین کسی صورت عسکریت پسندوں کی آماجگاہ نہیں بننی چاہیے۔ ایسے نازک حالات میں سب سے اہم کردار سپرپاور امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ہے جنہوں نے اپنے گزشتہ دورِ اقتدار میں بطور صدر امریکہ پہلا عالمی دورہ سعودی عرب کا کرکے مشرق وسطیٰ سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا تھا، آج دنیا بھر کے امن پسندوں کی نظریں ٹرمپ کی جانب ہیں کہ وہ وائٹ ہاؤس میں براجمان ہوتے ہی اپنی اولین ترجیح مشرق وسطیٰ میں قیام ِ امن کویقینی بنائیں گے۔