خبریں آرہی ہیں کہ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کیلئے رابطے شروع ہوگئے ہیں اور اس باب میں پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم استعمال کیا جائے گا۔ ملاقاتوں سمیت رابطے کی دوسری صورتیں بھی اختیار کی جارہی ہیں لیکن معاملات کی نوعیت ایسی ہے کہ دونوں فریقوں کے قریب آنے میں وقت لگے گا۔ متضاد اور متصادم دعوے سامنے آرہے ہیں اور مزید سامنے آنے کے امکانات نظرانداز نہیں کئے جاسکتے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعد المشرقین کی موجودہ کیفیت میں بات ایک دم آگے بڑھنے کی امید معجزے کی توقع کے مترادف ہے مگر ملکی حالات متقاضی ہیں کہ بحرانوں پر قابو پانے اور آگے بڑھنے کیلئے غیریقینی کیفیت کو ختم کیا جائے۔ اس کیلئے مذاکرات نہ صرف ضروری ہیں بلکہ فریقین میں اس کی خواہش بھی پائی جاتی ہے۔ کشیدگی کی شدید کیفیت میں اگرچہ یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کل ہی سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا جبکہ 24نومبر کا واقعہ بھی حال ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ صدیوں سے جاری رنجشیں اور کشیدگیاں بالآخر اختتام کو پہنچیں تو انکے حل کا ذریعہ مذاکرات تھے۔ وطن عزیز کو جس صورتحال کا سامنا ہے، اس میں یہ امر خوش آئند ہے کہ فریقین مذاکرات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ کسی فرد کے طریق کار پر تحفظات ظاہر کئے جائیں یا کسی فریق کے مجموعی طرزعمل پر دوسرے فریق کو اعتراض ہو۔ مسائل بہرطور مذاکرات سے طے ہونگے مگر ان میں وقت لگے گا۔ موقف کا تضاد جتنا شدید ہوتا ہے، فریقین کے قریب آنے میں اتنا ہی وقت لگتا ہے۔ اس وقت کی صورتحال کی وجوہ میں سے ایک یہ ہے کہ 9مئی 2023ء کے واقعات کے حوالے سے ایک جماعت خود کو بے قصور سمجھتی ہے جبکہ دوسری جماعت اور مقتدرہ کی نظر میں وہ جماعت واقعہ کی ذمہ دار ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ 8فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں ایک پارٹی حکومت میں ہے۔ جبکہ دوسری جماعت 8فروری کے نتائج کو مانتی ہی نہیں، فارم 45اور فارم 47کے حوالے دیتی اور مینڈیٹ چوری ہونے کا گلہ کرتی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ایک پارٹی موجودہ پارلیمنٹ کی وجہ سے حکومت میں بیٹھی ہے جبکہ دوسری پارٹی اس پارلیمنٹ ہی کو جعلی قرار دیتی ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ واقعات کے حوالے سے ایک پارٹی دوسری پارٹی کو شرپسند، جتھہ بند کہتی ہے جبکہ دوسری پارٹی کا کہنا ہے کہ آپ نے ہمارے نہتے افراد پر گولی چلائی۔ یہ تضادات جلد دور نہیں ہوسکتے۔ ان کیلئے مذاکرات میں فریقین کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایسے وقت، کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے ایرینا میں داخل محسوس ہورہی ہے اور وطن عزیز کو موجودہ صدی کے آغاز کے وقت سے ہی دہشت گردی اور کئی دیگر چیلنجوں کا سامنا ہے، یہ ضرورت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہی ہے کہ سیاسی پارٹیوں سمیت ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے زعما مل بیٹھ کر ملک کے وسیع تر مفادات کیلئے سوچیں اور ایسے میثاق پر اتفاق رائے پیدا کریں جس سے ملک کے سیاسی نظام سمیت تمام شعبوں کی اصلاح و ترقی کی راہ ہموار ہو۔ بدھ کے روز پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی گفتگو، مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل، حکومتی ارکان سے رابطے کی کوششوں سے اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی محتاط گفتگو اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کوایوان میں خوش آمدید کہنے کے عمل سے ماحولیاتی جمود ٹوٹنے کا جو امکان نظر آیا، اس میں مزید پیش رفت ہونی چاہئے۔ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات جلد نتیجہ آور نہیں ہونگے لیکن بات چیت ہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے ملک کو بحران سے نکال کر استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے گا۔